ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی ﷺ بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے تو آپ نے اس کے تمام اطراف میں دعا فرمائی لیکن آپ نے نماز نہیں پڑھی حتیٰ کہ آپ وہاں سے باہر تشریف لے آئے ، پس جب باہر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے کعبہ کے سامنے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا :’’ یہ (کعبہ) قبلہ ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، اسامہ بن زید ، عثمان بن طلحہ حجبی اور بلال بن رباح رضی اللہ عنہم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو عثمان نے بیت اللہ کا دروازہ بند کر دیا ، آپ ﷺ تھوڑی دیر کے لیے وہاں ٹھہرے ، اور جب باہر تشریف لائے تو میں نے بلال ؓ سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے (اندر) کیا کیا ؟ انہوں نے فرمایا : آپ نے ایک ستون اپنے بائیں ، دو ستون اپنے دائیں اور تین ستون اپنے پیچھے کر لیے ، ان دنوں بیت اللہ چھ ستونوں پر تھا ، پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز ، مسجد حرام کے علاوہ ، دیگر مساجد کی ہزار نماز سے بہتر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین مساجد ، مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد ، کے سوا کسی اور مسجد کے لیے رخت سفر نہ باندھا جائے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتےہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کا باغیچہ ہے ، اور میرا منبر میرے حوض (کوثر) پر ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص صبح و شام جتنی مرتبہ مسجد میں جاتا ہے ، اللہ اس کے لیے اتنی مرتبہ ہی جنت میں ضیافت کا اہتمام فرماتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص جتنی دور سے چل کر نماز پڑھنے آتا ہے تو وہ اسی قدر زیادہ اجر حاصل کرتا ہے ، اور جو شخص نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو وہ اس شخص سے زیادہ اجر حاصل کرتا ہے جو اکیلا نماز پڑھ کر سو جاتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، مسجد (نبوی) کے آس پاس کچھ اراضی خالی ہوئی تو بنوسلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ، نبی ﷺ کو پتہ چلا تو آپ نے انہیں فرمایا :’’ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم مسجد کے قریب آنا چاہتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کے رسول ! ہمارا ارادہ تو یہی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بنوسلمہ ! اپنے گھروں ہی میں رہو ، تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں ، اپنے گھروں ہی میں رہو ، تمہارے (مسجد کی طرف اٹھنے والے) قدم لکھے جاتے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جس روز اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا : عادل حکمران ، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ، وہ آدمی جس کا دل مسجد کے ساتھ معلق ہے ، جب مسجد سے نکلتا ہے (تو وہ مسجد سے لاتعلق نہیں رہتا) حتیٰ کہ وہ وہاں لوٹ جاتا ہے ، وہ دو آدمی جو اللہ کی رضا کی خاطر باہم محبت کرتے ہیں ، اسی بنیاد پر اکٹھے ہوتے ہیں ، اور اگر جدا ہوتے ہیں تو بھی اس محبت پر قائم رہتے ہیں ، وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ، وہ آدمی جسے حسب و جمال والی دوشیزہ نے (برائی کی) دعوت دی تو اس نے کہا : میں اللہ سے ڈرتا ہوں ! اور وہ آدمی جس نے جو صدقہ کیا ، اس نے اسے اس قدر مخفی رکھا حتیٰ کہ اس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آدمی جو نماز با جماعت ادا کرتا ہے ، اس کی وہ نماز اس کے گھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے ، پچیس گنا زیادہ اجر و ثواب رکھتی ہے ، وہ اس لیے کہ جب وہ وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے اور پھر وہ محض نماز ادا کرنے کے لیے روانہ ہوتا ہے تو اس کے ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے ، پس جب وہ نماز پڑھ کر اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں : اے اللہ ! اس پر رحمتیں نازل فرما ، اے اللہ ! اس پر رحم فرما ، اور جب کوئی شخص نماز کے انتظار میں رہتا ہے تو وہ (حکم و ثواب کے لحاظ سے) نماز میں ہوتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور ایک روایت میں ہے ، فرمایا :’’ جب وہ مسجد میں آئے اور نماز اسے (مسجد میں) روکے رکھے ۔‘‘ امام مسلم ؒ نے فرشتوں کی دعا میں یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ اے اللہ ! اسے بخش دے ، اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما ، اور جب تک وہ کسی کو تکلیف پہنچائے نہ اس کا وضو ٹوٹے تو فرشتوں کی دعا کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔‘‘
ابواسید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ یہ دعا پڑھے :’’ اے اللہ ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ، اور جب وہ مسجد سے باہر آئے تو یہ دعا پڑھے :’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ چاشت کے وقت سفر سے (مدینہ) واپس آیا کرتے تھے ، جب آپ واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور وہاں دو رکعتیں پڑھتے پھر وہاں بیٹھ جاتے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص ، کسی آدمی کو گمشدہ جانور (یا کوئی بھی چیز ) کے متعلق مسجد میں اعلان کرتے سنے ، تو وہ شخص کہے : اللہ تمہاری وہ چیز تمہیں واپس نہ لوٹائے ، کیونکہ مسجدیں اس لیے تو نہیں بنائی گئیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اس بدبودار پودے (پیاز ، لہسن وغیرہ) سے کچھ کھا لے تو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے ، کیونکہ فرشتے اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ، جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کے اچھے برے تمام اعمال مجھ پر پیش کیے گئے ، میں نے ، راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ، اس کے محاسن اعمال میں پایا ، اور وہ تھوک جو مسجد میں ہو اور اسے صاف نہ کیا جائے تو میں نے اسے اس کے برے اعمال میں پایا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اپنے سامنے نہ تھوکے ، کیونکہ وہ جب تک نماز میں ہوتا ہے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے ، اور وہ اپنی دائیں طرف بھی نہ تھوکے کیونکہ اس کے دائیں جانب فرشتہ ہے ، اور (اگر ضرورت ہو تو ) اپنی بائیں جانب یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے اور اسے دفن کر دے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس مرض کے دوران ، جس سے آپ ﷺ صحت یاب نہ ہو سکے ، فرمایا :’’ اللہ یہودو نصاریٰ پر لعنت فرمائے ، انہوں نے اپنے انبیا علیم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ سن لو ! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیا علیہم السلام اور اپنے صالح افراد کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے ، خبردار ! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا ، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
طلق بن علی ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم وفد کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے تو ہم نے آپ کی بیعت کی ، آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کو بتایا ہمارے ملک میں ہمارا ایک گرجا ہے ، آپ ہمیں اپنے وضو سے بچا ہوا پانی عنایت فرما دیں ، چنانچہ آپ ﷺ نے پانی منگایا ، وضو کیا اور کلی کی ، پھر اسے ہمارے لیے ایک برتن میں ڈال دیا ، اور ہمیں جانے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا :’’ جب تم اپنی سر زمین پر پہنچو تو اپنے گرجے کو توڑ دو ، اس جگہ پر یہ پانی چھڑکو اور وہاں مسجد بناؤ ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : ہمارا ملک دور ہے جبکہ گرمی شدید ہے ، اس لیے یہ پانی تو خشک ہو جائے گا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس میں اور پانی ملا لینا کیونکہ اس سے اس کی برکت مزید بڑھ جائے گی ۔‘‘ صحیح ، رواہ النسائی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے مساجد کو چونا گچ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔‘‘ ابن عباس ؓ نے فرمایا : تم انہیں اس طرح مزین کرو گے جیسے یہودو نصاریٰ نے مزین کیا ۔ ضعیف ۔