انس ؓ سے روایت ہے کہ اُسید بن حضیر اور عبادہ بن بشیر ؓ اپنے کسی مسئلہ کے بارے میں نبی ﷺ سے گفتگو کرتے رہے حتیٰ کہ شدید تاریک رات میں رات کا کافی حصہ گزر گیا ، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے ، ہر ایک کے ہاتھ میں چھوٹی سی لاٹھی تھی ، چنانچہ ان دونوں میں سے ایک کی لاٹھی نے روشنی پیدا کر دی حتیٰ کہ وہ اس کی روشنی میں چلنے لگے ، لیکن جب ان دونوں کی راہیں الگ الگ ہوئیں تو دوسرے کے لیے اس کی لاٹھی نے روشنی پیدا کر دی ، دونوں میں ہر ایک اپنی لاٹھی کی روشنی میں چلنے لگا حتیٰ کہ وہ اپنے گھر پہنچ گیا ۔ رواہ البخاری ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب غزوۂ احد کا وقت آیا تو رات کے وقت میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا : میں اپنے متعلق سمجھتا ہوں کہ نبی ﷺ کے صحابہ ؓ میں سے سب سے پہلے میں شہید ہوں گا ، رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کے علاوہ میں اپنے بعد تجھ سے زیادہ عزیز شخص کوئی نہیں چھوڑ کر جا رہا ، میرے ذمے کچھ قرض ہے اسے ادا کرنا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، صبح ہوئی تو وہ پہلے شہید تھے ، میں نے انہیں ایک دوسرے شخص کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا ۔ رواہ البخاری ۔
عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے کو ساتھ لے جائے ، جس شخص کے پاس چار افراد کا کھانا ہو تو وہ پانچویں کو یا چھٹے کو ساتھ لے جائے ۔‘‘ اور ابوبکر ؓ تین کو ساتھ لے کر آئے ، نبی ﷺ دس کو ساتھ لے کر گئے ، ابوبکر ؓ نے شام کا کھانا نبی ﷺ کے ہاں کھایا ، پھر وہیں ٹھہر گئے حتیٰ کہ نماز عشاء پڑھ لی گئی ، پھر واپس تشریف لے آئے اور وہیں ٹھہر گئے حتیٰ کہ نبی ﷺ نے کھانا کھایا ، پھر جتنا اللہ نے چاہا رات کا حصہ گزر گیا تو وہ واپس اپنے گھر چلے گئے ، ان کی اہلیہ نے ان سے کہا : آپ کو آپ کے مہمانوں کے ساتھ آنے سے کس نے روکا تھا ؟ انہوں نے پوچھا : کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا ؟ انہوں نے عرض کیا : انہوں نے انکار کر دیا حتیٰ کہ آپ تشریف لے آئیں ، وہ ناراض ہو گئے اور کہا : اللہ کی قسم ! میں بالکل کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ عورت نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اسے نہیں کھائے گی اور مہمانوں نے بھی قسم اٹھا لی کہ وہ بھی کھانا نہیں کھائیں گے ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا : یہ (حلف اٹھانا) شیطان کی طرف سے تھا ۔ انہوں نے کھانا منگایا ، خود کھایا اور ان کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا ، وہ لقمہ اٹھاتے تو اس کے نیچے سے اور زیادہ ہو جاتا تھا ، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا : بنو فراس کی بہن ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے کہا : میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم ! یہ اب پہلے سے بھی تین گنا زیادہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے کھایا اور اسے نبی ﷺ کی خدمت میں بھی بھیجا ، بیان کیا گیا کہ آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا ۔ متفق علیہ ۔
اور عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث ((کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیْحَ الطَّعَامِ)) باب المعجزات میں گزر چکی ہے ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا : معلوم نہیں کہ جس طرح ہم اپنے فوت ہونے والے دیگر افراد کے (بوقت غسل) کپڑے اتار دیتے تھے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے بھی کپڑے اتار دیں یا ہم کپڑوں سمیت غسل دیں ، جب انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ نے ان پر نیند طاری کر دی حتیٰ کہ ان میں سے ہر شخص کی تھوڑی اس کے سینے کے ساتھ لگنے لگی ۔ پھر گھر کے ایک کونے سے کسی نے ان سے بات کی مگر صحابہ کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا ، (اس نے کہا) نبی ﷺ کو کپڑوں سمیت غسل دو ، وہ کھڑے ہوئے اور آپ کو اس طرح غسل دیا کہ آپ کی قمیص آپ پر تھی ، وہ قمیص کے اوپر پانی گراتے تھے اور آپ کی قمیص کے ساتھ ملتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
ابن منکدر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام سفینہ ؓ سرزمین روم میں لشکر سے بچھڑ گئے ، یا انہیں قید کر لیا گیا ، وہ لشکر کی تلاش میں دوڑنے لگے تو اچانک شیر سے سامنا ہو گیا ، انہوں نے فرمایا : ابو الحارث (شیر کی کنیت) ! میں رسول اللہ ﷺ کا آزاد کردہ غلام ہوں ، میرے ساتھ یہ یہ مسئلہ بنا ہے ، شیر دم ہلاتا ہوا آپ کے سامنے آیا ، حتیٰ کہ وہ آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا ، جب وہ کہیں سے (خوفناک) آواز سنتا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ، پھر وہ ان کی طرف آ جاتا حتیٰ کہ وہ لشکر کے ساتھ جا ملے پھر شیر واپس چلا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابو الجوزاء بیان کرتے ہیں ، مدینہ والے شدید قحط کا شکار ہو گئے تو انہوں نے عائشہ ؓ سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا : نبی ﷺ کی قبر کی طرف دیکھو (جاؤ) اور اس میں سے آسمان کی طرف کچھ سوراخ بنا دو حتیٰ کہ ان پر کوئی پردہ نہ ہو ، انہوں نے ایسے ہی کیا تو ان پر خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ گھاس اگ آئی اونٹ اس قدر فربہ ہو گئے کہ وہ چربی سے پھول گئے اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
سعید بن عبد العزیز بیان کرتے ہیں ، جب حرا کا واقعہ ہوا تو نبی ﷺ کی مسجد میں تین روز تک اذان ہوئی نہ نماز اور نہ ہی سعید بن مسیّب مسجد سے باہر نکل سکے ، انہیں نماز کا وقت ، نبی ﷺ کی قبر مبارک سے آنے والی مبہم سی آواز سے معلوم ہوتا تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
ابو خلدہ بیان کرتے ہیں ، میں نے ابو العالیہ سے کہا ، کیا انس ؓ نے نبی ﷺ سے احادیث سنی ہیں ؟ انہوں نے کہا : انہوں نے آپ ﷺ کی دس سال خدمت کی ہے اور نبی ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی جس کی وجہ سے ان کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیا کرتا تھا ، اور اس میں کستوری جیسی خوشبو آتی تھی ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے متعلق ارویٰ بنت اوس نے مروان بن حکم کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری کچھ زمین حاصل کر لی ہے ، سعید ؓ نے جواب دیا : کیا میں رسول اللہ ﷺ سے حدیث سن لینے کے بعد بھی ان کی زمین کے کچھ حصہ پر قبضہ کروں گا ؟ مروان نے کہا : تم نے رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے بالشت بھر زمین ناحق حاصل کی تو اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ۔‘‘ تب مروان نے کہا : اس کے بعد میں آپ سے کوئی ثبوت نہیں مانگتا ۔ سعید نے دعا فرمائی : اے اللہ ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے اندھی بنا دے اور اسے اس کی زمین میں موت دے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، جب وہ فوت ہوئی تو وہ اندھی ہو چکی تھی اور وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گری اور فوت ہو گئی ۔
اور صحیح مسلم میں محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر سے اس کے ہم معنی روایت ہے کہ انہوں نے اسے بینائی سے محروم دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے دیکھا ، اور وہ کہتی تھی : مجھے سعید کی بددعا لگ گئی اور وہ گھر کے اس کنویں کے پاس سے گزری جس کے متعلق اس نے ان (سعید ؓ) سے مقدمہ کیا تھا ، وہ اس میں گری اور وہی اس کی قبر بنی ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ عمر ؓ نے ایک لشکر روانہ کیا ، اور ساریہ نامی شخص کو اس کا امیر مقرر کیا ، اس اثنا میں کہ عمر ؓ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ زور سے کہنے لگے : ساریہ ! پہاڑ کی طرف ، پھر لشکر کی طرف سے ایک قاصد آیا تو اس نے کہا : امیر المومنین ! ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست سے دوچار کر دیا تھا مگر اچانک کسی نے زور سے آواز دی : ساریہ ! پہاڑ کو نہ چھوڑو ۔ ہم نے اپنی پشتیں پہاڑ کی جانب کر لیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
نُبیہہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب ، عائشہ ؓ کے پاس گئے ، اہل مجلس نے رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ کیا ، تو کعب نے فرمایا : ہر روز ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں ، وہ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ، جب شام ہوتی ہے تو وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں ، اور اتنے ہی فرشتے اور اتر آتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کرتے ہیں ، حتیٰ کہ جب (روز قیامت) آپ ﷺ اپنی قبر مبارک سے نکلیں گے تو آپ ستر ہزار فرشتوں کی معیت میں ہوں گے وہ آپ کو لے کر جلدی بھاگیں گے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔