انس ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ ؓ میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا تو ایک آدمی نے کہا : جنت کی بشارت ہو ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم نہیں جانتے کہ شاید اس نے کسی غیر متعلقہ چیز کے بارے میں بات کی ہو یا کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو جو اس میں کمی نہیں کر سکتی تھی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو میرے بارے میں سب سے زیادہ کس چیز کا اندیشہ ہے ؟ راوی بیان کرتے ہیں : آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا :’’ اس کا ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس (بندے) سے ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
سفیان بن اسد حضرمی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے (مسلمان) بھائی سے کوئی بات کرے ، وہ اس میں تمہیں سچا جانتا ہو جبکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے اور نہ لعنت کرنے والا ، نہ وہ فحش گو ہوتا ہے اور نہ زبان دراز ۔‘‘ ترمذی ، بیہقی فی شعب الایمان ۔
اور بیہقی کی دوسری روایت میں ہے ’’ نہ وہ فحش گوئی کرنے والا ہوتا ہے اور نہ زبان درازی کرنے والا ۔‘‘ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی و البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ مومن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ لعنت کرنے والا ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک دوسرے کو ایسے نہ کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو ، تم پر اللہ کا غضب ہو اور تم جہنم میں جاؤ ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ ایسے بھی نہ کہو : تم (جہنم کی) آگ میں جاؤ ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب بندہ کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے ، تو اس کے پہنچنے سے پہلے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے ، اس کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں ، پھر وہ دائیں بائیں جاتی ہے ، جب وہ کوئی راستہ نہیں پاتی تو وہ اس شخص کی طرف جاتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی ، بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو ورنہ وہ کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ہوا نے ایک آدمی کی چادر اڑا دی تو اس نے اس پر لعنت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ وہ تو حکم کی پابند ہے ، اور جو شخص کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے ، جبکہ وہ اس کی مستحق نہیں ہوتی تو پھر وہ لعنت اسی شخص پر لوٹ آتی ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرا کوئی صحابی کسی دوسرے صحابی کے بارے میں مجھے کوئی (ناپسندیدہ) بات نہ پہنچائے ، کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ جب میں تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ صاف ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا : آپ کو صفیہ ﷺ سے بس یہ یہ کافی ہے یعنی ان کا قد چھوٹا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے ایک ایسی بات کی ہے اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اس پر غالب آ جائے (یعنی اس کی کیفیت بدل ڈالے) ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ فحش گوئی جس چیز میں ہو ، وہ اسے معیوب بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو وہ اسے مزین کر دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
خالد بن معدان ، معاذ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو (اس کے سابقہ کسی) گناہ پر ملامت کرتا ہے تو یہ شخص مرنے سے پہلے اس (گناہ) کا ارتکاب کر لیتا ہے ۔‘‘ اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اس کی سند متصل نہیں کیونکہ خالد کی معاذ بن جبل ؓ سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
واثلہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے (مسلمان) بھائی (کے مصیبت میں مبتلا ہونے) پر خوشی کا اظہار نہ کر ، ممکن ہے اللہ اس پر رحم فرما دے اور تمہیں (اس مصیبت میں) مبتلا کر دے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا خواہ مجھے اتنا اتنا مال دیا جائے ۔‘‘ ترمذی نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک اعرابی آیا ، اس نے اپنا اونٹ بٹھایا پھر اسے باندھا اور مسجد میں آیا ، اس نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ، جب آپ نے سلام پھیرا تو وہ اپنی سواری کے پاس آیا ، اسے کھولا اور اس پر سوار ہو کر بلند آواز سے کہا : اے اللہ ! مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحم فرما اور ہماری رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کرنا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم گمان کرتے ہو وہ زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ ؟ کیا تم نے اس کی بات نہیں سنی ؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، سنی ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
اور ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث :’’ بندے کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے ۔‘‘ باب الاعتصام کی فصل اول میں بیان ہو چکی ہے ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب فاسق کی مدح سرائی کی جاتی ہے تو رب تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور اس کی (تعریف کی) وجہ سے اس کا عرش لرز جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مؤمن میں خیانت اور جھوٹ کی عادت نہیں ہو سکتی البتہ ان کے علاوہ سب کچھ ہو سکتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
صفوان بن سُلیم ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا ، کیا مؤمن بزدل ہو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ پھر عرض کیا گیا : کیا مؤمن بخیل ہو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ پھر آپ سے عرض کیا گیا ، کیا مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ مالک ، بیہقی نے اسے شعب الایمان میں مرسل روایت کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ مالک و البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، شیطان انسانی روپ دھار کر لوگوں کے پاس آتا ہے ، ان سے جھوٹی باتیں کرتا ہے ، پھر جب لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی کو سنا ۔ میں اس کے چہرے سے شناسا ہوں لیکن میں اس کا نام نہیں جانتا ، وہ یہ بات بیان کرتا تھا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عمران بن حطان ؒ بیان کرتے ہیں ، میں ابوذر ؓ کے پاس آیا تو میں نے انہیں کالی چادر سے گوٹ مارے ہوئے مسجد میں اکیلے پایا تو میں نے کہا : ابوذر ! یہ تنہائی کیسی ؟ انہوں نے کہا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بُرے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے اور نیک ہم نشین تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات تحریر کرنا خاموشی سے بہتر ہے جبکہ بُری بات تحریر کرنے سے خاموشی بہتر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ْﷺ نے فرمایا :’’ آدمی کا (بُری بات کرنے سے) خاموشی برقرار رکھنا ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور یہاں تک بیان کیا ، انہوں نے کہا ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے وصیت فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ وہ تیرے تمام اُمور کے لیے زیادہ باعث زینت ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : مزید فرمائیں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ قرآن کی تلاوت اور اللہ عزوجل کا ذکر کر کیونکہ وہ آسمان میں تیرے تذکرے اور زمین میں تیرے لیے نور کا باعث ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : مجھے مزید وصیت فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہمیشہ خاموشی اختیار کرو ، کیونکہ وہ شیطان کو دور کرنے اور تیرے دین کے معاملے میں تیری مددگار ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، مزید فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ زیادہ ہنسنے سے بچو ، کیونکہ وہ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور چہرے کے نور کو ختم کر دیتا ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : مزید وصیت فرمائیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ حق بیان کر خواہ وہ کڑوا ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، مزید فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈر ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، مزید فرمائیں آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تجھے تیری خامیوں کا علم ، لوگوں کو بُرا بھلا کہنے سے روکے رکھے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
انس ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوذر ! کیا میں تمہیں دو خصلتیں نہ بتاؤں جو پشت پر (انسان کے عمل کے لحاظ سے) بہت ہلکی ہیں جبکہ میزان میں بہت بھاری ہیں ؟‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، جی ہاں ! بتائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خاموش رہنا اور اچھے اخلاق اختیار کرنا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مخلوق نے ان جیسے دو عمل نہیں کیے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ ، ابوبکر ؓ کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے کسی غلام پر لعنت کر رہے تھے آپ ﷺ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا :’’ (کیا) لعنت کرنے والے اور صدیقین (اکٹھے ہو سکتے ہیں ؟) رب کعبہ کی قسم ! ہرگز نہیں ۔‘‘ چنانچہ ابوبکر ؓ نے اس دن اپنے بعض غلام (بطور کفارہ) آزاد کیے ، پھر نبی ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا : میں آئندہ ایسے نہیں کروں گا ۔ امام بیہقی نے پانچوں احادیث شعب الایمان میں روایت کی ہیں ۔ حسن ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
(عمر بن خطاب ؓ کے آزاد کردہ غلام) اسلم ؓ بیان کرتے ہیں ، کہ ایک روز عمر ؓ ، ابوبکر صدیق ؓ کے پاس گئے تو وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے ۔ (یہ منظر دیکھ کر) عمر ؓ نے فرمایا : اللہ آپ کی مغفرت فرمائے ! اسے چھوڑ دیں ، ابوبکر ؓ نے فرمایا : اس نے مجھے ہلاکت کے گڑھوں تک پہنچایا ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ مالک ۔
عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تم مجھے اپنی طرف سے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں : جب تم بات کرو تو سچ بولو ، جب وعدہ کرو تو پورا کرو ، جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے ادا کرو ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو ، اپنی نظریں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھوں کو (ظلم سے) روکو ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عبد الرحمن بن غنم اور اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اللہ یاد آ جائے ، جبکہ اللہ کے بندوں میں سے بدترین لوگ چغل خور ، پیاروں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور (گناہوں سے) لاتعلق لوگوں پر برائی کا الزام لگانے والے ہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔