Blog
Books
Search Hadith

اہل ایمان کا جنت میں اپنے ربّ کا دیدار کرنا اور یہ سب سے بڑی نعمت ہو گی، جو اللہ تعالیٰ ان کو عطا کرے گا، اللہ ہمیں اس سے محروم نہ رکھے (آمین)نیز اس باب میں موقف سے موت کے ذبح ہونے تک کے ابواب کی تلخیص بھی ہے

65 Hadiths Found

۔ (۱۳۳۳۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہٖاِلٰی اَنْ ذَکَرَ الصِّرَاطَ فَقَالَ: وَیُوْضَعُ الصِّرَاطُ فَہُمْ عَلَیْہِ مِثْلُ جِیَادِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ وَقَوْلُھُمْ عَلَیْہِ: سَلِّمْ سَلِّمْ، وَیَبْقٰی اَھْلُ النَّارِ، فَیُطْرَحُ مِنْہُمْ فِیْھَا فَوْجٌ، فَیُقَالُ: ھَلِ امْتَلَأْتِ؟ وَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ، ثُمَّ یُطْرَحُ فِیْہَا فَوْجٌ، فَیُقَالُ: ھَلِ امْتَلَاْتِ؟ وَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ، حَتّٰی اِذَا اُوْعِبُوْا فِیْہَا وَضَعَ الرَّحْمٰنُ عَزَّوَجَلَّ قَدَمَہُ فِیْھَا وَزَوٰی بَعْضُہَا اِلٰی بَعْضٍ، ثُمَّ قَالَتْ: قَطْ قَطْ قَطْ، وَاِذَا صَیَّرَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ فِی الْجَنَّۃِ وَاَھْلُ النَّارِ فِی النَّارِ اُتِیَ بِالْمَوْتِ مُلَبَّبًا فَیُوْقَفُ عَلٰی السُّوْرِ الَّذِیْ بَیْنَ اَھْلِ النَّارِ وَاَھْلِ الْجَنَّۃِ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! فَیَطَّلِعُوْنَ خَائِفِیْنَ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ النَّارِ! فَیَطَّلِعُوْنَ مُسْتَبْشِرِیْنَیَرْجُوْنَ، فَیُقَالُ لِاَھْلِ الْجَنَّۃِ وَلِاَھْلِ النَّارِ: تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلَائِ: قَدْ عَرَفْنَاہُ ھُوَ الْمَوْتُ الَّذِیْ وُکِّلَ بِنَا، فَیُضْجَعُ فَیُذْبَحُ ذَبْحًا عَلٰی السُّوْرِ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! خُلُوْدٌ لَامَوْتَ، وَیَا اَھْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ لَا مَوْتَ۔)) (مسند احمد: ۸۸۰۳)

۔ (دوسری سند) اسی قسم کی حدیث ہے، البتہ اس میں ہے: پھر پل صراط نصب کر دیا جائے گا، لوگ اس کے اوپر سے بہترین گھوڑوں اور سواروں کی رفتار سے گزریں گے اور صورتحال یہ ہو گی کہ انبیاء ورسل بھی خوف کے مارے کہہ رہے ہوں گے: بچانا، محفوظ رکھنا، جہنمی لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کی ایک فوج کو جہنم میں ڈال کر اس سے پوچھا جائے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ جہنم کہے گی: کیا مزید لوگ ہیں، اس کے بعد پھر ایک گروہ کو اس میں پھینکا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا: کیا اب تو بھر گئی ہے؟ وہ کہے گی: مزید لاؤ، یہاں تک کہ جب سب جہنمی جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے اور وہ مزید لوگوں کو اپنے اندر ڈالے جانے کا مطالبہ کر رہی ہو گی تو آخرمیں اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے گا، اس کے کنارے ایک دوسرے سے مل جائیںگے اور وہ کہے گی: بس،بس، بس۔ جب تمام جنتی لوگ جنت میں اور تمام جہنمی لوگ جہنم میں پہنچ جائیں گے تو جنت اور جہنم کے درمیان والی دیوار پر موت کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا، پھر یوں آواز دی جائے گی: او جنتیو! وہ خوف زدہ ہو کر ادھر دیکھیں گے، پھر کہا جائے گا: او جہنمیو! وہ خوش ہو کر اور جہنم سے رہائی کی امید لے کر ادھر دیکھیں گے،پھر اہل جنت اور اہل جہنم دونوں سے کہا جائے گا: کیا تم اس چیز کو جانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے:جی ہم اسے جانتے ہیں، یہ و ہ موت ہے، جو ہمارے اوپر مسلط کی گئی تھی، پھر اسے لٹا کر اسی دیوار کے اوپر ذبح کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا: جنتیو!اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس جنت میں رہو گے، تم میں سے کسی پر موت نہیں آئے گی اور جہنمیو! اب تم بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی میں رہو گے، تم میں سے کسی کو بھی موت نہیں آئے گی۔

Haidth Number: 13337

۔ (۱۳۳۳۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا رِبْعِیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ اِسْحٰقَ ثَنَا زَیْدُ بْنُ اَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَاَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ قَالَ: ((ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُوْنَہَا سَحَابٌ؟)) قَالَ: قُلْنَا: لَا، قَالَ: ((فَہَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ لَیْسَ دُوْنَہُ سَحَابٌ؟)) قَالَ: قُلْنَا: لَا، قَالَ: ((فَاِنَّکُمْ تَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَذٰلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ قَالَ: فَیُقَالُ: مَنْ کَانَ یَعْبُدُ شَیْْئًا فَلْیَتَّبِعْہُ قَالَ: فَیَتَّبِعُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الشَّمْسَ اَلشَّمْسَ، فَیَتَسَاقَطُوْنَ فِی النَّارِ، وَیَتَّبِعُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْقَمَرَ الْقَمَرَ فَیَتَسَاقَطُوْنَ فِی النَّارِ وَیَتَّبِعُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْاَوْثَانَ الْاَوْثَانَ وَالَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْاَصْنَامَ الْاَصْنَامَ، فَیَتَسَاقَطُوْنَ فِی النَّارِ، قَالَ: وَکُلُّ مَنْ یَعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَتّٰییَتَسَاقَطُوْنَ فِیالنَّارِ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَیَبْقٰی الْمُوْمِنُوْنَ وَمُنَافِقُوْھُمْ بَیْنَ ظَہْرَیْْہِمْ وَبَقَایَا اَھْلِ الْکِتٰبِ وَقَلَّلَہُمْ بِیَدِہٖ، قَالَ: فَیَاْتِیْہِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَقُوْلُ: اَلَا تَتَّبِعُوْنَ مَاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ؟ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: کُنَّا نَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَمْ نَرَ اللّٰہَ فَیَکْشِفُ عَنْ سَاقٍ، فَلَا یَبْقٰی اَحَدٌ کَانَ یَسْجُدُ لِلّٰہِ اِلَّا وَقَعَ سَاجِدًا، وَلَایَبْقٰی اَحَدٌ کَانَ یَسْجُدُ رِیَائً وَسُمْعَۃً اِلَّا وَقَعَ عَلٰی قَفَاہُ، قَالَ: ثُمَّ یُوْضَعُ الصِّرَاطُ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَہَنَّمَ وَالْاَنْبِیَائُ بِنَاحِیَتْیِہِ، قَوْلُھُمْ: اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، اَللّٰہُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، وَاِنَّہُ لَدَحْضٌ مَزَلَّۃٌ وَاِنَّہُ لَکَلَالِیْبُ وَخَطَاطِیْفُ، قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ: وَلَا اَدْرِیْ لَعَلَّہُ قَالَ: تَخْطِفُ النَّاسُ وَحَسَکَۃٌ تَنْبُتُ بِنَجْدٍ یُقَالُ لَھَا السَّعْدَانُ قَالَ: وَنَعَتَہَا لَھُمْ ، قَالَ: فَاَکُوْنُ اَنَا وَاُمَّتِیْ لَاَوَّلَ مَنْ مَرَّ اَوْ اَوَّلَ مَنْ یُّجِیْزُ، قَالَ: فَیَمُرُّوْنَ عَلَیْہِ مِثْلَ الْبَرْقِ وَمِثْلَ الرِّیْحِ وَمِثْلَ اَجَاوِیْدِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ فَنَاجٍ مُسْلَّمٌ وَمَخْدُوْشٌ مُکَلَّمٌ وَمَکْدُوْسٌ فِی النَّارِ، فَاِذَا قَطَعُوْہُ اَوْ فَاِذَا جَاوَزُوْہُ، فَمَا اَحَدُکُمْ فِیْ حَقٍّ یَعْلَمُ اَنَّہُ حَقٌّ لَہُ بَاَشَدَّ مُنَاشَدَۃً مِنْہُمْ فِیْ اِخْوَانِہِمُ الَّذِیْنَ سَقَطُوْا فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ اَیْ رَبِّ! کُنَّا نَغْزُوْا جَمِیْعًا وَنَحُجُّ جَمِیْعًا وَنَعْتَمِرُ جَمِیْعًا فَبِمَ نَجَوْنَا الْیَوْمَ وَھَلَکُوْا، قَالَ: فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُنْظُرُوْا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖزِنَۃُ دِیْنَارٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَاَخْرِجُوْہُ، قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ، قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ: مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖزِنَۃُ قِیْرَاطٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَاَخْرِجُوْہُ، قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ، قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ: مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖمِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَاَخْرِجُوْہُ، قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ اَبُوْ سَعِیْدٍ: بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ: وَاَظُنُّہُ یَعْنِیْ قَوْلَہُ {وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ اَتَیْْنَا بِہَا وَکَفٰی بِنَا حَاسِبِینَ } قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ مِنَ النَّارِ فَیُطْرَحُوْنَ فِی نَہْرٍ یُقُال لَہُ نَہْرُ الْحَیَوَانِ فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحَبُّ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ، اَلَاتَرَوْنَ مَا یَکُوْنُ مِنَ النَّبَتِ اِلَی الشَّمْسِیَکُوْنُ اَخْضَرَ وَمَا یَکُوْنُ اِلَی الظِّلْ یَکُوْنُ اَصْفَرَ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَاَنَّکَ کُنْتَ قَدْ رَعَیْتَ الْغَنَمَ؟ قَالَ: (((اَجَلْ قَدْ رَعَیْتُ الْغَنَمَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۴۴)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب بادل نہ ہوں تو کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے ربّ کو اسی طرح بسہولت دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کر ے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ دنیا میںجو کوئی جس کی عبادت کیا کرتا تھا، وہ اس کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ سورج کی پوجا کرنے والے اس کے پیچھے چل پڑے گے اور وہ ان کو جہنم میں جا گرائے گا، چاند کی پرستش کرنے والے اس کے پیچھے چل پڑیں گے اور جہنم میں جا گریں گے اور دوسرے مختلف بتوں کی عبادت کرنے والے ان کے پیچھے چل پڑیں اور اس طرح جہنم میںجا گریں گے۔ صرف اہل ایمان باقی رہ جائیں گے، جبکہ ان میں منافقین اور کچھ اہل ِ کتاب بھی ہوں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے اہل کتاب کی تعداد کی قلت کی طرف اشارہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس آکر ان سے کہے گا: تم جس کی عبادت کیا کرتے تھے، اس کے پیچھے کیوں نہیں جاتے؟ وہ کہیں گے: ہم تو ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور ہم نے ابھی تک اس کو دیکھا ہی نہیں، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کو نمایاں کرے گا، جو لوگ صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا کرتے تھے، وہ فوراً اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے اور جو لوگ محض دکھلاوے اور شہرت کے لیے سجدے کیا کرتے تھے، وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے بلکہ گدی کے بل گر جائیں گے، اس کے بعد جہنم پر پل صراط نصب کیا جائے گا، انبیاء و رسل اس کی دونوں اطراف میں کھڑے ہر یہ دعائیں کر رہے ہوں گے: اے اللہ! محفوظ رکھنا، محفوظ رکھنا، اے اللہ! بچانا ، بچانا، اس پل پر شدید قسم کی پھسلن ہوگی اور وہاںبے شمارخمدار سلاخین اور کنڈیاں لگی ہوں گی،وہ گزرنے والوں کو اچک لیں گی اور وہاں نجد کے علاقے میں اگنے والے سعدان درخت کے کانٹوں کی طرح کے کانٹے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کانٹوں کی صفات بھی بیان کیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اور میری امت سب سے پہلے اس پل کو پار کریں گے، اس کے اوپر سے لوگ بجلی کی رفتار سے، تیز ہوا کی رفتار سے، بہترین تیز رفتار گھوڑوں کی رفتار سے اور تیز اونٹوں کی رفتار سے گزریں گے، بعض لوگ صحیح سالم نجات پا جائیں گے اور بعض گرتے پڑتے زخمی ہو کر گزریں گے اور گر جانے والے جہنم میں جاگریں گے، اس پل کو پار کرجانے والے لوگ دنیا میں اپنے یقینی حق پر جو جھگڑا کرتے تھے، اس سے زیادہ تکرار وہ اپنے ان بھائیوں کے حق میں کریں گے، جو جہنم میں گر جائیں گے، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم اکٹھے جہاد کرتے تھے، مل کر حج وعمرہ کرتے تھے، تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نجات پا گئے اور وہ ہلاک ہو گئے؟ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: دیکھو، جن لوگوں کے دلوںمیں ایک دینار کے برابر ایمان ہو ان کو نکال لاؤ، چنانچہ ایسے لوگوں کو جہنم سے باہر نکال لیا جائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جن کے دلوں میں ایک قیراط کے برابر ایمان ہو، ان کو بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو بھی نکال لیاجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جن لوگوں کے دلوں میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو، ان کو بھی نکال لاؤ، چنانچہ ایسے لوگوں کو بھی جہنم سے نکال لیاجائے گا۔ اس کے بعد سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس بات کی تائید کے لیے میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے، عبدالرحمن بن اسحاق کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ان کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا: {وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ} (اور اگر کسی کے پاس رائی کے ایک دانے کے برابر ایمان ہوا تو ہم اسے سامنے لے آئیں گے اور محاسبہ کرنے میں ہم کافی ہیںـ)۔ آگے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور اِن جہنمیوں کو جہنم سے نکال کر نہر الحیوان میں ڈالا جائے گا، اس میں وہ لوگ اس طرح اگیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی وغیرہ میں دانے اگتے ہیں، کیا تم دیکھتے ہو کہ جو پودا سورج کی طرف ہو وہ سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہو وہ زرد ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! معلوم ہوتا ہے کہ آپ بکریاں چراتے رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، میں نے بکریاں چرائی ہیں۔

Haidth Number: 13338
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عنقریب اپنے ربّ تعالیٰ کا دیدار کرو گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے ربّ کا دیدار کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت ہوتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے میں بھی تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی، مگر اسی طرح کہ جتنی سورج اور چاند کو دیکھتے وقت دقت پیش آتی ہے۔ اعمش نے لا تضارون کا معنی لا تمارون کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتے ہوئے دھکم پیل نہیں ہوگی۔

Haidth Number: 13339
سیدنا ابو رزین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم سب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور اس کی مخلوق میں اس کی کوئی مثال دی جا سکتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو رزین! کیا تم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سے چاندکو نہیں دیکھ لیتا؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تو اس سے عظیم ہے۔

Haidth Number: 13340

۔ (۱۳۳۴۱)۔ وَعَنْ صُہَیْبِ بْنِ سِنَانٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ نُوْدُوْا: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! اِنَّ لَکُمْ مَوْعِدًا عِنْدَ اللّٰہِ لَمْ تَرَوْہُ۔فَقَالُوْا: وَمَا ھُوَ؟ اَلَمْ تُبِیِّضْ وُجُوْھَنَا وَتُزَحْزِحْنَا عَنِ النَّارِ وَتُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اَلَمْ یُثَقِّلْ مَوَازِیْنَنَا وَیُعْطِنَا کُتُبَنَا بِاَیْمَانِنَا وَیُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَیُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ) قَالَ: فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَیَتَجَلّٰیاللّٰہُ لَھُمْ) فَیَنْظُرُوْنَ اِلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ! مَا اَعْطَاھُمُ اللّٰہُ شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیْہِمْ مِنْہُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنَ النَّظْرِ اِلَیْہِ)۔)) ثُمَّ تَلَا رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ} [یونس: ۲۶] (مسند احمد: ۱۹۱۴۳)

سیدنا صہیب بن سنان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ان کو یہ آواز دی جائے گی: اے اہل جنت! تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ پورا ہونا باقی ہے، ابھی تک تم نے اسے نہیں دیکھا، وہ کہیں گے: اے اللہ! کیا تو نے ہمارے چہروں کو سفید کر کے اور جہنم سے محفوظ رکھ کر ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا، ایک روایت میں ہے: وہ کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے میزانوں کو بھاری نہیں کیا اور کیا ہمارے نامہ ہائے اعمال ہمارے دائیں ہاتھوں میں پکڑا کر ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل نہیں کیا۔ اتنے میں وہ حجاب اٹھائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے سامنے جلوہ فرمائے گا اور وہ اس کا دیدار کریں گے، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر اور پسندیدہ کوئی چیز نہیں دی ہوگی۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ} (جو لوگ دنیا میں نیکوکار ہیں، ان کو ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور مزید ایک نعمت بھی ملے گی۔ (سورۂ یونس: ۲۶)

Haidth Number: 13341