Blog
Books
Search Hadith

{وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَیَخَافُوْنَ اَنْ یُحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّہِمْ… اِلٰی قَوْلِہٖ… وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ} کی تفسیر

17 Hadiths Found
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ قریش کی ایک جماعت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزری، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سیدنا خباب، سیدنا صہیب، سیدنا بلال اور سیدنا عمار موجود تھے، ان قریشیوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ ان فقراء پر راضی ہو گئے ہیں (اور ان کو اپنی مجلس میں بٹھایا ہوا ہے)، اس پر ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَیَخَافُوْنَ اَنْ یُحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّہِمْ… اِلٰی قَوْلِہٖ…وَاللّٰہُاَعْلَمُبِالظَّالِمِیْنَ۔}

Haidth Number: 8593

۔ (۱۰۸۵۲)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَہَاشِمٌ قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ ہَاشِمٌ: قَالَ: حَدَّثَنِی ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ، قَالَ: وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ أَنَا فِیہِمْ وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ فِی رَمَضَانَ، فَجَعَلَ بَعْضُنَا یَصْنَعُ لِبَعْضٍ الطَّعَامَ، قَالَ: وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَیُکْثِرُ مَا یَدْعُونَا، قَالَ ہَاشِمٌ، یُکْثِرُ أَنْ یَدْعُوَنَا إِلَی رَحْلِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَہُمْ إِلَی رَحْلِی، قَالَ: فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ یُصْنَعُ وَلَقِیتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ مِنَ الْعِشَائِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ الدَّعْوَۃُ عِنْدِی اللَّیْلَۃَ، قَالَ: أَسَبَقْتَنِی؟ قَالَ ہَاشِمٌ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَوْتُہُمْ فَہُمْ عِنْدِی، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: أَلَا أُعْلِمُکُمْ بِحَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِکُمْیَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ؟ قَالَ: فَذَکَرَ فَتْحَ مَکَّۃَ، قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ مَکَّۃَ، قَالَ: فَبَعَثَ الزُّبَیْرَ عَلٰی إِحْدَی الْمُجَنِّبَتَیْنِ وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَی الْمُجَنِّبَۃِ الْأُخْرٰی، وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِی وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی کَتِیبَتِہِ، قَالَ: وَقَدْ وَبَّشَتْ قُرَیْشٌ أَوْبَاشَہَا، قَالَ: فَقَالُوا: نُقَدِّمُ ہٰؤُلَائِ فَإِنْ کَانَ لَہُمْ شَیْئٌ کُنَّا مَعَہُمْ، وَإِنْ أُصِیبُوا أَعْطَیْنَا الَّذِی سُئِلْنَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَنَظَرَ فَرَآنِی، فَقَالَ: ((یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!)) فَقُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: ((اہْتِفْ لِی بِالْأَنْصَارِ وَلَا یَأْتِینِی إِلَّا أَنْصَارِیٌّ۔)) فَہَتَفْتُ بِہِمْ فَجَائُ وْا فَأَطَافُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((تَرَوْنَ إِلٰی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: بِیَدَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی حَصْدًا حَتّٰی تُوَافُونِی بِالصَّفَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا یَشَائُ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ مِنْہُمْ مَا شَائَ، وَمَا أَحَدٌ یُوَجِّہُ إِلَیْنَا مِنْہُمْ شَیْئًا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُبِیحَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ لَا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ۔))، قَالَ: فَغَلَّقَ النَّاسُ أَبْوَابَہُمْ، قَالَ: فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَیْتِ، قَالَ: وَفِییَدِہِ قَوْسٌ أَخَذَ بِسِیَۃِ الْقَوْسِ، قَالَ: فَأَتٰی فِی طَوَافِہِ عَلٰی صَنَمٍ إِلٰی جَنْبٍ یَعْبُدُونَہُ قَالَ: فَجَعَلَ یَطْعَنُ بِہَا فِی عَیْنِہِ وَیَقُولُ: {جَاء َ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ} قَالَ: ثُمَّ أَتَی الصَّفَا، فَعَلَاہُ حَیْثُیُنْظَرُ إِلَی الْبَیْتِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ فَجَعَلَ یَذْکُرُ اللّٰہَ بِمَا شَائَ أَنْ یَذْکُرَہُ وَیَدْعُوہُ، قَالَ: وَالْأَنْصَارُ تَحْتَہُ، قَالَ: یَقُولُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: وَجَائَ الْوَحْیُ، وَکَانَ إِذَا جَائَ لَمْ یَخْفَ عَلَیْنَا، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَرْفَعُ طَرْفَہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰییُقْضٰی، قَالَ ہَاشِمٌ: فَلَمَّا قُضِیَ الْوَحْیُ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمََ قَالَ: ((یَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ! أَقُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ۔)) قَالُوا: قُلْنَا ذٰلِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَمَا اسْمِی إِذًا کَلَّا إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ ہَاجَرْتُ إِلَی اللّٰہِ وَإِلَیْکُمْ، فَالْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ۔))، قَالَ: فَأَقْبَلُوا إِلَیْہِیَبْکُونَ وَیَقُولُونَ: وَاللّٰہِ! مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَإِنَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یُصَدِّقَانِکُمْ وَیَعْذُرَانِکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۰۹۶۱)

عبداللہ بن رباح سے مروی ہے کہ سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں رمضان کے مہینہ میں کئی وفود آئے میں بھی ان میں شامل تھا ہم ایک کو کھانے کے لیے بلاتے تھے۔ سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکثر وبیشتر ہمیں اپنے گھر بلا لیا کرتے تھے۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی کھانا تیار کر وں اور ان حضرات کو اپنے پاس آنے کی دعوت دوں؟ چنانچہ میں نے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ عشاء کے وقت میری سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آج رات میرے ہاں دعوت ہے؟ وہ بولے تم تو مجھ پر سبقت لے گئے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں! میں نے ان کو بلایا۔ وہ لوگ میرے ہاں تشریف لے آئے۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرمانے لگے اے انصاریو! کیا میں تمہیں تم سے متعلقہ ایک بات نہ سناؤں؟ پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے آپ نے زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لشکر کے داہنے یا بائیں طرف والے ایکحصے پر اور خالد بن ولید کو دوسرے حصے پر اور ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان لوگوں پر امیر مقرر کیا جو زرہ پوش نہ تھے۔ ان حضرات نے بطن الوادی والا راستہ اختیار کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دستہ میں تھے۔ قریش نے بھی بہت سے قبائل کو جمع کر لیا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ان کو آگے آگے جانے دیں۔ اگر انہیں کچھ ملا تو ہم بھی ساتھ ہی ہوں گے۔ اور اگر ان پر حملہ ہوا تو ہم سے جو مطالبہ کیا جائے گا۔ دے دیں گے۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر آواز دی اور فرمایا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: انصار کو میری طرف بلاؤ، اور یاد رکھو صرف انصاری ہی میرے پاس آئیں۔ میں نے انصار کو پکارا تو وہ آگئے۔ اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قریش کے قبائل اور لوگوں کو دیکھ رہے ہو؟ آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر یوں اشارہ کیا کہ ان کو نیست ونابود کر کے میرے پاس کوہِ صفا پر آجاؤ۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ہم وہاں سے چل دئیے۔ اور ہم میں سے ہر ایک نے ان میں سے جتنے آدمیوں کو قتل کرنا چاہا قتل کیا۔ ان میں سے کسی نے بھی ہم سے تعرض نہ کیا۔ ابو سفیان نے کہا اے اللہ کے رسول! قریش کی جماعتوں کو تو قتل کر دیا گیا۔ یہی صورت رہی تو آج کے بعد کوئی قریشی باقی نہ رہے گا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے، اور جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اسے بھی امان ہے، چنانچہ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لئے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حجر اسود کے پاس آئے۔ آپ نے اسے بوسہ دیا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ کے ہاتھ میں کمان تھی۔ آپ نے کمان کا ایک کنارہ پکڑا ہوا تھا طواف کے دوران آپ بیت اللہ کی ایک جانب میں پڑے ایک بت کے پاس پہنچے وہ لوگ اس کی پوچا کیا کرتے تھے۔ آپ اپنی کمان اس بت کی آنکھ میں مارنے لگے اور فرمایا {جَاء َ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ} حق آگیا اور باطل دم دبا کر بھا گ گیا۔ (سورۂ بنی اسرائیل: ۸۱) اس کے بعد آپ کوہ صفا پر گئے اور اس کے اوپر چڑھ گئے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا آپ ہاتھ اُٹھا کر اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہے۔ اور انصار آپ کے سامنے نیچے کھڑے تھے۔ ان میں سے بعض ایک دوسرے سے کہنے لگے اس آدمی کو( یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو) اپنے شہر کی اور اپنے خاندان کی رغبت اور یاد آگئی ہے۔ وہیں پر آپ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ جب آپ پر وحی کا نزول شروع ہوتا تو ہمیں پتہ چل جاتا تھا۔ انقطاعِ وحی تک کوئی بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھتا تھا جب وحی کا سلسلہ منقطع ہواتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اُٹھا کر فرمایا: اے انصار! تم نے کہا ہے کہ اسے اپنے شہر کی رغبت اور خاندان کی محبت نے آلیا ہے۔ وہ بولے یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی ہم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ایسا ہو تو پھر میرا نام کیا ہو گا؟ خبردار! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ تو انصار بلکتے ہوئے آپ کی طرف بڑھے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ہم نے جو باتیں کی ہیں وہ محض اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے کی ہیں مبادا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آجائیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے اور تمہاری معذرت قبول کرتے ہیں۔

Haidth Number: 10852
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ والے دن مکہ کے بالائی حصے کداء کی جانب سے اور عمرہ کے موقع پر کدیٰ کی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، دوسری روایت کے الفاظ ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں بالائی جانب سے داخل ہوئے اور نشیبی جانب سے باہر گئے تھے۔

Haidth Number: 10853
سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثنیۃ الاذخر کی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔

Haidth Number: 10854
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے سال نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے تھے کہ آپ نے سیاہ پگڑی باندھی ہوئی تھی۔

Haidth Number: 10855
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اس وقت آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ ابن خطل کافر کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ امام مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ واللہ اعلم۔

Haidth Number: 10856

۔ (۱۰۸۵۷)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْزِلُنَا غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ اِذَا فَتَحَ اللّٰہُ الَْخَیْفَ حَیْثُ تَقَاسَمُوْا عَلَی الْکُفْرِ۔))۔ (مسند احمد: ۸۲۶۱) (۱۰۸۵۸)۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ قَالَتْ: لَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذِی طُوًی، قَالَ أَبُو قُحَافَۃَ لِابْنَۃٍ لَہُ مِنْ أَصْغَرِ وَلَدِہِ: أَیْ بُنَیَّۃُ اظْہَرِی بِی عَلٰی أَبِی قُبَیْسٍ، قَالَتْ: وَقَدْ کُفَّ بَصَرُہُ، قَالَتْ: فَأَشْرَفْتُ بِہِ عَلَیْہِ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّۃُ مَاذَا تَرَیْنَ؟ قَالَتْ: أَرٰی سَوَادًا مُجْتَمِعًا، قَالَ: تِلْکَ الْخَیْلُ، قَالَتْ: وَأَرٰی رَجُلًا یَسْعٰی بَیْنَ ذٰلِکَ السَّوَادِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا، قَالَ: یَا بُنَیَّۃُ ذٰلِکَ الْوَازِعُ یَعْنِی الَّذِییَأْمُرُ الْخَیْلَ وَیَتَقَدَّمُ إِلَیْہَا، ثُمَّ قَالَتْ: قَدْ وَاللّٰہِ! انْتَشَرَ السَّوَادُ، فَقَالَ: قَدْ وَاللّٰہِ! إِذَا دَفَعَتِ الْخَیْلُ فَأَسْرِعِی بِی إِلٰی بَیْتِی، فَانْحَطَّتْ بِہِ وَتَلَقَّاہُ الْخَیْلُ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَی بَیْتِہِ، وَفِی عُنُقِ الْجَارِیَۃِ طَوْقٌ لَہَا مِنْ وَرِقٍ فَتَلَقَّاہُ الرَّجُلُ فَاقْتَلَعَہُ مِنْ عُنُقِہَا، قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ وَدَخَلَ الْمَسْجِدَ أَتَاہُ أَبُوبَکْرٍ بِأَبِیہِیَعُودُہُ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہَلَّا تَرَکْتَ الشَّیْخَ فِی بَیْتِہِ حَتّٰی أَکُونَ أَنَا آتِیہِ فِیہِ۔)) قَالَ أَبُو بَکْرٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہُوَ أَحَقُّ أَنْ یَمْشِیَ إِلَیْکَ مِنْ أَنْ تَمْشِیَ أَنْتَ إِلَیْہِ، قَالَ: فَأَجْلَسَہُ بَیْنَیَدَیْہِ ثُمَّ مَسَحَ صَدْرَہُ ثُمَّ قَالَ لَہُ: ((أَسْلِمْ۔)) فَأَسْلَمَ وَدَخَلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَأْسُہُ کَأَنَّہُ ثَغَامَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((غَیِّرُوا ہٰذَا مِنْ شَعْرِہِ۔)) ثُمَّ قَامَ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ بِیَدِ أُخْتِہِ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ وَبِالْإِسْلَامِ طَوْقَ أُخْتِی؟ فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ، فَقَالَ: یَا أُخَیَّۃُ! احْتَسِبِی طَوْقَکِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۹۶)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے چاہا تو کل جب اللہ تعالیٰ ہمیں فتح سے نوازے گا تو ہمارا قیام خیف وادی میں ہو گا، جہاں کفار قریش نے (ہمارے خلاف) کفر کی مدد کی قسمیں اُٹھائی تھیں۔

Haidth Number: 10857
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحاب ِ شجرہ میں سے ہیں، سے مروی ہے کہ جب لوگ صدقہ کا مال لا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تو آپ ان کے حق میںیوں دعا فرماتے: اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔ جب میرے والد صدقہ کا مال لے کر حاضر آئے توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا دی: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی (اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمتیں نازل فرما)۔

Haidth Number: 11767
۔ (دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں صدقہ پیش کرتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے حق میں رحمت کی دعا فرماتے، جب میرے والد صدقہ کا مال لے کر حاضرخدمت ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی (اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمتیں نازل فرما)۔

Haidth Number: 11768
۔ (تیسری سند) سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ اصحاب شجرہ میں سے تھے، سے مروی ہے کہ جب کوئی آدمی صدقہ کا مال لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے یوں دعا دیتے: یا اللہ! فلاں کی آل پر رحمت فرما۔ جب میرے والد صدقہ لے کر حاضر خدمت ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا دی : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی (اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمتیں نازل فرما)۔

Haidth Number: 11769

۔ (۱۲۳۲۷)۔ عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَیْئًا نَقْرَؤُہُ إِلَّا کِتَابَ اللّٰہِ وَہٰذِہِ الصَّحِیفَۃَ، صَحِیفَۃٌ فِیہَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَأَشْیَائُ مِنْ الْجِرَاحَاتِ، فَقَدْ کَذَبَ، قَالَ: وَفِیہَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْمَدِینَۃُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عَیْرٰ إِلٰی ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِیہَا حَدَثًا أَوْ آوٰی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَدْلًا وَلَا صَرْفًا، وَمَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ أَوْ تَوَلّٰی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌیَسْعٰی بِہَا أَدْنَاہُمْ۔)) (مسند احمد: ۶۱۵)

ابراہیم تیمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: جو شخص یہ سمجھے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ کے علاوہ بھی دین کی کوئی بات ہے تو وہ جھوٹ کہتا ہے، اس صحیفہ میں زکوٰۃ کے اونٹوں کی عمروں اور کچھ قصاص کے مسائل کا تذکرہ ہے اور اس صحیفہ میں یہ بھی درج ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاکہ مدینہ منورہ عیرسے ثور تک حرم ہے، جو آدمی اس میں کوئی بدعت نافذ کرے گا یا بدعتی کو پناہ دے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اللہ قیامت کے دن اس کی فرض اور نفل عبادت قبول نہیں کرے گا اور جو آدمی اپنے حقیقی باپ یا مالکوں کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے گا، اس پر بھی اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض اورنفل عبادت قبول نہیں کرے گا، تمام مسلمانوں کی پناہ ایک ہی ہے، جس کے متعلق ادنیٰ مسلمان بھی کوشش کرسکتا (یعنی کسی کو پناہ دے سکتا) ہے۔

Haidth Number: 12327
طارق بن شہاب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، وہ منبر پر کہہ رہے تھے: اللہ کی قسم! ہمارے پاس اللہ کی کتاب کے سوا کوئی کتاب یا تحریر نہیں، جو ہم تم لوگوں کے سامنے پڑھیں اور ایک یہ صحیفہ ہے، جو تلوار کے ساتھ معلق ہے، اس کے بارے میں انھوں نے کہا: یہ صحیفہ میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لیا ہے، اس میں زکوٰۃ کے جانوروں کی عمروں کا بیان ہے، و ہ صحیفہ جس تلوار کے ساتھ معلق تھا ا س کے حلقے لوہے کے تھے۔

Haidth Number: 12328
۔ (دوسری سند) طارق بن شہاب کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں کہا: ہمارے پاس اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی تحریر یا وحی میںسے الگ کوئی چیز نہیں ہے،بس وہی کچھ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے اور اس صحیفے میں ہے، جو میری تلوار کے ساتھ ملا ہوا ہے، اس وقت ایک تلوار ان کے پاس تھی، جس کے حلقے لوہے کے تھے اور اس صحیفہ میں زکوٰۃ کے جانوروں کی عمروں کا بیان تھا۔

Haidth Number: 12329

۔ (۱۲۳۳۰)۔ عَنْ حَبَّۃَ الْعُرَنِیِّ قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ضَحِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ، لَمْ أَرَہُ ضَحِکَ ضَحِکًا أَکْثَرَ مِنْہُ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، ثُمَّ قَالَ: ذَکَرْتُ قَوْلَ أَبِی طَالِبٍ ظَہَرَ عَلَیْنَا أَبُو طَالِبٍ، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصَلِّی بِبَطْنِ نَخْلَۃَ، فَقَالَ: مَاذَا تَصْنَعَانِ یَا ابْنَ أَخِی، فَدَعَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: مَا بِالَّذِی تَصْنَعَانِ بَأْسٌ أَوْ بِالَّذِی تَقُولَانِ بَأْسٌ، وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَا تَعْلُوَنِی اِسْتِی أَبَدًا وَضَحِکَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِیہِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَکَ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ عَبَدَکَ قَبْلِی غَیْرَ نَبِیِّکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ النَّاسُ سَبْعًا۔ (مسند احمد: ۷۷۶)

حبہ عرنی کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ منبر پر خوب ہنسے، میں نے ان کو کبھی بھی اتنا ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا، آپ اس قدر زور سے ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نمایاں ہوگئیںاور پھر کہا: مجھے ابو طالب کی بات یاد آئی ہے، میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ وادیٔ نخلہ میں نماز ادا کر رہا تھا کہ ابو طالب آگئے، انہوں نے کہا:بھتیجے! تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا: تم جو کام کر رہے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اللہ کی قسم! میری دبر مجھ سے اونچی کبھی نہ ہوگی۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد کی اس بات پر تعجب کرتے ہوئے ہنسے تھے، اس کے بعد انہوں نے کہا: یا اللہ میں نہیں جانتا کہ اس امت میں تیرے نبی کے سوا مجھ سے قبل تیرے کسی بندے نے تیری عبادت کی ہو، یہ بات انہوں نے تین مرتبہ دہرائی، لوگوں کے نماز پڑھنے سے بہت پہلے میںنے نمازیں پڑھی ہیں، یہ بات آپ نے سات مرتبہ دہرائی۔1 ! یا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نماز پڑھنے سے پہلے میں نے سات دن نماز پڑھی ہے اس کے بعد دیگر لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 12330
بنو تمیم کے ایک بزرگ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا: لوگوں پر ایسا سخت زمانہ بھی آئے گا کہ خوش حال لوگ اپنی چیزوں پر انتہائی بخل کریں گے، حالانکہ انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے: { وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ} …، نیز انھوںنے کہا: اور برے لوگوں کی تکریم کی جائے گی، اچھے لوگوں کو ذلیل کیا جائے گا اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے خرید وفروخت کی جائے گی، حالانکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجبورکی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیع کرنے سے، دھوکے کی بیع کرنے سے اور پھلوں کے تیار ہونے سے قبل ان کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

Haidth Number: 12331
قیس سے مروی ہے کہ جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا (مدینہ منورہ سے بصرہ جاتے ہوئے) بنی عامر کے پانیوں تک پہنچیں تو کتے بھونکنے لگے، انہوں نے کہا: یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوںنے کہا: یہ حوأب کے پانی کا مقام ہے، انھوں نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ میں واپس لوٹ جاؤں، لیکن ان کے بعض ہم سفروں نے کہا: اب آپ واپس نہ جائیں، بلکہ آگے بڑھیں، ممکن ہے کہ مسلمان آپ کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مابین صلح کر ادے گا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روز ہم سے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کی اس وقت کیا حالت ہوگی، جب اس پرحوأب کے کتے بھونکیں گے۔

Haidth Number: 12332
سیدناابو رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: عنقریب تمہارے اورعائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے مابین جھگڑا ہو گا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے پھر کہا: اللہ کے رسول! کیا میں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تب تو میں سب سے بڑھ کر بد نصیب ہوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ بات نہیں ہے، بس جب ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو عائشہ کو اس کی امن گاہ تک پہنچا دینا۔

Haidth Number: 12333