عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے کسی شخص کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑا بطور سواری عطا کیا تو اس نے اسے ضائع کر دیا ، میں نے اسے خریدنا چاہا اور مجھے خیال ہوا کہ وہ اسے ارزاں نرخوں پر فروخت کر دے گا ، میں نے نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے خریدو ، نہ اپنا صدقہ واپس لو خواہ وہ اسے ایک درہم میں تمہیں عطا کرے ، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو اپنی قے چاٹ جاتا ہے ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ اپنا صدقہ واپس نہ لے ، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا ، اپنی قے چاٹنے والے کی طرح ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا جب ایک خاتون آپ کے پاس آئی ، اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی صدقہ کی تھی اور وہ (یعنی والدہ) وفات پا گئی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارا اجر واجب ہو گیا اور وہ بطور میراث تمہارے پاس واپس آ گئی ۔‘‘ اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اگر ایک ماہ کے روزے اس کے ذمے ہوں تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کی طرف سے روزے رکھو ۔‘‘ اس عورت نے عرض کیا : اس نے تو حج بھی نہیں کیا تھا ، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، اس کی طرف سے حج کرو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ، ان میں سے ایک دروازے کا نام ’’ الریان ‘‘ ہے ، اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص ایمان و اخلاص اور ثواب کی نیت سے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، جو شخص ایمان و اخلاص اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کرے (نماز تراویح کا اہتمام کرے) تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، اور جو شخص ایمان و اخلاص اور ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ابن آدم کے ہر نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : روزے کے سوا ، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ، وہ اپنی خواہش اور اپنے کھانے کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے ۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ، ایک فرحت و خوشی تو اس کے افطار کے وقت ہے جبکہ ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہے ، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے ، اور روزہ ڈھال ہے ، جس روز تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش گوئی اور ہذیان سے اجتناب کرے ، اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو وہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، جہنم کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا ، اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، اور منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے : خیرو بھلائی کے طالب ! آگے بڑھ ، اور شر کے طالب ! رک جا ، اور اللہ کے لیے جہنم سے آزاد کردہ لوگ ہیں ، اور ہر رات ایسے ہوتا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ماہ مبارک رمضان تمہارے پاس آیا ہے ، اللہ نے اس کا روزہ تم پر فرض کیا ہے ، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین بند کر دیے جاتے ہیں ، اس (ماہ) میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو شخص اس کی خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا تو وہ (ہر خیر و بھلائی سے) محروم کر دیا گیا ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و النسائی ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روزہ اور قرآن بندے کے لیے سفارش کریں گے ، روزہ عرض کرے گا ، رب جی ! میں نے دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے اسے روک رکھا ، اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن عرض کرے گا : میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکے رکھا ، اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما ، ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، رمضان آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ مہینہ جو تمہارے پاس آیا ہے اس میں ایک رات ہے جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اور جو شخص اس سے محروم کر دیا گیا تو وہ ہر قسم کی خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا اور اس کی خیر سے محروم شخص ہر قسم کی خیر و بھلائی سے محروم ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری روز ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’ لوگو ! ایک با برکت ماہ عظیم تم پر سایہ فگن ہوا ہے ، اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اللہ نے اس کا روزہ فرض اور رات کا قیام نفل قرار دیا ہے ، جس نے اس میں کوئی نفل کام کیا تو وہ اس کے علاوہ باقی مہینوں میں فرض ادا کرنے والے کی طرح ہے اور جس نے اس میں فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اس کے علاوہ مہینوں میں ستر فرض ادا کیے ، وہ ماہ صبر ہے جب کے صبر کا ثواب جنت ہے ، وہ غم گساری کا مہینہ ہے ، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ، جو اس میں کسی روزہ دار کو افطاری کرائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا اور جہنم سے آزادی کا سبب ہو گی اور اسے بھی اس (روزہ دار) کی مثل ثواب ملتا ہے اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔‘‘ ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم سب یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ہم روزہ دار کو افطاری کرائیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما دیتا ہے جو لسی ّ کے گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اور جو شخص کسی روزہ دار کو شکم سیر کر دیتا ہے تو اللہ اسے میرے حوض سے (پانی) پلائے گا تو اسے جنت میں داخل ہو جانے تک پیاس نہیں لگے گی اور وہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول (عشرہ) رحمت ، اس کا وسط مغفرت اور اس کا آخر جہنم سے خلاصی ہے ، اور جو شخص اس میں اپنے مملوک سے رعایت برتے گا تو اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے جہنم سے آزاد کر دے گا ۔‘‘ ضعیف ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جنت کو رمضان کے لیے پورا سال مزین کیا جاتا ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے جنت کے پتوں سے ہوا چلتی ہوئی حورعین تک پہنچتی ہے تو وہ کہتی ہیں : رب جی ! اپنے بندوں میں سے ہمارے شوہر بنا دے ، ہم ان سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں ۔‘‘ امام بیہقی نے تینوں احادیث شعب الایمان میں روایت کی ہیں ۔ ضعیف ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان کی آخری رات ان کی (یعنی میری) امت کو بخش دیا جاتا ہے ۔‘‘ عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ! کیا وہ شب قدر ہے ؟ فرمایا :’’ نہیں ، لیکن جب کام کرنے والا اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو اسے پورا پورا اجر دیا جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ۔