Blog
Books
Search Hadith

{وَمَنْ یُرِدْ فِیْہٖ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ} کی تفسیر

12 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان {وَمَنْ یُرِدْ فِیہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ} کے بارے میںکہتے ہیں: اگر کوئی آدمی حرم میں الحاد (ظلم) کا ارادہ کرتا ہے، جبکہ وہ عدن ابین میں ہو، تو اللہ تعالی اسے بھی درد ناک عذاب چکھائیں گے۔

Haidth Number: 8680

۔ (۱۱۰۹۰)۔ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ قَالَ: انْتَہَیْتُ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: بَیْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ یَضْرِبُ خِبَائَہُ، وَمِنَّا مَنْ ہُوَ فِی جَشَرِہِ، وَمِنَّا مَنْ یَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَی مُنَادِیہِ: الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ! قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَطَبَنَا فَقَالَ: ((إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ قَبْلِی إِلَّا دَلَّ أُمَّتَہُ عَلٰی مَا یَعْلَمُہُ خَیْرًا لَہُمْ، وَیُحَذِّرُہُمْ مَا یَعْلَمُہُ شَرًّا لَہُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ ہٰذِہِ جُعِلَتْ عَافِیَتُہَا فِی أَوَّلِہَا، وَإِنَّ آخِرَہَا سَیُصِیبُہُمْ بَلَائٌ شَدِیدٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَہَا، تَجِیئُ فِتَنٌ یُرَقِّقُ بَعْضُہَا لِبَعْضٍ، تَجِیئُ الْفِتْنَۃُ فَیَقُولُ الْمُؤْمِنُ: ہٰذِہِ مُہْلِکَتِی، ثُمَّ تَنْکَشِفُ، ثُمَّ تَجِیئُ الْفِتْنَۃُ فَیَقُولُ الْمُؤْمِنُ: ہٰذِہِ، ثُمَّ تَنْکَشِفُ، فَمَنْ سَرَّہُ مِنْکُمْ أَنْ یُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَأَنْ یُدْخَلَ الْجَنَّۃَ فَلْتُدْرِکْہُ مَوْتَتُہُ وَہُوَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَلْیَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِییُحِبُّ أَنْ یُؤْتٰی إِلَیْہِ، وَمَنْ بَایَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَیَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ، فَلْیُطِعْہُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَائَ آخَرُ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ۔)) قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِی مِنْ بَیْنِ النَّاسِ فَقُلْتُ أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ آنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی أُذُنَیْہِ فَقَالَ سَمِعَتْہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی، قَالَ: فَقُلْتُ: ہٰذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِیَۃُیَعْنِییَأْمُرُنَا بِأَکْلِ أَمْوَالِنَا بَیْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَأَنْ نَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} قَالَ: فَجَمَعَ یَدَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عَلٰی جَبْہَتِہِ، ثُمَّ نَکَسَ ہُنَیَّۃً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: أَطِعْہُ فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ وَاعْصِہِ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۶۵۰۳)

عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر نزول فرما ہوئے، ہم میں سے کوئی اپنا خیمہ نصب کرنے لگا، کوئی اپنے جانوروں کو کھول کر چرانے لگا، کوئی تیر اندازی کی مشق کرنے لگا۔ اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ نماز کھڑی ہونے والی ہے، ہم سب جمع ہو گئے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا: مجھ سے پہلے آنے والے ہر نبی نے اپنی امت کو ہر اس بات کی تعلیم دی جو وہ ان کے لیے بہتر سمجھتا تھا اور اس نے اپنی امت کو ہر اس بات سے ڈرایا جسے وہ ان کے لیے بری سمجھتا تھا تمہاری اس امت کے اولین حصے میں تو عافیت ہی عافیت رکھی گئی ہے۔ اور امت کے آخری حصے کو شدید مصائب اور تکالیف کا سامنا ہو گا ایسے ایسے فتنے اور مصیبتیں آئیں گی کہ بعد والے فتنے کی شدت پہلے فتنے کو ہلکا کر دے گی، کوئی فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا کہ یہ فتنہ تو مجھے تباہ کر دے گا، پھر وہ ٹل جائے گا، پھر اور فتنہ آئے گا تو مومن پھر وہی بات کہے گا پھر وہ بھی ٹل جائے گا تم میں سے جو کوئی چاہتا ہو کہ اسے جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے تو اسے موت اس حال میں آنی چاہیے کہ اللہ پر اور آخرت پر کما حقہ ایمان رکھتا ہو۔ اور وہ دوسروں کی طرف سے اپنے بارے میں جیسا رویہ پسند کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھے، اور جو کوئی کسی حاکم کی بیعت کر کے اس کے ساتھ وفا داری کا عہدوپیمان کر لے تو اسے چاہیے کہ حسبِ استطاعت اس کی مکمل اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا آدمی آکر اس حاکم کے ساتھ اختلاف کرے تو تم بعد والے کی گردن اڑادو۔ عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کا بیان ہے کہ میں نے ان کییہ باتیں سن کر اپنا سر لوگوں کے اندر داخل کر کے عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آیایہ باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ نے خود سنی ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میرے کانوں نے یہ باتیں سن کر اپنا سر لوگوں کے اندر داخل کر کے عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آیایہ باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ نے خود سنی ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میرے کانوں نے یہ باتیں سنیں اور میرے دل نے ان کو یاد رکھا ہے تو میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کا چچا زاد معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق کھالیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ}… ایمان والو تم آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق مت کھاؤ۔ ( سورۂ نسائ: ۲۹) تو سیدنا عبداللہ بن عمر و بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اکٹھا کر کے اپنی پیشانی پر رکھ سر کو کچھ دیر تک جھکائے رکھا پھر سر اُٹھا کر کہا وہ اللہ کی اطاعت کاحکم دے تو اس کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہیں مانو۔

Haidth Number: 11090
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں گیا تو میں نے وہاں چلنے کی آہٹ سنی، میں نے پوچھا کہ یہ کیسی آہٹ ہے؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ رمیصاء بنت ملحان کے چلنے کی آواز ہے۔

Haidth Number: 11981
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے سامنے آہٹ سی سنی، وہ غمیصاء بنت ملحان تھی۔ یہ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ تھیں۔

Haidth Number: 11982
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ابو طلحہ کی اہلیہ رمیصاء کو پایا۔

Haidth Number: 11983

۔ (۱۱۹۸۴)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لاَبِی طَلْحَۃَ مِنْ اُمِّ سُلَیْمٍ فَقَالَتْ: لِاَھْلِھَا لَا تُحِدِّثُوْا اَبَاطَلْحَۃَ بِاِبْنِہِ حَتّٰی اَکُوْنَ اَنَا اُحَدِّثُہُ، قَالَ: فَجَائَ فَقَرَّبَتْ اِلَیْہِ عَشَائً فَاَکَلَ وَشَرِبَ، قَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَہُ اَحْسَنَ مَاکَانَتْ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَوَقَعَ بِھَا، فَلَمَّا رَاَتْ اَنَّہُ قَدْ شَبِعَ وَاَصَابَ مِنْھَا، قَالَتْ: یَا اَبَاطَلْحَۃَ اَرَاَیْتَ اَنَّ قَوْمًا اَعَارُوْا عَارِیَتَھُمْ اَھْلَ بَیْتٍ وَطَلَبُوْا عَارِیَتَھُمْ اَلَھُمْ اَنْ یَمْنَعُوْھُمْ؟ قَالَ:لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبِ ابْنَکَ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَخْبَرَہُ بِمَا کَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَمَا فِیْ غَابِرِ لَیْلَتِکُمَا۔)) قَالَ: فَحَمَلَتْ قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ وَھِیَ مَعَہُ ،وکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا اَتَی الْمِدِیْنَۃَ مِنْ سَفَرٍ لَا یَطْرُقُھَا طُرُوْقًا، فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ فَضَرَبَھَا الْمَخَاضُ، وَاحْتَبَسَ عَلَیْھَا اَبُوْطَلْحَۃَ وَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَۃَ: یَارَبِّ! اِنَّکَ لَتَعْلَمُ اَنَّہُ یُعْجِبُنِیْ اَنْ اَخْرُجَ مَعَ رَسُوْلِکَ اِذَا خَرَجَ، وَاَدْخُلَ مَعَہُ اِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرٰی، قَالَ: تَقُوْلُ اُمُّ سُلَیْمٍ: یَا اَبَاطَلْحَۃَ مَا اَجِدُ الَّذِیْ کُنْتُ اَجِدُ فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَھَا الْمَخَاضُ حِیْنَ قَدِمُوْا فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِیْ اُمِّیْ: یَا اَنَسُ! لَا یُرْضِعَنَّہُ اَحَدٌ حَتّٰی تَغْدُوَ بِہٖ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَصَادَفْتُہُ وَمَعَہُ مِیْسَمٌ فَلَمَّا رَآنِی قَالَ: ((لَعَلَّ اُمَّ سُلَیْمٍ وَلَدَتْ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَضَعَ الْمِیْسَمَ قَالَ: فَجِئْتُ بِہٖ فَوَضَعْتُہُ فِیْ حِجْرِہِ قَالَ: وَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَجْوَۃٍ مِنْ عَجْوَۃِ الْمَدِیْنَۃِ فَلَا کَھَا فِیْ فِیْہِ حَتّٰی ذَابَتْ ثُمَّ قَذَفَھَافِیْ فِی الصَّبِیِّ فَجَعَلَ الصَّبِیُّ یَتَلَمَّظُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُنْظُرُوْا اِلٰی حُبِّ الْاَنْصَارِ التَّمْرَ۔))، قَالَ: فَمَسَحَ وَجْھَہَ وَسَمَّاہُ عَبْدَ اللّٰہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۵۷)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ اور سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیٹا فوت ہو گیا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے اہل والوں سے کہا: تم نے ابو طلحہ کو اس کے بیٹے کے بارے میں نہیں بتلانا، میں خود اس کو بتاؤں گی، پس جب وہ آئے تو اس نے ان کو شام کا کھانا پیش کیا، انھوں نے کھانا کھایا اور مشروب پیا، پھر سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند کے لیے اچھی طرح تیاری کی، جیسا کہ وہ پہلے کرتی تھیں، پس انھوں نے ان سے جماع کیا، جب ام سلیم نے دیکھا کہ اس کاخاوند خوب سیر ہو گیا اور حق زوجیت بھیادا کر لیا تو اس نے کہا: اے ابو طلحہ! اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ لوگ ایک گھر والوں کو کوئی چیز عاریۃً دیتے ہیں، پھر جب وہ ان سے واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا وہ روک سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا: نہیں، نہیں روک سکتے، ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر اپنے بیٹے کی وفات پر ثواب کی نیت سے صبر کر، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چل پڑے، یہاں تک کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارے ماجرے کی خبر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری گزشتہ رات میں برکت فرمائے۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو حمل ہو گیا، ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر میں تھے اور ام سلیم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر سے واپسی پر مدینہ آتے تھے تو رات کو شہر میں داخل نہیں ہو تے تھے، پس جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو دردِ زہ شروع ہو گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو آگے چل دیئے، لیکن سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بیوی کے پاس رک گئے اور انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند لگتی ہے کہ تیرے رسول کے ساتھ سفر میں نکلوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہی مدینہ میں داخل ہوں، لیکن اب تو دیکھ رہا ہے کہ میں رک گیا ہوں، اتنے میں ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جو چیز میں پہلے پاتی تھی، ابھی وہ نہیں پا رہی، پس ہم چل پڑے اور جب مدینہ پہنچے تو دوبارہ دردِ زہ شروع ہوا اور انھوں نے بچہ جنم دیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری ماں نے مجھے کہا: اے انس! کوئی بھی اس کو دودھ نہ پلائے، یہاں تک کہ تو صبح کو اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے جائے، وہ کہتے ہیں: میں بچہ لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جانوروں کو داغنے والا ایک آلہ تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: شاید ام سلیم نے بچہ جنم دیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ آلہ رکھ دیا، میں بچے کو لے کر آگے بڑھا اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گودی میں رکھ دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ کی عجوہ کھجورمنگوائی، اس کو اپنے منہ مبارک میں ڈال کر چبایا،یہاں تک کہ وہ نرم ہو گئی، پھر اس کو بچے کے منہ میں ڈالا اور بچہ زبان پھیر کر اس کو نگلنے لگ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دیکھو کہ انصاریوں کو کھجور سے کتنی محبت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔

Haidth Number: 11984
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لایا کرتے اور ان کے بستر پر سو جایا کرتے تھے، ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر پر موجود نہیں ہوتی تھیں، وہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کو بتلایا گیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہارے بستر پر سوئے ہوئے ہیں، گرمی کا موسم تھا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس قدر پسینہ آیا ہوا تھا کہ وہ بستر کے چمڑے کے ٹکڑے پر گر رہا تھا۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پسینہ کو نچوڑ نچوڑ کر ایک شیشی میں جمع کرنے لگی، میں یہ کام کر رہی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہو گئے اور فرمایا: ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تم یہ کیا کر رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم اسے اپنے بچوں کے لیے بطور تبرک استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درست کر رہی ہو۔

Haidth Number: 11985
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں جا کر قیلولہ کیا کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسینہ بہت زیادہ آتا تھا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے چمڑے کا ایک بچھونا تیار کیا، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیلولہ کیا کرتے تھے۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ کے پائوں کے درمیان ایک لکیر سی بنا دی تھی۔ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پسینے کو نچوڑ کر جمع کر لیتی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت کیا کہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ! یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا پسینہ ہے، میں اسے اپنی خوشبو میں ملائوں گی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں بہترین دعا فرمائی۔

Haidth Number: 11986
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بستر پر سو جاتے تھے،جبکہ بسا اوقات ایسے ہوتا کہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا گھر پر موجود نہیں ہوتی تھیں، جب وہ آتیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سویا ہواپاتیں تھیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سوتے تو آپ کو اتنا پسینہ آتا کہ بہنے لگتا۔ وہ آپ کے پسینہ کو روئی سے جمع کرکے اسے شیشی میں نچوڑ لیتیں اور پھر اسے اپنی کستوری میں ملا لیتیں۔

Haidth Number: 11987

۔ (۱۱۹۸۸)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أُمِّ سُلَیْمٍ فَأَتَتْہُ بِتَمْرٍ وَسَمْنٍ وَکَانَ صَائِمًا، فَقَالَ: ((أَعِیدُوْا تَمْرَکُمْ فِی وِعَائِہِ وَسَمْنَکُمْ فِی سِقَائِہِ۔)) ثُمَّ قَامَ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہُ، ثُمَّ دَعَا لِأُمِّ سُلَیْمٍ وَلِأَہْلِہَا بِخَیْرٍ، فَقَالَتْ: أُمُّ سُلَیْمٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی خُوَیْصَّۃً، قَالَ: ((وَمَا ہِیَ۔)) قَالَتْ: خَادِمُکَ أَنَسٌ، قَالَ: فَمَا تَرَکَ خَیْرَ آخِرَۃٍ وَلَا دُنْیَا إِلَّا دَعَا لِی بِہِ، وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ارْزُقْہُ مَالًا وَوَلَدًا، وَبَارِکْ لَہُ فِیہِ۔)) قَالَ: فَمَا مِنَ الْأَنْصَارِ إِنْسَانٌ أَکْثَرُ مِنِّی مَالًا، وَذَکَرَ أَنَّہُ لَا یَمْلِکُ ذَہَبًا وَلَا فِضَّۃً غَیْرَ خَاتَمِہِ، قَالَ: وَذَکَرَ أَنَّ ابْنَتَہُ الْکُبْرٰی أُمَیْنَۃَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ دُفِنَ مِنْ صُلْبِہِ إِلٰی مَقْدَمِ الْحَجَّاجِ نَیِّفًا عَلٰی عِشْرِینَ وَمِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷۶)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، انہوںنے آپ کی خدمت میں کھجوریں اور گھی پیش کیا،لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دن روزے سے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کھجوریں ان کے تھیلے میں اور گھی اس کے ڈبے میں واپس رکھ دو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر آپ نے سیدنا ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے اہل خانہ کے حق میں برکت کی دعا کی۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میری ایک خصوصی درخواست ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ کیا؟ انہوںنے کہا: یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خادم سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، اس کے حق میں خصوصی دعا کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دنیا و آخرت کی ہر خیر کی میرے حق میں دعا کر دی اور فرمایا: یا اللہ! اسے بہت سا مال اور اولاد عنایت فرما اور اس کے لیے ان میں برکت فرما۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ تمام انصار میں سے کسی کے پاس مجھ سے زیادہ دولت نہیں، جبکہ اس سے پہلے ان کے پاس صرف ایک انگوٹھی تھی اور ان کی بڑی بیٹی امینہ نے بتلایا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حجاج بن یوسف کے آنے سے پہلے تک اپنی اولاد میں سے تقریباً ایک پچیس چھبیس افراد کو دفن کیا گیا۔

Haidth Number: 11988
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا غزوۂ حنین کے موقع پر اپنے شوہر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ تھیں، اس روز سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس ایک خنجر تھا، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے دریافت کیا : ام سلیم !یہ آپ کے پاس کس لیے ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میں نے اس لیے ساتھ رکھا ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آیا تو میں اس کے ساتھ اس کے پیٹ کو چاک کر دوں گی۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات سن رہے ہیں، وہ تو یوں کہہ رہی ہے۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے جن لوگوں کو مکہ میں آزاد کیا ہے ان کا ایمان کم زور ہے، وہ منافق ہیں، آپ ان کو قتل کر دیں۔ اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو اکیلے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہماری مددکی اور خوب مدد کی۔

Haidth Number: 11989
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ حنین کے دن جب مسلمان شکست کھا گئے تو سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آواز دی: اے اللہ کے رسول!جولوگ ہم سے بعد والے ہیں، آپ انہیں قتل کر دیں،یہ لوگ آپ کو اکیلے چھوڑ کر نکل بھاگے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہماری خوب مدد کی ہے۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے شوہر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس آئے تو ان کے پس ایک گینتی دیکھی اورپوچھا: ام سلیم! یہ کیا ہے؟ انہوںنے جواب دیا:اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس کا پیٹ چاک کر دوں گی۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! دیکھئے، ام سلیم کیا کہہ رہی ہے؟

Haidth Number: 11990