Blog
Books
Search Hadith

{قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ} کی تفسیر

9 Hadiths Found

۔ (۸۷۵۰)۔ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا وَأَ نَا مَعَہُ حَتّٰی دَخَلْنَا کَنِیسَۃَ الْیَہُودِ بِالْمَدِینَۃِیَوْمَ عِیدٍ لَہُمْ، فَکَرِہُوْا دُخُولَنَا عَلَیْہِمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! أَ رُونِی اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا یَشْہَدُونَ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَ نَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، یُحْبِطِ اللّٰہُ عَنْ کُلِّ یَہُودِیٍّ تَحْتَ أَ دِیمِ السَّمَائِ الْغَضَبَ الَّذِی غَضِبَ عَلَیْہِ۔)) قَالَ: فَأَ سْکَتُوْا مَا أَ جَابَہُ مِنْہُمْ أَحَدٌ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِمْ فَلَمْ یُجِبْہُ أَ حَدٌ، ثُمَّ ثَلَّثَ فَلَمْ یُجِبْہُ أَ حَدٌ، فَقَالَ: ((أَ بَیْتُمْ فَوَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَ نَا الْحَاشِرُ، وَأَ نَا الْعَاقِبُ، وَأَ نَا النَّبِیُّ الْمُصْطَفٰی، آمَنْتُمْ أَ وْ کَذَّبْتُمْ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ وَأَ نَا مَعَہُ حَتّٰی إِذَا کِدْنَا أَ نْ نَخْرُجَ نَادٰی رَجُلٌ مِنْ خَلْفِنَا: کَمَا أَ نْتَ یَا مُحَمَّدُ!، قَالَ: فَأَ قْبَلَ، فَقَالَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ: أَ یَّ رَجُلٍ تَعْلَمُونَ فِیکُمْیَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! قَالُوْا: وَاللّٰہِ! مَا نَعْلَمُ أَ نَّہُ کَانَ فِینَا رَجُلٌ أَعْلَمُ بِکِتَابِ اللّٰہِ مِنْکَ، وَلَا أَ فْقَہُ مِنْکَ، وَلَا مِنْ أَ بِیکَ قَبْلَکَ، وَلَا مِنْ جَدِّکَ قَبْلَ أَبِیکَ، قَالَ: فَإِنِّی أَ شْہَدُ لَہُ بِاللّٰہِ أَ نَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ الَّذِی تَجِدُوْنَہُ فِی التَّوْرَاۃِ، قَالُوْا: کَذَبْتَ ثُمَّ رَدُّوا عَلَیْہِ قَوْلَہُ وَقَالُوْا فِیہِ شَرًّا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَبْتُمْ لَنْ یُقْبَلَ قَوْلُکُمْ، أَ مَّاآنِفًا فَتُثْنُونَ عَلَیْہِ مِنْ الْخَیْرِ مَا أَثْنَیْتُمْ، وَلَمَّا آمَنَ کَذَّبْتُمُوہُ، وَقُلْتُمْ فِیہِ مَا قُلْتُمْ، فَلَنْ یُقْبَلَ قَوْلُکُمْ۔)) قَالَ: فَخَرَجْنَا وَنَحْنُ ثَلَاثَۃٌ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ نَا وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ، وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ: {قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہِ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ} [الأحقاف: ۱۰]۔ (مسند احمد: ۲۴۴۸۴)

۔ سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، یہودیوں کی عید کا دن تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہودیوں کے ایک عبادت خانہ کی طرف گئے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہمارا آنا ان کو ناگوار گزرا، بہرحال نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے یہودیوں کی جماعت! (اپنی جماعت میں سے) مجھے بارہ (۱۲) ایسے آدمی بتائو جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیں، اللہ تعالیٰ نے آسمان کی نیلی چھت کے نیچے جو تم پر غضب در غضب کیا ہے وہ مٹا دے گا۔ یہودی خاموش رہے، ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر سوال لوٹایا، لیکن کسی نے جواب نہ دیا، تیسری بار سوال دوہرایا، لیکن اس بار بھی جواب نہ آیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود فرمایا: تم انکار کر رہے ہو، اللہ کی قسم! میں حاشرہوں(جس کی ملت پر لوگ اکٹھے کئے جائیں گے)، میں عاقب ہوں(جس کے بعد کوئی نبی نہیں) اور میں نبی مصطفی ہوں، تم ایمان لائو یا تکذیب کرو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر آپ واپس چل پڑے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب ہم باہر نکلنے ہی والے تھے کہ ہمارے پیچھے سے ایک آدمی نے ہمیں آواز دی، وہ عبداللہ بن سلام تھے، اس نے کہا: اے محمد! ٹھہر جائیں، وہ آیا اور اس نے یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے گروہ یہود! میں تمہارے علم کے مطابق کیسا آدمی ہوں؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہماری معلومات کے مطابق تم سے زیادہ کتاب اللہ کا عالم اور فقیہ کوئی نہیں ہے اور نہ ہی تجھ سے پہلے تیرے باپ سے زیادہ کوئی فقیہ اور عالم تھا، بلکہ تیرے باپ سے پہلے تیرے دادے سے بڑھ کر بھی کوئی عالم نہ تھا۔ عبداللہ نے کہا: تو پھر میں تو گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے وہ نبی ہیں، جن کا ذکر تم تورات میں پاتے ہو، یہودی وہیں بدل گئے اور کہنے لگے: تو جھوٹ بولتا ہے، پھر ساری بات کی تردید کر دی اور سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو برا کہا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تمہاری بات ہر گز قابل قبول نہیں ہو گی، ابھی تم ان کی تعریف کر رہے تھے، جب وہ ایمان لے آیا ہے، تو تم اسے جھوٹا کہنے لگ گئے ہو اور اس کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرتے ہو تمہاری بات ہر گز قبول نہیں ہو گی۔ اب ہم باہر نکلے تو تین افراد تھے، میں تھا،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے اور سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، اللہ تعالی نے اس بارے میں آیت نازل کی : {قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہِ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلٰی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ}… کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کر دیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی، پھر وہ ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا ( تو تمھارا انجام کیا ہوگا ) بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

Haidth Number: 8750
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری آنکھ سوجاتی ہے اور میرا دل نہیں سوتا۔

Haidth Number: 11326
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عشاء سے قبل سوتے نہیں تھے اورعشاء کے بعد بات چیت نہیں کرتے تھے۔

Haidth Number: 11327
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سحری کے وقت یا رات کے آخری حصہ میں اپنے ہاں سویا ہوا پاتی۔

Haidth Number: 11328
زوجۂ رسول سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بستر پر دراز ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دایاں ہاتھ(اور دائیں جانب) کھانا کھانے، وضوء کرنے، نماز پڑھنے اور کپڑے پہننے کے لیے مخصوص تھا اور بایاں ہاتھ (اور بائیں جانب) باقی کاموں کے لیے مخصوص تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

Haidth Number: 11329
سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بستر پر تشریف لاتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے اور تین بار یہ دعا پڑھتے: رَبِّ قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ (اے میرے رب! تو جس دن اپنے بندوں کو اٹھائے گا، اس دن مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔

Haidth Number: 11330
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس پر رات کو سویا کرتے تھے، چمڑے کا تھا، اس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔

Haidth Number: 11331
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم پر اثر کیا ہوا تھا، اسی حالت میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، یہ منظر دیکھ کر انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! اگرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے ذرا نرم بستر بنوالیں تو بہتر ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا تعلق؟ میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی سی ہے، جو سخت گرمی میں سفر کرے اور دن کے کسی وقت کسی درخت کے سائے میں آرام کرے ۔پھر اسے وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہو جائے۔

Haidth Number: 11332

۔ (۱۱۳۳۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی سَرِیْرٍ مُرْمَلٌ بِشَرِیْطٍ، وَتَحْتَ رَأْسِہِ وِسَادَۃٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ وَدَخَلَ عُمَرُ، فَانْحَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انْحِرَافَۃً، فَلَمْ یَرَعُمَرُ بَیْنَ جَنْبِہِ وَبَیْنَ الشَّرِیْطِ ثَوْبًا، وَقَدْ أَثَّرَ الشَّرِیْطُ بِجَنْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَبَکٰی عُمَرُ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا یُبْکِیْکَیَا عُمَرُ؟)) قَالَ: وَاللّٰہِ! إِلَّا أَنْ أَکُوْنَ أَعْلَمَ، أَنَّکَ أَکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ کِسْرٰی وَقَیْصَرَ وَھُمَا یَعْبَثَانِ فِی الدُّنْیَا فِیْمَایَعْبَثَانِ فِیْہِ، وَأَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَکَانِ الَّذِی أَرٰی، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَھُمُ الدُّنْیَا وَلَنَا الْآخِرَۃُ؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ: ((فَإِنَّہُ کَذَالِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۴۴)

سیدناسیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجور کے تنوں سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ چند صحابہ اسی عالم میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئے اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تشریفلائے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلو بدلا تو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو اور چار پائی کے بان کے درمیان کوئی کپڑا نظر نہ آیا۔ اور بان کے نشانات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو پر ثبت تھے۔ یہ منظر دیکھ کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا: عمر! تجھے کس چیز نے رلایا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے ہاں کسریٰ اور قیصر کے مقابلے میں بہت زیادہ معزز ہیں۔ وہ دنیا میں خوب عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں اور اللہ کے رسول! آپ کی وہ حالت ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر بات ایسے ہی ہے۔

Haidth Number: 11333