عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر لوگوں کو تنہا سفر کرنے کی ان خرابیوں کا علم ہو جائے جو مجھے معلوم ہیں تو کوئی سوار تنہا ایک رات کا بھی سفر نہ کرے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابو بشیر انصاری ؓ سے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد بھیجا کہ ’’کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا پٹہ یا کوئی پٹہ نہ رہنے دیا جائے ، وہ سب کاٹ دیے جائیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم سرسبز و شاداب علاقے میں چلو تو اونٹ کو زمین سے اس کا حق دو ، (انہیں چرنے دو) ، اور جب تم قحط سالی میں چلو تو پھر تیزی سے چلو ، جب تم رات کے وقت پڑاؤ ڈالو تو راستے سے اجتناب کرو کیونکہ رات کے وقت وہ چوپاؤں کی راہیں اور زہریلی چیزوں کا ٹھکانا ہیں ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جب تم قحط سالی میں سفر کرو تو پھر جب تک ان (اونٹوں) کا گودا باقی ہے جلدی سے سفر کرو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے اس دوران اچانک ایک آدمی سواری پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ دائیں بائیں دیکھنے لگا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کے پاس زائد سواری ہو وہ اس شخص کو عنایت کر دے جس کے پاس کوئی سواری نہیں ، جس شخص کے پاس زاد سفر زیادہ ہو تو وہ اس شخص کو عنایت کر دے جس کے پاس زاد راہ نہیں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے مال کی بہت اصناف کا ذکر فرمایا ، حتی کہ ہم نے سمجھا کہ ہم میں سے کسی شخص کو زائد چیز پر کوئی حق نہیں ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سفر عذاب کی ایک قسم ہے ، وہ آپ میں سے ہر ایک کو اس کی نیند اور اس کے کھانے پینے سے باز رکھتا ہے ، لہذا جب وہ سفر کا مقصد حاصل کر لے تو اسے اپنے اہل خانہ کے پاس جلد آ جانا چاہیے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن جعفر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ سفر سے تشریف لاتے تو آپ ﷺ کے اہل خانہ کے بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کا استقبال کیا جاتا ، اسی طرح آپ ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو مجھے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ، آپ نے مجھے اپنے آگے سوار کر لیا ، پھر فاطمہ کے کسی لخت جگر (حسن یا حسین ؓ) کو لایا گیا تو آپ نے اسے اپنے پیچھے سوار کر لیا ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم مدینہ میں ایک سواری پر تین سوار ہو کر داخل کیے گئے ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ (جب سفر سے واپس آتے تو) وہ رات کے وقت اپنے اہل خانہ کے ہاں تشریف نہیں لاتے تھے بلکہ آپ ﷺ دن کے پہلے پہر یا پچھلے پہر تشریف لایا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی طویل مدت تک (گھر سے) غائب رہے تو وہ رات کے وقت اپنے اہل خانہ کے پاس نہ آئے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم رات کے وقت (شہر میں) داخل ہو تو اپنی اہلیہ کے پاس نہ جاؤ حتی کہ جس کا خاوند غائب رہا ہے وہ غیر ضروری بالوں کی صفائی کر لے اور پراگندہ بالوں والی کنگھی کر لے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو دن کو چاشت کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے ، جب آپ داخل ہوتے تو پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور وہاں دو رکعتیں پڑھتے ، پھر لوگوں کی خاطر وہاں تشریف رکھتے ۔ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا ، جب ہم مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ مسجد میں جا کر دو رکعتیں پڑھو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
صخر بن وداعہ غامدی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! میری امت کے لیے اس کے دن کے پہلے حصے میں برکت فرما ۔‘‘ اور جب آپ ﷺ کوئی مجاہدین کا دستہ یا لشکر روانہ فرماتے تو آپ انہیں دن کے آغاز میں روانہ فرماتے تھے ، صخر ایک تاجر تھے ، وہ اپنا مالِ تجارت شروع دن میں بھیجا کرتے تھے ، وہ صاحب ثروت بن گئے اور ان کا مال بہت زیادہ ہو گیا ۔ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تنہا سفر کرنے والا ایک شیطان ہے ، دو مسافر دو شیطان ہیں اور تین سفر کرنے والے ایک قافلہ ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ مالک و الترمذی و ابوداؤد و النسائی ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تین افراد سفر کر رہے ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عباس ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بہترین ساتھی چار ہیں ، بہترین دستہ چار سو کا ہے ، بہترین لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کا لشکر قلت کی کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو گا ۔‘‘ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ لشکر کے پیچھے چلا کرتے تھے ، آپ ضعیف کو چلاتے اور (پیدل کو) اپنے پیچھے بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا فرماتے ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابو ثعلبہ خشنی ؓ بیان کرتے ہیں ، جب صحابہ کرام کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو وہ گھاٹیوں اور وادیوں میں منتشر ہو جاتے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارا اِن گھاٹیوں اور وادیوں میں منتشر ہونا یہ شیطان کی طرف سے ہے ۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے جہاں بھی پراؤ ڈالا تو وہ باہم اس طرح مل جاتے کہ اگر اِن پر ایک کپڑا ڈال دیا جائے تو وہ ان سب پر آ جائے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوہ بدر کے دن ہم تین تین آدمی ایک اونٹ پر سوار تھے ، ابولبابہ اور علی بن ابی طالب ؓ ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھی تھے ، راوی بیان کرتے ہیں ، جب (پیدل چلنے کی) رسول اللہ ﷺ کی باری آتی تو وہ عرض کرتے ، آپ کی طرف سے ہم پیدل چلتے ہیں ، آپ ﷺ فرماتے :’’ تم دونوں مجھ سے زیادہ قوی ہو نہ میں اجر حاصل کرنے میں تم دونوں سے زیادہ بے نیاز ہوں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے جانوروں کی پشتوں کو منبر نہ بناؤ (کہ ان پر سوار ہو کر اور انہیں روک کر باتیں کرتے رہو) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو انہیں تمہارے لیے اس لیے مسخر کیا ہے کہ وہ تمہیں ایسی جگہ پہنچا دیں جہاں تم مشقت اٹھائے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے ، اور تمہارے لیے زمین بنائی تم اس پر اپنی ضرورتیں پوری کرو ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے ، تو ہم پہلے جانوروں (یعنی سواریوں) سے بوجھ اتارتے اور پھر نفل نماز پڑھتے تھے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
بُریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ چل رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس کے پاس ایک گدھا تھا ، اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ اس پر سوار ہو جائیں ، اور وہ خود پیچھے ہو گیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں (پیچھے نہ ہٹو) ، تم اپنی سواری کی اگلی جانب بیٹھنے کے زیادہ حق دار ہو ، مگر یہ کہ تم اس (اگلی جانب) کو میرے لیے مختص کر دو ۔‘‘ اس نے عرض کیا ، میں نے آپ کو اجازت دی ، پھر آپ سوار ہوئے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
سعید بن ابی ہند ، ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کچھ اونٹ اور کچھ گھر شیطانوں کے لیے ہوتے ہیں شیطانوں کے اونٹ تو میں نے دیکھ لیے ہیں تم میں سے کوئی ایک اپنے بہترین اونٹوں کے ساتھ نکلتا ہے جنہیں اس نے خوب فربہ کیا ہوتا ہے ، لیکن وہ ان میں سے کسی اونٹ پر نہیں بیٹھتا ، اور وہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے پاس سے گزرتا ہے جو کہ تھک چکا ہوتا ہے لیکن یہ اسے سوار نہیں کرتا ، لیکن شیطانوں کے گھر میں نے نہیں دیکھے ۔‘‘ سعید کہا کرتے تھے ، میں سمجھتا ہوں کہ ان سے یہ ہودج مراد ہیں جنہیں لوگ دیباج ریشم سے ڈھانپتے ہیں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ جہاد کیا تو لوگوں نے (زائد از ضرورت جگہیں گھیر کر) منزلوں کو تنگ کر دیا ، اور راستے بند کر دیے ، نبی ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے منزل تنگ کی یا راستہ بند کیا تو اس کا کوئی جہاد نہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
جابر ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب آدمی سفر سے واپس آئے تو اس کا اپنے اہل خانہ کے پاس آنے کا بہترین وقت رات کا ابتدائی حصہ ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔