انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (معراج کی رات) میں جنت میں چل رہا تھا کہ اچانک میں ایک نہر پر پہنچا ، اس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد تھے ، میں نے کہا : جبریل ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ کوثر ہے ، جو آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمائی ہے ، میں نے دیکھا کہ اس کی مٹی اعلیٰ خوشبو والی کستوری تھی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت کے برابر ہے ، اس کے اطراف برابر ہیں ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے ، اس کی خوشبو کستوری سے زیادہ اچھی ہے اور اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں ، جس شخص نے اس سے پی لیا وہ پھر کبھی (میدان حشر میں) پیاسا نہ ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرا حوض ایلہ اور عدن کے درمیانی مسافت سے زیادہ مسافت والا ہے ۔ وہ برف سے زیادہ سفید ، اور وہ شہد ملے دودھ سے زیادہ شیریں و لذیذ ہے ، اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں ، اور میں (دوسرے) لوگوں کو اس سے اس طرح دور ہٹاؤں گا جس طرح آدمی لوگوں کے اونٹوں کو اپنے حوض سے دور ہٹاتا ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ اس روز ہمیں پہچان لیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، تمہارے لیے ایک خاص نشان ہو گا جو کسی اور امت کے لیے نہیں ہو گا ۔ تم میرے پاس اس حالت میں آؤ گے کہ وضو کے نشان کی وجہ سے تمہاری پیشانی اور ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
اور صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث ، جو کہ ثوبان ؓ سے مروی ہے ، اس میں ہے : آپ سے اس کے مشروب کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ، اس میں جنت سے دو پرنالے گرتے ہیں ، ان میں سے ایک سونے کا ہے جبکہ دوسرا چاندی کا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں حوض پر تم سے پہلے ہی موجود ہوں گا جو شخص میرے پاس سے گزرے گا ، وہ (اس سے) پیئے گا اور جس نے پی لیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ، کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے ، میں انہیں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے ، پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی ، میں کہوں گا : یہ تو مجھ سے ہیں ، (میرے امتی ہیں) ، مجھے کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئے کام ایجاد کر لیے تھے ، میں کہوں گا : اس شخص کے لیے (مجھ سے) دوری ہو جس نے میرے بعد دین میں تبدیلی کر لی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ مومنوں کو روزِ قیامت روک رکھا جائے گا حتی کہ اس وجہ سے وہ غمگین ہو جائیں گے ، وہ کہیں گے : کاش کہ ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارشی تلاش کریں تا کہ وہ ہمیں ہماری اس جگہ سے نجات دے دے ، وہ آدم ؑ کے پاس آئیں گے ، اور کہیں گے : آپ آدم ، تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا ، آپ کو جنت میں بسایا ، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں حتی کہ وہ ہمیں ہماری اس جگہ سے نجات دے دے ، وہ کہیں گے : میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، وہ اپنی اس خطا کو یاد کریں گے جس کا ارتکاب اس درخت کے کھانے سے ہوا تھا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا ، بلکہ تم نوح ؑ کے پاس جاؤ ، وہ پہلے نبی ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف مبعوث فرمایا تھا ، وہ نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو وہ بھی یہی کہیں گے ، میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، اور وہ اپنی اس خطا کو یاد کریں گے جو ان سے لاعلمی میں اپنے رب سے سوال کرنے سے سرزد ہوئی تھی ، بلکہ تم رحمن کے خلیل ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے ، تو وہ بھی یہی کہیں گے : میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، اور وہ اپنے تین جھوٹوں کو یاد کریں گے جو انہوں نے بولے تھے ، بلکہ تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تورات عطا کی ، ان سے کلام فرمایا اور سرغوشی کے لیے انہیں قریب کیا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ موسیٰ ؑ کے پاس جائیں گے تو وہ بھی کہیں گے میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، اور وہ اپنی اس غلطی کا تذکرہ کریں گے کہ انہوں نے اس (قبطی) آدمی کو قتل کیا تھا ، بلکہ تم اللہ کے بندے عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جو کہ اس کے رسول ہیں ، اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ عیسیٰ ؑ کے پاس جائیں گے تو وہ بھی یہی کہیں گے ، میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، بلکہ تم اللہ کے بندے محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، اللہ نے جن کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے میں اپنے رب سے ، اس کے حضور آنے کی ، اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دے دی جائے گی ، جب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر جتنی دیر اللہ چاہے گا وہ مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا ، پھر فرمائے گا : محمد ! اٹھو ، بات کرو ، تمہاری بات سنی جائے گی ، سفارش کرو ، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، آپ سوال کریں ، آپ کو عطا کیا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا تو میں اپنے رب کی وہ حمد و ثنا بیان کروں گا ، جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے تعداد کا تعین کر دیا جائے گا ، میں (دربار الٰہی سے) باہر آؤں گا اور میں انہیں جہنم کی آگ سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا ، پھر میں دوسری مرتبہ جاؤں گا ، اور اپنے رب کے حضور پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے اس کے پاس جانے کی اجازت مل جائے گی ، جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، جس قدر اللہ چاہے گا وہ مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا ، پھر فرمائے گا : محمد ﷺ سر اٹھاؤ ، بات کرو ، تمہیں سنا جائے گا ، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، سوال کرو آپ کو عطا کیا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنا سر اٹھاؤں گا ، میں اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے حد متعین کر دی جائے گی ، میں (بارگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا تو میں انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا ، پھر میں تیسری مرتبہ جاؤں گا ، اپنے رب کے پاس جانے کی اجازت طلب کروں گا تو مجھے اس کے پاس جانے کی اجازت مل جائے گی ، جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر جاؤں گا ، اللہ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں چھوڑ دے گا پھر فرمائے گا : محمد ! سر اٹھائیں ، بات کریں ، تمہیں سنا جائے گا ، سفارش کریں تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، اور سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے حد کا تعین کر دیا جائے گا ، میں (بارگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا ، انہیں میں آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا ، حتی کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائے گا جسے قرآن نے روک رکھا ہو گا ۔‘‘ یعنی جس پر دائمی جہنمی ہونا واجب ہو چکا ہو ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔‘‘ قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر مبعوث فرمائے ۔‘‘ فرمایا :’’ اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا اس نے تمہارے نبی سے وعدہ فرمایا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب قیامت کا دن ہو گا تو لوگ اضطراب کا شکار ہوں گے وہ مل کر آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے : اپنے رب سے سفارش کرو ، وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں ہوں ، لیکن تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں ، وہ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے ، وہ بھی کہیں گے ، میں اس کا اہل نہیں ہوں ، لیکن تم موسی ؑ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں ، وہ موسی ؑ کے پاس آئیں گے ، وہ بھی یہی کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں ہوں ، لیکن تم عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ ، کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ، وہ عیسیٰ ؑ کے پاس آئیں گے ، وہ کہیں گے : میں اس کے اہل نہیں ہوں ، لیکن تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا : میں اس کے لیے تیار ہوں ، میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دے دی جائے گی ، وہ مجھے حمد کے الفاظ الہام فرمائے گا تو میں ان (کلمات و الفاظ) کے ذریعے اس کی حمد بیان کروں گا ، ان کلمات کا اس وقت مجھے علم نہیں ، میں ان حمدیہ الفاظ کے ساتھ اس کی حمد بیان کروں گا اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، مجھے کہا جائے گا ، سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ، میں کہوں گا : رب جی ! میری امت ، میری امت ! چنانچہ کہا جائے گا جاؤ اور جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے (دوزخ سے) نکال لو ، میں جاؤں گا اور ایسے ہی کروں گا ، پھر میں دوبارہ (رب کے حضور) جاؤں گا اور انہی حمدیہ کلمات کے ذریعے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو کہا جائے گا ، محمد ! اپنا سر اٹھاؤ ، بات کرو ، سنی جائے گی ، سوال کرو اسے پورا کیا جائے گا اور سفارش قبول کی جائے گی ، میں کہوں گا ، رب جی ! میری امت ، میری امت ! کہا جائے گا : جاؤ ! جس کے دل میں ذرہ یا رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اسے (جہنم سے) نکال لو ، میں جاؤں گا اور ایسے ہی کروں گا ، پھر میں (تیسری مرتبہ) لوٹوں گا ، اور ان حمدیہ کلمات کے ذریعے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، تو کہا جائے گا : محمد ! اپنا سر اٹھائیں ، بات کریں ، سنی جائے گی ، سوال کریں اسے پورا کیا جائے گا اور سفارش کریں اسے قبول کیا جائے گا ، میں کہوں گا : رب جی ! میری امت ، میری امت ! کہا جائے گا : جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی ادنی ترین ایمان ہے اسے بھی جہنم کی آگ سے نکال لو ، میں جاؤں گا اور ایسے ہی کروں گا ، پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹوں گا ، اور ان حمدیہ کلمات کے ذریعے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو کہا جائے گا : محمد ! اپنا سر اٹھائیں ، بات کریں سنی جائے گی ، مانگیں عطا کیا جائے گا ، اور سفارش کریں تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، میں کہوں گا : رب جی ! مجھے اس شخص کے بارے میں اجازت دے دیں کہ جس نے ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کہا ہو اور میں اسے جہنم سے نکال لاؤں ، فرمایا : اس کا آپ کو حق حاصل نہیں ، لیکن میری عزت ، میرے جلال ، میری کبریائی اور میری عظمت کی قسم ! جس شخص نے ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کہا ہو گا میں اسے اس (جہنم) سے ضرور نکالوں گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت میری شفاعت کے لحاظ سے سب سے زیادہ سعادت مند شخص وہ ہو گا جس نے خلوص دل سے ((لا الہ الا اللہ)) ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ‘‘ پڑھا ہو گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا تو اس سے ایک دستی آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ، جبکہ دستی آپ کو پسند تھی ، آپ ﷺ نے اپنے دانتوں سے ایک بار اسے نوچا ، پھر فرمایا :’’ روزِ قیامت مَیں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا ، اس دن تمام لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے ، سورج قریب ہو جائے گا ، اور لوگ غم و تکلیف کی انتہا کو پہنچ جائیں گے ، تمام لوگ کہیں گے ، کیا تمہیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا ہے جو تمہارے رب کے ہاں تمہاری سفارش کرے ، چنانچہ وہ آدم ؑ کے پاس آئیں گے ، اور پھر آگے حدیث شفاعت بیان کی ، اور فرمایا :’’ میں جاؤں گا اور عرش کے نیچے پہنچوں گا تو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر اللہ اپنی حمد و ثنا کے ایسے کلمات مجھے سکھائے گا جو اس نے مجھ سے پہلے کسی کو نہیں سکھائے ہوں گے ، پھر وہ فرمائے گا : محمد ! اپنا سر اٹھائیں ، سوال کریں ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ، اور سفارش کریں تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، میں اپنا سر اٹھاؤں گا ، اور کہوں گا ، رب جی ! میری امت ، رب جی ! میری امت ، رب جی ! میری امت ، کہا جائے گا : محمد ! آپ اپنی امت کے ان افراد کو ، جن پر کوئی حساب نہیں ، ابواب جنت میں سے دائیں دروازے سے داخل کیجئے ، حالانکہ انہیں اس کے علاوہ دیگر دروازوں سے لوگوں کے ساتھ گزرنے کا بھی حق حاصل ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جنت کے دروازے کی دہلیز کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
شفاعت سے متعلق حذیفہ ؓ سے مروی حدیث جو وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا :’’ امانت اور صلہ رحمی کو چھوڑا جائے گا تو وہ پل صراط کے دونوں کناروں پر کھڑی ہو جائیں گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورۂ ابراہیم میں موجود اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :’’ رب جی ! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ، جس نے میری اتباع کی تو وہ مجھ سے ہے ۔‘‘ اور عیسیٰ ؑ نے فرمایا :’’ اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں ۔‘‘ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی :’’ اے اللہ ! میری امت ، میری امت !‘‘ اور آپ رونے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ جبریل ! محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، اور تیرا رب زیادہ جانتا ہے ، ان سے پوچھو کہ انہیں کون سی چیز رلا رہی ہے ؟‘‘ جبریل ؑ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے تو آپ سے دریافت کیا ، رسول اللہ ﷺ نے جو کہا تھا وہی انہیں بتا دیا ، اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ سے فرمایا :’’ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور کہو : ہم آپ کی امت کے متعلق آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو غمگین نہیں کریں گے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا روزِ قیامت ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، کیا دوپہر کے وقت ، جب مطلع ابر آلود نہ ہو تو سورج دیکھنے میں تم کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟ اور کیا چودھویں رات جب مطلع ابر آلود نہ ہو تو تم چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسی طرح تم روزِ قیامت اللہ کو دیکھنے میں تکلیف محسوس نہیں کرو گے ، مگر جس قدر تم ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہو ۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا : ہر امت اپنے معبود کے پیچھے چلی جائے ، اللہ کے علاوہ اصنام اور بتوں کی پوجا کرنے والے سارے کے سارے آگ میں گر جائیں گے حتی کہ جب صرف اللہ کی عبادت کرنے والے نیک اور فاجر قسم کے لوگ رہ جائیں گے تو رب العالمین ان کے پاس آئے گا ، اور پوچھے گا ، تم کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ ہر امت اپنے معبود کے پیچھے جا چکی ہے ، وہ عرض کریں گے : رب جی ! ہم نے دنیا میں ان سے علیحدگی اختیار کیے رکھی جبکہ ہم ان کے ضرورت مند تھے اور ہم ان کے ساتھ نہ رہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے :’’ وہ کہیں گے جب تک ہمارا رب ہمارے پاس نہیں آتا تب تک ہماری یہی جگہ ہے ، جب ہمارا رب آ جائے گا ہم اسے پہچان لیں گے ۔‘‘ اور ابوسعید ؓ کی روایت میں ہے :’’ وہ فرمائے گا : کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے : جی ہاں ، وہ اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو ہر وہ شخص جو اخلاص کے ساتھ سجدہ کرتا تھا اسے اللہ سجدے کی اجازت دے دے گا اور جو کسی خوف ، ریا کاری کی خاطر سجدہ کیا کرتا تھا اللہ اس کی کمر کو تختہ بنا دے گا ، جب وہ سجدہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو وہ اپنی گدی کے بل گر جائے گا ، اس کے بعد جہنم پر پل رکھا جائے گا اور سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی تمام (انبیا ؑ) کہیں گے : اے اللہ ! سلامتی فرمانا ، سلامتی فرمانا ، مومن (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) کچھ آنکھ جھپکنے کی طرح ، کچھ ہوا کی رفتار کی طرح ، کچھ پرندے کی اڑان کی طرح ، کچھ تیز رفتار گھوڑوں کی طرح اور کچھ مختلف سواریوں کی رفتار کی طرح گزریں گے ، کوئی تو صحیح سلامت نجات پا جائیں گے اور کسی کو جہنم کی آگ میں دھکیل دیا جائے گا ۔ حتی کہ مومن جہنم کی آگ سے نجات پا جائیں گے ، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! حق لینے کی خاطر تم سے زیادہ شدید مطالبہ کرنے والا کوئی نہیں ہو گا ، جب انہیں روزِ قیامت اپنے بھائیوں کے حق کا پتہ چلے گا ، جو کہ جہنم کی آگ میں ہوں گے ، وہ کہیں گے ، ہمارے رب ! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے ، ہمارے ساتھ نمازیں پڑھا کرتے تھے اور وہ حج کیا کرتے تھے ، انہیں کہا جائے گا : جن کو تم پہچانتے ہو انہیں نکال لو ، ان کی صورتوں کو جہنم کی آگ پر حرام قرار دیا جائے گا ، وہ بہت سی مخلوق کو نکالیں گے ، پھر وہ کہیں گے ، ہمارے رب ! جن کے متعلق تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں رہا ، وہ فرمائے گا : دوبارہ جاؤ اور تم جس کے دل میں دینار کے برابر بھی خیر پاؤ ، اس کو نکال لاؤ ، وہ بہت ساری مخلوق کو نکال لائیں گے ، وہ پھر فرمائے گا : لوٹ جاؤ اور تم جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی خیر پاؤ تو اس کو نکال لاؤ ، وہ بہت ساری مخلوق کو نکال لائیں گے ۔ وہ پھر فرمائے گا : لوٹ جاؤ اور تم جس کے دل میں ذرہ برابر خیر پاؤ ، اسے نکال لاؤ ، وہ بہت ساری مخلوق کو نکال لائیں گے ، پھر وہ عرض کریں گے : ہمارے رب ! ہم نے اس (جہنم) میں کسی اہل خیر کو نہیں چھوڑا ، (سب کو نکال لیا ہے) تب اللہ فرمائے گا : فرشتوں نے سفارش کی ، انبیا ؑ نے سفارش کی اور مومنوں نے سفارش کی صرف ارحم الراحمین ہی باقی رہ گیا ہے ، وہ جہنمیوں کی ایک مٹھی بھرے گا اور وہ اس سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جنہوں نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ہو گا اور وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے ، وہ انہیں جنت کے دروازوں پر بہنے والی نہر میں ڈالے گا ، اسے نہر حیات کہا جائے گا ، وہ اس طرح نکلیں گے جس طرح دانہ سیلابی مٹی میں اگ آتا ہے ، وہ موتیوں کی طرح نکلیں گے ، ان کی گردنوں میں (علامت کے طور پر) ہار ہوں گے ، اہل جنت کہیں گے : یہ رحمن (اللہ تعالیٰ) کے آزاد کردہ ہیں ، اس نے انہیں بلا کسی عمل کے اور کسی نیکی کے جس کو انہوں نے آگے بھیجا ہو ، جنت میں داخل فرمایا ہے ، ان کے لیے کہا جائے گا : تمہارے لیے (جنت میں) وہ کچھ ہے جو تم نے (حد نظر تک) دیکھ لیا اور اس کے ساتھ اتنا اور ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لو ، انہیں نکال لیا جائے گا ، وہ جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے ، انہیں نہر حیات میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس سے اس طرح نمودار ہوں گے جس طرح سیلابی مٹی میں دانہ اگ آتا ہے ، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ (دانہ شروع میں) زرد رنگ کا لپٹا ہوا پودا نکل آتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا ہم روزِ قیامت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ انہوں نے ابوسعید ؓ سے مروی حدیث کا مفہوم بیان کیا ، البتہ پنڈلی کھولنے کا ذکر نہیں کیا ، اور فرمایا :’’ جہنم کے دونوں کناروں پر پل قائم کیا جائے گا ، تمام رسولوں سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ اس (پل) کو عبور کروں گا ، اس دن صرف رسول ہی کلام کریں گے اور اس دن رسولوں کا کلام یہی ہو گا : اے اللہ ! سلامتی عطا فرمانا ، اے اللہ سلامتی عطا فرمانا ، اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے ، اور ان (آنکڑوں) کے طول و عرض کو صرف اللہ ہی جانتا ہے ، وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے ، چنانچہ ان میں سے ایسے بھی ہوں گے جو ہلاک ہو جائیں گے ، اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو کاٹ ڈالے جائیں گے پھر (گرنے سے) بچ جائیں گے ، حتی کہ جب اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور وہ جہنم سے نکالنے کا ارادہ فرمائے گا تو وہ جنہیں اس سے نکالنے کا ارادہ فرمائے گا وہ ایسے ہوں گے جو یہ گواہی دیتے ہوں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ فرشتوں کو حکم فرمائے گا کہ اللہ کی عبادت کرنے والوں کو نکالیں ، وہ انہیں نکالیں گے ، اور وہ انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے ، اور اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشانات (کی جگہ) کو کھائے ، آگ انسان کے سجدوں کے نشانات کے سوا باقی تمام اعضاء کو کھا جائے گی ، اور وہ آگ سے نکال لیے جائیں گے درآنحالیکہ وہ جل چکے ہوں گے پھر ان پر آب حیات بہایا جائے گا اور وہ ایسے نمودار ہوں گے جس طرح سیلابی مٹی سے دانہ اگ آتا ہے ، جنت اور جہنم کے مابین ایک آدمی باقی رہ جائے گا ، اور جنت میں داخل ہونے والا وہ آخری جہنمی ہو گا ، اس کا چہرہ جہنم کی آگ کی طرف ہو گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! میرا چہرہ جہنم سے دوسری طرف کر دے ، (کیونکہ) اس کی بدبو نے مجھے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کے شعلوں نے مجھے جلا دیا ہے ، رب تعالیٰ فرمائے گا : کیا ایسا تو نہیں کہ اگر میں نے یہ کر دیا تو تو اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز کا سوال کر دے ، وہ عرض کرے گا : تیری عزت کی قسم ! نہیں (کوئی اور سوال نہیں کروں گا) ، وہ جو اللہ چاہے گا ، اللہ کو عہد و میثاق دے گا تو اللہ اس کے چہرے کو آگ سے دوسری طرف پھیر دے گا ، اور جب وہ جنت کی طرف منہ کر لے گا اور وہ اس کی رونق دیکھے گا تو جس قدر اللہ چاہے گا کہ وہ خاموش رہے تو وہ اس قدر خاموش رہے گا ، پھر وہ عرض کرے گا : رب جی ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دے ، اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نے مجھ سے عہد و میثاق نہیں کیا تھا کہ تو اس سوال کے بعد کسی اور چیز کے متعلق سوال نہیں کرے گا ؟ وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بد نصیب شخص نہ ہو جاؤں : چنانچہ وہ فرمائے گا : کیا ہو سکتا ہے کہ اگر میں تمہیں یہ عطا کر دوں تو تو اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا مطالبہ کر دے ؟ وہ عرض کرے گا : تیری عزت کی قسم ! (ایسے) نہیں ، میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کا تجھ سے مطالبہ نہیں کروں گا ، وہ اپنے رب کو ، جو اللہ تعالیٰ چاہے گا عہد و میثاق دے گا ، تو وہ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا ، اور جب وہ اس کے دروازے پر پہنچ جائے گا ، تو وہ اس کی تروتازگی ، اور اس میں جو رونق و سرور دیکھے گا تو جس قدر اللہ چاہے گا کہ وہ خاموش رہے تو وہ خاموش رہے گا ، پھر عرض کرے گا : رب جی ! مجھے جنت میں داخل فرما دے ، اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : ابن آدم ! تجھ پر افسوس ہے ، تو کتنا بڑا وعدہ خلاف ہے ! کیا تو نے عہد و میثاق نہیں دیا تھا کہ تو اس چیز کے علاوہ ، جو میں نے تمہیں عطا کر دی ، کوئی دوسری چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا ؟ وہ عرض کرے گا : رب جی ! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بد نصیب نہ بنا ، وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس کی وجہ سے ہنس دے گا ، جب وہ ہنس دے گا تو وہ اسے دخولِ جنت کی اجازت فرما دے گا ، اور فرمائے گا : تمنا کر ، وہ تمنا کرے گا حتی کہ جب اس کی تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو فلاں فلاں چیز کی تمنا کر ، اس کا رب اسے یاد دلائے گا ، حتی کہ جب یہ سب تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ فرمائے گا ، یہ (جو تو نے تمنا کی) تیرے لیے ہے اور اتنی ہی مزید اس کے ساتھ (تجھے عطا کی جاتی ہیں) ۔‘‘ اور ابوسعید ؓ کی روایت میں ہے :’’ اللہ فرمائے گا : یہ (جو تو نے تمنا کی) تیرے لیے ہے اور اس کی مثل دس گنا مزید (عطا کی جاتی ہیں) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا آدمی وہ ہو گا جو ایک بار چلے گا اور ایک بار منہ کے بل گرے گا اور ایک بار آگ اسے جھلسے گی ، جب وہ اس (آگ) سے گزر جائے گا تو وہ اس کی طرف مڑ کر دیکھ کر کہے گا ، بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے بچا لیا اور اللہ نے مجھے وہ چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی ، اسے ایک درخت دکھایا جائے گا تو وہ عرض کرے گا : رب جی ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے سائے سے سایہ حاصل کر سکوں ، اور اس کے (پاس چشمے کے پانی سے) پانی پی سکوں ، اللہ فرمائے گا : ابن آدم ! شاید کہ میں وہ تجھے عطا کر دوں تو پھر تم اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کرو گے ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! نہیں ، وہ اس سے معاہدہ کرے گا کہ وہ اس سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا ، اور اس کا رب (سوال کرنے پر) اسے معذور سمجھے گا ، کیونکہ وہ ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر وہ صبر نہیں کر سکے گا ، وہ اس کو اس (درخت) کے قریب کر دے گا تو وہ اس کے سائے سے سایہ حاصل کرے گا اور اس کے (چشمے) سے پانی پیئے گا ، پھر اسے ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو پہلے سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پی سکوں اور اس کے سایہ سے سایہ حاصل کر سکوں ، اور میں اس کے علاوہ تجھ سے اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا ، وہ فرمائے گا : ابن آدم ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور چیز نہیں مانگے گا ، اور وہ فرمائے گا : ہو سکتا ہے کہ میں تجھے اس کے قریب کر دوں تو پھر تو مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگ لے ، وہ اس سے ، اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہ مانگنے کا وعدہ کر لے گا ، جبکہ اس کا رب اسے (دوبارہ سوال کرنے پر) معذور سمجھے گا ، کیونکہ وہ ایسی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر اس کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے گا ، وہ اس کو اس کے قریب کر دے گا تو وہ اس کے سائے سے سایہ حاصل کرے گا ، اور اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پیئے گا ۔ پھر جنت کے دروازے پر اسے ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو سابقہ دونوں درختوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا ، یہ عرض کرے گا : رب جی ! مجھے اس (درخت) کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے سائے سے سایہ حاصل کر سکوں اور اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پیوں ، پھر میں اس کے علاوہ تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا ، وہ فرمائے گا : ابن آدم ! کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور چیز نہیں مانگے گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! بالکل ٹھیک ہے ، بس یہ پورا فرما دے ، میں اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا ، اس کا رب اسے معذور سمجھے گا ، پھر وہ ایسی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر وہ صبر نہیں کر سکے گا ، وہ اس کے قریب کر دے گا ، جب وہ اسے اس کے قریب کر دے گا تو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا ، رب جی ! مجھے اس میں داخل فرما دے ، وہ فرمائے گا : ابن آدم ! کون سی چیز (چاہنے کے بعد) تو مجھ سے سوال کرنا ترک کرے گا ؟ کیا تو راضی ہو جائے گا کہ میں دنیا کے برابر اور اس کی مثل مزید تجھے عطا کر دوں ؟ وہ عرض کرے گا : رب جی ! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہو جبکہ آپ رب العالمین ہو ؟‘‘ ابن مسعود ؓ ہنس دیے ، اور فرمایا : کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں کس وجہ سے ہنس رہا ہوں ؟ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی ہنسے تھے ، اس پر صحابہ ؓ نے عرض کیا تھا ، اللہ کے رسول ! آپ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے جب اس نے کہا تھا ، کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ وہ فرمائے گا : میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا بلکہ میں جو چاہوں اس کے کرنے پر قادر ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
اور صحیح مسلم ہی کی ابوسعید ؓ سے مروی حدیث اسی طرح ہے ، البتہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا :’’ وہ فرمائے گا : ابن آدم ! کون سی چیز تجھے مجھ سے (سوال کرنے سے) باز رکھے گی ؟‘‘ آخر حدیث تک ، اور اس میں یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ اللہ اسے یاد کرائے گا ، فلاں چیز مانگو ، فلاں چیز مانگو ، حتی کہ جب اس کی خواہشات ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : وہ (جو تو نے مانگا) تیرے لیے ہے اور اس سے دس گنا مزید تیرے لیے ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہو گا تو حورعین سے اس کی دو بیویاں اس کے پاس آئیں گی ، تو وہ کہیں گی : ہر قسم کی حمد و شکر اللہ کے لیے ہے جس نے تجھے ہماری خاطر اور ہمیں تیری خاطر پیدا فرمایا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ (بندہ) کہے گا : جو مجھے عطا کیا گیا ہے ویسا کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ کچھ لوگ ان گناہوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیے ہوں گے بطورِ سزا آگ انہیں جھلس دے گی ، پھر اللہ اپنے فضل و رحمت سے انہیں جنت میں داخل فرمائے گا ، انہیں جہنمی کہا جائے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ محمد (ﷺ) کی شفاعت کے ذریعے کچھ لوگوں کو جہنم کی آگ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا ، ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :’’ میری امت کے کچھ لوگ میری شفاعت کے ذریعے جہنم کی آگ سے نکالے جائیں گے ، ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا ۔‘‘ رواہ البخاری و الترمذی ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جہنمیوں میں سے سب سے آخر پر اس (جہنم) سے کون نکلے گا اور سب سے آخر پر جنت میں کون داخل ہو گا ، ایک آدمی سرین کے بل گھسٹ کر جہنم سے نکلے گا تو اللہ فرمائے گا : جا ، جنت میں داخل ہو جا ، وہ وہاں آئے گا تو اسے ایسے خیال آئے گا کہ وہ تو بھر چکی ہے ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں نے تو اسے بھرا ہوا پایا ہے ، اللہ فرمائے گا ، جا ، جنت میں داخل ہو جا ، تیرے لیے دنیا اور اس کی مثل دس گنا ہے ، وہ عرض کرے گا : کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے ، حالانکہ تو بادشاہ ہے ۔‘‘ (راوی بیان کرتے ہیں) میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں ، کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہو گا ۔ متفق علیہ ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں اچھی طرح جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا اور جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا ، ایک آدمی کو روزِ قیامت پیش کیا جائے گا تو کہا جائے گا ، اس پر اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور اس کے کبیرہ گناہ چھپا رکھو ، اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کیے جائیں گے تو کہا جائے گا : فلاں دن تو نے یہ ، یہ ،یہ اور یہ کیا اور فلاں دن تو نے یہ ، یہ ، یہ اور یہ کیا ، وہ عرض کرے گا : جی ہاں ! وہ انکار نہیں کر سکے گا ، اور وہ اپنے کبیرہ گناہوں سے ڈر رہا ہو گا کہ وہ اس پر پیش کیے جائیں گے ، اتنے میں اسے کہا جائے گا : ہر برائی کے بدلے تجھے نیکی عطا کی جاتی ہے ، تو وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں نے تو کچھ ایسے (کبیرہ) گناہ کیے تھے جنہیں میں یہاں دیکھ نہیں رہا ۔‘‘ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (سب سے آخر پر) جہنم سے چار آدمیوں کو نکال کر اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا ، وہ پھر انہیں جہنم میں لے جانے کا حکم فرمائے گا ، ان میں سے ایک پھر مڑ مڑ کر دیکھے گا اور عرض کرے گا : رب جی ! میں تو امید کرتا تھا کہ جب تو نے مجھے وہاں سے نکال لیا تو پھر تو مجھے اس میں نہیں لوٹائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ اللہ اس کو اس (جہنم) سے نجات دے دے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن جہنم سے خلاصی حاصل کر لیں گے تو انہیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے دنیا کے باہمی مظالم (حق تلفیوں) کا ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا حتی کہ جب وہ صاف ستھرے کر دیے جائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! ان میں سے ہر ایک جنت میں اپنے گھر کو ، دنیا میں اپنے گھر کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے جانتا ہو گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہر شخص کو اس کا جہنم کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر اس نے نافرمانی کی ہوتی (تو اس کا ٹھکانا وہ ہوتا) تا کہ وہ مزید شکر کرے ، اور (اسی طرح) جہنم میں داخل ہونے والے ہر شخص کا اس کو جنت کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا ، اگر اس نے اچھے عمل کیے ہوتے (تو اس کا ٹھکانا یہ ہوتا) تا کہ وہ اس کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت و جہنم کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا ، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا ، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا : جنت والو ! (اب) موت نام کی کوئی چیز نہیں ، جہنم والو ! (اب) موت کوئی نہیں ، جنتیوں کی فرحت میں ، جبکہ جہنمیوں کے حزن و ملال میں اضافہ ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ثوبان ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے حوض کا طول و عرض عدن اور بلقاء کے عمان کی درمیانی مسافت جتنا ہو گا ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ، اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے ، جس نے اس سے ایک بار پی لیا تو اس کے بعد وہ پیاسا نہیں ہو گا ، وہاں سب سے پہلے فقرا مہاجرین کا ورود ہو گا ان کے سر کے بال بکھرے ہوں گے ، کپڑے میلے ہوں گے ، یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ناز و نعمت والی عورتوں سے نکاح کیا ہو گا نہ ان کے لیے دروازے کھولے جاتے تھے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو لوگ حوض پر میرے پاس آئیں گے تم ان کا لاکھواں حصہ ہو ۔‘‘ (زید بن ارقم ؓ سے) پوچھا گیا : اس روز تم کتنے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : سات سو یا آٹھ سو ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر نبی کے لیے ایک حوض ہے ، اور وہ اس بات پر باہم فخر کریں گے کہ ان میں سے کس کے پاس زیادہ پینے والے آتے ہیں ، میں امید کرتا ہوں کہ ان سب میں سے میرے پاس آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ سے درخواست کی ، روزِ قیامت وہ میری سفارش فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں کر دوں گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! (سفارش کے لیے) میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اگر میں پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ کروں (تو پھر) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر مجھے میزان کے پاس تلاش کرنا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر میں میزان کے پاس آپ کو نہ پاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ حوض کے پاس تلاش کرنا ، کیونکہ میں ان تین جگہوں کے علاوہ کہیں نہیں ہوں گا ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔