عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا :’’ اور جہاں تک ممکن ہو (ان کے مقابلے کے لیے) قوت تیار رکھو ۔‘‘ سن لو ! بے شک قوت سے مقصود تیر اندازی ہے ، خبردار ! قوت سے مقصود تیر اندازی ہے ، سن لو ! قوت سے مراد تیر اندازی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ تم عنقریب روم فتح کر لو گے ، اور اللہ تمہارے لیے (ان کے شر کے مقابلے میں) کافی ہو گا ، تم میں سے کوئی اپنے تیر کے ساتھ مشغول رہنے میں سستی نہ کرے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اسے ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں یا (فرمایا) اس نے نافرمانی کی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ اسلم قبیلہ کے لوگوں کے پاس تشریف لائے ، وہ بازار میں تیر اندازی کر رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بنو اسماعیل ! تیر اندازی کرو ، کیونکہ تمہارے باپ تیر انداز تھے ، اور میں فلاں قبیلے کے ساتھ ہوں ۔‘‘ انہوں نے اپنے ہاتھ روک لیے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہیں کیا ہوا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہم کیسے تیر اندازی کریں جبکہ آپ فلاں قبیلے کے ساتھ ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تیر اندازی کرو ، اور میں آپ سب کے ساتھ ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوطلحہ ؓ ، نبی ﷺ کے ساتھ ایک ہی ڈھال سے بچاؤ کر رہے تھے ، اور ابوطلحہ ؓ بہترین تیر انداز تھے ، جب وہ تیر پھینکتے تھے تو نبی ﷺ (ابوطلحہ ؓ کے تیر پر) نظر رکھتے اور آپ ﷺ ان کے تیر گرنے کی جگہ دیکھتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی انگلی سے گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو بل دیتے دیکھا اور آپ ﷺ اس وقت فرما رہے تھے :’’ گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ روزِ قیامت تک خیر و برکت باندھ دی گئی ہے ، اور (اس خیر سے مراد) ثواب اور مال غنیمت ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اور اس کے وعدے کو سچا جانتے ہوئے اللہ کی راہ میں گھوڑا باندھا تو اس کی شکم سیری و سیرابی ، اس کی لید اور اس کا پیشاب ، روزِ قیامت اس کی میزان (نیکیوں کے پلڑے) میں ہوں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ گھوڑے میں ’’الشکال‘‘ ناپسند کیا کرتے تھے ، ’’الشکال‘‘ یہ ہے کہ گھوڑے کے دائیں پاؤں اور بائیں ہاتھ میں سفیدی ہو ، یا اس کے دائیں ہاتھ اور اس کے بائیں پاؤں میں سفیدی ہو ۔ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تربیت یافتہ گھوڑوں کے درمیان حفیاء سے ثنیۃ الوداع کے مابین گھڑ دوڑ کرائی اور ان دونوں کے درمیان چھ میل ہے ، اور غیر تربیت یافتہ گھوڑوں کے درمیان ثنیہ سے بنو زریق کی کی مسجد تک گھڑ دوڑ کرائی اور ان دونوں کے درمیان ایک میل کی مسافت ہے ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی عضباء نامی اونٹنی تھی اور وہ سب سے آگے رہتی تھی ، ایک اعرابی اپنے اونٹ پر آیا تو وہ اس سے آگے نکل گیا جو مسلمانوں پر ناگوار گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک یہ اللہ کا دستور ہے کہ جو چیز دنیا میں عروج پر پہنچ جاتی ہے تو وہ اسے پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت عطا فرمائے گا ، تیر بنانے والا جو اپنے بنانے میں ثواب کی امید رکھتا ہو ، اسے پھینکنے والا اور اسے (تیر انداز کو) پکڑانے والا ، تیر اندازی کرو اور گھڑ سواری کرو ۔ اور تمہارا تیر اندازی کرنا ، تمہاری گھڑ سواری سے مجھے زیادہ محبوب ہے ۔ ہر وہ چیز جس سے انسان کھیلتا ہے اور اس کے ساتھ مشغول ہوتا ہے وہ باطل ہے ، البتہ اس کا کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا ، اپنے گھوڑے کی تربیت کرنا اور اس کا اپنی اہلیہ کے ساتھ مشغول ہونا حق ہے ۔‘‘
امام ابوداؤد اور امام دارمی نے یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ جس شخص نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد ، اس سے عدم رغبت کی بنا پر اسے ترک کر دیا تو وہ ایک نعمت تھی جسے اس نے ترک کر دیا ۔‘‘ یا فرمایا :’’ اس کی ناشکری کی ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ابوداؤد و الدارمی ۔
ابونجیح سلمی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس شخص نے اللہ کی راہ میں (کسی کافر کو نشانے پر) تیر لگایا تو اسے جنت میں ایک درجہ حاصل ہو گیا ، جس نے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کی تو وہ اس کے لیے غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ، اور جو شخص اسلام میں بوڑھا ہوا تو روزِ قیامت اس کے لیے نور ہو گا ۔‘‘
امام ابوداؤد نے پہلا فقرہ ، امام نسائی نے پہلا اور دوسرا جبکہ امام ترمذی نے دوسرا اور تیسرا فقرہ روایت کیا ہے ، اور ان دونوں (بیہقی اور ترمذی) کی روایت میں ہے :’’ جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہوا ۔‘‘ یعنی ’’اسلام‘‘ کے بجائے ’’اللہ کی راہ ’’کے الفاظ نقل کیے ہیں ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان و ابوداؤد و النسائی و الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے (گھڑ دوڑ کے مقابلے کے) دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کر دیا ، اگر اسے اس کے سبقت لے جانے کا علم ہو تو پھر اس میں کوئی خیر نہیں ، اور اگر اس کے سبقت لے جانے کا علم نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘
ابوداؤد کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ جس شخص نے دو گھوڑں کے درمیان ایک گھوڑا داخل کر دیا یعنی اسے یقین نہیں کہ وہ آگے نکل جائے گا تو پھر یہ جوا نہیں ، اور جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین گھوڑا داخل کر دیا اور اسے یقین ہے کہ وہ سبقت لے جائے گا تو یہ جوا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’نہ جلب‘‘ ہے اور نہ ’’جنب‘‘ راوی یحیی نے اپنی روایت میں ’’گھڑ دوڑ‘‘ کا اضافہ کیا ہے ۔ جلب (مقابلہ میں شریک شخص اپنے کسی ساتھی کو کہے کہ راستہ میں میرے گھوڑے کو آواز لگا دینا جس سے یہ اور تیز دوڑے گا ۔) جنب (پہلو میں دوڑنے والا وہ گھوڑا جس پر دوڑنے والا اپنے گھوڑے کے تھکنے کی صورت میں منتقل ہو جائے ۔) ابوداؤد ، نسائی ، اور امام ترمذی نے اسے کچھ زائد الفاظ کے ساتھ باب الغصب میں روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی و الترمذی ۔
ابوقتادہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بہتر گھوڑا وہ ہے جو انتہائی سیاہ ہو اور اس کی پیشانی پر تھوڑی سی سفیدی ہو ، اس کا اوپر والا ہونٹ یا ناک سفید ہو ، پھر وہ جس کی تین ٹانگیں سفید ہوں اور آگے والی دائیں ٹانگ گھوڑے کی رنگ کی ہو ، اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو پھر وہ جس میں قدرے سرخی اور قدرے سیاہی ہو اور اس کے کان سیاہ ہوں وہ بھی اس کی مثل ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
ابووہب جُشمی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ہر ایسے گھوڑے کو لازم پکڑو جو سرخ سیاہی مائل اور سیاہ کانوں والا ہو اس کی پیشانی اور پاؤں سفید ہوں ، یا وہ گھوڑا جو سرخ ہو ، اس کی پیشانی اور پاؤں سفید ہوں یا سیاہ رنگ کا گھوڑا جس کی پیشانی اور پاؤں سفید ہوں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
عتبہ بن عبد سلمی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ گھوڑے کی پیشانی ، گردن اور دم کے بال مت کاٹو ، کیونکہ اس کی دم اس کے لیے باعث پنکھا ہے (جس سے وہ اپنے اوپر بیٹھنے والی چیز کو اڑاتی ہے ۔) اس کی گردن کے بال اسے گرم رکھتے ہیں ، جبکہ اس کی پیشانیوں کے ساتھ خیر و بھلائی بندھی ہوئی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابووہب جشمی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ گھوڑے باندھو (انہیں رکھو اور پالو) اور ان کی پیشانیوں اور پشتوں پر ہاتھ پھیرو اور ان کی گردنوں میں پٹے ڈالو ۔ لیکن تانت نہ ڈالو ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ اللہ کے بندے تھے آپ کو احکامات نافذ کرنے پر مامور کیا گیا تھا ، آپ نے تین چیزوں کے علاوہ دیگر لوگوں سے الگ کوئی خصوصیت ہمیں عنایت نہیں فرمائی ، آپ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اچھی طرح مکمل وضو کریں ، ہم صدقہ نہ کھائیں اور ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر جفتی کے لیے نہ چڑھائیں ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کو ایک خچر بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس پر سواری فرمائی ، علی ؓ نے عرض کیا : اگر ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر چڑھائیں تو ہمارے ہاں بھی اسی کے مثل (خچر) ہوں گے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو جانتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ہود بن عبداللہ بن سعد اپنے دادا مزیدہ سے روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے روز (مکہ میں) داخل ہوئے تو آپ ﷺ کی تلوار پر سونا اور چاندی تھی ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
موسیٰ بن عبیدہ ، محمد بن قاسم کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : محمد بن قاسم نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پرچم کے متعلق پوچھنے کے لیے براء بن عازب ؓ کے پاس بھیجا تو انہوں نے فرمایا :’’ وہ سیاہی دھاری دار تھا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔