ابن عباس ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر لوگوں کو محض ان کے دعوی کی بنیاد پر دے دیا جائے تو لوگ آدمیوں کے خون اور اموال کا دعوی کرنے لگیں گے ، لیکن قسم مدعی علیہ کے ذمے ہے ۔‘‘
امام نووی ؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں فرمایا : بیہقی کی روایت میں حسن یا صحیح سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے مروی مرفوع روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں :’’ لیکن مدعی کے ذمے دلیل و گواہی پیش کرنا ہے اور جو شخص انکار کرے اس کے ذمے قسم ہے ۔‘‘ رواہ مسلم و شرح النووی و سنن الکبری للبیھقی ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی مسلمان کا مال حاصل کرنے کے لیے قصداً جھوٹی قسم اٹھائے تو وہ روزِ قیامت جب اللہ سے ملاقات کرے گا تو وہ اس شخص پر ناراض ہو گا ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی :’’ بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت وصول کرتے ہیں ........ ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے اپنی قسم کے ذریعے کسی مسلمان شخص کا حق حاصل کیا تو اللہ نے اس کے لیے جہنم کو واجب کر دیا اور اس پر جنت کو حرام قرار دے دیا ۔‘‘ (یہ بات سن کر) کسی آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! خواہ وہ معمولی سی چیز ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خواہ وہ پیلو کی شاخ ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں بھی ایک انسان ہوں ، تم اپنے مقدمات میرے پاس لاتے ہو ۔ اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی دلیل دوسرے کی نسبت زیادہ فصاحت کے ساتھ پیش کر لے اور میں جو اس سے سنوں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ، جس شخص کو اس کے (مسلمان) بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دے دی جائے تو وہ اسے حاصل نہ کرے ، (گویا اس طرح) میں اسے (جہنم کی) آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ایک آدمی حضر موت سے اور ایک آدمی کندہ سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس شخص نے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے ، کندی نے عرض کیا : یہ زمین میری ہے اور میرے قبضہ میں ہے ، اس کا اس پر کوئی حق نہیں ، نبی ﷺ نے حضرمی سے فرمایا :’’ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اس سے قسم لے لو ۔‘‘ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ تو ایک فاجر شخص ہے ، وہ قسم کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے پرہیز کرتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہیں اس سے یہی کچھ مل سکتا ہے ۔‘‘ جب وہ (کندی) قسم کھانے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر اس نے اس کا ناحق مال کھانے کے لیے قسم اٹھائی تو یہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس سے اعراض فرمائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا جو کہ اس کی نہیں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
زید بن خالد ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں تمہیں بہترین گواہ کے متعلق نہ بتاؤں ؟ یہ وہ ہے جو اس (گواہی) کے طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی پیش کر دے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے دور کے لوگ (صحابہ کرام) سب سے بہتر ہیں ، پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں (تابعین) ۔ اور پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں ، پھر کچھ ایسے لوگ آئیں گے کہ ان میں سے کسی کی گواہی اس کی قسم پر اور اس کی قسم اس کی گواہی پر سبقت لے جائے گی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک قوم پر قسم پیش کی تو انہوں نے (قسم اٹھانے میں) جلدی کی تو آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ قسم کے بارے میں ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے کہ ان میں سے کون حلف اٹھائے گا ۔ رواہ البخاری ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ام سلمہ ؓ دو آدمیوں کے بارے میں نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں ، جنہوں نے میراث کے متعلق آپ کی خدمت میں مقدمہ پیش کیا ، ان دونوں کے پاس کوئی دلیل و گواہی نہیں تھی ۔ ان دونوں کا محض دعوی ہی تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں جس شخص کو اس کے (مسلمان) بھائی کے حق میں سے کچھ دے دوں تو (حقیقت میں) میں اسے (جہنم کی) آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔‘‘ (یہ سن کر) دونوں میں ہر ایک عرض کرنے لگا ، اللہ کے رسول ! میرا یہ حق میرے ساتھی کا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (ایسے) نہیں ، تم دونوں جاؤ اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تقسیم کر لو ، پھر دونوں قرعہ اندازی کرو پھر تم دونوں میں سے ہر ایک اپنا حصہ اپنے ساتھی کے لیے حلال قرار دے ۔‘‘ دوسری روایت میں ہے فرمایا :’’ اس چیز کے بارے میں مجھ پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی اس لیے میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے ایک چوپائے پر دعوی کیا ، اور ان میں سے ہر ایک نے گواہ پیش کیا کہ اس نے اپنے چوپائے کو جفتی کرایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق اس شخص کے حق میں فیصلہ فرمایا جس کے وہ (قبضہ) میں تھا ۔ اسنادہ موضوع ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک اونٹ کے متعلق دعویٰ کیا تو ان میں سے ہر ایک نے دو گواہ پیش کیے ، نبی ﷺ نے اسے ان دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم فرما دیا ۔
نسائی اور ابن ماجہ میں انہیں سے مروی حدیث میں ہے کہ دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے متعلق دعویٰ کیا اور ان میں سے کسی کے پاس بھی گواہ نہیں تھے ، لہذا نبی ﷺ نے اسے ان دونوں کے درمیان تقسیم فرما دیا ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے کسی جانور کے بارے میں جھگڑا کیا اور ان دونوں کے پاس کوئی گواہی نہیں تھی ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ قسم پر قرعہ اندازی کرو ۔‘‘ (جس کا قرعہ نکل آئے وہ قسم دے) صحیح ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے قسم لینے کا ارادہ کیا تو فرمایا :’’ اللہ کی قسم اٹھاؤ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ تمہارے پاس اس شخص (یعنی مدعی) کی کوئی چیز نہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
اشعث بن قیس ؓ بیان کرتے ہیں ، میری اور ایک یہودی کی کچھ مشترکہ زمین تھی ، اس نے میرے حصے کا انکار کر دیا میں اپنا مقدمہ لے کر اسے نبی ﷺ کے پاس لے آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہارے پاس کوئی گواہی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، نہیں ، آپ ﷺ نے یہودی سے فرمایا :’’ قسم اٹھاؤ ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! وہ تو قسم اٹھا لے گا اور میری زمین غصب کر لے گا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلہ میں تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
اشعث بن قیس ؓ سے روایت ہے کہ کندی اور حضرمی شخص نے یمن کی زمین کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مقدمہ پیش کیا تو حضرمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس شخص کے والد نے میری زمین غصب کر لی تھی اور وہ اب اس کے قبضہ میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہارے پاس گواہ ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، نہیں ، لیکن میں اس سے قسم لوں گا (اس طرح کہ) اللہ کی قسم ! وہ نہیں جانتا کہ بے شک میری زمین کو اس کے والد نے غصب کیا ہے ، کندی قسم کے لیے تیار ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص قسم کے ذریعے مال حاصل کرتا ہے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ شخص ’’ اجذم ‘‘ ہو گا ۔‘‘ (یعنی اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا یا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی ۔) چنانچہ اس کندی نے عرض کیا : وہ زمین اس کی ہی ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عبداللہ بن اُنیس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اور جس شخص نے اللہ کی پختہ قسم اٹھائی اور اس میں مچھر کے پر کے برابر (جھوٹ) داخل کر دیا تو روزِ قیامت تک اس کے دل میں ایک نکتہ لگا دیا جاتا ہے ۔‘‘ ترمذی ۔ اور انہوں نے کہا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص میرے اس منبر کے پاس جھوٹی قسم اٹھاتا ہے خواہ وہ سبز مسواک کے متعلق ہو تو اس کا ٹھکانا جہنم میں بنا دیا جاتا ہے یا اس کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ مالک و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
خریم بن فاتک ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ادا کی ، جب آپ فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر تین مرتبہ فرمایا :’’ جھوٹی گواہی کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ پلیدی یعنی بتوں کی پوجا سے بچو اور جھوٹی بات (جھوٹی گواہی) سے بچو ، اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوئے اس کی طرف یک سو ہو جاؤ ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خیانت کرنے والے مرد کی گواہی جائز نہیں اور نہ خیانت کرنے والی عورت کی ، جس شخص پر حد قائم کی گئی ہو اس کی گواہی بھی منظور نہیں اور نہ دشمنی رکھنے والے شخص کی اپنے بھائی کے خلاف ، اور ولاء (آزادی) کے بارے میں متہم شخص کی گواہی جائز نہیں اور نہ قرابت کے بارے میں متہم شخص کی اور نہ ہی اہل بیت (یعنی خاندان) کے بارے میں ایسے شخص کی گواہی جائز ہے جس کا خرچہ اس کے خاندان کے ذمہ ہو ۔‘‘ ترمذی ۔ اور امام ترمذی ؒ نے کہا : یہ حدیث غریب ہے اور یزید بن زیاد دمشقی راوی منکر الحدیث ہے ۔ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، اور وہ نبی ﷺ سے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خیانت کرنے والے مرد کی شہادت (گواہی) جائز نہیں اور نہ خیانت کرنے والی عورت کی ، نہ زانی مرد کی گواہی جائز ہے اور نہ زانیہ عورت کی اور دشمنی رکھنے والے شخص کی اپنے بھائی کے متعلق گواہی جائز نہیں ، اور خاندان کے زیر کفالت شخص کی اس خاندان کے متعلق گواہی قبول نہیں کی جائے گی ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ گنوار کی بستی میں رہائش پذیر شخص کے خلاف گواہی جائز نہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
عوف بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ فرمایا تو آپ نے جس شخص کے خلاف فیصلہ فرمایا جب وہ واپس جانے لگا تو اس نے کہا :’’ میرے لیے اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے ۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ تعالیٰ عجز و نادانی پر ملامت فرماتا ہے ، بلکہ تمہیں احتیاط کرنی چاہیے ، جب کوشش کے باوجود کوئی خلاف توقع واقعہ غالب آ جائے تو تم کہو :’’ میرے لیے اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
بہزبن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو تہمت پر قید میں رکھا ۔ امام ترمذی اور امام نسائی نے یہ اضافہ نقل کیا ، پھر آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لائے ، نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے ۔ (خواہ) اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا یا اپنی پیدائش کی سرزمین میں بیٹھا رہا ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا ، کیا ہم اس کے متعلق لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت میں سو درجے ہیں ، جنہیں اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے ۔ دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے ، جب تم اللہ سے (جنت کا) سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو ، کیونکہ وہ افضل و اعلی جنت ہے ۔ اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور جنت کی نہریں وہیں سے جاری ہوتی ہیں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔