عقبہ بن مالک ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم اس کی قدرت نہیں رکھتے کہ جب میں کسی آدمی کو (امیر بنا کر) بھیجوں اور وہ میرے حکم کی مخالفت کرے تو تم اس کی جگہ کسی ایسے آدمی کو (امیر) بنا لو جو میرے حکم کی تعمیل کرے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک لشکر میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں روانہ ہوئے تو ایک آدمی ایک غار کے پاس سے گزرا جس میں تھوڑا سا پانی اور سبزہ تھا ، اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر اسی جگہ قیام پذیر ہو جائے ، اس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے یہودیت کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا ہے اور نہ نصرانیت کے لیے بھیجا گیا ہے بلکہ مجھے تو دین توحید جو کہ آسان دین ہے دیکر بھیجا گیا ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! اللہ کی راہ میں صبح یا شام لگانا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی کا (جہاد کی) صف میں قیام اس کی ساٹھ سال کی نماز سے بہتر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ احمد ۔
عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے (اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی) رسی حاصل کرنے کی نیت سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو اسے اپنی نیت کے مطابق اجر ملے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ النسائی ۔
ابوسعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی ۔‘‘ ابوسعید ؓ نے ان کلمات پر تعجب کرتے ہوئے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ کلمات مجھے دوبارہ سنائیں ، آپ ﷺ نے یہ کلمات انہیں دوبارہ سنائے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک اور چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ بندے کو جنت میں سو درجے بلند فرما دیتا ہے ہر دو درجوں کے درمیان اس قدر فاصلہ ہے جیسے زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ رواہ مسلم ((۱۱۶ / ۱۸۸۴) ۔
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں ۔‘‘ (یہ سن کر) ایک فقیر الحال شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : ابوموسیٰ ! کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، وہ شخص اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹا اور کہا : میرا تمہیں سلام پہنچے ، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف بڑھا ، اور وہ اس کے ساتھ قتال کرتے کرتے شہید ہو گیا ۔ رواہ مسلم (۱۴۶ / ۱۹۰۲) ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا :’’ جب غزوہ احد میں تمہارے بھائی شہید کر دیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں داخل کر دیں ، وہ جنت کی نہروں پر آتے ہیں ، جنت کے میوے کھاتے ہیں اور عرش کے سائے میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں ، چنانچہ جب وہ بہترین کھانا پینا اور آرام گاہ پاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ، ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو کون بتائے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ بھی جنت کی رغبت رکھیں اور لڑائی (جہاد) کے وقت سستی نہ کریں ، اللہ تعالیٰ نے کہا : میں تمہاری بات ان تک پہنچاؤں گا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت گمان کرو ، بلکہ وہ زندہ ہیں ۔‘‘ آخر آیت تک ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد (۲۵۲۰) و صحیحہ الحاکم (۲ / ۵۸۸ ، ۲۹۷) ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا میں مومنوں کی تین اصناف ہیں : وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انہوں نے شک نہ کیا اور انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، (دوسرا) وہ شخص جس سے لوگوں کا جان و مال محفوظ ہو ۔ تیسرا وہ شخص جب اسے طمع کا خیال آتا ہے تو وہ اسے اللہ عزوجل کی خاطر ترک کر دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد (۳ / ۸ ح۱۱۰۶۵) ۔
عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ شہید کے سوا کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کی روح اس کا رب قبض کر لے اور وہ تمہاری طرف لوٹنے کو پسند کرے اور چاہے کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ اس کے لیے ہو ۔‘‘ ابن ابی عمیرہ ؓ نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے اللہ کی راہ میں شہید ہو جانا دنیا و مافیہا کے مل جانے سے زیادہ محبوب ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ النسائی (۶ / ۳۳ ح ۳۱۵۵) ۔
حسناء بنت معاویہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میرے چچا نے ہمیں حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا ، جنتی کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نبی جنتی ہے ، شہید جنتی ہے ، چھوٹے بچے جنتی ہیں ، اور زندہ درگور کیے گئے جنتی ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد (۲۵۲۱) ، سنن ابی دادؤد (۴۷۱۷) ۔
علی ، ابودرداء ، ابوہریرہ ، ابوامامہ ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عمرو ، جابر بن عبداللہ اور عمران بن حصین ؓ سب رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے اللہ کی راہ میں خرچہ بھیجا اور وہ خود اپنے گھر میں رہا تو اس کے لیے ہر درہم کے بدلے میں سات سو درہم کا اجر ہے ، اور جس نے بذات خود جہاد میں شرکت کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کیا تو اس کے لیے ہر درہم کے بدلے میں سات لاکھ درہم کا اجر ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
فضالہ بن عبید ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عمر بن خطاب ؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ شہداء کی چار قسمیں ہیں : ایک وہ مومن جو کامل ایمان والا جس نے دشمن سے ملاقات کی تو اس نے اللہ کو (اپنا عمل) سچ کر دکھایا حتی کہ وہ شہید کر دیا گیا ، چنانچہ یہی وہ شخص ہے جس کی طرف لوگ روزِ قیامت اس طرح اپنی آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے ۔‘‘ اور انہوں نے اپنا سر اٹھایا حتی کہ ان کی ٹوپی گر پڑی ، راوی بیان کرتے ہیں ، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے عمر ؓ کی ٹوپی مراد لی یا نبی ﷺ کی ٹوپی ، فرمایا :’’ (دوسرا) مومن آدمی کامل ایمان والا وہ ہے ، جو دشمن سے ملاقات کرتا ہے لیکن بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد میں طلح (کانٹے دار بڑا درخت جس کے پھول خوشبو دار ہوتے ہیں) کے کانٹے چھبوئے جا رہے ہیں ، پھر ایک نامعلوم تیر آتا ہے تو وہ اسے قتل کر دیتا ہے ، یہ شخص دوسرے درجے کا ہے ۔ (تیسرا) وہ مومن آدمی جس کی نیکیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ، وہ جب دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو اللہ کو (اپنا عمل) سچ کر دکھاتا ہے ، حتی کہ وہ شہید ہو جاتا ہے ، یہ تیسرے درجے میں ہے ، اور (چوتھا) وہ مومن آدمی جس نے (گناہ کر کے) اپنے نفس پر زیادتی کی ، وہ دشمن سے ملتا ہے تو اللہ کو (اپنا عمل) سچ کر دکھاتا ہے حتی کہ وہ قتل کر دیا جاتا ہے ، یہ شخص چوتھے درجے میں ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عتبہ بن عبدالسلمی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ شہداء تین قسم کے ہیں : وہ مومن جس نے اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، جب وہ دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو قتال کرتا ہے حتی کہ وہ شہید کر دیا جاتا ہے ۔‘‘ نبی ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا :’’ یہ وہ شہید ہے جسے آزمایا گیا ہے ، یہ اللہ کے عرش (کے سائے تلے) اللہ کے خیمے میں ہو گا اور انبیا ؑ کو اس پر فقط نبوت کے درجے کی وجہ سے فضیلت حاصل ہو گی ، (دوسرا) وہ مومن جس کے نیک اعمال ہوں گے اور برائیاں بھی ہوں گی ، اس نے اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، جب وہ دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو قتال کرتا ہے حتی کہ وہ شہید کر دیا جاتا ہے ۔‘‘ نبی ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا :’’ منصب شہادت نے اسے گناہوں سے پاک کر دیا ، اس کے گناہوں اور اس کی خطاؤں کو ختم کر دیا ، کیونکہ تلوار خطاؤں کو نبود کرنے والی ہے ، اور اسے اس کی پسند کے باب جنت سے داخل کر دیا گیا ، اور (تیسرا) منافق جس نے اپنے مال و جان سے جہاد کیا ، یہ شخص آگ میں ہے ، کیونکہ تلوار نفاق نہیں مٹاتی ۔‘‘ حسن ، رواہ الدارمی ۔
ابن عائذ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کسی آدمی کے جنازے کے ساتھ تشریف لائے ، جب اسے رکھا گیا تو عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی نمازِ جنازہ مت پڑھائیں کیونکہ یہ فاجر شخص ہے ، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف توجہ فرما کر پوچھا :’’ کیا تم میں سے کسی نے اسے اسلام کا کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کے رسول ! اس نے ایک رات اللہ کی راہ میں پہرہ دیا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس (کی قبر) پر مٹی ڈالی ۔ اور فرمایا :’’ تیرے ساتھیوں کا گمان ہے کہ تو جہنمی ہے ، جبکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے ۔‘‘ اور فرمایا : عمر ! تجھ سے لوگوں کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ، لیکن تجھ سے عقیدہ کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔