Blog
Books
Search Hadith

ان عذروں کا بیان جو جماعت سے پیچھے رہنے کو جائز کردیتے ہیں

742 Hadiths Found
ابوملیح بن اسامہ کہتے ہیں:بارش والی رات کو میں مسجد کی طرف گیا، (نمازِ عشاء پڑھ کر) واپس آیا اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ میرے ابو جان نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ابو ملیح ہے۔ انھوں نے کہا: ہم حدیبیہ کے موقع رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے دیکھا کہ (ہلکی سی) بارش ہوئی، اس سے ہمارے جوتوں کے نچلے والے حصے بھی نہیں بھیگے تھے۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مؤذن نے کہا: اپنے خیموں میں ہی نماز پڑھ لو۔

Haidth Number: 2480
(دوسری سند) وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں: کہ حنین کے دن بارش تھی، اس لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے مؤذن کوحکم دیا کہ وہ یہ کہے کہ خیموں میں ہی نماز ہو گی۔

Haidth Number: 2481
Haidth Number: 2482
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا پیش کر دیا جائے اور اُدھر نماز کی اقامت بھی کہہ دی جائے تو پہلے کھانا کھا لیا کرو ۔

Haidth Number: 2483
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب رات کا کھانا پیش کر دیا جائے اور نماز کا وقت بھی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لیا کرو ۔

Haidth Number: 2484
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا رکھ دیا جائے اور اُدھر نماز بھی کھڑی کردی جائے تو پہلے کھانا کھا لیا کرو۔ نافع کہتے ہیں: ایک دفعہ سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شام کا کھانا کھا رہے تھے او روہ امام کی قراء ت سن رہے تھے۔

Haidth Number: 2485
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، عمر بن عبد العزیز k (کی نماز سے) پیچھے رہتے تھے، (یعنی وہ ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے تھے، ایک دن) عمر بن عبد العزیز نے ان سے پوچھا: تجھے کون سی چیز ایسا کرنے پر آمادہ کرتی ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب تم اس نماز کی موافقت کرتے ہو تو میں تمہارے ساتھ پڑھ لیتا ہوں، لیکن جب تم اس کی مخالفت کرتے ہو تو میں (وقت پر) نماز ادا کر کے اپنے گھر چلا جاتا ہوں۔

Haidth Number: 2486
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب نماز کھڑی کر دی جائے تو دوڑ کر نہ آیا کرو، بلکہ اس حال میں آؤ کہ تم پر سکون اور وقار ہو اور(امام کے ساتھ) جتنی نماز مل جاؤ ، وہ پڑھ لو اور جتنی رہ جائے، وہ بعد میں پوری کر لو۔ ایک روایت میں ((فَأَتِمُّوا)) کی بجائے ((فَاقْضُوا)) کے الفاظ ہیں، (دونوں کا معنی ایک ہی ہے)۔

Haidth Number: 2516
(دوسری سند) اسی قسم کی حدیث مروی ہے، البتہ آخری الفاظ اس طرح ہیں: جو پالو اسے پڑھ لواور جو تم سے سبقت لے جائے اس کو بعد میں پورا کر لو ۔

Haidth Number: 2517
سیّدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں کے حرکت کرنے کی آواز سنی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھ لی تو ان کو بلایا اور پوچھا: تم کو کیا ہو گیا تھا؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے نماز کی طرف جلدی کی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کیا کرو ، جب تم نماز کی طرف آؤ تو سکون اور وقار کو لازم پکڑو، جو حصہ (باجماعت) پالو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے، اسے (بعد میں) پورا کر لو ۔

Haidth Number: 2518

۔ (۲۵۱۹) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَجَائَ رَجُلٌ یَسْعٰی فَانْتَھٰی وَقَدْ حَفَزَہُ النَّفَسُ أَوِ انْبَھَرَ فَلَمَّا انْتَھٰی اِلَی الصَّفِّ قَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ، فَلَمَّا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاتَہُ قَالَ: ((أَیُّکُمُ الْمُتَکلِّمُ؟)) فَسکَتَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمُ الْمُتَکَلِّمْ؟ فَاِنَّہُ قَالَ خَیْرًا أَوْ لَمْ یَقُلْ بَأْسًا۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنَا أَسْرَعْتُ الْمَشْیَ فَانْتَہَیْتُ اِلَی الصَّفِّ فَقُلْتُ الَّذِیْ قُلْتُ، قَالَ: ((لَقَدْ رَأَیْتُ اثْنَیْ عَشَرَ مَلَکًا یَبْتَدِرُوْنَہَا أَیُّہُمْ یَرْفَعْہَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ اِلَی الصَّلَاۃِ فَلْیَمْشِ عَلٰی ھِیْنَتِہِ فَلْیُصَلِّ مَا أَدْرَکَ وَلْیَقْضِ مَا سَبَقَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۵۷)

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نماز کھڑی کردی گئی، ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، جب وہ مسجد میں پہنچا ، تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا، جب وہ صف میں کھڑا ہوا تو اس نے کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ (ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، بہت زیادہ ، پاکیزہ اور بابرکت تعریف)۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پوری کی تو پوچھا: کون تھا تم میں کلام کرنے والا؟ لوگ خاموش رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر پوچھا: کون تھا یہ کلام کرنے والا ؟ اس نے اچھی بات ہی کہی ہے، کوئی حرج والی بات نہیں تھی۔ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں تیزی سے چل کر آیا تھا، جب صف میںکھڑا ہوا تو میں نے یہ کلمات کہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے بارہ فرشتے دیکھے، وہ اس کی طرف لپک رہے تھے کہ کون ان کلمات کو (پہلے) اوپر لے کر جائے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز کی طرف آئے تو اپنی عادت کے مطابق چل کر آئے، جو نماز پالے اسے پڑھ لے اور جو رہ جائے، اس کو (بعد میں) ادا کر لے۔

Haidth Number: 2519
سیّدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مسجد کی طرف چل کر آیا کرو، یہی عمل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیرت اور سنت ہے۔

Haidth Number: 2520
سیّدناعبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص جماعت والی مسجد کی طرف جاتا ہے تو اس کا ایک قدم ایک برائی کو مٹا دیتا ہے اور ایک قدم نیکی لکھ دیا جاتا ہے، (مسجد کی طرف) جاتے ہوئے بھی اور واپس لوٹتے ہوئے بھی۔

Haidth Number: 2521
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی نماز کے لیے اپنے کھانے سے جلدی نہ کرے۔ نافع کہتے ہیں: جب سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس حال میں اقامت سنتے کہ وہ رات کا کھانا کھا

Haidth Number: 2522

۔ (۲۵۵۳) عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَؤُمُّ قَوْمَہُ فَدَخَلَ حَرَامٌ وَھُوَ یُرِیْدُ أَنْ یَسْقِیَ نَخْلَہُ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ لِیُصَلِّیَ مَعَ الْقَوْمِ، فَلَمَّا رَأٰی مُعَاذًا طَوَّلَ تَجَوَّزَ فِی صَلَاتِہِ وَلَحِقَ بِنَخْلِہِ یَسْقِیْہِ، فَلَمَّا قَضٰی مُعَاذُ الصَّلَاۃَ قِیْلَ لَہُ: اِنَّ حَرَامًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمَّا رَآکَ طَوَّلْتَ تَجَوَّزَ فِی صَلَاتِہِ وَلَحِقَ بِنَخْلِہِ یَسْقِیْہِ، قَالَ: اِنَّہُ لَمُنَافِقٌ أَیَعْجَلُ عَنِ الصَّلَاۃِ مِنْ أَجْلِ سَقْیِ نَخْلِہِ؟ قَالَ: فَجَائَ حَرَامٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمُعَاذٌ عِنْدَہُ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! اِنِّی أَرَدْتُّ أَنْ أَسْقِیَ نَخْلًا لِیْ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ لِاُصَلِّیَ مَعَ الْقَوْمِ، فَلَمَّا طَوَّلَ تَجَوَّزْتُ فِی صَلَاتِی وَلَحِقْتُ بِنَخْلِیْ أَسْقِیْہِ فَزَعَمَ أَنِّی مُنَافِقٌ فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی مُعَاذٍ فَقَالَ: ((أَفَتَّانٌ أَنْتَ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ، لَا تُطَوِّلْ بِہِمْ، اِقْرَأْ بِـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی، وَالشَّمْسِ وَضُحَاھَا} وَنَحْوِھِمَا۔ (مسند احمد: ۱۲۲۷۲)

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیّدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی قوم کی امامت کرواتے تھے، ایک دن حرام (بن ملحان) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (مسجد میں) داخل ہوئے، جبکہ وہ اپنی کھجوروں کو سیراب کرنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے، وہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں داخل ہوئے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نماز کو لمبا کر رہے ہیں تو انھوں نے مختصر سی نماز پڑھی اور اپنی کھجوروں میں جا کر ان کو پانی دینے لگ گئے۔ جب سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نماز پوری کی تو ان کو بتلایا گیاکہ حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسجد میں داخل ہوئے تھے، لیکن جب انہوں نے آپ کی طویل نماز دیکھی تو انہوں نے اختصار کے ساتھ اپنی نماز پڑھ لی اور کھجوروں کو پانی دینے کے لیے وہاں چلے گئے ہیں۔ سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک وہ منافق ہے، کیا وہ کھجوروں کو پانی دینے کی خاطر نماز سے جلدی کرتا ہے! سیّدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے جبکہ سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میرا ارادہ کھجوروں کو پانی دینے کا تھا، لیکن میں پہلے مسجد میں آگیا تاکہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ لوں۔لیکن جب میں نے اِن کو دیکھا کہ یہ تو طویل نماز پڑھا رہے ہیں تو میں نے اختصار کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنی کھجوروں کو پانی دینے کے لیے وہاں چلا گیا، تو سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا ہے کہ میں منافق ہوں۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تو فتنہ باز ہے! کیا تو فتنہ باز ہے، ان کو لمبی نماز نہ پڑھایا کر اور سورۂ اعلی، سورۂ شمس اور ان جیسی سورتیں پڑھ لیا کر۔

Haidth Number: 2553

۔ (۲۵۵۴) حدثنا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَہُ مِنْ جَابِرٍ کَانَ مُعَاذٌ یُصَلِّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَؤُمُّنَا وَقَالَ مَرَّۃً ثُمَّ یَرْجِعُ فَیُصَلِّی بِقَوْمِہٖ فَأَخَّرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً الصَّلَاۃَ وَقَالَ مَرَّۃً الْعِشَائَ، فَصَلّٰی مُعَاذٌ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ جَائَ قَوْمَہُ، فَقَرأَ الْبَقَرَۃَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَصَلّٰی، فَقِیْلَ: نَا فَقْتَ یَا فُلَانُ، قَالَ: مَا نَافَقْتُ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اِنَّ مُعَاذًا یُصَلِّیْ مَعَکَ ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَؤُمُّنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ نَوَاضِحَ وَنَعْمَلُ بِأَیْدِیْنَا، وَاِنَّہُ جَائَ یَؤُمُّنَا فَقَرَأَ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَسَأَلَ: ((یَا مُعَاذُ! أَفَتَّانٌ أَنْتَ؟ أَفَتَّانٌ أَنْتَ؟ اِقْرَأْ بِکَذَ وَکَذَا قَالَ أَبُو الزُّبَیْرِ بِـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی۔ وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی} فَذَکَرْنَا لِعَمْرٍو فَقَالَ أُرَاہُ قَدْ ذَکَرَہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۵۸)

سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر وہاں سے لوٹتے اور ہمیں نماز پڑھاتے تھے،ایک روایت میں ہے: پھر وہ لوٹتے اور اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، ایک رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمازِ عشاء کو مؤخر کر دیا۔ سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ (عام عادت کے مطابق) نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کی طرف گئے اور نماز میں سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی، (اِس طویل قیام کی وجہ سے) ایک آدمی نے علیحدہ ہو کر نماز پڑھ لی۔ اس کہا گیا: او فلاں! تو تو منافق ہو گیا ہے، لیکن اس نے کہا: میں منافق نہیں ہوا۔ پھر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ٓپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر وہ یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرواتے ہیں، ہم اونٹوں والے لوگ ہیں اوراپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں، لیکن جب سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمیں نماز پڑھانے لگے تو انھوں نے سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تو فتنہ باز ہے؟ کیا تو لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتا ہے؟ فلاں فلاں سورت پڑھ لیا کر۔ ابوزبیر ((حدیث بیان کرتے ہوئے)) کہتے ہیں: تو سورۂ اعلی اور سورۂ لیل پڑھا کر۔ پھر ہم نے یہ بات عمرو بن دینار کے لیے ذکر کی، تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو ذکر کیا تھا۔

Haidth Number: 2554

۔ (۲۵۵۵)(وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَحَجَّاجُ قَالَا ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیَّ قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَمَعَہُ نَاضِحَانِ لَہُ وَقَدْ جَنَحَتِ الشَّمْسُ وَمُعَاذٌ یُصَلِّی الْمَغْرِبَ فَدَخَلَ مَعَہُ الصَّلَاۃَ فَاسْتَفْتَحَ مُعَاذُ الْبَقَرَۃَ أَوِ النِّسَائَ، مُحَارِبٌ الَّذِی یَشُکُّ، فَلَمَّا رَأَی الرَّجُلُ ذٰلِکَ صَلّٰی ثُمَّ خَرَجَ، قَالَ: فَبَلَغَہُ أَنَّ مُعَاذًا نَالَ مِنْہُ، قَالَ حَجَّاجٌ یَنَالُ مِنْہُ، قَالَ: فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَفَتَّانٌ أَنْتَ یَا مُعَاذُ؟ أَفَتَّانٌ أَنْتَ یَا مُعَاذُ؟ أَوْ فَاتِنٌ فَاتِنٌ فَاتِنٌ!؟)) وَقَالَ حَجَّاجٌ: ((أَفَاتِنٌ أَفَاتِنٌ أَفَاتِنٌ، فَلَوْلَا قَرَأْتَ {سَبِّحٍ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی، وَالشَّمْسِ وَضُحَاھَا} فَصَلّٰی وَرَائَ کَ الْکَبِیْرُ وَذُوا لْحَاجَۃِ وَالضَّعِیْفُ، أَحْسِبُ مُحَارِبًا الَّذِی یَشُکُّ فِی الضَّعِیْفِ۔ (مسند احمد: ۱۴۲۳۹)

(دوسری سند)سیّدنا جابر بن عبد اللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک انصاری آدمی آیا، اس کے ساتھ دو اونٹنیاں بھی تھیں، اُدھر سورج غروب ہوچکا تھا اور سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، اس لیے وہ بھی نماز میں شامل ہو گیا، سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سورۂ بقرہ یا سورۂ نساء کی تلاوت شروع کردی، جب اس آدمی نے یہ صورتحال دیکھی تو اس نے علیحدہ نماز پڑھ لی اور چلا گیا۔جب اسے پتہ چلا کہ سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تو اس کی عیب جوئی کی (کہ وہ منافق ہے) تو اس نے یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچا دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تو فتنہ باز ہے؟ معاذ! کیاتو فتنہ باز ہے؟ تو نے {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} اور {وَالشَّمْسِ وَضُحَاھَا} جیسی سورتیں کیوں نہیں پڑھیں، وجہ یہ ہے کہ تیرے پیچھے بوڑھے، حاجت مند اور کمزور لوگ بھی نماز پڑھتے ہیں۔

Haidth Number: 2555

۔ (۲۵۵۶) عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ یُقَالُ لَہُ سُلَیْمٌ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ یَأْتِیْنَا بَعْدَ مَا نَنَامُ وَنَکُوْنُ فِی أَعْمَالِنَا بِالنَّہَارِ فَیُنَادِی بِالصَّلَاۃِ فَنَخْرُجُ اِلَیْہِ فَیُطَوِّلُ عَلَیْنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا مُعَاذُ بْنَ جَبلٍ! لَا تَکُنْ فَتَّانًا، اِمَّا أَنْ تُصَلِّیْ مَعِیَ وَاِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ عَلٰی قَوْمِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا سُلَیْمُ! مَاذَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ؟)) قَالَ: اِنِّی أَسْألُ اللّٰہَ الْجَنَّۃ وَأَعُوْذُ بِہِ مِنَ النَّارِ، وَاللّٰہِ مَا أُحْسِنُ دَنْدَنتَک وَلَا دَنْدَنۃَ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَھَلْ تَصِیْرُ دَنْدَنَتِیْ وَدَنْدَنَۃُ مُعَاذٍ اِلَّا أَنْ نَسْأَلَ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ وَنَعُوْذَ بِہِ مِنَ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ سُلَیْمٌ: سَتَرَوْنَ غَدًا اِذَا التَقَی الْقَوْمُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ، قَالَ: وَالنَّاسُ یَتَجَہَّزُوْنَ اِلٰی أُحُدٍ فَخَرَجَ وَکَانَ فِی الشُّہَدَائِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَرِضْوَانُہُ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۷۵)

معاذ بن رفاعہ انصاری ، بنو سلمہ کے ایک سُلَیم نامی آدمی سے بیان کرتا ہے، وہ کہتا ہے: اے اللہ کے رسول! سیّدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے پاس (نمازِ عشاء پڑھانے کے لیے) اس وقت آتے ہیں، جب ہم سو چکے ہوتے ہیں، جبکہ دن میں ہم کاموں میں مصروف رہتے ہیں، پھر وہ اذان دیتے ہیں اور جب ہم نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو وہ لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ ! تو فتنہ پیدا کرنے والا نہ بن، یا تو میرے ساتھ نماز پڑھ ((اور واپس جا کر لوگوں کو نماز نہ پڑھا)) اوریا پھر اپنی قوم پر تخفیف کر۔ پھر فرمایا: اے سلیم! تجھے کتنا قرآن یاد ہے؟ اس نے کہا: میں اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور آگ سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، اللہ کی قسم! میں آپ اور معاذ کے گنگنانے کی طرح نہیں گنگنا سکتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا اور معاذ کی گنگناہٹ بھی یہی ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ سے اس کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ پھر سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم کل دیکھ لوگے جب ان شاء اللہ قوم دشمن سے ملے گی۔ اس وقت لوگ جنگ ِ احد کی تیاری کر رہے تھے۔ پھر وہ نکلا اور (اس دن کے)شہداء میں ہو گیا، اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی رضا مندی ہو۔

Haidth Number: 2556
سیّدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: بیشک سیّدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی، اوراس میں {اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ} سورت کی تلاوت کی، ایک آدمی نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی کھڑا ہو گیا اور علیحدہ نماز پڑھ کر چلا گیا، سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے متعلق بڑی سخت بات کی۔ وہ آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور آپ سے معذرت کرتے ہوئے کہا: میں نے پانی ڈھونے کا کام کیا، (اس لیے تھکا ہوا تھااور اس طرح نماز پڑھ لی)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (سیّدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو) فرمایا: تم سورۂ شمس جیسی سورتوں کے ساتھ امامت کروایا کرو۔

Haidth Number: 2557

۔ (۲۶۰۹) عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا ھٰؤُلَائِ! أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ؟)) قَالُوْا: بَلٰی نَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَالَ: ((أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ اللّٰہَ أَنْزَلَ فِی کِتَابِہِ: مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ؟)) قَالُوْا: بَلَی نَشْہَدُ أَنَّہُ مَنْ أَطَاعَکَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ وَاِنَّ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ طَاعَتَکَ، قَالَ: ((فَاِنَّ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ أَنْ تُطِیْعُوْنِیْ، وَاِنَّ مِنْ طَاعَتِی أَنْ تُطِیْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ، أَطِیْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ، فَاِنْ صَلَّوْا قُعُوْدًا فَصَلُّوْا قُعُوْدًا۔)) (مسند احمد: ۵۶۷۹)

سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن صحابہ کی ایک جماعت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر متوجہ ہوئے، اور فرمایا: لوگو!کیا تم جانتے نہیں کہ بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ نے اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا ہے کہ جس نے میری اطاعت کی، پس اس نے اللہ کی اطاعت کی؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!ہم گواہی دیتے ہیں کہ جس نے آپ کی اطاعت کی، پس اس نے اللہ کی اطاعت کی اور آپ کی اطاعت کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے سے ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ کی اطاعت سے ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میری اطاعت سے ہے کہ تم اپنے اماموں کی اطاعت کرو، اپنے اماموں کی اقتدا کرو، اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھیں تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کرو۔

Haidth Number: 2609
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار ہوگئے، اس لیے ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کو سنانے کے لیے سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تکبیر کہہ رہے تھے۔جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف توجہ کی تو ہمیں کھڑے پا کر ہماری طرف اشارہ کیا (کہ ہم بیٹھ جائیں)، پس ہم نے بیٹھ کر نماز ادا کی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے توفرمایا: قریب تھا کہ تم وہ کام کرو جوفارسی اور رومی کرتے ہیں، وہ اس طرح کہ ان کے بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ ان کے پاس کھڑے ہوتے ہیں، سو تم ایسا نہ کرو اور اپنے اماموں کی اقتدا کیا کرو، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھیں تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔

Haidth Number: 2610
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس بیماری میں وفات پا گئے تھے، اس میں فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ سیّدنا عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: ابوبکر بڑے نرم دل (اور جلد رونے والے) آدمی ہیں،جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بھی یوسفf کی صاحبات ہو، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ پھر سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نماز پڑھائی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔

Haidth Number: 2611
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے عقلمند اور سمجھدار لوگوں کو چاہیے کہ وہ ضرور ضرور میرے قریب کھڑے ہوں، پھر ان کے بعد وہ کھڑے ہوں جو (عقل و فہم میں) اُن کے قریب ہوں، پھر وہ کھڑے ہوں جو (دوسرے مرتبے کے) لوگوں کے قریب ہوں، اور( صفیں بنانے میں) ایک دوسرے سے اختلاف نہ کرو، وگرنہ تمہارے دل ایک دوسرے کے مخالف ہوجائیں گے، اوربازاروں کے اختلاط اور فتنوں سے بچا کرو۔

Haidth Number: 2632
سیّدنا ابومسعودانصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے (صف بناتے وقت) ہمارے کندھوں کوچھوتے اور فرماتے: برابر ہو جاؤ اور مختلف ہو کر کھڑے نہ ہو، وگرنہ تمہارے دل ایک دوسرے سے مختلف ہوجائیں گے، تم میں سے عقلمند اور سمجھدار لوگوں کو چاہیے کہ وہ ضرور ضرور میرے قریب کھڑے ہوں، پھر ان کے بعد وہ کھڑے ہوں جو (عقل و فہم میں) اُن کے قریب ہوں، پھر وہ کھڑے ہوں جو (دوسرے مرتبے کے) لوگوں کے قریب ہوں۔ سیّدنا ابومسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: (لوگو!) آج تم اسی وجہ سے بہت زیادہ اختلاف کا شکار ہوگئے ہو۔

Haidth Number: 2633
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ پسند کرتے تھے کہ مہاجر اور انصار نماز میں آپ کے قریب کھڑے ہوں تاکہ وہ آپ سے (علم و عمل) حاصل کر سکیں۔

Haidth Number: 2634

۔ (۲۶۳۵) عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ: أَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ لِلِقَائِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یَکُنْ فِیْہِمْ رَجُلٌ أَلْقَاہُ أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ أُبِیٍّ فَأُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ وَخَرَجَ عُمَرُ مَعَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُمْتُ فِی الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَجَائَ رَجُلٌ فَنَظَرَ فِی وُجُوْہِ الْقَوْمِ فَعَرَفَہُمْ غَیْرِی فَنَحَّانِی وَقَامَ فِی مَکَانِی، فَمَا عَقَلْتُ صَلَاتِی، فَلَمَّا صَلّٰی قَالَ: یَا بُنَیَّ! لَا یَسُوْؤُکَ اللّٰہَ، فَاِنِّی لَمْ آتِکَ الَّذِی أَتَیْتُکَ بِجَہَالَۃٍ وَلٰکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَنَا: ((کُونُوا فِی الصَّفِّ الَّذِی یَلِیْنِیْ۔)) وَاِنِّی نَظَرْتُ فِی وُجُوْہِ الْقَوْمِ فَعَرَفْتُہُمْ غَیْرَکَ، ثُمَّ حَدَّثَ فَمَا رَأَیْتُ الرِّجَالَ مَتَحَتْ أَعْنَاقُہَا اِلٰی شَیْئٍ مُتُوْحَہَا اِلَیْہِ، قَالَ فَسَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: ھَلَکَ أَھْلُ الْعُقْدَۃِ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ! أَلَا لَا عَلَیْھِمْ آسٰی وَلٰکِنْ آسٰی عَلٰی مَنْ یَھْلِکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَاِذَا ھُوَ أُبِیٌّ، وَالْحَدِیْثُ عَلٰی لَفْظِ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۸۵)

قیس بن عباد کہتے ہیں: میں محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کو ملنے کے لیے مدینہ آیا، میں جن آدمیوں کو ملنا چاہتا تھا، ان میں مجھے سب سے زیادہ محبوب سیّدنا اُبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ نماز کے لیے اقامت کہی گئی اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوسرے صحابہ کے ساتھ باہر تشریف لائے۔ میں پہلی صف میں کھڑا تھا، ایک آدمی آیا، اس نے لوگوںکے چہروں پر نگاہ ڈالی اور میرے علاوہ سب کو پہچان لیا، اس نے مجھے پیچھے ہٹا دیا اور خود میری جگہ پر کھڑا ہوگیا، میں(غصے کی وجہ سے) اپنی نماز کو نہ سمجھ سکا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو اس نے مجھے کہا: میرے پیارے بیٹے! اللہ تجھے برا نہ کرے۔ میں نے تیرے ساتھ جو کچھ کیا ہے، وہ جہالت کی وجہ سے نہیں کیا، بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا تھا: ا س صف میں کھڑے ہوا کرو جو میرے قریب ہے۔ میں نے لوگوں کے چہرے دیکھے، میں تیرے علاوہ ان سب کو پہچانتا تھا، ( اس لیے تجھے پیچھے کر دیا)۔ پھر وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگے، میں نے لوگوں کو جس انداز میں ان کی بات کی طرف گردنیں لمبی کرتے ہوئے دیکھا، پہلے یہ انداز نہیں دیکھا تھا، انھوں نے اپنے وعظ میں یہ بھی کہا تھا: ربّ ِ کعبہ کی قسم! بیعت لینے والے (امرائ) ہلاک ہو گئے ہیں،

Haidth Number: 2635
سیّدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے تھے، جب(فارغ ہو کر) واپس جاتے تو بلند عمارتوں کے سائے میں چلنے کے لیے لپکتے، لیکن اپنے قدموں کے برابر کی جگہ کے علاوہ سایہ نہ پاتے۔ یزید (راوی) کہتے ہیں: آجا م سے مراد بلند مکانات ہیں۔

Haidth Number: 2725
Haidth Number: 2726
ایک آدمی کہتا ہے: ہم جمعہ کے دن کوفہ والی مسجد میں تھے، سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف سے سیّدنا عما ر بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کوفہ کے گورنر اور سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیت المال پرنگران تھے۔ اچانک سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک تسمہ کے بقدر سایہ دیکھ کر کہا: اگر تمہارا گورنر سنت ِ نبوی کے متبع ہوئے تو ابھی آ جائیں گے۔ راوی کہتا ہے: اللہ کی قسم ہے کہ سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابھی اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ سیّدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے اور کہنے لگے: نماز پڑھو۔

Haidth Number: 2727
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سورج ڈھلتا تھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جمعہ ادا کرتے تھے اور جب مکہ مکرمہ کی طرف نکلتے تو (ذوالحلیفہ مقام میں) ایک درخت کے پاس نماز ظہر دو رکعت ادا کرتے تھے۔

Haidth Number: 2728