سالم بن ابی جعد ؒ بیان کرتے ہیں ، خزاعہ قبیلے کے ایک آدمی نے کہا : کاش میں نماز پڑھ کر راحت حاصل کرتا ، گویا انہوں (یعنی حاضرین مجلس) نے اس کی اس بات کو معیوب جانا ، (اس پر) انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بلال ! نماز کے لیے اقامت کہو اور اس کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے ، جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے تو وہ اس کی نماز کو وتر (طاق) بنا دے گی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ تیرہ رکعت نماز تہجد پڑھا کرتے تھے ، ان میں سے پانچ وتر پڑھتے اور تشہد کے لیے صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
سعد بن ہشام ؓ بیان کرتے ہیں ، میں عائشہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا ، ام المومنین ! رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے متعلق مجھے بتائیں ، انہوں نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ، ضرور پڑھتا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا : نبی ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تھا ، میں نے عرض کیا ، ام المومنین ! رسول اللہ ﷺ کے وتر کے متعلق مجھے بتائیں ، انہوں نے فرمایا : ہم آپ ﷺ کے لیے آپ کی مسواک اور وضو کے پانی کا انتظام کرتے ، پھر جب اللہ چاہتا تو آپ کو رات کے وقت جگا دیتا ، آپ مسواک کرتے اور وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے اور آپ صرف آٹھویں رکعت میں (تشہد) بیٹھتے تھے ، آپ ﷺ اللہ کا ذکر کرتے ، اس کی حمد بیان کرتے اور اس سے دعا کرتے ، پھر آپ سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھتے ، پھر بیٹھ جاتے ، اللہ کا ذکر کرتے ، اس کی حمد بیان کرتے اور اس سے دعا کرتے پھر سلام پھیرتے تو ہمیں سناتے ، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے ، بیٹا ! یہ گیارہ رکعتیں ہوئیں ، جب آپ ﷺ بوڑھے ہو گئے اور جسم بھاری ہو گیا تو آپ نے سات رکعتیں وتر پڑھے ، اور دو رکعتیں ویسے ہی (بیٹھ کر) پڑھیں جیسے (بوڑھے ہونے سے) پہلے پڑھتے تھے ، پس بیٹا ! یہ نو ہو گئیں ، اور جب نبی ﷺ نماز پڑھتے تو اس پر دوام اختیار کرنا آپ کو بہت پسند تھا ، اور جب کبھی نیند کے غلبے یا کسی تکلیف کی وجہ سے نماز تہجد نہ پڑھتے تو پھر آپ دن کے وقت بارہ رکعتیں پڑھتے تھے ، اور میں نہیں جانتی کہ نبی ﷺ نے ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو ، یا آپ نے پوری رات تہجد پڑھی ہو یا آپ ﷺ نے رمضان کے علاوہ پورا مہینہ روزے رکھے ہوں ۔ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کو اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ رات کے اول حصے میں وتر پڑھ لے ، اور جسے رات کے آخری حصے میں جاگنے کی امید ہو تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے ، کیونکہ رات کے آخری حصے میں پڑھی جانے والی نماز کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، اور یہ افضل ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے رات کے تمام اوقات میں وتر پڑھے ہیں ، رات کے اول حصے میں ، اس کے وسط میں ، اس کے آخری حصے میں اور آخری دور میں آپ کی نماز وتر سحری (آخر شب) کے وقت ہوتی تھی ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میرے خلیل ﷺ نے مجھے تین کاموں کا حکم فرمایا ، ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنے ، چاشت کی دو رکعتیں پڑھنے اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کا حکم فرمایا ۔ متفق علیہ ۔
غضیف بن حارث ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عائشہ ؓ سے عرض کیا ، مجھے بتائیں ، رسول اللہ ﷺ غسل جنابت رات کے اول حصے میں کرتے تھے یا رات کے آخری حصے میں ؟ انہوں نے فرمایا : کبھی رات کے پہلے حصے میں غسل کیا اور کبھی رات کے پچھلے حصے میں ، میں نے کہا : اللہ اکبر ، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے دین میں وسعت رکھی ، میں نے پوچھا : آپ ﷺ رات کے اول حصے میں وتر پڑھا کرتے تھے یا رات کے آخری حصے میں ؟ انہوں نے فرمایا : آپ نے کبھی رات کے اول حصے میں وتر پڑھے اور کبھی رات کے آخری حصے میں ، میں نے کہا : اللہ اکبر ، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے دین میں وسعت رکھی ، میں نے پوچھا : آپ ﷺ (نماز تہجد میں) بلند آواز سے قراءت کرتے تھے یا پست آواز سے ؟ انہوں نے فرمایا ، کبھی بلند آواز سے اور کبھی پست آواز سے ، میں نے کہا : اللہ اکبر ، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے دین میں وسعت رکھی ۔‘‘ ابوداؤد ، اور ابن ماجہ نے آخری بات روایت کی ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و النسائی ۔
عبداللہ بن ابی قیس ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے عائشہ ؓ سے دریافت کیا ، رسول اللہ ﷺ کتنی رکعتیں وتر پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : چار اور تین (سات)، چھ اور تین (نو)، آٹھ اور تین (گیارہ) اور دس اور تین (تیرہ) رکعت وتر پڑھا کرتے تھے ، آپ سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھا کرتے تھے ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوایوب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وتر ہر مسلمان پر واجب ہے ، جسے پسند ہو کہ وہ پانچ وتر پڑھے تو وہ پانچ پڑھے ، جو تین پڑھنا پسند کرے تو وہ تین پڑھے اور جسے ایک وتر پڑھنا پسند ہو تو وہ ایک پڑھے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ وتر (اپنی ذات و صفات میں یکتا) ہے ، وہ وتر کو پسند فرماتا ہے ، پس حاملین قرآن وتر پڑھا کرو ۔‘‘ ضعیف ۔
خارجہ بن حذافہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے فرمایا :’’ بے شک اللہ نے تمہیں ایک مزید نماز عطا فرمائی ہے اور وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ، اور وہ نماز وتر ہے جسے اللہ نے نماز عشاء اور طلوع فجر کے مابین پڑھنا مقرر کیا ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
عبدالعزیز بن جریج ؒ بیان کرتے ہیں ، ہم نے عائشہ ؓ سے دریافت کیا ، رسول اللہ ﷺ وتر میں کون سی سورتیں پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ پہلی رکعت میں ، الاعلی ، دوسری میں الکافرون اور تیسری میں الاخلاص اور معوذتین پڑھا کرتے تھے ۔ ضعیف ۔
حسن بن علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جن کو میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں ’’ اے اللہ ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ، اور مجھے بھی (ان لوگوں میں) عافیت عطا فرما جن کو تو نے عافیت عطا کی جن لوگوں کو تو نے اپنا دوست بنایا ہے ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے ، جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت ڈال دے ، جس شر کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے اس سے مجھے بچا لے ، بے شک تو ہی ہمارا فیصلہ صادر فرماتا ہے تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا ، اور جس کا تو والی و سر پرست بنا وہ کبھی رسوا نہیں ہو سکتا ، ہمارے رب ! تو بڑا ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ وتر پڑھ کر سلام پھیرتے تو آپ ﷺ فرماتے : ((سبحان الملک القدوس)) ’’ پاک ہے بادشاہ نہایت پاک ۔‘‘ ابوداؤد ، نسائی ، اور انہوں نے یہ اضافہ کیا ہے : تین مرتبہ لمبی آواز سے فرماتے ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
اور عبدالرحمن بن ابزیٰ عن ابیہ کی سند سے نسائی کی روایت میں ہے : جب آپ ﷺ سلام پھیرتے تو تین مرتبہ ((سبحان الملک القدوس)) فرماتے اور تیسری مرتبہ اپنی آواز بلند فرماتے ۔ صحیح ، رواہ النسائی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ وتر کے آخر پر یہ دعا کیا کرتے تھے :’’ اے اللہ ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضی سے ، تیرے درگزر کے ذریعے تیری سزا سے پناہ چاہتا ہوں ، میں تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، جیسے تو نے اپنی ذات کی ثنا فرمائی ہے ویسے میں کوشش کے باوجود تیری ثنا بیان نہیں کر سکتا ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا کیا امیر المومنین معاویہ ؓ کے بارے میں آپ کے پاس کوئی جواب یا فتویٰ ہے کہ وہ صرف ایک وتر پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : وہ درست ہیں کیونکہ وہ ایک فقیہ شخص ہیں ۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے : ابن ملیکہ ؒ نے فرمایا : معاویہ نے نماز عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھی ، اور ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام آپ کے پاس تھے ، انہوں نے ابن عباس ؓ کے پاس آ کر انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا : انہیں چھوڑ دو کیونکہ انہیں نبی ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کا شرف حاصل ہے ۔ رواہ البخاری ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ وتر حق (واجب) ہے ، جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ، وتر حق ہے ، پس جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ، وتر حق ہے پس جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص نیند یا بھول کی وجہ سے وتر نہ پڑھے تو جب اسے یاد آئے یا جب وہ بیدار ہو تو وتر پڑھ لے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
مالک ؒ کو روایت پہنچی کہ کسی شخص نے عبداللہ بن عمر ؓ سے وتر کے بارے میں دریافت کیا ، کیا وہ واجب ہے ؟ تو عبداللہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے وتر پڑھے اور مسلمانوں نے بھی وتر پڑھے ، وہ آدمی بار بار مجھ سے پوچھتا رہا اور عبداللہ ؓ یہی جواب دیتے رہے : رسول اللہ ﷺ نے وتر پڑھے اور مسلمانوں نے بھی وتر پڑھے ۔ ضعیف ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ تین وتر پڑھا کرتے تھے ، اور ان میں ہر رکعت میں تین سورتوں کے حساب سے مفصل سورتوں میں سے نو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور سب سے آخر پر سورۂ اخلاص پڑھا کرتے تھے ۔ ضعیف ۔
نافع ؒ بیان کرتے ہیں ، میں ابن عمر ؓ کے ساتھ مکہ میں تھا ، آسمان ابر آلود تھا ، انہوں نے صبح کے اندیشے کے پیش نظر ایک رکعت وتر پڑھا ، پھر جب موسم صاف ہو گیا تو انہوں نے دیکھا کہ ابھی تو رات باقی ہے ، تو انہوں نے ایک رکعت پڑھ کر نماز کو جفت بنا لیا ، پھر انہوں نے دو رکعتیں (تہجد) پڑھیں ، پھر جب صبح ہونے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھا ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔