ابوہریرہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہم میں سے پہلے کسی کے لیے بھی مالِ غنیمت حلال نہیں تھا ، یہ اس لیے (حلال کیا گیا) کہ اللہ نے ہماری کمزوری اور عاجزی دیکھی تو اسے ہمارے لیے حلال فرما دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوہ حنین کے سال ہم نبی ﷺ کے ساتھ نکلے ، جب ہم (مشرکین سے) ملے تو مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا ہوا ، میں نے ایک مشرک شخص کو دیکھا جو ایک مسلمان شخص پر غالب آ چکا تھا ، میں نے اس کے پیچھے سے اس کی رگ گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ دی ، وہ میری طرف متوجہ ہوا تو اس نے مجھے اس قدر دبایا کہ مجھے اس کے (دبانے) سے اپنی موت نظر آنے لگی ، لیکن موت اس پر آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ، میں عمر بن خطاب ؓ سے ملا تو میں نے کہا : لوگوں کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کا حکم (ہی ایسے تھا) ، پھر وہ (مسلمان) لوٹے اور نبی ﷺ بیٹھ گئے تو فرمایا :’’ جس نے کسی مقتول کو قتل کیا اور اس پر اس کے پاس دلیل ہو تو اس (مقتول) کا سازو سامان اس (قاتل) کے لیے ہے ۔‘‘ میں نے کہا : میرے حق میں کون گواہی دے گا ؟ پھر میں بیٹھ گیا ، نبی ﷺ نے پھر وہی بات فرمائی ، میں نے کہا : میرے حق میں کون گواہی دے گا ؟ پھر میں بیٹھ گیا ، پھر نبی ﷺ نے وہی بات فرمائی تو میں کھڑا ہوا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوقتادہ ! تمہارا کیا مسئلہ ہے ؟‘‘ میں نے آپ کو بتایا تو ایک شخص نے کہا ’’ اس نے سچ کہا ، اور اس کا سازو سامان میرے پاس ہے اسے میری طرف سے راضی کر دیں ۔ (اور مال میرے پاس ہی رہنے دیں) ابوبکر ؓ نے فرمایا : ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اللہ کا شیر جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے قتال کرتا ہے ، اور آپ ﷺ اس کا سازو سامان تجھے دیں گے ، تب نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ابوبکر ؓ نے سچ کہا ، پس اسے دو ۔‘‘ چنانچہ اس نے اسے مجھے دے دیا ، میں نے اس سے بنو سلمہ میں ایک باغ خریدا ، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے حالتِ اسلام میں جمع کیا تھا ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجاہد آدمی اور اس کے گھوڑے کے لیے تین حصے مقرر فرمائے ، ایک حصہ اس شخص کے لیے اور دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے ۔ متفق علیہ ۔
یزید بن ہرمز ؓ بیان کرتے ہیں ، نجدہ حروری نے ابن عباس ؓ کی طرف خط لکھا جس میں اس نے مسئلہ دریافت کیا کہ اگر مال غنیمت کی تقسیم کے وقت غلام اور عورت موجود ہوں تو کیا ان کا حصہ نکالا جائے گا ؟ انہوں نے یزید ؓ سے فرمایا : اسے جواب لکھو ان دونوں کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں البتہ تھوڑا سا دے دیا جائے ۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے : ابن عباس ؓ نے اسے جواب لکھا : تم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عورتیں جہاد کیا کرتیں تھیں ، اور کیا ان کا حصہ مقرر کیا جاتا تھا ؟ ہاں آپ ﷺ کے ساتھ عورتیں جہاد میں شریک ہوتیں تھیں ، وہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتی تھیں ، انہیں مال غنیمت میں سے دیا جاتا تھا ، رہا حصہ تو آپ ﷺ نے ان کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں فرمایا ۔ رواہ مسلم ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے رباح ، جو کہ رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے ، کے ساتھ اپنے اونٹ بھیجے ، اور میں بھی اس کے ساتھ تھا ، جب ہم نے صبح کی تو عبدالرحمن فرازی نے اچانک رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا ، میں ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف رخ کر کے تین بار آواز دی ، لڑائی کا وقت آ گیا ، پھر میں نے ان لوگوں کا پیچھا کیا ، میں ان پر تیر برسا رہا تھا اور رجزیہ شعر پڑھ رہا تھا : میں ابن اکوع ہوں ، اور آج رذیل لوگوں کی ہلاکت کا دن ہے ۔ چنانچہ میں ان پر تیر برساتا رہا اور ان کی سواریوں کو زخمی کرتا رہا ، حتی کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام اونٹ میں نے ان کے قبضہ سے آزاد کروا لیے ، اور میں پھر بھی ان کا پیچھا کر کے ان پر تیر اندازی کرتا رہا حتی کہ انہوں نے وزن ہلکا کرنے کے لیے تیس چادریں اور تیس نیزے پھینک دیے ، وہ جو بھی چیز پھینکتے میں اس پر پتھر کی نشانی لگاتا جاتا تاکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ اسے پہچان سکیں ، حتی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے شہ سواروں کو دیکھا اور رسول اللہ ﷺ کے شہ سوار ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمن فرازی کو جا لیا اور اسے قتل کر دیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آج ہمارا بہترین شہ سوار ابوقتادہ ؓ ہیں ، اور ہمارا بہترین پیادہ سلمہ ہیں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو حصے دیے ، ایک حصہ گھڑ سوار کا اور ایک حصہ پیادہ کا ، آپ نے وہ دونوں میرے لیے جمع فرما دیے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ واپس آتے ہوئے مجھے (اپنی اونٹنی) عضباء پر اپنے پیچھے سوار کر لیا ۔ رواہ مسلم ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن دستوں کو روانہ فرماتے تو ان میں سے بعض مجاہدین کو ان کے حصہ کے علاوہ خصوصی حصہ عنایت فرمایا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہمارے حصے کے علاوہ خمس میں سے بھی کچھ عطا فرمایا ، سو مجھے خمس سے ایک ’’شارف‘‘ ملی ۔ شارف بوڑھی اونٹنی کو کہتے ہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ان کا گھوڑا بھاگ گیا تو دشمن نے اسے پکڑ لیا ، مسلمان ان پر غالب آ گئے تو وہی گھوڑا رسول اللہ ﷺ کے دور میں مجھے لوٹا دیا گیا ۔
اور ایک روایت میں ہے ، ان کا ایک غلام فرار ہو کر رومیوں سے جا ملا ، جب مسلمان ان پر غالب آ گئے تو نبی ﷺ کے بعد خالد بن ولید ؓ نے وہ مجھے لوٹا دیا ۔ رواہ البخاری ۔
جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اور عثمان بن عفان ؓ ، نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو مطلب کو عطا کیا ہے اور ہمیں چھوڑ دیا ہے ، جبکہ ہمارا اور ان کا آپ سے ایک رشتہ ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی چیز ہیں ۔‘‘ جبیر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کے درمیان کچھ بھی تقسیم نہ فرمایا ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم جس بستی میں (بلا قتال) داخل ہو جاؤ اور وہاں اقامت اختیار کرو تو اس میں تمہارا حصہ ہے ، اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اس (سے حاصل ہونے والے مال) کا خمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے ، پھر وہ (باقی) تمہارے لیے ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
خولہ انصاریہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں ، ، روزِ قیامت ان کے لیے (جہنم کی) آگ ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھڑے ہو کر خطاب فرمایا اس میں آپ نے خیانت کا ذکر کیا اور آپ نے اس معاملے کو سنگین قرار دیا ، پھر فرمایا :’’ میں تم سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو ، اور وہ شخص مجھے کہے : اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں ، اور میں اس سے کہوں کہ : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو اور وہ آدمی کہے : اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں ، تو میں کہوں : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری ممیا رہی ہو ، وہ شخص کہے ، اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں ، تو میں کہوں : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے روز آئے اور اس کی گردن پر کوئی نفس (یعنی مملوک) ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے : اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں ، اور میں کہوں : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر چادر حرکت کر رہی ہو تو وہ شخص کہے : اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں ، تو میں کہوں گا : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ۔ میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا ، میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر کوئی غیر ناطق چیز (سونا ، چاندی وغیرہ) ہو تو وہ شخص کہے : اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں ، تو میں کہوں گا : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو مدعم نامی ایک غلام بطور ہدیہ پیش کیا ، مدعم ، رسول اللہ ﷺ کی سواری کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اسے ایک نامعلوم جانب سے ایک تیر آ لگا جس سے وہ قتل ہو گیا ، لوگوں نے کہا : اسے جنت مبارک ہو ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس نے غزوہ خیبر کے مالِ غنیمت میں سے ، اس کی تقسیم سے پہلے ، جو چادر چوری کی تھی وہ اس پر آگ بھڑکا رہی ہے ۔‘‘ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے نبی ﷺ کی خدمت میں لے آیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ایک تسمہ یا دو تسمے آگ (میں جانے کے سبب) سے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ کرکرہ نامی شخص ، نبی ﷺ کے سامان پر مامور تھا ، وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ جہنمی ہے ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ اس کا سامان دیکھنے لگے تو انہوں نے ایک چادر پائی جو اُس نے چوری کی تھی ۔ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن مغفل ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ خیبر میں مجھے چربی کی ایک تھیلی ملی تو میں نے اسے اٹھا لیا ، اور کہا : میں آج اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا ، میں نے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ میری طرف (دیکھ کر) مسکرا رہے تھے ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث :’’ میں جو تمہیں عطا کروں ۔‘‘ باب رزق الولاۃ میں ذکر کی گئی ہے ۔
ابوامامہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ نے مجھے تمام انبیا ؑ پر فضیلت عطا کی ہے ۔‘‘ یا فرمایا :’’ میری امت کو تمام امتوں پر فضیلت عطا کی گئی ہے اور ہمارے لیے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا :’’ جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس کا سازو سامان اسی کا ہے ۔ ابوطلحہ ؓ نے اس روز بیس آدمی قتل کیے اور انہوں نے ان کا سازو سامان لے لیا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الدارمی ۔
عوف بن مالک اشجعی اور خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ میں قتل ہو جانے والے شخص کے سازو سامان کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ وہ اس کے قاتل کا ہے ، اور آپ نے مقتول کے سازو سامان سے خمس نہیں نکالا ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ بدر کے موقع پر ابوجہل کی تلوار مجھے اضافی طور پر عطا فرمائی اور انہوں (ابن مسعود ؓ) نے اسے قتل کیا تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابولحم کے آزاد کردہ غلام عمیر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اپنے مالکوں کے ساتھ غزوۂ خیبر میں شریک تھا ، انہوں نے میرے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے بات کی اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ میں ایک غلام ہوں ، آپ نے میرے متعلق حکم فرمایا تو مجھے تلوار حمائل کی گئی ، اور میں اسے گھسیٹ رہا تھا ، آپ ﷺ نے گھریلو سامان میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم فرمایا ۔ میں نے آپ کو ایک دم سنایا جو کہ میں دیوانوں پر کیا کرتا تھا ، آپ نے اس میں سے کچھ الفاظ ترک کر دینے اور کچھ رکھ لینے کا حکم دیا ۔ ترمذی ، ابوداؤد ، البتہ ابوداؤد کی روایت لفظ متاع پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
مجمع بن جاریہ ؓ بیان کرتے ہیں ، خیبر کا مالِ غنیمت اہل حدیبیہ پر تقسیم کیا گیا ، رسول اللہ ﷺ نے اسے اٹھارہ حصوں میں تقسیم فرمایا : لشکر کی تعداد پندرہ سو تھی ، اس میں سے تین سو گھڑ سوار تھے ، آپ نے گھڑ سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا فرمایا ۔
اور امام ابوداؤد نے فرمایا کہ ابن عمر ؓ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اور عمل اسی پر ہے ۔ مجمع سے مروی حدیث میں وہم ہے کہ انہوں نے کہا : تین سو گھڑ سوار تھے ، جبکہ وہ صرف دو سو تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
حبیب بن مسلمہ فہری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کے پاس حاضر تھا کہ آپ نے شروع شروع میں لڑنے والوں کو مالِ غنیمت میں سے چوتھائی حصہ زائد عطا فرمایا ، اور واپسی پر لڑائی کرنے والوں کو تہائی حصہ زائد عطا فرمایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
حبیب بن مسلمہ فہری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جہاد سے واپس تشریف لانے سے پہلے مالِ غنیمت خمس نکالنے کے بعد چوتھائی اور واپس لوٹتے ہوئے خمس نکالنے کے بعد تہائی حصہ اضافی طور پر عطا فرمایا کرتے تھے ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابو جویریہ جرمی ؓ بیان کرتے ہیں ، معاویہ کے دورِ امارت میں روم کی سر زمین پر مجھے ایک سرخ گھڑا ملا جس میں دینار تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ، معن بن یزید نامی ، صحابی ہمارے امیر تھے جو کہ بنو سلیم قبیلے سے تھے ، میں نے وہ گھڑا ان کی خدمت میں پیش کر دیا ، انہوں نے اسے مسلمانوں کے مابین تقسیم کر دیا اور مجھے بھی سب کے برابر ہی حصہ دیا ، پھر فرمایا : اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ نہ سنا ہوتا کہ خمس نکالنے کے بعد اضافی حصہ دیا جائے گا تو میں تمہیں ضرور دیتا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم (حبشہ سے) واپس آئے تو ہماری رسول اللہ ﷺ سے اس وقت ملاقات ہوئی جب خیبر فتح ہو چکا تھا ، آپ نے ہمارا حصہ بھی مقرر فرمایا : یا یوں کہا : آپ نے ہمیں عطا فرمایا ، آپ ﷺ نے خیبر میں حاصل ہونے والے مال غنیمت میں سے یا تو ان لوگوں کو حصہ دیا جو اس غزوہ میں شریک تھے یا پھر ہمارے کشتی کے ساتھیوں یعنی جعفر اور ان کے رفقا کو دیا ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
یزید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا ایک ساتھی فوت ہو گیا ، صحابہ نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو ۔‘‘ یہ سن کر صحابہ کے چہروں کا رنگ متغیر ہو گیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے ساتھی نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے ۔‘‘ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہم نے اس میں یہود کا ایک نگینہ پایا جس کی قیمت دو درہم کے برابر بھی نہیں تھی ۔ اسنادہ حسن ، رواہ مالک و ابوداؤد و النسائی ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ کو مالِ غنیمت ملتا تو آپ بلال ؓ کو حکم فرماتے تو وہ عام اعلان کرتے جس پر صحابہ کرام وہ مال غنیمت لے کر حاضر ہوتے جو ان کے پاس ہوتا ، آپ اس میں سے خمس نکالتے اور اسے تقسیم کرتے ، چنانچہ ایک آدمی اس سے ایک روز بعد بالوں سے بنی ہوئی ایک لگام لے کر آیا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مالِ غنیمت میں ملنے والے مال میں یہ بھی تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم نے بلال ؓ کو تین مرتبہ اعلان کرتے ہوئے سنا تھا ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تو پھر کس چیز نے تجھے اسے لانے سے منع کیا ؟‘‘ اس نے معذرت پیش کی ، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اب تم اسے قیامت کے روز لاؤ گے ، میں اسے تم سے ہرگز قبول نہیں کروں گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر اور عمر ؓ نے خیانت کرنے والے کے مال و متاع کو جلا دیا اور اس کی پٹائی کی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کرتے تھے :’’ جو شخص خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرتا ہے تو وہ بھی اسی کی طرح ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔