Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ﷺ کی بعثت اور نزولِ وحی کا بیان

بَاب المبعث وبدء الْوَحْي

15 Hadiths Found
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا ، آپ (نبوت کے) تیرہ سال مکے میں رہے اور آپ پر وحی آتی رہی ، پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو آپ نے ہجرت کے دس سال (مدینے میں) قیام فرمایا ، اور آپ نے تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5837
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ مکہ میں پندرہ برس رہے ، آپ سات سال تک آواز سنتے اور روشنی دیکھتے رہے ، اور (اس کے علاوہ) آپ کوئی چیز نہیں دیکھتے تھے ، اور آٹھ سال آپ کی طرف وحی آتی رہی ، آپ نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا : اور پینسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5838
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ساٹھ سال مکمل ہونے پر وفات دی ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5839
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کی جب روح قبض کی گئی تو اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی ، ابوبکر اور عمر ؓ کی بھی روح جب قبض کی گئی تو اس وقت ان کی عمریں بھی تریسٹھ برس کی تھیں ۔ رواہ مسلم ۔ محمد بن اسماعیل امام بخاری ؒ نے فرمایا : تریسٹھ برس کی عمر کے متعلق روایات زیادہ ہیں ۔

Haidth Number: 5840

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إليهِ الخَلاءُ وكانَ يَخْلُو بغارِ حِراءٍ فيتحنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ - قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدَ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدَ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقَالَ: «مَا أَنَا بِقَارِئٍ» . قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجهد ثمَّ أَرْسلنِي فَقَالَ: [اقرَأْ باسمِ ربِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لم يعلم] . فَرجع بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لخديجةَ وأخبرَها الخبرَ: «لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وتقْرِي الضيفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ ابْنِ عَمِّ خَدِيجَةَ. فَقَالَتْ لَهُ: يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى. فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا هُوَ النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ؟» قَالَ: نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرُكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوَفِّيَ وَفَتَرَ الوحيُ. مُتَّفق عَلَيْهِ

عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز سچے و پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا ، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح (سچا) ثابت ہو جاتا ، پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے ، آپ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے ، آپ اپنے اہل خانہ کے پاس آنے سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے ، ان ایام کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جایا کرتے تھے ، پھر آپ ﷺ خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی مدت کے لیے پھر زادِراہ ساتھ لے جاتے تھے ، حتی کہ آپ غارِ حرا ہی میں تھے کہ آپ پر حق (وحی) آ گیا ، فرشتہ (جبریل ؑ) آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا پڑھیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں قاری نہیں (پڑھنا نہیں جانتا) ہوں ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس نے مجھے پکڑا اور اتنی شدت سے دبایا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ اس نے مجھے پکڑ کر دوسری مرتبہ خوب دبایا ، مجھے اس بار بھی کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ، اس نے مجھے تیسری مرتبہ دبایا اس بار بھی مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا ، پڑھیے ، آپ کا رب بہت ہی کرم کرنے والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے بعد واپس ہوئے اور آپ ﷺ کا دل (خوف کی وجہ سے) دھڑک رہا تھا ، آپ خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا :’’ مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، انہوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا حتی کہ آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ ؓ سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا :’’ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے ۔‘‘ خدیجہ ؓ نے عرض کیا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، راست گو ہیں ، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کے لیے کماتے ہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ، اور مصیبت زدہ افراد کی اعانت کرتے ہیں ، پھر خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، انہوں نے ان سے کہا : میرے چچا کے بیٹے !اپنے بھتیجے کی بات سنیں ، ورقہ نے آپ سے کہا : بھتیجے ! آپ کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے جو دیکھا تھا وہ کچھ اسے بتا دیا ، ورقہ نے کہا : یہ تو وہی ناموس ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا ، کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں جب کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پا لیا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا ، پھر ورقہ جلد ہی وفات پا گئے اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5841
اور امام بخاری ؒ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے : حتی کہ نبی ﷺ غمگین ہو گئے ، ہمیں جو روایات پہنچی ہیں ، ان کے مطابق یہ ہے کہ آپ ﷺ شدید غمگین ہو گئے ، کئی دفعہ ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا لیں ، وہ جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اپنے آپ کو گرانے لگتے تو جبریل ؑ آپ کے سامنے آ جاتے اور کہتے : محمد ! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، اس سے آپ کا قلبی اضطراب ختم ہو جاتا اور آپ ﷺ سکون محسوس کرتے ۔ رواہ البخاری ۔

Haidth Number: 5842
جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو وحی کے رک جانے کے زمانے کے متعلق حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، فرمایا :’’ اس اثنا میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو میں نے آسمان میں ایک آواز سنی ، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا ، آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ، میں اس کے رعب سے خوف زدہ ہوا اور زمین پر گر پڑا ، اس کے بعد میں اپنے اہل خانہ کے پاس آ گیا ، اور میں نے کہا : مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ کمبل اوڑھ کر لیٹنے والے ! اٹھ جائیں اور لوگوں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرائیں ، اپنے رب کی بڑائی بیان کریں ، اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی سے دور رہیں ۔‘‘ پھر وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5843
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرتے ہوئے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی سی آواز کی صورت میں آتی ہے ، اور وہ مجھ پر نہایت سخت ہوتی ہے ، اور اس سے پسینہ جاری ہو جاتا ہے ، اور جو وہ کہتا ہے ، میں اسے یاد کر لیتا ہوں ، اور کبھی فرشتہ آدمی کی شکل میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے ، وہ جو کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں ۔‘‘ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ شدید سردی کے دن آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سے پسینے پھوٹ پڑتے اور آپ کی پیشانی پسینے سے شرابور ہو جاتی ۔ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5844
عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو اس وجہ سے آپ کرب محسوس کرتے اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ کا سر جھک جاتا ، اور آپ کے صحابہ اپنے سر جھکا لیتے تھے ، اور جب وحی ختم ہو جاتی تو آپ اپنا سر اٹھا لیتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5845
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب یہ آیت :’’ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور صفا پر چڑھ کر آواز دینے لگے :’’ بنو فہر ! بنو عدی !‘‘ آپ نے قریش کے قبیلوں کو آواز دی ، حتی کہ وہ سب جمع ہو گئے ، اگر کوئی آدمی خود نہیں آ سکتا تھا تو اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تھا تا کہ وہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے ، چنانچہ ابو لہب اور قریشی بھی آ گئے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے بتاؤ ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آنے والا ہے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اس وادی کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے ، کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ، کیونکہ ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں سخت عذاب سے ، جو تمہارے سامنے آ رہا ہے ، تمہیں ڈراتا ہوں ۔‘‘ ابولہب بول اٹھا ، (نعوذ باللہ) تم ہلاک ہو جاؤ ، تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی :’’ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5846

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْكَعْبَةِ وَجُمِعَ قُرَيْشٌ فِي مَجَالِسِهِمْ إِذْ قَالَ قَائِلٌ: أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى جَزُورِ آلِ فُلَانٍ فَيَعْمِدُ إِلَى فَرْثِهَا وَدَمِهَا وَسَلَاهَا ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى إِذَا سَجَدَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا فَضَحِكُوا حَتَّى مَالَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنَ الضَّحِكِ فَانْطَلَقَ مُنْطَلِقٌ إِلَى فَاطِمَةَ فَأَقْبَلَتْ تَسْعَى وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا حَتَّى أَلْقَتْهُ عَنْهُ وَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَسُبُّهُمْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ» ثَلَاثًا - وَكَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلَاثًا وَإِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلَاثًا -: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَام وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بن الْوَلِيد» . قَالَ عبد الله: فو الله لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القليب لعنة» . مُتَّفق عَلَيْهِ

عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں اس اثنا میں کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے جبکہ قریشی اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا : تم میں سے کون فلاں قبیلے کے ذبح کیے ہوئے اونٹوں کے پاس جائے اور وہ وہاں سے اس کا گوبر ، خون اور پوست اٹھا لائے ، پھر وہ انتظار کرے اور جب وہ سجدے میں جائیں تو وہ ان چیزوں کو ان کی گردن پر رکھ دے ؟ چنانچہ ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا ، (اور وہ سب چیزیں لے آیا) جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو اس نے وہ چیزیں آپ کی گردن پر رکھ دیں ، نبی ﷺ سجدے ہی کی حالت میں رہے ، وہ (مشرکین) دیکھ کر ہنس رہے تھے اور ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ، چنانچہ ایک شخص فاطمہ ؓ کے پاس گیا (اور انہیں بتایا) تو وہ دوڑتی ہوئی تشریف لائیں ، نبی ﷺ سجدے ہی کی حالت میں تھے فاطمہ ؓ نے اس (غلاظت) کو آپ سے اتار پھینکا ، اور انہیں برا بھلا کہا ، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ، اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ، اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ۔‘‘ تین بار فرمایا ، اور آپ کا معمول تھا کہ جب آپ دعا کرتے تو تین بار دعا کرتے تھے ، اور جب (اللہ سے) کوئی چیز طلب فرماتے تو تین بار طلب فرماتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! عمرو بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ لے ۔‘‘ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! بدر کے دن میں نے ان سب کو مقتول پایا ، پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قلیب والوں پر لعنت برسا دی گئی ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5847

وَعَن عَائِشَة أَنَّهَا قَالَت: هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ فَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عرضتُ نَفسِي على ابْن عبد يَا لِيل بْنِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ - وَأَنا مهموم - على وَجْهي فَلم أفق إِلَّا فِي قرن الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ . قَالَ: فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرك إِن شِئْت أطبق عَلَيْهِم الأخشبين فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئا» . مُتَّفق عَلَيْهِ

عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن گزرا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے تمہاری قوم کی طرف سے بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے ، لیکن عقبہ کے دن مجھے ان کی طرف سے بہت تکلیف پہنچی ہے ، جب میں نے ابن عبد یا لیل بن کلال پر دعوت پیش کی اور اس نے میری دعوت قبول نہ کی ، میں حیران و پریشان واپس چل پڑا ، مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کس سمت چل رہا ہوں ، قرن ثعالب پر پہنچ کر مجھے کچھ پتہ چلا ، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے ، اس میں جبرائیل ؑ ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی ، اور کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی بات اور ان کا جواب سن لیا ہے ، اور اس نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ ان کے متعلق جو چاہیں حکم فرمائیں ۔‘‘ فرمایا :’’ پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی ، اس نے مجھے سلام کہہ کر عرض کیا ، محمد ! اللہ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے ، اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ، آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں ، اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ لا کر ان پر ملا دوں ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کے صلب سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5848
انس ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ احد میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے اور آپ کا سر مبارک زخمی کر دیا گیا ، آپ ﷺ خون صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کر دیا اور اس کے سامنے کے چار دانت شہید کر دیے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5849
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ اس قوم پر سخت ناراض ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔‘‘ اور اس سے آپ کا اشارہ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف تھا ’’ اور ایسے شخص پر بھی اللہ کا غضب شدید ہوتا ہے جسے اللہ کا رسول اللہ کی راہ میں قتل کر دے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5850

عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نزل من الْقُرْآن؟ قَالَ: [يَا أَيهَا المدثر] قلت: يَقُولُونَ: [اقْرَأ باسم ربِّك] قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ ذَلِكَ. وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ لِي. فَقَالَ لِي جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا بِمَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي وصبُّوا عليَّ مَاء بَارِدًا فَنزلت: [يَا أَيهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرجز فاهجر] وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ

یحیی بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں ، میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے پوچھا : قرآن کا کون سا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا ؟ انہوں نے کہا : (یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ) میں نے کہا : وہ (بعض علما) کہتے ہیں : (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ) ابوسلمہ نے فرمایا : میں نے جابر سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا ، اور میں نے بھی ان سے اسی طرح کہا تھا جس طرح تم نے مجھے کہا ہے ، تو جابر ؓ نے مجھے بتایا کہ میں تمہیں وہی کچھ بیان کر رہا ہوں جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے حرا میں ایک ماہ خلوت اختیار کی ، جب میں نے اپنی خلوت پوری کر لی ، تو میں نیچے اتر آیا ، مجھے آواز دی گئی ، میں نے اپنے دائیں دیکھا تو مجھے کوئی چیز نظر نہ آئی ، میں نے اپنے بائیں دیکھا تو مجھے کچھ نظر نہ آیا ، میں نے اپنے پیچھے دیکھا تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی ، میں نے اوپر دیکھا تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی ، پھر میں خدیجہ ؓ کے پاس آ گیا تو میں نے کہا : مجھے چادر اوڑھا دو ، انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی ، اور انہوں نے مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا ، اور پھر مجھ پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (جس کا ترجمہ اس طرح ہے) ’’ اے چادر اوڑھنے والے ! کھڑے ہو جائیں ، اور ڈرائیں ، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں ، اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھیں اور شرک سے کنارہ کشی اختیار کریں ۔‘‘ اور یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5851