Blog
Books
Search Hadith

خواتین کے لئے مہندی لگانے کے مستحبّ ہونے کا بیان

65 Hadiths Found
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب ہاتھ پھیلایا، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے کہ یہ مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا۔ اس نے کہا: جی میں عورت ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو عورت ہے تو مہندی سے اپنے ناخنوں کا رنگ تبدیل کر لیا ہوتا۔

Haidth Number: 8151
۔ کریمہ بنت ہمام کہتی ہیں: میں مسجد حرام میں داخل ہوئی تو میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو تنہا پایا، ایک عورت نے ان سے سوال کیا: اے ام المومنین! مہندی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا:میرے پیارے حبیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے رنگ کو تو پسند کرتے تھے، لیکن اس کی بو کو ناپسند کرتے تھے، بہرحال یہ حرام نہیں، پاکیزگی کی حالت میں یا حیض کے فارغ ہوتے وقت اس کا اہتمام کیا کرو۔

Haidth Number: 8152
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے عورتوں کی جماعت! تم چہروں پر زعفران لگانے سے پرہیز کیا کرو، اتنے میں ایک عورت نے ان سے مہندی کے متعلق سوال کیا، انھوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن میں اسے پسند نہیں کرتی، کیونکہ میرے حبیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی بو کو نا پسند کرتے تھے۔

Haidth Number: 8153
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی مہندی اور خوشبو لگایا کرتی تھیں، لیکن پھر اس نے یہ چیزیں چھوڑ دیں، وہ میرے پاس آئی تو میں نے اس سے پوچھا: کیا تمہارا خاوند گھر پر موجود ہے یا غائب ہے؟ اس نے کہا: حاضر تو ہے، لیکن غائب کی مانند ہے۔ میں نے کہا: کیا مطلب؟ تم کیا کہنا چاہتی ہو؟ اس نے کہا: عثمان نہ دنیا چاہتے ہیں اورنہ عورتوں سے رغبت رکھتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس آئے تو میں نے یہ بات آپ کوبتائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملے اور فرمایا: اے عثمان ! کیا تم اسی طرح ایمان رکھتے ہو، جس طرح ہم ایمان رکھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر یہ بات ہے تو پھر ہم میں تیرے لیے کوئی نمونہ اور اسوہ نہیں ہے، پس تو اس طرح کر، جیسے ہم کرتے ہیں۔

Haidth Number: 8154

۔ (۸۵۴۱)۔ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ: حَضَرَتْ عِصَابَۃٌ مِنْ الْیَہُودِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! حَدِّثْنَا عَنْ خِلَالٍ نَسْأَ لُکَ عَنْہُنَّ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ، فَکَانَ فِیمَا سَأَ لُوہُ أَ یُّ الطَّعَامِ حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ قَبْلَ أَ نْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ، قَالَ: ((فَأَ نْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ الَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ إِسْرَائِیلَیَعْقُوبَ علیہ السلام مَرِضَ مَرَضًا شَدِیدًا، فَطَالَ سَقَمُہُ فَنَذَرَ لِلّٰہِ نَذْرًا لَئِنْ شَفَاہُ اللّٰہُ مِنْ سَقَمِہِ لَیُحَرِّمَنَّ أَ حَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ وَأَ حَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ، فَکَانَ أَ حَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ لُحْمَانُ الْإِبِلِ، وَأَ حَبَّ الشَّرَابِ اِلَیْہِ اَلْبَانُہَا۔))، فَقَالُوْا: اللّٰہُمَّ نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۱)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: اے ابو القاسم! ہم آپ سے چند باتیں پوچھتے ہیں، صرف نبی ان کا جواب دے سکتاہے، پھر انہوں نے جو سوال کئے تھے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا: یعقوب علیہ السلام نے تو رات اترنے سے پہلے کونسا کھانا اپنے اوپر حرام کیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کے نام کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی ہے، کیا تم جانتے ہو کہ حضرت یعقوب علیہ السلام سخت بیمار ہوئے تھے، ان کی بیماری لمبی ہو گئی، بالآخر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بیماری سے شفا دی تو وہ سب سے زیادہ محبوب مشروب اور سب سے زیادہ پیارا کھانا خود پر حرام کر دیں گے؟ جبکہ انہیں سب سے زیادہ پیارا کھانا اونٹ کا گوشت تھا اور سب سے زیادہ پسند مشروب اونٹنیوں کا دودھ تھا، انہوں نے اس چیز کو حرام کردیا۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم! درست ہے۔

Haidth Number: 8541

۔ (۱۰۵۷۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَیْلَۃً أُسْرِیَ بِنَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَدَخَلَ الْجَنَّۃَ فَسَمِعَ مِنْ جَانِبِھَا وَجْسًا قَالَ: ((یَاجِبْرِیْلُ! مَاھٰذَا؟)) قَالَ: ھٰذَا بِلَالٌ الْمُؤَذِّنُ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ جَائَ اِلَی النَّاسِ: ((قَدْ أَفْلَحَ بِلَالٌ، رَأَیْتُ لَہُ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ: فَلَقِیَہُ مُوسٰی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَحَّبَ بِہٖوَقَالَ: مَرْحَبًابِالنَّبِیِّ الْأُمِّیِّ، قَالَ: فَقَالَ: وَھُوَ رَجُلٌ آدَمُ طَوِیْلٌ سَبْطٌ شَعَرُہُ مَعَ أُذُنَیْہِ أَوَ فَوْقَھُمَا، فَقَالَ: ((مَنْ ھٰذَا؟یَاجِبْرِیْلُ!)) قَالَ: ھٰذَا مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: فَمَضٰی فَلَقِیَہُ عِیْسٰی فَرَحَّبَ بِہٖوَقَالَ: ((مَنْھٰذَا؟یَاجِبْرِیْلُ!)) قَالَ: ھٰذَا عِیْسٰی، قَالَ: فَمَضٰی فَلَقِیَہُ شَیْخٌ جَلِیْلٌ مَھِیْبٌ فَرَحَّبَ بِہٖوَسَلَّمَعَلَیْہِ وَکُلُّھُمْ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ، قَالَ: ((مَنْ ھٰذَا یَا جِبْرِیْلُ؟)) قَالَ: ھٰذَا أَبُوْکَ اِبْرَاھِیْمُ، قَالَ: فَنَظَرَ فِیْ النَّارِ فَاِذَا قَوْمٌ یَأْکُلُوْنَ الْجِیَفَ، فَقَالَ: ((مَنْ ھٰؤُلَائِ یَا جِبْرِیْل؟)) قَالَ: ھٰؤُلَائِ الَّذِیْنَیَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ، وَرَاٰی رَجُلًا اَحْمَرَ أَزْرَقَ جَعْدًا شَعِثًا اِذَا رَأَیْتَہُ، قَالَ: ((مَنْ ھٰذَا یَا جِبْرِیْلُ؟)) قَالَ: ھٰذَا عَاقِرُ النَّاقِۃِ، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَسْجِدَ الْأَقْصٰی قَامَ یُصَلِّیْ، فَالْتَفَتَ ثُمَّّ الْتَفَتَ فَاِذَا النَّبِیُّوْنَأَجْمَعُوْنَ یُصَلُّوْنَ مَعَہُ فَلَمَّا انْصَرَفَ جِیْئَ بِقَدَحَیْنِ اَحْدُھُمَا عَنِ الْیَمِیْنِ وَالْآخَرُ عَنِ الشِّمَالِ فِیْ اَحَدِھِمَا لَبَنٌ وَفِیْ الْآخَرِ عَسَلٌ، فَأَخَذَ اللَّبَنَ فَشَرِبَ مِنْہُ، فَقَالَ الَّذِیْ کَانَ مَعَہُ الْقَدَحُ: اَصَبْتَ الْفِطْرَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۴)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جس رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسراء کرایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جنت میں داخل ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی ایک طرف سے ہلکی سی آواز سنی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اے جبریل! یہ آواز کون سی ہے؟ انھوں نے کہا: یہ بلال مؤذن ہے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے پاس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق بلال کامیاب ہو گیا ہے،میں نے اس کے لیےیہ کچھ دیکھا ہے۔ اُدھر سفرِ معراج میں موسی علیہ السلام آپ کو ملے اور اُمّی نبی کو مرحبا کہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ گندمی رنگ کے دراز قد آدمیتھے، ان کے بال سیدھے تھے اور کانوں تک یا کانوں سے اوپر تک آ رہے تھے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے جبریل! یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں، پھر آپ آگے چلے اور عیسی علیہ السلام آپ کو ملے اور مرحبا کہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے جبریل! یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ عیسی علیہ السلام ہیں، پھر آگے چلے اور ایک بزرگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملے، وہ بڑے جلال اور ہیبت والے تھے، انھوں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مرحبا کہا اور آپ کو سلام کہا، بلکہ تمام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اے جبریل! یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ آپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگ میں دیکھا تو کچھ لوگوں کو مردہ لاشیں کھاتے ہوئے پایا اور پوچھا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ وہ لو ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے، یعنی ان کی غیبت کرتے تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایکاور شخص دیکھا، وہ سرخ رنگ کا تھا، اس کی آنکھیں نیلی تھیں، وہ کوتاہ قد تھا اور اس کے بال پراگندہ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا : جبریل! یہ کو ن ہے؟ انھوں نے کہا: یہ اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا ہے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد ِ اقصی میں داخل ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پس جب متوجہ ہوئے اور پھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ سارے کے سارے انبیائے کرام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دو پیالے لائے گئے، ایک دائیں طرف سے اور ایک بائیں طرف سے، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شہد تھا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دودھ لے کر اس کو پی لیا، جس فرشتے کے پاس پیالہ تھا، اس نے کہا: تو نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔

Haidth Number: 10571

۔ (۱۰۷۴۸)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: أَتَانِی أَبُو سَلَمَۃَیَوْمًا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَوْلًا فَسُرِرْتُ بِہِ، قَالَ: ((لَا تُصِیبُ أَحَدًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ مُصِیبَۃٌ فَیَسْتَرْجِعَ عِنْدَ مُصِیبَتِہِ، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا إِلَّا فُعِلَ ذٰلِکَ بِہِ۔)) قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَحَفِظْتُ ذٰلِکَ مِنْہُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو سَلَمَۃَ اسْتَرْجَعْتُ وَقُلْتُ: اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْنِی خَیْرًا مِنْہُ۔ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی نَفْسِی قُلْتُ: مِنْ أَیْنَ لِی خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِی اسْتَأْذَنَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أَدْبُغُ إِہَابًا لِی، فَغَسَلْتُ یَدَیَّ مِنَ الْقَرَظِ وَأَذِنْتُ لَہُ، فَوَضَعْتُ لَہُ وِسَادَۃَ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ، فَقَعَدَ عَلَیْہَا فَخَطَبَنِی إِلٰی نَفْسِی، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ مَقَالَتِہِ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا بِی أَنْ لَا تَکُونَ بِکَ الرَّغْبَۃُ فِیَّ، وَلٰکِنِّی امْرَأَۃٌ فِیَّ غَیْرَۃٌ شَدِیدَۃٌ، فَأَخَافُ أَنْ تَرٰی مِنِّی شَیْئًایُعَذِّبُنِی اللّٰہُ بِہِ، وَأَنَا امْرَأَۃٌ دَخَلْتُ فِی السِّنِّ، وَأَنَا ذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ: ((أَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ الْغَیْرَۃِ فَسَوْفَ یُذْہِبُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْکِ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ السِّنِّ، فَقَدْ أَصَابَنِی مِثْلُ الَّذِی أَصَابَکِ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ الْعِیَالِ فَإِنَّمَا عِیَالُکِ عِیَالِی۔)) قَالَتْ: فَقَدْ سَلَّمْتُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَزَوَّجَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَقَدْ أَبْدَلَنِی اللّٰہُ بِأَبِی سَلَمَۃَ خَیْرًا مِنْہُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۵۵)

اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میرے شوہر ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے تشریف لائے اورکہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک ایسی بات کہتے سنا ہے کہ جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت آئے اور وہ اس وقت (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) کہہ کہ یہ دعا پڑھے اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا (یا اللہ! مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کا نعم البدل عطا فرما) تو اللہ اسے یہ چیزیں عطا فرما دیتا ہے۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے ان کییہ بات یاد رکھی اور جب سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) کہہ کہ یہ دعا پڑھی اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا ۔ لیکن ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر اور اچھا انسان کون ہو سکتا ہے؟ (بہرحال میں نے دعا جاری رکھی)، سو جب میری عدت پوری ہوئی تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاں داخل ہو نے کی اجازت طلب کی، اس وقت میں چمڑا رنگ رہی تھی، میں نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اندر آنے کی اجازت دی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا، اس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر بیٹھ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنے ساتھ شادی کا پیغام دیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بات سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسی تو کوئی بات نہیں کہ مجھے آپ میں رغبت نہ ہو، درحقیقت بات یہ ہے کہ میرے اندر غیرت کا جذبہ بہت زیادہ ہے، مجھے ڈر ہے کہ مبادا آپ میرے اندر ایسی کوئی بات دیکھیں، جس کی وجہ سے اللہ مجھے عذاب سے دو چار کر دے، نیز میں اب کافی عمر رسیّدہ بھی ہو چکی ہوں اور میں اولاد والی بھی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے جو غیرت کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عنقریب ختم کر دے گا، تم نے عمر رسیدہ ہونے کی جو بات کی ہے تو میرا حال بھی ایسا ہی ہے اور جو تم نے اولاد کی بات کی ہے تو وہ میری اپنی اولاد ہو گی۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات تسلیم کر لی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا، سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بدلے میں اس سے بہتر شوہر یعنی اللہ کے رسول عطا کر دئیے۔

Haidth Number: 10748

۔ (۱۰۷۴۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ مُصِیبَۃٌ فَلْیَقُلْ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔))، فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَۃَ، قَالَ: اللَّہُمَّ اخْلُفْنِی فِی أَہْلِی بِخَیْرٍ، فَلَمَّا قُبِضَ قُلْتُ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، اَللّٰہُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا، قَالَتْ: وَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ وَأَبْدِلْنِی خَیْرًا مِنْہَا، فَقُلْتُ: وَمَنْ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَمَا زِلْتُ حَتّٰی قُلْتُہَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، خَطَبَہَا أَبُو بَکْرٍ فَرَدَّتْہُ، ثُمَّ خَطَبَہَا عُمَرُ فَرَدَّتْہُ، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِرَسُولِہِ، أَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنِّی امْرَأَۃٌ غَیْرٰیوَأَنِّی مُصْبِیَۃٌ وَأَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِی شَاہِدًا، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی مُصْبِیَۃٌ فَإِنَّ اللّٰہَ سَیَکْفِیکِ صِبْیَانَکِ، وَأَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی غَیْرٰی فَسَأَدْعُو اللّٰہَ أَنْ یُذْہِبَ غَیْرَتَکِ، وَأَمَّا الْأَوْلِیَائُ فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَیَرْضَانِی۔)) قُلْتُ: یَا عُمَرُ! قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَا إِنِّی لَا أَنْقُصُکِ شَیْئًا مِمَّا أَعْطَیْتُ أُخْتَکِ فُلَانَۃَ، رَحَیَیْنِ وَجَرَّتَیْنِ وَوِسَادَۃً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ۔)) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِیہَا، فَإِذَا جَائَ أَخَذَتْ زَیْنَبَ فَوَضَعَتْہَا فِی حِجْرِہَا لِتُرْضِعَہَا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیِیًّا کَرِیمًایَسْتَحْیِی، فَرَجَعَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ مِرَارًا فَفَطِنَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِمَا تَصْنَعُ، فَأَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ وَجَائَ عَمَّارٌ وَکَانَ أَخَاہَا لِأُمِّہَا، فَدَخَلَ عَلَیْہَا فَانْتَشَطَہَا مِنْ حِجْرِہَا وَقَالَ: دَعِی ہٰذِہِ الْمَقْبُوحَۃَ الْمَشْقُوحَۃَ الَّتِی آذَیْتِ بِہَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ فَجَعَلَ یُقَلِّبُ بَصَرَہُ فِی الْبَیْتِ، وَیَقُولُ: ((أَیْنَ زَنَابُ؟ مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟)) قَالَتْ: جَائَ عَمَّارٌ فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَبَنٰی بِأَہْلِہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَکِ سَبَّعْتُ لِلنِّسَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۰۴)

سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت آئے تو اسے چاہیے کہ وہ کہے: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا (بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور بیشک ہم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے، اے اللہ میں اپنی اس مصیبت کا تجھ سے اجر چاہتا ہوں، تو مجھے اس کا اجر اور اس کا نعم البدل عطا فرما)۔ جب میرے شوہر ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے کہا: یا اللہ! میرے بعد میرے اہل میں اچھا نائب بنانا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے کہا:إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔سیّدہ فرماتی ہیں: میں نے یوں کہنا چاہا کہ وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا ( اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما)، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ میں یہ سوچتی رہی، آخر کا میں نے یہ لفظ بھی کہہ ہی دئیے، جب ان کی عدت پوری ہوئی تو سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو رد کر دیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو بھی رد کر دیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے قاصد کو خوش آمدید، لیکن تم جا کر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کرو کہ میں تو بہت زیادہ غیرت والی ہوں اور میں صاحبِ اولاد بھی ہوں اور میرے سر پر ستوں میں سے یہاں کوئی بھی موجود نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے واپسی جواب بھیجا کہ تمہارا یہ کہنا کہ تم صاحبِ اولاد ہو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، بچوں کے بارے میں اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارا یہ کہنا کہ تم انتہائی غیرت مند ہو تو میں اللہ سے دعا کر وں گا کہ وہ تمہاری غیر ت کی اس شدت کو ختم کر دے اور تمہارا یہ کہنا کہ تمہارے سر پرستوں میں سے کوئی بھییہاں موجود نہیں، تو یاد رہے کہ تمہارا کوئی بھی سر پرست، وہ موجود ہو یا غائب، وہ میرے متعلق رضا مندی کا ہی اظہار کرے گا۔ یہ سن کر میں نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا نکاح کر دو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری فلاں بہن کوجو کچھ دیا ہے، تمہیں اس سے کم نہ دوں گا، اسے دو چکیاں، دو مٹکے، اور چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری تھی، دئیے تھے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں آتے اور وہ اپنی دختر زینب کو گود میں اٹھائے دودھ پلا رہی ہوتی تو چوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی انتہائی حیا دار اور مہربان تھے، ان کو اس کیفیت میں دیکھتے تو واپس چلے جاتے، اس قسم کی صورت حال کئی مرتبہ پیش آئی، سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس کا پتہ چل گیا وہ ان کا مادری بھائی تھا، تو ایک دن سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر زینب کو ان کی گود سے اٹھالے گئے اور کہا کہ تم اس بچی کو چھوڑو، جس کی وجہ سے تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پریشان کرتی ہو۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر تشریف لائے تو ادھر ادھر دیکھنے لگے اور فرمایا: زناب کہاں ہے؟ زناب کدھر گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد زینب تھی، سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بتلایا کہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تھے اور وہ اسے لے گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا اور فرمایا: اگر تم چاہو تو تمہارے پاس سات دن قیام کروں گا، لیکنیاد رکھو پھر میں اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن قیام کرنے بعد میں تمہارے پاس آؤں گا۔

Haidth Number: 10749

۔ (۱۰۷۵۰)۔ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ بِنْتِ امِّ سَلَمَۃَ عَنْ اّمِّ سَلَمَۃَ بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ: قَالَ: فَتَزَوَّجَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَاَتَاھَا فَوَجَدَھَا تُرْضِعُ فَانْصَرَفَ، ثُمَّ اَتَاھَا فَوَجَدَھَا تُرْضِعُ فَانْصَرَفَ، قَالَ: فبَلَغَ ذٰلِکَ عَمَّارَ بْنَ یَاسرٍ اَتَاھَا، فَقَالَ: حَلَّتْ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَ حَاجَتِہِ ھَلُمَّ الصَّبِیَّۃَ، قَالَ: فَاخَذَھَا فَاسْتَرْضَعَ لَھَا، فَاتَاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَیْنَ زَنَابُ؟)) یَعْنِی زَیْنَبَ، قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخَذَھَا عَمَّارٌ، فَدَخَلَ بِہَا وَقَالَ: ((اِنَّ بِکِ عَلٰی اَھْلِکِ کَرَامَۃً۔)) قَالَ: فَاقَامَ عِنْدَھَا اِلَی الْعَشِیِّ ثُمَّ قَالَ: ((اِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ وَاِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِسَائِرِ نِسَائِیْ؟ وَاِنْ شِئْتِ قَسَمْتُ لَکِ؟)) قَالَتْ: لَا، بَلِ اقْسَمْ لِیْ۔ (مسند احمد: ۲۷۲۵۷)

سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے گذشتہ حدیث کی مانند ہی مروی ہے، البتہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا،جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں آئے تو دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی ہیں، آپ واپس لوٹ گئے، اس کے بعد پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اورانہیں دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر واپس چلے گئے۔ جب سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ ان کے ہاں آئے اور کہا: تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی حاجت کے درمیان حائل ہو، تم یہ بچی مجھے دے دو، پس وہ اسے لے گئے اور اسے دودھ پلانے والی عورت کا بندوبست کر دیا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو دریافت فرمایا کہ زناب یعنی زینب کہاں ہے؟ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے عمار لے گئے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف رکھی اور فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں معزز اور مکرم ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ہاں پچھلے پہر تک قیام کیا اورپھر فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن قیام کر سکتا ہوں، لیکن اگر میں تمہارے ہاں سات دن قیام کروں تو اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن گزاروں گا اور اگر چاہو تو تمہارے لیے باری مقرر کردوں؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا کہ آپ میرے لیے باری ہی مقرر کر دیں۔

Haidth Number: 10750

۔ (۱۰۷۵۱)۔ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُخْبِرُ: أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَتْہُ، أَنَّہا لَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِینَۃَ أَخْبَرَتْہُمْ، أَنَّہَا ابْنَۃُ أَبِی أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ فَکَذَّبُوہَا، وَیَقُولُونَ: مَا أَکْذَبَ الْغَرَائِبَ حَتّٰی أَنْشَأَ نَاسٌ مِنْہُمْ إِلَی الْحَجِّ، فَقَالُوا: مَا تَکْتُبِینَ إِلٰی أَہْلِکِ، فَکَتَبَتْ مَعَہُمْ فَرَجَعُوا إِلَی الْمَدِینَۃِیُصَدِّقُونَہَا فَازْدَادَتْ عَلَیْہِمْ کَرَامَۃً، قَالَتْ: فَلَمَّا وَضَعْتُ زَیْنَبَ جَائَ نِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَطَبَنِی، فَقُلْتُ: مَا مِثْلِی نُکِحَ أَمَّا أَنَا فَلَا وَلَدَ فِیَّ وَأَنَا غَیُورٌ وَذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ: ((أَنَا أَکْبَرُ مِنْکِ، وَأَمَّا الْغَیْرَۃُ فَیُذْہِبُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا الْعِیَالُ فَإِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) فَتَزَوَّجَہَا فَجَعَلَ یَأْتِیہَا فَیَقُولُ: ((أَیْنَ زُنَابُ؟)) حَتّٰی جَائَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍیَوْمًا فَاخْتَلَجَہَا، وَقَالَ: ہٰذِہِ تَمْنَعُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَتْ تُرْضِعُہَا فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَیْنَ زُنَابُ؟)) فَقَالَتْ قُرَیْبَۃُ ابْنَۃُ أَبِی أُمَیَّۃَ، وَوَافَقَہَا عِنْدَہَا أَخَذَہَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی آتِیکُمُ اللَّیْلَۃَ۔)) قَالَتْ: فَقُمْتُ فَأَخْرَجْتُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِیرٍ کَانَتْ فِی جَرٍّ، وَأَخْرَجْتُ شَحْمًا فَعَصَدْتُہُ لَہُ، قَالَتْ: فَبَاتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَصْبَحَ، فَقَالَ حِینَ أَصْبَحَ: ((إِنَّ لَکِ عَلٰی أَہْلِکِ کَرَامَۃً، فَإِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ، فَإِنْ أُسَبِّعْ لَکِ أُسَبِّعْ لِنِسَائِی۔)) (مسند احمد: ۲۷۱۵۴)

ابوبکر بن عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زوجہ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو بتلایا کہ وہ جب مدینہ منورہ آئیں تو انہوں نے لوگوں کو بتلایا: میں ابو امیہ بن مغیرہ کی دختر ہوں، لوگوں نے ان کو جھوٹا سمجھا اور انھوں نے کہا: یہ کیسی عجیب وغریب جھوٹی بات ہے، یہاں تک کہ وہاں سے کچھ لو گ حج کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے کہا: کیا آپ اپنے اہلِ خانہ کے نام خط نہیں لکھ دیتیں؟ سو انہوں نے انہیں خط لکھ دیا، پھر انہوں نے مدینہ واپس آکر ان کی باتوں کی تصدیق کی (کہ واقعی وہ ابو امیہ کی بیٹی ہیں)، پس لوگوں میں ان کا مقام مزید بڑھ گیا، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب میں نے اپنی بیٹی زینب کو جنم دیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاں آکر مجھے نکاح کا پیغام دیا، میں نے عرض کیا: مجھ جیسی عورت سے نکاح نہیں کیا جاتا، اب مجھ سے اولاد ہونے کی امید نہیں اور پھر میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی ہوں اور صاحبِ اولاد بھی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے زیادہ عمر رسیّدہ ہوں، باقی رہی غیرت کی بات تو اللہ اسے ختم کر دے گا اور اولاد تو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد ہے۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں آنے لگے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے کہ زناب کہاں ہے؟ یہاں تک کہ ایک دن سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور اس بچی کو لے گئے اور انہوں نے کہا:یہ بچی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے درمیان حائل ہے، کیونکہ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اسے دودھ پلا رہی ہوتی تھیں، اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ زناب یعنی زینب کہاں ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایسے وقت آئے تھے کہ قُریبہ بنت ابی امیہ بھی اپنی بہن کے ہاں آئی ہوئی تھیں، انہوں نے کہا:بچی کو عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لے گئے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے ہاں رات کو آؤں گا۔ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے میں اٹھی اور ایک مٹکے میں کچھ جو تھے، میں نے انہیں نکال کر ان کا مغز نکالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کھانا تیار کیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات بسر کی، جب صبح ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں معزز اور مکرم ہو، اگر چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن راتیں گزاروں گا، اور اگر تمہارے ہاں سات راتیں گزاریں تو اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات راتیں گزاروں گا۔

Haidth Number: 10751
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھوایا تاکہ وہ اس پر بیٹھ کر (کفار کے ہجو والے اشعار کے جواب میں) اشعار پڑھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کریں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: حسان جب تک اللہ کے رسول کا دفاع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت تک روح القدس یعنی جبریل علیہ السلام کے ذریعے اس کی مدد فرماتا ہے۔

Haidth Number: 11678
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم مشرکین کی ہجو کا جواب دو، جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔

Haidth Number: 11679
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گزشتہ امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے، جنہیں اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا، اگر میری امت میں کوئی ایسا آدمی ہے تو وہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہو گا۔

Haidth Number: 12205
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے کہ جنہیں اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا، اگر میری امت میں کوئی ایسا آدمی ہواتو وہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں گے۔

Haidth Number: 12206
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دل و زبان پر حق جاری کر دیا ہے۔ جب لوگوں کو کوئی معاملہ پیش آتا اور مختلف افراد اپنی اپنی رائے دیتے اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی رائے دیتے تو قرآن مجید سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوتا تھا۔

Haidth Number: 12207

۔ (۱۲۲۰۸)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ فِی ثَلَاثٍ، أَوْ وَافَقَنِی رَبِّی فِی ثَلَاثٍ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوِ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّی؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی} وَقُلْتُ: لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، فَإِنَّہُ یَدْخُلُ عَلَیْکَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِی عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئٌ فَاسْتَقْرَیْتُہُنَّ أَقُولُ لَہُنَّ: لَتَکُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ لَیُبْدِلَنَّہُ اللّٰہُ بِکُنَّ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ حَتّٰی أَتَیْتُ عَلٰی إِحْدٰی أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، فَقَالَتْ: یَا عُمَرُ! أَمَا فِی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَعِظُ نِسَائَ ہُ حَتّٰی تَعِظَہُنَّ، فَکَفَفْتُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {عَسَی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ} الْآیَۃَـ (مسند احمد: ۱۶۰)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے تین باتوں میں اپنے رب کے فیصلہ کی موافقت کی ہے یا میرے ربّ نے تین باتوں میں میری موافقت کی ہے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لیں تو؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی}… تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو۔ میںنے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ کی خدمت میںنیک اور فاجر ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، اس لیے اگر آپ امہات المومنین کو پردہ کر ائیں تو بہتر ہو گا۔ اس کے بعد پردہ سے متعلقہ آیات نازل ہوگئیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے امہات المومنین کے بارے میں کوئی خبر ملی، سو میں نے ایک ایک سے جاکر کہا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کے مطالبات کرنا چھوڑ دو، وگرنہ اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ تم سے بہتر مسلم خواتین کو لے آئے گا، ایک ام المومنین کی خدمت میں جب میں نے گزارش کی تو اس نے تو یہ کہہ دیا کہ عمر! اللہ کے رسول اپنی ازواج کو جو کچھ نصیحت فرماتے ہیں، کیا وہ کافی نہیں ہیں کہ تم بھی اس بارے میں انہیں وعظ کرنے لگے ہو؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: {عَسٰی رَبُّہٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا} … اس کارب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔

Haidth Number: 12208

۔ (۱۲۲۰۹)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَضَلَ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ بِأَرْبَعٍ، بِذِکْرِ الْأَسْرٰییَوْمَ بَدْرٍ أَمَرَ بِقَتْلِہِمْ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ} وَبِذِکْرِہِ الْحِجَابَ أَمَرَ نِسَائَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَحْتَجِبْنَ، فَقَالَتْ لَہُ زَیْنَبُ: وَإِنَّکَ عَلَیْنَایَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالْوَحْیُیَنْزِلُ فِی بُیُوتِنَا، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ} وَبِدَعْوَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُ: ((اللَّہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ۔)) وَبِرَأْیِہِ فِی أَبِی بَکْرٍ کَانَ أَوَّلَ النَّاسِ بَایَعَہُ۔ ((مسند احمد: ۴۳۶۲)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چار امور میں لوگوں پر فضیلت لے گئے، انہو ں نے بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چار امور میں لوگوں پر فضیلت لے گئے، انہو ں نے بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے

Haidth Number: 12209
سیدنا سائب بن خلاد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ظلم کرتے ہوئے اہل مدینہ کو خوف زدہ کیا، اللہ اسے خوف زدہ کرے گا اور اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا۔

Haidth Number: 12649
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اہل مدینہ کو خوف زدہ کیا، اللہ تعالیٰ اسے خوف زدہ کرے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوںکی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا۔

Haidth Number: 12650
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ظالم حکمرانوں میں سے ایک حکمران مدینہ منورہ آیا، اس وقت سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بینائی ختم ہو چکی تھی، کسی نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر آپ اس سے ایک طرف ہی رہیں تو بہتر ہوگا، پس وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چلتے ہوئے گئے تو انہیں چوٹ لگ گئی پس انہوں نے کہا: ہلاک ہواوہ آدمی جس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خوف زدہ کیا، ان کے دونوں یا ایک بیٹے نے کہا: اباجان!اس نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیسے خوف زدہ کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو وفات پاچکے ہیں؟ انہو ں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس نے اہل مدینہ کو خوف زدہ کیا اس نے مجھے ڈرایا۔

Haidth Number: 12651
سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اہل مدینہ کو خو ف زدہ کرنے یا ان کے ساتھ برا سلوک کرنے کا ارادہ کیا، اللہ اسے اس طرح نسیت و نابود کردے گا، جیسے پانی میںنمک گھل جاتا ہے۔

Haidth Number: 12652
ابو عبداللہ قراظ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں تین بار سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر گواہی دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ انھوں نے کہا کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اہل مدینہ کے ساتھ برا سلوک کرنے کا ارادہ کیا، اللہ اسے یوں ہلاک کر دے گا جیسے نمک پانی میں میں گھل جاتا ہے۔

Haidth Number: 12653
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا،اللہ اسے اس طرح ختم کردے گا، جیسے نمک پانی میں حل ہو کر ختم ہوجاتا ہے۔

Haidth Number: 12654
ابو قلابہ کہتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میںایک آدمی کو دیکھا کہ لوگ ا س کے ارد گرد جمع تھے اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہتے ہوئے احادیث بیان کر رہا تھا، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک صحابی تھا، پھر میں نے اسے یہ بیان کرتے ہوئے سنا: تمہارے بعد ایک گمراہ کرنے والا جھوٹا آدمی آئے گا، اس کے سر کے بال پیچھے سے گھونگریالے ہوں گے، گھونگریالے، گھونگریالے، اور وہ کہے گا کہ وہ تمہارا ربّ ہے، جس نے اس سے کہا: تو ہمارا رب نہیں ہے، ہمارا رب تو اللہ ہے، ہم نے اسی پر توکل کیا، اسی کی طرف رجوع کیا اور ہم تیرے شر سے اسی اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، تو کذاب کا اس پر کوئی بس نہیں چلے گا۔

Haidth Number: 13002
سیدنا ہشام بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال کے سر بال پیچھے سے گھونگریالے ہوں گے، جس آدمی نے اس سے کہا: تو میرا رب ہے، وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے گا، لیکن جس نے اس سے کہا: تو جھوٹا ہے، میرا ربّ تو اللہ ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں تو دجال اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یا فرمایا: اس پر اس کا کوئی فتنہ نہیں ہو گا۔

Haidth Number: 13003
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ دجال کے پاس کیا کچھ ہو گا،اس کے پاس دو بہتی ہوئی نہریں ہوں گی، ایک کا پانی بظاہر سفید ہوگا اور دوسری نہر بظاہر دہکتی ہوئی آگ ہوگی، اگر تم میں سے کسی کو ان حالات سے سابقہ پڑ جائے تو وہ اس نہر میںداخل ہوجائے،جسے وہ آگ دیکھ رہا ہو، وہ آنکھیں بند کر کے اور سر جھکا کر اس سے نوش کر لے، وہی ٹھنڈا پانی ہوگا، دجال کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہو گی، اس پر موٹی سی جھلی ہو گی اوراس کی آنکھوں کے درمیان کَافِرٌ لکھا ہوا ہو گا، ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ مومن اس لفظ کو پڑھ لے گا۔

Haidth Number: 13004
سیدنا حذیفہ بن یما ن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال بائیں آنکھ سے کانا ہوگا، اس کے بال بہت زیادہ ہوں گے، ا سکے پاس ایک جنت اور ایک جہنم ہوگی، لیکن اس کی جہنم حقیقت میں جنت اور اس کی جنت حقیقت میں جہنم ہوگی۔

Haidth Number: 13005
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دجال کے بارے میں جس قدر میںنے پوچھا، کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس سے متعلقہ اتنے سوالات نہیں کیے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: بیٹے ! تم کیوں گھبراتے ہو، وہ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ میںنے کہا: اے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہریں ہوں گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کم تر اور رذیل ہوگا۔

Haidth Number: 13006
سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال نمودار ہونے والا ہے، وہ بائیں آنکھ سے کانا ہوگا، اس پر اس پر موٹی سی جھلی ہو گی۔ وہ مادر زاد نا بیناؤں کو اور پھلبہری کے مریضوں کو شفا دے گا اور مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ لوگوں سے کہے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ جس نے اسے اپنا ربّ تسلیم کر لیا وہ فتنے میں پڑ جائے گا، لیکن جس نے اس سے کہا: میر اربّ تو اللہ تعالیٰ ہے اور مرنے تک اسی پر ثابت قدم رہا، تو وہ اس کے فتنے سے محفوظ رہے گا اوراس کے بعد اس پر کوئی فتنہ اور عذاب نہیں ہو گا، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا، دجال زمین پر ٹھہرے گا، اس کے بعد مغرب کی جہت سے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت و رسالت کی تصدیق کرتے ہوئے اور ان کی ملت پر عمل پیرا ہو کر آئیں گے اور دجال کو قتل کر یں گے، اس کے بعد قیامت قائم ہو گی۔

Haidth Number: 13007

۔ (۱۳۳۳۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِی ثَنَا عَبْْدُ الرَّزَّاقِ اَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّھْرِیِّ فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ {کُلُّاُمَّۃٍ تُدْعٰی اِلٰی کِتَابِہَا} عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ النَّاسُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُوْنَہَا سَحَابٌ؟)) قَالُوْا: لَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّکُمْ تَرَوْنَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذٰلِکَ یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ فَیَقُوْلُ: مَنْ کَانَ یَعْبُدُ شَیْئًا فَلْیَتَّبِعْہُ، فَیَتَّبِعُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ وَیَتَّبِعُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ الطَّوَاغِیْتَ الطَّوَاغِیْتَ وَتَبْقٰی ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ، فِیْہَا مُنَافِقُوْھَا فَیَاْتِیْہِمِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ غَیْرِالصُّوْرَۃِ الَّتِیْ تَعْرِفُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا رَبُّکُمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ہٰذَا مَکَانُنَا حَتّٰییَاتِیَنَا رَبُّنَا، فَاِذَا جَائَ رَبُّنَا عَرَفْنَاہُ، قَالَ: فَیَاْتِیْہِمُ اللّٰہُ فِی الصُّوْرَۃِ الَّتِیْیَعْرِفُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا رَبُّکُمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: اَنْتَ رَبُّنَا فَیَتَّبِعُوْنَہُ، قَالَ: وَیُضْرَبُ جَسْرٌعَلٰی جَہَنَّمَ۔)) قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّجِیْزُ وَدَعْوَی الرُّسُلِ یَوْمَئِذٍ اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَبِہَا کَلَالِیْبُ مِثْلُ شَوْکِ السَّعْدَانِ، ھَلْ رَاَیْتُمْ شَوْکَ السَّعْدَانِ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّہَا مِثْلُ شَوْکِ السَّعْدَانِ غَیْرَ اَنَّہُ لَایَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِھَا اِلَّا اللّٰہُ تَعَالٰی، فَتَخْطِفُ النَّاسَ بِاَعْمَالِھِمْ فَمِنْہُمُ الْمُوْبَقُ بِعَمَلِہٖوَمِنْہُمُالْمُخَرْدَلُثُمَّیَنْجُوا حَتّٰی اِذَا فَرَغَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْقَضَائِ بَیْنَ الْعِبَادِ وَاَرَادَ اَنْ یُخْرِجَ مِنَ النَّارِ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّرْحَمَ مِمَّنْ کَانَ یَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَمَرَ الْمَلَائِکَۃَیُخْرِجُوْھُمْ فَیَعْرِفُوْنَہُمْ بِعَلَامَۃِ آثَارِ السُّجُوْدِ وَحَرَّمَ اللّٰہُ عَلٰی النَّارِ اَنْ تَاْکُلَ مِنِ ابْنِ آدَمَ اَثَرَ السُّجُوْدِ فَیُخْرِجُوْنَہُمْ قَدِ امْتُحِشُوْا، فَیُصَبُّ عَلَیْہِمْ مِنْ مَائٍ یُقَالُ لَہُ: مَائُ الْحَیَاۃِ، فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحَبَّۃِ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ وَیَبْقٰی رَجُلٌ یُقْبِلُ بِوَجْْہِہٖاِلَی النَّارِ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ قَدْ قَشَبَنِیْ رِیْحُہَا وَاَحْْرَقَنِیْ ذَکَاؤُھَا، فَاصْرِفْ وَجْہِیْ عَنِ النَّارِ فَلَایَزَالُیَدْعُوْ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰییَقُوْلَ: فَلَعَلِّیْ اِنْ اَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ اَنْ تَسْاَلَنِیْ غَیْْرَہُ، فَیَقُوْلُ: لَا وَعِزَّتِکَ! لَااَسْاَلُکَ غَیْرَہُ، فَیَصْرِفُ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ، فَیَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: یَارَبِّ! قَرِّبْنِیْ اِلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: اَوَلَیْسَ قَدْ زَعَمْتَ اَنْ لَّاتَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ وَیْلَکَیَا ابْنَ آدَمَ! مَا اَغْدَرَکَ، فَلَا یَزَالُیَدْعُوْ حَتّٰییَقُوْلَ: فَلَعَلِّیْ اِنْ اَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ اَنْ تَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ، فَیَقُوْلُ: لَا، وَعِزَّتِکَ! لَااَسْاَلُکَ غَیْرَہُ وَیُعْطِیْ مِنْ عُہُوْدِہِ وَمَوَاثِیْقِہِ اَنْ لَایَسْاَلَ غَیْرَہُ، فَیُقَرِّبُہُ اِلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَاِذَا دَنَا مِنْہَا اِنْفَہَقَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، فَاِذَا رَاٰی مَا فِیْہَا مِنَ الْحَبْرَۃِ وَالسُّرُوْرِ سَکَتَ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّسْکُتَ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: اَوَلَیْسَ قَدْ زَعَمْتَ اَنْ لَّاتَسْاَلَ غَیْرَہُ فَقَدْ اَعْطَیْتَ عُہُوْدَکَ وَمَوَاثِیْقَکَ اَنْ لَاتَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! لَاتَجْعَلْنِیْ اَشْقٰی خَلْقِکَ، فَلَایَزَالُیَدْعُو اللّٰہَ حَتّٰییَضْحَکَ اللّٰہُ فَاِذَا ضَحِکَ مِنْہُ اَذِنَ لَہُ بِالدُّخُوْلِ فِیْہَا، فَاِذَا دَخَلَ قِیْلَ لَہُ: تَمَنَّ مِنْ کَذَا فَیَتَمَنّٰی، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: تَمَنَّ مِنْ کَذَا فَیَتَمَنّٰی، حَتّٰی تَنْقَطِعَ بِہِ الْاَمَانِیُّ، فَیُقَالُ لَہُ: ہٰذَا لَکَ وَمِثْلُہُ مَعَہُ۔)) قَالَ اَبُوْ سَعِیْدٍ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((ہٰذَا لَکَ وَعَشْرَۃُ اَمْثَالِہٖمَعَہُ۔)) قَالَاَبُوْھُرَیْرَۃَ: حَفِظْتُ مِثْلَہُ مَعَہُ، قَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ: وَذٰلِکَ الرَّجُلُ آخِرُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۰۹۱۹)

اللہ تعالیٰ کے ارشاد {کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعِی اِلٰی کِتاَبھَا}( ہر گروہ کو اس کے نامہ ٔ اعمال کی طرف بلایاجائے گا۔) کی تفسیر میں امام زہری، عطاء بن یزید لیثی سے اور وہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آیا قیامت کے دن ہم اپنے ربّ کا دیدار کریں گے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا چودھویں شب کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت پیش آتی ہے، جبکہ اس کے سامنے بادل بھی نہ ہوں؟ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! بالکل نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کا دیدار کرو گے، اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو جمع کر ے گا اور کہے گا: تم دنیامیں جس جس کی عبادت کرتے تھے، اس کے پیچھے چلے جاؤ، چنانچہ چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے پیچھے ، سورج کی پوجا کرنے والے سورج کے پیچھے اور دوسرے طاغوتوں کی پوجا پاٹ کرنے والے ان کے پیچھے چل پڑیں گے، اس امت کے لوگ کھڑے رہ جائیںگے، ان میں منافقین بھی ہوںگے، تم اللہ تعالیٰ کی جو صور ت پہچانتے ہو، وہ اس کے علاوہ کسی اور صورت میں تمہارے پاس آکر کہے گا: میں تمہارا ربّ ہوں، وہ کہیں گے: ہم تو تیرے شرّ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم تو یہیں ٹھہرے رہیں گے تاآنکہ ہمارا ربّ ہمارے پاس آ جائے، جب ہمارا ربّ ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا، جسے وہ پہچانتے ہوںگے، وہ کہے گا: میں تمہارا ربّ ہوں۔ وہ کہیں گے: واقعی تو ہمارا ربّ ہے، سو وہ اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا، سب سے پہلے میں اسے عبور کروں گا، اس دن تمام انبیاء و رسل بھی خوف اور ڈر کے مارے یہ کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ بچانا، اے اللہ محفوظ رکھنا، اس پل پر سعدان کے کانٹوں کی طرح خمدار کانٹے ہوں گے، کیا تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بات ضرور ہے کہ ان کانٹوں کی ضخامت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب سے اچک لیاجائے گا،کوئی تو یوں ہی ہلاک ہو جائے گا اور کسی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہلاک کیا جائے گا،یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کر کے فارغ ہوگا اور وہ توحید کی گواہی دینے والے اہل جہنم میں سے بعض پر رحم کرتے ہوئے ان کو جہنم سے نکالنے کا ارادہ کرے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ان کو جہنم سے نکال لائیں، فرشتے ان اہل توحید کو سجدوں کے نشانات کی وجہ سے پہچان لیں گے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشانات کو کھائے، بہرحال فرشتے ان کو نکال کر لائیں گے، وہ جل جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے، ان پر مائُ الحیاۃ ڈالا جائے گا، اس سے وہ یوں اگیں گے جیسے سیلاب کی جھاگ وغیرہ میں دانے اگتے ہیں، ایسے لوگوں میں سے ایک آدمی باقی رہ جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جہنم کی ہوا نے تکلیف دی ہے اور اس کی گرمی کی شدت نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے، لہذا تو میرے چہرے کو آگ سے پھیر دے، وہ مسلسل دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں تیری یہ دعا قبول کر لوں تو کیا تواس کے علاوہ کوئی سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم ہے کہ میں تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو آگ سے پھیر دے گا، لیکن اس کے بعد وہ پھر کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مزید کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟ اے ابن آدم! تجھ پر بڑا افسوس ہے، تو کس قدر وعدہ خلاف ہے، لیکن وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا اور اس سے دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں تیری یہ بات قبول کر لوں تو تو مزید تو کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! تیری عزت کی قسم! میں تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے پختہ وعدہ کرے گا، پس اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا، پھر جب وہ جنت کے دروازے کے قریب پہنچ جائے گا، تو جنت اس کے لیے نمایاں اور وسیع ہوجائے گی، جب وہ جنت کے اندر کی راحتیںاور خوشیاں ملاحظہ کرے گا تو کچھ دیر تو خاموش رہے گا، لیکن بالآخر یوں بول پڑے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مزید کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟ جبکہ تو اس سلسلہ میں میرے ساتھ پختہ وعدے کر چکا ہے، وہ کہے گا: اے رب! تو اپنی مخلوق میں سے مجھے اپنی نعمتوں سے محروم نہیں رکھ، چنانچہ وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو پکارتا اور دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی باتوں پر ہنس دے گا، جب اللہ تعالیٰ اس کی باتوں پر ہنسے گا تو اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت بھی دے دے گا، جب وہ جنت میں جائے گا تو اس سے کہا جائے گا: تو جو تمنا کر سکتا ہے کر لے، یعنی جو مانگ سکتا ہے مانگ لے، چنانچہ وہ خوب مانگے گا، پھر اس سے کہا جائے گا کہ تو مزید مانگ لے چنانچہ وہ مزید مانگے گا، یہاں تک کہ اس کی خواہشات ختم ہوجائیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے کہاجائے گا: تو نے جو کچھ مانگا ہے، یہ سب اور اتنا مزید تجھے دیا جاتا ہے۔ جب سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو سیدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے قریب تشریف فرما تھے، انھوں نے ان کی بیان کردہ کسی بھی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی، البتہ آخری بات کے بارے میں سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: میںنے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا تھا: تو نے جو کچھ مانگا، تجھے وہ بھی ملے گا اور اس سے مزید دس گنا دیا جاتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے تو اسی طرح یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے جو کچھ مانگا تجھے یہ اور اتنا مزید دیا جاتا ہے، ساتھ ہی سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:جنت میں جانے والا سب سے آخری آدمی یہ ہوگا۔

Haidth Number: 13336