Blog
Books
Search Hadith

سورۂ مجادلہ {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا…} کی تفسیر

7 Hadiths Found

۔ (۸۷۸۳)۔ عَنْ خَوْلَۃَ بِنْتِ ثَعْلَبَۃَ قَالَتْ: وَاللّٰہِ فِیَّ وَفِی أَ وْسِ بْنِ صَامِتٍ أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ صَدْرَ سُورَۃِ الْمُجَادَلَۃِ، قَالَتْ: کُنْتُ عِنْدَہُ وَکَانَ شَیْخًا کَبِیرًا، قَدْ سَائَ خُلُقُہُ وَضَجِرَ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَیَّیَوْمًا فَرَاجَعْتُہُ بِشَیْئٍ فَغَضِبَ فَقَالَ: أَ نْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی، قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَ فَجَلَسَ فِی نَادِی قَوْمِہِ سَاعَۃً ثُمَّ دَخَلَ عَلَیَّ فَإِذَا ہُوَ یُرِیدُنِی عَلٰی نَفْسِی، قَالَتْ: فَقُلْتُ: کَلَّا، وَالَّذِی نَفْسُ خُوَیْلَۃَ بِیَدِہِ! لَا تَخْلُصُ إِلَیَّ وَقَدْ قُلْتَ مَا قُلْتَ حَتّٰییَحْکُمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ فِینَا بِحُکْمِہِ، قَالَتْ: فَوَاثَبَنِی وَامْتَنَعْتُ مِنْہُ فَغَلَبْتُہُ بِمَا تَغْلِبُ بِہِ الْمَرْأَ ۃُ الشَّیْخَ الضَّعِیفَ فَأَ لْقَیْتُہُ عَنِّی، قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی بَعْضِ جَارَاتِی فَاسْتَعَرْتُ مِنْہَا ثِیَابَہَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتّٰی جِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَذَکَرْتُ لَہُ مَا لَقِیتُ مِنْہُ، فَجَعَلْتُ أَ شْکُو إِلَیْہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَ لْقٰی مِنْ سُوئِ خُلُقِہِ، قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَا خُوَیْلَۃُ! ابْنُ عَمِّکِ شَیْخٌ کَبِیرٌ، فَاتَّقِی اللّٰہَ فِیہِ۔)) قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا بَرِحْتُ، حَتّٰی نَزَلَ فِیَّ الْقُرْآنُ فَتَغَشّٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ یَتَغَشَّاہُ ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَقَالَ لِی: ((یَا خُوَیْلَۃُ! قَدْ أَ نْزَلَ اللّٰہُ فِیکِ وَفِی صَاحِبِکِ۔))، ثُمَّ قَرَأَ عَلَیَّ {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا إِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَ لِیمٌ} [المجادلۃ: ۱۔۴] فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مُرِیہِ فَلْیُعْتِقْ رَقَبَۃً۔))، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا عِنْدَہُ مَا یُعْتِقُ، قَالَ: ((فَلْیَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ شَیْخٌ کَبِیرٌ مَا بِہِ مِنْ صِیَامٍ، قَالَ: ((فَلْیُطْعِمْ سِتِّینَ مِسْکِینًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا ذَاکَ عِنْدَہُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَإِنَّا سَنُعِینُہُ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَأَ نَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! سَأُعِینُہُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: قَدْ أَ صَبْتِ وَأَ حْسَنْتِ فَاذْہَبِی فَتَصَدَّقِی عَنْہُ، ثُمَّ اسْتَوْصِی بِابْنِ عَمِّکِ خَیْرًا، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، قَالَ سَعْدٌ: الْعَرَقُ الصِّنُّ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۶۲)

۔ سیدنا خولہ بنت ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے سورۂ مجادلہ کا ابتدائی حصہ میرے اور میرے خاوند سیدنا اوس بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں نازل کیا، تفصیلیہ ہے: میں ان کی بیوی تھی، اوس بوڑھے اور ضعیف ہو گئے، جس کی وجہ سے بداخلاق ہو گئے تھے اور تنگ پڑ جاتے تھے، ایک دن میرے پاس آئے، میں نے ان سے تکرار کیا، وہ غصے میں آئے اور کہا:تو میرے اوپر میری ماں کیپشت کی مانند ہے، پھر باہر چلے گئے، کچھ دیر اپنی قوم کی مجلس میں بیٹھےرہے، پھر میرے پاس آئے اور مجھ سے صحبت کرنا چاہی، لیکن میں نے کہا: ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے! تو مجھ تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا، تو نے تو ابھییہ کچھ کہا ہے،یہاں تک کہ اللہ تعالٰ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فیصلہ نہ کردیں، وہ میری طرف کود پڑے، لیکن میں خود کو ان سے محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئی، جیسے ایک عورت اپنے بوڑھے خاوندپر غالب آ جاتی ہے، میں نے انہیں دور پھینکا اور میں باہر نکل گئی، اپنی ہمسائی سے کپڑے لیے اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ کر سارا واقعہ بیان کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اپنے خاوند کی بد خلقی کی شکایت کرنے لگی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے خولہ! وہ تیرا چچے کا بیٹا ہے اور بوڑھا ہو گیا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ لیکن میں اسیطرح تکرار کرتی رہی حتیٰ کہ میرے بارے میں قرآن مجید نازل ہونے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی، جو وحی میں ہوتی تھی، پھر وہ کیفیت ختم ہوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے خولہ! تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوگیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیات تلاوت کیں: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا إِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ … … وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَ لِیمٌ}۔سیدنا خولہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: خاوند سے کہو کہ ایک گردن آزاد کرے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے پاس اتنی گنجائش تو نہیں ہے کہ وہ غلام آزاد کرسکے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اس سے کہو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو بہت بوڑھا ہے اور وہ روزے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اسے کہو کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھانا کھلا دے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بھی اس کے پاس نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ٹوکرا کھجوروں کا میں تعاون کر دیتا ہوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک ٹوکرا میں بھی مدد کر دیتی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے بہت درست اور اچھا فیصلہ کیا ہے، اب جا اور اس کی طرف سے صدقہ کر، پھر اپنے چچے کے بیٹے سے ہمدردی کا برتائو کرنا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا۔

Haidth Number: 8783
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: تمام تعریفات اس اللہ کے لئے ہیں، جس کا سننا تمام آوازوں کو شامل ہے، بحث و تکرار کرنے والی (سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور گفتگو کرنے لگی، جبکہ میں گھر کے ایک کونے میں تھی، میں اس کی بات نہ سن سکی، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کر دیں: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا إِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ۔}… یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میںجھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

Haidth Number: 8784

۔ (۸۷۸۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: أَ تَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاسٌ مِنْ الْیَہُودِ فَقَالُوْا: السَّامُ عَلَیْکَ،یَا أَ بَا الْقَاسِمِ!، فَقَالَ: ((وَعَلَیْکُمْ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ: وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَالذَّامُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عَائِشَۃُ! لَا تَکُونِی فَاحِشَۃً۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَ مَا سَمِعْتَ مَا قَالُوْا: السَّامُ عَلَیْکَ؟ قَالَ: ((أَ لَیْسَ قَدْ رَدَدْتُ عَلَیْہِمْ الَّذِی قَالُوْا قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔)) قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍیَعْنِی فِی حَدِیثِ عَائِشَۃَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ، وَقَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ فِی حَدِیثِہِ: فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ {وَإِذَا جَائُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ} [المجادلۃ: ۸] حَتّٰی فَرَغَ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۴۹)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے اور کہا : اے ابو القاسم ! اَلسَّامُ عَلَیْکَ (تجھ پر موت ہو )، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں جواب دیا: وَعَلَیْکُم (اور تم پر بھی ہو)۔لیکن سیدہ عائشہ نے کہا: تم پر موت بھی ہو اور مذمت بھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اتنی بد گوئی نہ کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے سنا نہیں کہ انھوں نے کیا کہا، ان لوگوں نے اَلسَّامُ عَلَیْکَکہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کیا میں نے ان کا جواب دے نہیں دیا، میں نے کہہ تو دیا ہے: وَعَلَیْکُمْ۔ ابن نمیر راوی کے الفاظ یہ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فحش اور بہ تکلف بدگوئی کو پسند نہیں کرتا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِذَا جَاء ُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُیَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔} … اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔

Haidth Number: 8785
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ یہودی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سَامٌ عَلَیْکَ (تجھ پر موت ہو)کہا کرتے تھے، پھر اپنے دل میں ہی کہتے: اللہ تعالی ہمیں اس کی وجہ سے عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِذَا جَاء ُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔} … اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔

Haidth Number: 8786

۔ (۱۱۴۴۷)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: تَأَیَّمَتْ حَفْصَۃُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَیْسِ بْنِ حُذَافَۃَ أَوْ حُذَیْفَۃَ شَکَّ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَکَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا فَتُوُفِیَ بِالْمَدِیْنَۃِ، قَالَ: فَلَقِیْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَیْہِ حَفْصَۃَ فَقُلْتُ: اِنْ شِئْتَ اَنْکَحْتُکَ حَفْصَۃَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِیْ ذَالِکَ، فَلَبِثْتُ لَیَالِی فَلَقِیَنِی فَقَالَ: مَا اُرِیْدُ اَنْ أَتَزَوَّجَ یَوْمِی ھٰذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِیْتُ أَبَا بَکْرٍ فَقُلْتُ: اِنْ شِئْتَ أَنْکَحْتُکَ حَفْصَۃَ ابْنَۃَ عُمَرَ، فَلَمْ یَرْجِعْ اِلَیَّ شَیْئًا، فَکُنْتُ أَوْجَدُ عَلَیْہِ مِنِّی عَلٰی عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَیَالِی فَخَطَبَہَا اِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَنْکَحْتُہَا اِیَّاہ، فَلَقِیَنِی أَبُوْبَکْرٍ فَقَالَ: لَعَلَّکَ وَجَدْتَ عَلَیَّ حِیْنَ عَرَضْتَ عَلَیَّ حَفْصَۃَ فَلَمْ أَرْجِعْ اِلَیْکَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاِنَّہُ لَمْ یَمْنَعْنِی أَنْ أَرْجِعَ اِلَیْکَ شَیْئًا حِیْنَ عَرَضْتَہَا عَلَیَّ اِلَّا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُھَا وَلَمْ أَکُنْ لِاُفْشِیَ سِرَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَوْ تَرَکَہَا لَنَکَحْتُہَا۔ (مسند احمد: ۷۴)

سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میری بیٹی سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سیدنا خنیس بن حذافہ یا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کے بعد بیوہ ہوگئی،یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور غزوئہ بدر میں حاضر ہوئے تھے اور انھوں نے مدینہ میں وفات پائی تھی، میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا اور ان پر حفصہ کو پیش کیا اور میں نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں حفصہ سے تمہارا نکاح کر دیتا ہوں؟ انہوں نے کہا: میں اس بارے میں غور کروں گا، میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا، پھر وہ مجھے ملے اور کہا: میں ان دنوں شادی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملا اور میں نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا تم سے نکاح کر دیتا ہوں، انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، اس وجہ سے ان پر مجھے عثمان سے بھی زیادہ افسوس ہوا، بہرحال میں چند دن ٹھہرا رہا ، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب سے میری بیٹی کے نکاح کا پیغامآگیا اور میں نے اس کا نکاح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کر دیا، بعد میں جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھے ملے تو انہوں نے کہا: جب تم نے مجھ پر حفصہ کو پیش کیا تھا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا تو تم مجھ سے ناراض ہوئے ہو گے؟ میں نے کہا: جی بالکل، انھوں نے کہا: مجھے آپ کی پیشکش کا جواب دینے میں صرف ایک چیز رکاوٹ تھی کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، یہ ایک راز تھا اور میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا راز افشا نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ رشتہ نہ کرتے تو میں حفصہ سے نکاح کر لیتا۔

Haidth Number: 11447
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا خنیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجیت میں تھیں، جب وہ بیوہ ہوگئیں تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات کی اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کی پیش کش کی۔ لیکن سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ مجھے بیویوں کی حاجت نہیں ہے، تاہم میں اس بارے میں سوچوں گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملے اور انہیں بھی حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کی پیش کش کی۔ لیکن وہ خاموش رہے (اور کوئی جواب ہی نہیں دیا)۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دل میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق ناراضگی آگئی، اس کے بعد جلد ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کا پیغام بھیج دیا، اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جا کر ملے اور کہا: میں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کی پیش کش کی تھی تو انہوںنے انکار کر دیا تھا، اس کے بعد میں نے آپ کو حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی تو آپ خاموش رہے اور مجھے واپسی جواب تک نہ دیا۔ تو مجھے عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادہ آپ پر غصہ آیا، کیونکہ انہوںنے واضح طور پر انکار تو کر دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:دراصل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کرنے کا تذکرہ کیا تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات ابھی تک راز تھی، اس لیے میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز کو افشاء کرنا جائز نہ سمجھا۔ (اور خاموش رہا)۔

Haidth Number: 11448
عاصم بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر کو طلاق دی تھی اور پھر رجوع کر لیا تھا۔

Haidth Number: 11449