Blog
Books
Search Hadith

سورۂ سجدہ {تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ} کی تفسیر

17 Hadiths Found
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: {تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ْ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ۔} … ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد بندے کا رات کو قیام کرنا ہے۔

Haidth Number: 8703
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مخاطب ہو کرکہا: اے ہمارے سردار! اور اے ہمارے سردار کے فرزند! اے وہ ذات جو ہم میں سب سے بہتر ہے اور ہم میں سے سب سے افضل کی اولاد ہے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا: لوگو! تم معروف بات ہی کر لیا کرو اور ہر گز شیطان تمہیں غلو میں مبتلا نہ کردے، میں محمد بن عبداللہ اور اس کا رسول ہوں، اللہ کی قسم! میں یہ پسند نہیںکرتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مقام دیا ہے، تم مجھے اس سے اوپر نہ لے جائو۔

Haidth Number: 11185
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میری مدح میں اس طرح غلو نہ کیا کرو، جس طرح نصاری نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا، میں تو محض اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔

Haidth Number: 11186
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تشریف فرما تھے, انہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی، پس اچانک اوپر سے ایک فرشتہ نیچے اتر رہا تھا، جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہا: یہ فرشتہ جب سے پیدا ہوا، تب سے اب تک یہ کبھی زمین پر نہیں آیا، جب وہ آیا تو اس نے کہا: اے محمد! آپ کے رب نے مجھے اس پیغام کے ساتھ آپ کی طرف بھیجا ہے کہ وہ آپ کو بادشاہ بنائے یا بندہ اور رسول؟ جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے محمد! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے رب کے لیے تواضع اختیار کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ رسول بننا چاہتا ہوں۔

Haidth Number: 11187
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ (رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ا سقدر متواضع تھے کہ) مدینہ کی ایک لونڈی آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے کسی کام کے لیے لے جاتی (اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی بلا پس و پیش اس کے ہم راہ تشریف لے جاتے) ۔

Haidth Number: 11188
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کے ایک راستہ میں ایک خاتون، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کام ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام فلاں! تم مدینہ کی جس گلییا راستے میں چاہو بیٹھ جائو، میں بھی تمہارے پاس بیٹھ جائوں گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیٹھ گئی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اس کے پاس بیٹھ گئے، یہاں تک کہ اس کی ضرورت کو پورا کر دیا۔

Haidth Number: 11189
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طواف کے بعد وہاں تشریف لائے، جہاں زمزم کا پانی پلایا جا رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے بھی پلائو۔ انہوں نے کہا: اس پانی کو تو لوگ متأثر کرتے رہتے ہیں، ہم آپ کے لیے گھر سے (صاف) پانی لے آتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ضرورت نہیںہے، جہاں سے لوگ پی رہے ہیں، وہیں سے مجھے بھی پلا دیں۔

Haidth Number: 11190

۔ (۱۱۱۹۱)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ قَالَ یَہُودِیٌّ بِسُوقِ الْمَدِینَۃِ: وَالَّذِی اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَی الْبَشَرِ، قَالَ: فَلَطَمَہُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: تَقُولُ ہٰذَا وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِینَا، قَالَ: فَأَتَی الْیَہُودِیُّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌیَنْظُرُونَ} قَالَ: ((فَأَکُونُ أَوَّلَ مَنْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ فَإِذَا مُوسٰی آخِذٌ بِقَائِمَۃٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِی أَرَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلِی أَمْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللَّہُ، وَمَنْ قَالَ أَنِّی خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذَبَ۔)) (مسند احمد: ۹۸۲۰)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کے بازار میں ایکیہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے، اس کے یہ الفاظ سن کر غیرت کے مارے ایک انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے تھپڑ رسید کر دیا اور کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہوتے ہوئے تمہیںیہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ وہ یہودی شکایت لے کر رسول ا للہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً اس آیت کی تلاوت کی: {وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌیَنْظُرُونَ} … اور صور پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں کی مخلوق بے ہوش ہو جائے گی سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہئے گا۔ پھر اس میں دوبارہ پھونک ماری جائے گی تو سب لوگ دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت سب سے پہلے میں ہوش میں آکر سر اٹھائوں گا، لیکن دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کے ایک پائے کو پکڑ کر کھڑے ہوں گے، مجھے اس چیز کا علم نہیں ہو گا کہ انھوںنے مجھ سے پہلے ہوش میں آکر سراٹھایا ہو گا یا وہ بے ہوش ہونے سے مستثنیٰ ہونے والوں میں سے ہوں گے۔ اور (یاد رکھو کہ) جس نے یوں کہا کہ میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) یونس بن متی سے افضل ہوں تو اس نے غلط کہا۔

Haidth Number: 11191

۔ (۱۱۱۹۲)۔ عَنْ أَبِی أُماَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: مَرَّ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِییَوْمٍ شَدِیْدِ الْحرِّ نَحْوَ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَکَانَ النَّاسُ یَمْشُوْنَ خَلْفَہُ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَالِکَ فِی نَفْسِہِ، فَجَلَسَ حَتّٰی قَدَّمَہُمْ أَمَامَہُ لِئَلاَّ یَقَعَ فِیْ نَفْسِہِ مِنَ الْکِبْرِ فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، إِذَا بِقَبْرِیْنَ قَدْ دَفَنُوْا فِیْہِمَا رَجُلَیْنِ، قَالَ: فَوَقَفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ دَفَنْتُمْ ہَاہُنَا الْیَوْمَ؟)) قَالُوْا: یَا نَبِیُّ اللّٰہِ! فُلَانٌ وَ فُلَانٌ، قَالَ: ((إِنَّہُمَا لَیَعُذَبَّاَنِ الْآنَ وَیُفْتَنَانِ فِی قَبْرَیْہِمَا۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَ ذَالکَ؟ قَالَ: ((أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لَایَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمِۃِ۔)) وَأَخَذَ جَرِیْدَۃً رَطْبَۃً، فَشَقَّہا ثُمَّ جَعَلَہَا عَلَی الْقَبْرَیْنِ، قَالُوْا: یَا نَبِیَّاللّٰہُ! وَلِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: ((لَیُخَفَّفَنَّ عَنْہُمَا۔)) قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! وَحَتّٰی مَتٰییُعَذِّبُہُمَا اللّٰہُ؟ قَالَ: ((غَیْبٌ لَا یَعْلَمُہُ إِلَّا اللّٰہُ وَلَولَا تََمْرِیْغُ قُلُوْبِکُمْ أَوْ تَزَیُّدُکُمْ فِی الْحَدِیْثِ لَسَمِعْتُمْ مَا اَسْمَعُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۸)

سیّدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سخت گرمی والے ایک دن میں بقیع الغرقد کی جانب سے گزرے، لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنی تو یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گراں گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہیں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے گزر گئے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو (کہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں)۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرقد کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو قبریں دیکھیں، لوگوں نے ان میں دو آدمیوں کو دفن کیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں رک گئے اور پوچھا: آج تم نے یہاں کن لوگوں کو دفن کیا ہے؟ صحابہ نے بتایا : اے اللہ کے نبی ! یہ فلاں دو آدمی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو اس وقت قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! انہیں عذاب دیئے جانے کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ایک آدمی پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک تر چھڑی لے کر اسے چیرا اور دونوں قبروں پر رکھ دیا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! آپ نے یہ کام کس لیےکیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ ان کو کب تک عذاب دے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ غیب کی بات ہے، جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے دلوں کی بدلتی کیفیاتیا بہت زیادہ گفتگو نہ ہوتی تو تم بھی وہ کچھ سنتے جو میں سنتا ہوں۔

Haidth Number: 11192
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی طرف جانے کے لیے نکلتے تو صحابہ کرام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے آگے چلتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت کو فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے۔

Haidth Number: 11193
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر آکر کس قسم کے کام کیا کرتے تھے؟ (یعنی گھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مصروفیت کیا ہوتی تھی؟) انھوں نے کہا: (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب گھر آتے تو ایسے ہی کام کیا کرتے تھے) جیسے تم کرتے ہو، مثلا اپنے جوتے کی مرمت کر لیتے اور کپڑا سی لیتے۔

Haidth Number: 11194
۔(دوسری سند) عروہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا کہ آیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں کوئی کام کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے جوتے کو مرمت کر لیتے، کپڑے کو سلائی کر لیتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر میں اسی طرح کام کرتے تھے، جیسے تم میںسے کوئی اپنے گھر میں کام کاج کرتا ہوتا ہے۔

Haidth Number: 11195
قاسم سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا گیا کہ گھر میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کیا مصروفیت ہوتی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ بھی بشر ہی تھے، اس لیے (عام دوسرے انسانوں کی طرح) اپنے کپڑوں کو ٹٹول ٹٹول کر ان میں جوئیں دیکھتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے اور اپنے کام کر لیتے۔

Haidth Number: 11196
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو کی روٹی اور بو دار سالن کی دعوت دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی دعوت قبول فرمائی۔ راوی حدیث ابان نے ایک دفعہ یوں ذکر کیا کہ دعوت دینے والا شخص درزی تھا۔

Haidth Number: 11197

۔ (۱۱۱۹۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ أَوْفٰی قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْیَمَنَ اَوْ قَالَ: الشَّامَ، فَرَأَی النَّصَارٰی تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِہَا وَأَسَاقِفَتِہَا فَرَوَّأَ (أَیْ فَکَّرَ) فِیْ نَفْسِہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَقُّ أَنْ یُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْتُ النَّصَارٰی تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِہَا وَاَسَاقِفَتِہَا فَرَوَّأْتُ فِیْ نَفْسِیْ أَنَّکَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: ((لَوْ کُنْتُ آمُرَ أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا، وَلَا تُؤَدِّی الْمَرْأَۃُ حَقَّ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہَا کُلَّہُ حَتّٰی تُؤَدِّیَ حَقَّ زَوْجِہَا عَلَیْہَا کُلَّہُ، حَتّٰی لَوْسَأَلَھَا نَفْسَہَا وَھِیَ عَلٰی ظَہْرِ قَتَبٍ لَاَعْطَتْہُ اِیَّاہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۳)

سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمنیا شام میں آئے اور عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے لیڈروں اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں، انھوں نے اپنے دل میں سوچا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس تعظیم کے زیادہ مستحق ہیں، پھر جب وہ واپس آئے تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے عیسائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے لیڈروں اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں اور مجھے اپنے دل میں خیال آیا کہ کہ آپ اس تعظیم کے زیادہ مستحق ہیں؟ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں نے کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دینا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، بیوی اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہیں کر سکتی، جب تک کہ وہ اپنے خاوند کے کما حقہ حقوق ادا نہ کرے، اگر خاوند عورت کو وظیفہ زوجیت کے لئے طلب کرے اور وہ پالان کے اوپر بیٹھی ہو تو اس عورت کو خاوند کا مطالبہ پورا کرنا پڑے گا۔

Haidth Number: 11198
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ وہ ارض شام میں گئے (اس سے آگے گزشتہ حدیث کی طرح ہے) یہ کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا تم اپنے ان پیشوائوں کو سجدے کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے بتلایا کہ ہم سے پہلے انبیاء (کی شریعتوں) میں سلام کا یہی طریقہ تھا۔ تو میں نے کہا (اگر بات یہی ہے) تو ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم اپنے نبی کے ساتھ یہ کام کریں ۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے جس طرح اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کی، اسی طرح اپنے انبیاء پر جھوٹ باندھے، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے سلام سے بہتر سلام، اہل جنت والا سلام ہمیں دیا ہے۔

Haidth Number: 11199
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف تشریف لائے تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمارے ساتھ اٹھو تاکہ اس منافق کے بارے میں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد حاصل کریں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مدد طلب کرنے کے لیے میرا ارادہ نہیں کیا جاتا، اللہ تعالیٰ کا قصد کیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 11200