Blog
Books
Search Hadith

جمعہ کے وقت کا بیان

742 Hadiths Found
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے، پھر قیلولہ کرنے کے لیے لوٹتے اور قیلولہ کرتے۔

Haidth Number: 2729
Haidth Number: 2730
محمد کہتے ہیں: میں نے سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جمعہ کب ادا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے، پھر واپس جا کر اونٹوں کو آرام کرواتے۔ جعفر راوی کہتے ہیں:اونٹوں کو آرام پہنچانا زوالِ آفتاب کے وقت ہوتا تھا۔

Haidth Number: 2731
سیّدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے بعد دوپہر کا کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔

Haidth Number: 2732
(دوسری سند)وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرنے کے بعد قیلولہ کرتے اور کھانا کھاتے تھے۔

Haidth Number: 2733
سیّدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے تھے، جب واپس لوٹتے تو دیواروں کا اتنا سایہ نہیں پاتے تھے کہ اس سے سایہ حاصل کیا جا سکے۔

Haidth Number: 2734
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عید کی نماز میں بارہ تکبیرات کہیں، پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ اور عید سے پہلے اور بعد میں کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے باپ امام احمد نے کہاـ: اور میرا مسلک بھی یہی ہے (کہ بارہ تکبیرات کہی جائیں)۔

Haidth Number: 2852
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عیدین میں سات تکبیریں قراء ت سے پہلے ہیں اور پانچ قراء ت کے بعد۔

Haidth Number: 2853
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ بے شک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے، یہ رکوع والی تکبیرات کے علاوہ ہوتی تھیں۔

Haidth Number: 2854
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہم نشین ابو عائشہ کہتے ہیں: سیّدنا سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیّدنا ابو موسی اشعری اور سیّدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلایا اور پوچھا: رسول اللہ عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازوں میں تکبیرات کیسے کہتے تھے؟ سیّدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: (ہر رکعت میں) چار تکبیرات کہتے تھے، جیسے جنازے کی تکبیریں ہوتی ہیں۔ سیّدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کی تصدیق کی۔ ابو عائشہ کہتے ہیں: میں اس کے بعد ان کی بات جیسے جنازے کی تکبیریں ہوتی ہیں کو نہیں بھول پایا۔ مکحول کہتے ہیں: ابو عائشہ سیّدنا سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مجلس میں حاضر تھے۔

Haidth Number: 2855
عبد اللہ بن فروخ کہتے ہیں: میں نے سیّدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے عید کی نماز پڑھی، انہوں نے (پہلی رکعت میں) سات اور (دوسری رکعت میں) پانچ تکبیریں کہیں۔

Haidth Number: 2856

۔ (۲۹۱۲) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیْہِ اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ النَّاسُ: اِنَّمَا کَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ اِبْرَاھِیْمَ، فَقَامَ النَّبِیُُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَلّٰی بِالنَّاسِ سِتَّ رَکَعَاتٍ فِی أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، کَبَّرَثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَ ۃَ ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَرَأَ دُوْنَ الْقِرَائَ ۃِ الْأُوْلٰی، ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَرَأَ دُوْنَ الْقِرَائَ ۃِ الثَّانِیَۃِ، ثُمَّ رَکَعَ نَحْوٌ مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَانْحَدَرَ لِلسُّجُوْدِ، فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَکَعَ ثَـلَاثَ رَکَعَاتٍ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ لَیْسَ فِیْھَا رَکْعَۃٌ اِلَّا الَّتِی قَبْلَہَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِی بَعْدَھَا، اِلَّا أَنَّ رُکُوْعَہُ نَحْوًا مِنْ قِیَامِہِ ثُمَّ تَأَخَّرَ فِی صَلَاتِہِ وَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوْفُ مَعَہُ ثُمَّ تَقَدَّم فَقَامَ فِی مَقَامِہِ وَتَقَدَّمَتِ الصُّفُوْفُ فَقَضَی الصَّلَاۃَ وَقَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاِنَّہُمَا لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَاِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ فَصَلُّوا حَتّٰی تَنْجَلِیَ، اِنَّہُ لَیْسَ مِنْ شَیْئٍ تُوْعَدُوْنَہُ اِلَّا قَدْ رَأَیْتُہُ فِی صَلَاتِی ھٰذِہ،ِ وَلَقَدْ جِیْئَ بِالنَّارِ فَذَالِکَ حِیْنَ رَأَیْتُمُوْنِی تَأَخَّرْتُ مَخَافَۃَ أَنْ یُصِیْبَنِی مِنْ لَفْحِہَا حَتّٰی قُلْتُ: أَیْ رَبِّ! وَأَنَا فِیْہِمْ، وَرَأَیْتُ فِیْھَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ یَجُرُّ قُصْبَہُ فِی النَّارِ، کَانَ یَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِہِ فَاِنْ فُطِنَ بِہِ قَالَ: اِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِی، وَاِنْ غُفِلَ عَنْہُ ذَھَبَ بِہِ، وَحَتّٰی رَأَیْتُ فِیْھَا صَاحِبَۃَ الْھِرَّۃِ الَّتِیْ رَبَطَتْہَا فَلَمْ تُطْعِمْہَا وَلَمْ تَتْرُکْھَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتّٰی مَاتَتْ جُوْعًا، وَجِیْئَ بِالْجَنَّۃِ فَذَالِکَ حِیْنَ رَأَیْتُمُوْنِیْ تَقَدَّمْتُ حَتّٰی قُمْتُ فِی مَقَامِی فَمَدَدْتُّ یَدِیَ وَأَنَا أُرِیْدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِھَا لِتَنْظُرُوْا اِلَیْہِ، ثُمَّ بَدَا لِیْ أَنْ لَا أَفْعَلَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۷۰)

سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: عہد ِ نبوی میں جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے، اس دن سورج کو گرہن لگ گیا، لوگوں نے کہا: بے شک ابرہیم کی موت کی وجہ سے سورج بے نور ہو گیا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، چار سجدوں (یعنی دو رکعتوں ) میں چھ رکوع کیے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ اکبر کہا اور لمبی قراء ت کی، پھر اسی قیام کے بقدر طویل رکوع کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور قراء ت کی ، جو کہ پہلی قراء ت سے کم تھی، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اتنا لمبا رکوع کیاجتنی دیر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیام کیا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور پھر قراء ت شروع کر دی، یہ دوسرے (نمبر والی) قراء ت سے کم تھی، پھر رکوع کیا، جوکہ اس سے پہلے والے قیام کے بقدر تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور سجدے کے لیے جھک گئے اور دو سجدے کیے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور (پہلے کی طرح) سجدہ کرنے سے پہلے تین رکوع کیے، اس میں سے ہر رکوع بعد والے رکوع کی بہ نسبت لمبا تھا، البتہ ہر رکوع اپنے سے پہلے والے قیام کے برابر ہوتا تھا۔ (یوں بھی ہوا کہ) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس نماز کے دوران پیچھے ہٹے اور صفیں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے بڑھے او راپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور صفیں بھی آگے بڑھ گئیں، اس طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز مکمل کر لی او راُدھر سورج صاف ہو چکا تھا۔ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی انسان کی موت کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتیں، جب تم اس طرح کا معاملہ دیکھو تو سورج کے صاف ہونے تک نماز پڑھا کرو، میں نے اس نماز میں ہر وہ چیز دیکھی ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، میرے پاس آگ لائی گئی، یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا تھا، میں ڈرنے لگ گیا تھا کہ کہیں اس کی گرمی مجھ تک پہنچ نہ جائے، میں نے اس وقت کہا: اے رب! (ابھی تک تو) میں ان میں موجود ہوں۔ میں نے لاٹھی والے کو دیکھا، وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا، وہ اپنی لاٹھی سے حاجیوں کی چوری کرتا تھا، اگر اس کی چوری کا پتہ چل جاتا تو وہ کہتا یہ چیز تو میری لاٹھی کے ساتھ ویسے لٹک گئی ہے، اور اگر پتہ نہ چلتا تو وہ اس کو لے جاتا، مجھے وہاں بلی والی عورت بھی نظر آئی، اس نے بلی کو باندھ دیا تھا، نہ تو اس نے خود اسے کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے وغیرہ کھالیتی، حتیٰ کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی۔ میرے پاس جنت بھی لائی گئی، اس وقت تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے کو بڑھا، حتیٰ کہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا، پھر میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اس کے پھل کو پکڑلوں تاکہ تم اس کو دیکھ سکو، پھر میرے لیے یہ ظاہر کیا گیا کہ میں ایسے نہ کروں۔

Haidth Number: 2912
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:بے شک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نشانیوں والی نماز میں کھڑے ہوئے اور تین رکوع کرنے کے بعد سجدہ کیا، پھر (دوسرے رکعت) میں تین رکوع کیے اور پھر سجدہ کیا۔

Haidth Number: 2913

۔ (۲۹۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: وَجَدْتُ فِی کِتَابِ أَبِی بِخَطِّ یَدِہِ حَدَّثَنِی عَبْدُالْمُتَعَالِ بْنُ عَبْدِالْوَھَّابِ ثَنَا یَحْیٰی بْنُ سَعِیْدٍ الْأُمَوِیُّ ثَنَا الْمُجَالِدُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ: کَسفِت الشَّمْسُ ضَحْوَۃً حَتّٰی اشْتَدَّتْ ظُلْمَتُہَا فَقَامَ الْمُغِیْرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ فَقَامَ قَدْرَمَا یَقْرَأُ سُوْرَۃً مِنَ الْمَثَانِیْ ثُمَّ رَکَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، ثُمَّ رَکَعَ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَامَ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ رَکَعَ الثَّانِیَۃَ مِثْلَ ذَلِکَ، ثُمَّ اِنَّ الشَّمْسَ تَجَلَّتْ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قَدْرَمَا یَقْرَأُ سُوْرَۃً، ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: اِنَّ الشَّمْسَ کَسَفَتْ یَوْمَ تُوُفِّیَ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَاِنَّمَا ھُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَاِذَا انْکَسَفَ وَاحِدٌ مِنْہُمَا فَافْزَعُوا اِلَی الصَّلَاۃِ۔)) ثُمَّ نَزَلَ فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ فِی الصَّلَاۃِ فَجَعَلَ یَنْفُخُ بَیْنَ یَدَیْہِ، ثُمَّ اِنَّہُ مَدَّ یَدَہُ کَأَنَّہُ یَتَنَاوَلُ شَیْئًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: ((اِنَّ النَّارَ أُدْنِیَتْ مِنِّی حَتّٰی نَفَخْتُ حَرَّھَا عَنْ وَجْہِی، فَرَأَیْتُ فِیْہَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ وَالَّذِی بَحَّرَ الْبَحِیْرَۃَ وَصَاحِبَۃَ حِمْیَرَ صَاحِبَۃَ الْھِرَّۃِ)) (مسند احمد: ۱۸۳۲۳)

مجالد کہتے ہیں: چاشت کے وقت سورج کو گرہن لگ گیا اور اس کا اندھیرا سخت ہوگیا، سیّدنامغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی،مثانی میں سے ایک سورت کی قراء ت کے بقدر قیام کیا، پھر اسی طرح کا رکوع کیا، پھر اپناسر اٹھایا، (قیام کیا اور ) پھر اسی کے مثل رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، اتنا ہی قیام کیا، پھر اسی طرح دوسرا رکوع کیا، اتنے میں سورج صاف ہوگیا، پھر انھوں نے سجدہ کیا اور (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے اور ایک سورت کی قراء ت کے بقدر قیام کیا اور پھر رکوع اور سجدہ کیا، پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد منبر پر چڑھے اور کہا: بے شک جس دن فرزند ِ رسول ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے تھے، اس دن سورج کو گرہن لگ گیا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: بے شک سورج اور چاند کسی کی موت پر بے نور نہیں ہوتے، یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، پس جب ان میں سے کوئی ایک بے نور ہوجائے تو نماز کی طرف پناہ لو۔ پھر منبر سے نیچے اترے اور بیان کیا کہ بے شک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اِس نماز میں اپنے سامنے پھونکیں ماری اور پھر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، ایسے لگتا تھا جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی چیز پکڑ رہے ہیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: بے شک آگ میرے اتنی قریب کی گئی کہ اپنے چہرے سے اس کی حرارت کو ہٹانے کے لیے میں نے پھونک ماری اور میں نے اس میں لاٹھی والے، بحیرہ ایجاد کرنے والے اور حمیر قبیلے کی بلی والی خاتون کو دیکھا۔

Haidth Number: 2914

۔ (۲۹۱۵) عَنْ رَجُلٍ یُدْعَی حَنَشًا عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلّٰی عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ لِلنَّاسِ فَقَرَأَ یٰسٓ أَوْ نَحْوَھَا، ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِنْ قَدْرِ السُّوْرَۃِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، ثُمَّ قَامَ قَدْرَ السُّوْرَۃِ یَدْعُو وَیُکَبِّرُ، ثُمَّ رَکَعَ قَدْرَ قِرَائَ تِہِ أَیْضًا، ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، ثُمَّ قَامَ أَیْضًا قَدْرَ السُّوْرَۃِ، ثُمَّ رَکَعَ قَدْرَ ذٰلِکَ أَیْضًا حَتّٰی صَلّٰی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَالَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَفَعَلَ کَفِعْلِہِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُوْلٰی ثُمَّ جَلَسَ یَدْعُوْ وَیُرَغِّبُ حَتَّی انْکَشَفَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَذٰلِکَ فَعَلَ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۶)

حنش نامی آدمی کہتا ہیں: سورج کو گرہن لگ گیا، سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ نے سورۂ یس یا اس جیسی کسی اور سورت کی تلاوت کی، پھراس سورت کے بقدر رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا، : پھر ایک سورت کی مقدار جتنا قیام کیا اور مزید دعا کی اور اللہ کی بڑائی بیان کی، پھر قراء ت کی مقدار کے برابر رکوع کیا، پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا اور پھر ایک سورت کے بقدر قیام کیا، اور پھر اسی مقدار کے مطابق رکوع کیا، بہرحال چار رکوع پورے کیے، پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا،اس کے بعد سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہوئے اور پہلی رکعت کی طرح اس کو ادا کیا، (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) بیٹھ گئے اور دعا کرنے لگے، اور (لوگوں کو) رغبت دلانے لگے، حتیٰ کہ سورج صاف ہوگیا، پھر لوگوں کو بیان کیا کہ بے شک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔

Haidth Number: 2915
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بارش کے لیے دعا کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ہتھیلیوں کی پشتوں کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

Haidth Number: 2939
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے،وہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی دعا میں اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، سوائے بارش کی دعا کے، اس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ہاتھوں کو اتنا بلندکرتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھا جاتا تھا۔

Haidth Number: 2940
آبی اللحم کے غلام سیّدنا عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو زوراء مقام کے قریب احجاز الزیت کے پاس بارش کے لیے دعا کرتے ہوئے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو کر دعا کر رہے تھے، اپنے ہتھیلیاں بلند کررکھی تھیں، البتہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر سے تجاوز نہیں کررہی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہتھیلیوں کے باطنی حصے کو اپنے چہرے کی طرف متوجہ کررکھاتھا۔

Haidth Number: 2941
سیّدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نمازِ خوف پڑھائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور سلام پھیر دیا، یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے آ کر ان کے مقام پر کھڑے ہو گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دو رکعت نماز پڑھائی اور سلام پھیر دیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار رکعات ہو گئیں اور لوگوں کی دو دو۔

Haidth Number: 2963

۔ (۲۹۶۴) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَاتَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحَارِبَ خَصَفَۃَ بِنَخْلٍ، فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِرَّۃً، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ حَتّٰی قَامَ عَلٰی رَأْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالسَّیْفِ، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی، قَالَ: ((اَللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہِ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ یَمْنَعُکَ مِِنِّیْ؟)) قَالَ: کُنْ کَخَیْرِ آخِذٍ، قَالَ: ((أَتَشْہَدُ أَنْ لَّا إلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟)) قَالَ: لَا، وَلٰکِنِّی أُعَاہِدُکَ أَنْ لَا أُقَاتِلَکَ وَلَا أَکُوْنَ مَعَ قَوْمٍ یُقَاتِلُوْنَکَ، فَخَلّٰی سَبِیْلَہُ، قَالَ: فَذَہَبَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالَ: قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ، فَلَمَّا کَانَ الظَّہْرُ أَوْ الْعَصْرُ صَلّٰی بِہِمْ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فَکَانَ النَّاسُ طَائِفَیَتْنِ، طَائِفَۃٌ بِإِزَائِ عَدُوِّہِمْ وَطَائِفَۃٌ صَلَّوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَلَّی بِالطَّائِفَۃِ الَّذِیْنَ کَانُوْا مَعَہُ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوْا فکَانُوْا مَکَانَ اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ کَانُوْا بِإِزَائِ عَدُوِّہُمْ وَجَائَ أُوْلٰئِکَ فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکْعَتَیْنِ، فَکَانَ لِلْقَوْمِ رَکْعَتَانِ رَکْعَتَانِ، وَلِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْبَعُ رَکْعَاتٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۹۱)

سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وادی نخل میں محارب خصفہ کے لوگوں سے لڑائی کے لیے تشریف لے گئے۔ جب ان لوگوں نے مسلمانوں میں غفلت کا مشاہدہ کیا تو ایک دشمن غورث بن حارث موقعہ پا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر تلوار لیے آ پہنچا اور بولا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ۔ اتنے میںتلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، اب کی بار رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تلوار اٹھا لی اور فرمایا: اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ وہ بولا: آپ اس تلوار کو پکڑنے والے بہترین آدمی بن جائیں (یعنی مجھ پر احسان کریں)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ البتہ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ میں آپ کے مقابلے میں آئوں گا اور نہ آپ کے ساتھ لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گیا اور جا کر کہا: میں بہترین آدمی کے پاس سے آیا ہوں۔ پھر جب ظہر یا عصر کا وقت ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو نمازِ خوف پڑھائی۔ لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک گروہ دشمن کے مقابلے میں رہا اور دوسرا گروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے گروہ کی جگہ پر یعنی دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ نماز کے لیے آ گئے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار۔

Haidth Number: 2964

۔ (۲۹۶۵)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ قَالَ کُنَّا إِذَا أَتَیْنَا عَلٰی شَجَرَۃٍ ظَلِیْلَۃٍ تَرَکْنَاہَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ رََجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکُوْنَ، وَسَیْفُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُعَلَّقٌ بَشَجَرَۃٍ فَأَخَذَ سَیْفَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاخْتَرَطَہُ، ثُمَّ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَتَخَافُنِی؟ قَالَ: ((لَا۔)) قَالَ: فَمَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟ قَالَ: ((اَللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَمْنَعُنِی مِنْکَ)) فَتَہَدَّدَہُ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَغْمَدَ السَّیْفَ وَعَلَّقَہُ، فَنُوْدِیَ بِالصَّلَاۃِ، فَصَلّٰی بِطَائِفَۃٍ رَکْعَتَیْنِ وَتَأَخَّرُوْا وَصَلّٰی بِالطَّائِفَۃِ الْأُخْرٰی رَکْعَتَیْنِ فَکَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ وَلِلْقَوْمِ رَکْعَتَانِ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۹۰)

(دوسری سند)وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ ذات الرقاع مقام تک پہنچ گئے، جب ہم کسی سایہ دار درخت کے پاس آتے تو اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے چھوڑ دیتے۔ تو ایک مشرک آیا، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلوار درخت کے ساتھ لٹک رہی تھی،اس نے یہ تلوار پکڑی اور اسے سونت کر کہا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ وہ بولا: تو پھر اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ صحابۂ کرام اس کو جھڑکنے لگے، پس اس نے تلوار میان میں ڈالی اور اسے لٹکا دیا، اتنے میں نماز کے لیے اذان دے دی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں، پھر وہ لوگ چلے گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں اس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار رکعات ہو گئیں اور لوگوں کی دو دو۔

Haidth Number: 2965
سیّدنا ابو سعید خدر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے قریب الموت لوگوں کو لَا إلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کیا کرو۔

Haidth Number: 3002

۔ (۳۰۰۳) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُوْلُ لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: مَالِی أَرَاکَ شَعِثْتَ وَاغْبَرَرْتُ مُنْذُ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، لَعَلَّکَ سَائَکَ یَا طَلْحَۃُ! إِمَارَۃُ ابْنِ عَمِّکَ؟ قَالَ: مَعَاذَ اللّٰہُ، إِنِّی لَاَجْدَرُکُمْ أَنْ لَّا أَفْعَلَ ذَالِکَ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((إِنِّیْ لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَا یَقُوْلُہَا أَحَدٌ عِنْدَ حَضْرَۃِ الْمَوْتِ إِلَّا وَجَدَ رُوْحُہُ لَہَا رَوْحًا، حَیْنَ یَخْرُجُ مِنْ جَسَدِہِ، وَکَانَتْ لَہُ نُوْرًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) فَلَمْ اَسَاَلْ َرَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَلَمْ یُخْبِرْنِیْ بِہَا، فذَاکَ الَّذِی دَخَلَنِی، قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَأَنَا أْعْلَمُہَا، قَالَ: فَلِلَّہِ الْحَمْدُ فَمَا ہِیَ؟ قَالَ: ہِیَ الْکَلِمَۃُ الَّتِی قَالَہَا لِعَمِّہِ (لَا إلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ)) قَالَ طَلْحَۃُ :صَدَقْتَ۔ (مسند احمد: ۱۸۷)

سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے سنا کہ سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سیّدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھ رہے تھے: کیا بات ہے کہ جس دن سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا ہے آپ پراگندہ پراگندہ اور غبار آلود سے ہو کر رہتے ہیں۔ کہیں آپ کو اپنے چچیرے بھائی (ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کا امیر بننا ناگوار تو نہیں گزرا؟ سیّدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی پناہ!میں تو تم سے بھی زیادہ لائق ہوں کہ اس طرح نہ کروں، (مجھے یہ بات کیوں ناگوار گزرے)۔ بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں ایک کلمہ جانتا ہوں، جوشخص وفات کے وقت اسے پڑھ لیتا ہے تو اس کی روح جسم سے نکلتے ہی رحمت و راحت پا لیتی ہے، نیز وہ کلمہ اس کے لیے قیامت کے دن نور کا باعث ہو گا۔ مگر افسوس کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کلمہ کے متعلق نہ پوچھ سکا کہ وہ کونسا ہے اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اس کے بارے میں بیان کیا۔اس چیز نے مجھے غمزدہ کر رکھا ہے۔ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں وہ کلمہ جانتا ہوں۔ یہ سن کر سیّدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کا شکر، وہ کلمہ کون سا ہے؟ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ وہ کلمہ ہے جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) پر پیش کیا تھا، یعنی لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ انھوں نے کہا: آپ نے سچ کہا۔

Haidth Number: 3003
( دوسری سند) سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں آپ کو وہ کلمہ بتاتا ہوں، یہ وہ کلمہ ہے جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چچا سے بھی کہلوانا چاہا تھا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ سن کر سیّدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: گویا مجھ سے پردہ چھٹ گیا۔ آپ درست کہہ رہے ہیں، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نزدیک کوئی اور کلمہ اس سے افضل ہوتا تو اس کے پڑھنے کا حکم فرماتے۔

Haidth Number: 3004
(تیسری سند) سیّدنا طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے غمگین دیکھ کر پوچھا: ابو محمد! کیا بات ہے؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی امارت ناگوار گزری ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر انھوں نے سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تعریف کی اور کہا کہ میری پریشانی کا سبب یہ ہے کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو آدمی فوت ہوتے وقت وہ کلمہ پڑھ لیتا، اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے اور اس کا رنگ نکھر آتا ہے، …۔ الحدیث۔

Haidth Number: 3005
کثیر بن مرہ کہتے ہیں: سیّدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مرض الموت کے دوران ہم سے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک بات سنی تھی، جسے میں اب تک تم سے چھپاتا رہا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس آدمی کا آخری کلام لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہوگا، اس کے لیے جنت و اجب ہو جائے گی۔

Haidth Number: 3006
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک انصار یا بنو نجار کے ایک آدمی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ماموں جان! کہو لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ اس نے کہا: ماموں یا چچا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چچا نہیں، بلکہ ماموں۔ اس نے پوچھا: کیا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ پڑھنا میرے حق میں بہتر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ۔

Haidth Number: 3007
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا کرتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جوتے اٹھا کر لا دیتا تھا، وہ بیمار پڑ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے جبکہ اس کاوالد اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بچے سے فرمایا: اے فلاں! کہو لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا اور اس کا والد خاموش رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات دوہرائی۔اس نے پھر اپنے والد کی طرف دیکھا، اس دفعہ اس کے والد نے کہا: ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات مان لو۔ یہ سن کر بچے نے کہا: أَشْہَدُ أَنْ لَّا إلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔) جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے نکلے تو فرما رہے تھے: اللہ کا شکر ہے، جس نے اسے میرے سبب سے جہنم سے بچا لیا۔

Haidth Number: 3008
ابو عمر زاذان کہتے ہیں: مجھ سے ایک ایسے آدمی نے بیان کیا جس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا: جس آدمی کو اس کی وفات کے وقت لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کر دی گئی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔

Haidth Number: 3009
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ایک (نواسی) بیٹی کے پاس تشریف لے گئے، اس کی روح نکل رہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے اوپر جھک گئے اور اس کی روح قبض ہونے تک اپنا سر اوپر نہ اٹھایا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا: ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، مومن بھلائی میں ہی ہوتا ہے۔ اس کے پہلوئوں سے اس کی روح قبض کی جا رہی ہوتی ہے، جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3010