Blog
Books
Search Hadith

{ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلَائِکَۃُ اَوْیَاْتِیَ رَبُّکَ} کی تفسیر

8 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورج عرش کے نیچے غروب ہوتا ہے، پھر اسے اجازت دی جاتی ہے، تب یہ واپس لوٹتا ہے، جب وہ رات آئے گی، جس کی صبح کو اس نے مغرب سے طلوع ہونا ہوگا، تو اسے لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جب صبح ہو گی تو سورج سے کہا جائے گا:جہاں سے تو آیا ہے، وہیں سے طلوع ہو (یعنی مغرب سے)، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰیِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ یَوْمَیَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۔} … وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں،یا تیرا رب آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانیآئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔ کہہ دے انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) منتظر ہیں۔

Haidth Number: 8600
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {یَوْمَیَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا} … جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آ جائے گی تو کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا پھر فرمایا: یہ نشانی سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا ہے۔

Haidth Number: 8601

۔ (۱۰۸۷۷)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہُ دَخَلَ ہُوَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْبَیْتَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَجَافَ الْبَابَ، وَالْبَیْتُ إِذْ ذَاکَ عَلٰی سِتَّۃِ أَعْمِدَۃٍ فَمَضٰی حَتّٰی أَتَی الْأُسْطُوَانَتَیْنِ اللَّتَیْنِ تَلِیَانِ الْبَابَ بَابَ الْکَعْبَۃِ، فَجَلَسَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَسَأَلَہُ وَاسْتَغْفَرَہُ، ثُمَّ قَامَ حَتّٰی أَتٰی مَا اسْتَقْبَلَ مِنْ دُبُرِ الْکَعْبَۃِ فَوَضَعَ وَجْہَہُ وَجَسَدَہُ عَلَی الْکَعْبَۃِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَسَأَلَہُ وَاسْتَغْفَرَہُ، ثُمَّ انْصَرَفَ حَتّٰی أَتٰی کُلَّ رُکْنٍ مِنْ أَرْکَانِ الْبَیْتِ فَاسْتَقْبَلَہُ بِالتَّکْبِیرِ وَالتَّہْلِیلِ وَالتَّسْبِیحِ وَالثَّنَائِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَالِاسْتِغْفَارِ وَالْمَسْأَلَۃِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ خَارِجًا مِنَ الْبَیْتِ مُسْتَقْبِلَ وَجْہِ الْکَعْبَۃِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: ((ہٰذِہِ الْقِبْلَۃُ ہٰذِہِ الْقِبْلَۃُ۔))، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مَرَّتَیْنِ اَوْ ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۲۲۱۷۳)

سیدنااسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کر دیا، ان دنوں بیت اللہ کی عمارت چھ ستونوں پر قائم تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر داخل ہوکر آگے بڑھے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے قریب والے دو ستونوں کے درمیان پہنچ گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی، دعائیں کی اور استغفار کیا، پھر اُٹھ کر کعبہ کی سامنے والی دیوار کے قریب آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا چہرہ مبارک اور اپنا جسد اطہر کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سینہ، جسم اور دونوں ہاتھ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دئیے اور اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی، دعائیں اور استغفار کیا۔ پھر واپس ہو کر بیت اللہ کے ہر گوشے میں گئے اور وہاں اللہ تعالیٰ کی تکبیر، تہلیل، تسبیح اور حمد و ثناء بیان کی، استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ سے سوال کیے، پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دو رکعات ادا کیں اور پھر واپس ہوئے اور دو تین بار فرمایا: یہی قبلہ ہے۔ یہی قبلہ ہے۔

Haidth Number: 10877
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حجراسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان والی جگہ پر بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے دیکھا اور میں نے دوسرے لوگوں کو بھی دیکھا کہ وہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔

Haidth Number: 10878
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب مکہ مکرمہ کو فتح کیا تو میں نے کہا کہ میں لباس پہن لوں، میرا گھر راستہ ہی میں تھا، اور میں جا کر دیکھوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آج کیا کچھ کرتے ہیں؟ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ سے باہر آچکے تھے اور صحابہ کرام باب کعبہ سے حطیم تک کعبہ کے ساتھ لپٹے اور چمٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ کے ساتھ لگا رکھے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی انہی کے درمیان تھے، میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ کے اندر کیا کام سر انجام دیا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔

Haidth Number: 10879
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کی کسی دوست سے ملاقات ہوتی تو اس سے کہتے: آئوکچھ دیر بیٹھ کر اپنے رب پر ایماں لے آئیں (یعنی رب کی باتیں کرکے اپنے ایمان کو تازہ کر لیں) اسی طرح انہوںنے ایک آدمی سے یہی بات کہہ دی تو وہ غضب ناک ہوگیا۔ اس نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! ابن رواحہ کو دیکھیں کہ وہ آپ کے ایمان سے اعراض کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ایمان کی طرف جاتا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن رواحہ پر اللہ کی رحمت ہو، وہ ایسی مجالس کو پسند کرتا ہے جن پر فرشتوں خوش ہوتے ہیں۔

Haidth Number: 11780
سنان بن ابی سنان کہتے تھے کہ انھوں نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، وہ کھڑے ہو کر وعظ و نصیحت فرما رہے تھے، بیچ میں انھوں نے کہا: تمہارے بھائی ابن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فضول اشعار نہیں کہتے تھے، انہوںنے تو اپنے اشعار میں اس قسم کی باتیں کہی ہیں: وَفِینَا رَسُولُ اللّٰہِ یَتْلُو کِتَابَہُ، إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ اللَّیْلِ سَاطِعُ یَبِیتُیُجَافِی جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ، إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْکَافِرِینَ الْمَضَاجِعُ أَرَانَا الْہُدٰی بَعْدَ الْعَمٰی فَقُلُوبُنَا، بِہِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ اور ہم میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں، وہ اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں جب رات کا معروف حصہ گزر جاتا ہے۔ یہ رات اس حال میں بسر کرتا ہے کہ اس کا پہلو بستر سے الگ ہوتا ہے ۔ جبکہ کافر اپنے بستروں پر بوجھ بنے ہوئے یعنی سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری گمراہی کے بعد ہمیں ہدایت دکھائی، ہمارے دلوں کو یقین ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں سچ ہے اور پورا ہونے والا ہے۔

Haidth Number: 11781

۔ (۱۲۳۵۲)۔ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ: أَتَیْتُ أَبَا وَائِلٍ فِی مَسْجِدِ أَہْلِہِ، أَسْأَلُہُ عَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ بِالنَّہْرَوَانِ، فَفِیمَا اسْتَجَابُوا لَہُ؟ وَفِیمَا فَارَقُوہُ؟ وَفِیمَا اسْتَحَلَّ قِتَالَہُمْ؟ قَالَ: کُنَّا بِصِفِّینَ فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَہْلِ الشَّامِ اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِیَۃَ: أَرْسِلْ إِلٰی عَلِیٍّ بِمُصْحَفٍ وَادْعُہُ إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ فَإِنَّہُ لَنْ یَأْبٰی عَلَیْکَ، فَجَائَ بِہِ رَجُلٌ فَقَالَ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ: {أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوْا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ} [آل عمران: ۲۳] فَقَالَ عَلِیٌّ: نَعَمْ، أَنَا أَوْلٰی بِذٰلِکَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ: فَجَائَتْہُ الْخَوَارِجُ، وَنَحْنُ نَدْعُوہُمْ یَوْمَئِذٍ الْقُرَّائَ، وَسُیُوفُہُمْ عَلٰی عَوَاتِقِہِمْ، فَقَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَا نَنْتَظِرُ بِہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ عَلَی التَّلِّ، أَلَا نَمْشِی إِلَیْہِمْ بِسُیُوفِنَا حَتّٰییَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ، فَتَکَلَّمَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُنَایَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ،یَعْنِی الصُّلْحَ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَالْمُشْرِکِینَ، وَلَوْ نَرٰی قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَائَ عُمَرُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَہُمْ عَلٰی بَاطِلٍ؟ أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: ((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی أَبَدًا۔)) قَالَ: فَرَجَعَ وَہُوَ مُتَغَیِّظٌ فَلَمْ یَصْبِرْ حَتّٰی أَتٰی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَلَسْنَا عَلٰی حَقٍّ وَہُمْ عَلٰی بَاطِلٍ؟ أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللّٰہُ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ سُورَۃُ الْفَتْحِ، قَالَ: فَأَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَرَ فَأَقْرَأَہَا إِیَّاہُ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَفَتْحٌ ہُوَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۷۱)

حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا ابو وائل کے ہاں ان کی مسجد میں حاضر ہوا، میں ان سے ان لوگوں کی بابت دریافت کرنا چاہتا تھا جن کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نہروان کے مقام پر قتل کیا تھا، کہ لوگوں نے کیونکر ان کی بات مانی اور نہ ماننے والوں نے کیونکر ان کی بات نہ مانی اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیونکر ان کوقتل کرنا حلال سمجھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ صفین کے مقام پر موجود تھے، جب اہل شام کے ساتھ گھمسان کی لڑائی ہونے لگی، تو انہوں نے ٹیلے کی طرف پناہ لی، سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف مصحف بھیجیں اور انہیں کتاب اللہ کے فیصلہ پر آنے کی دعوت دیں، وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار نہیں کریںگے، تو ایک آدمی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں قرآن لے کر آیا اور اس نے کہاہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ} … ٍٍِْْ بھلا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو اللہ کی کتاب میں سے حصہ دیا گیا اور انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ کتاب ان لوگوں کے مابین ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کردے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کے ساتھ منہ موڑ جاتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:ٹھیک ہے، میں اس بات کا زیادہ مستحق ہوں، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب حاکم ہے، خارجی لوگ جنہیں ہم ان دنوں قراء کہا کرتے تھے، وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، وہ اپنی تلواریں اپنے کندھوں پر لٹکائے ہوئے تھے، انہوںنے کہا: امیر المومنین! یہ لوگ جو ٹیلے کی طرف پناہ لیے ہوئے ہیں، ہم ان کی انتظارکیوں کر رہے ہیں؟ ہم کیوںنہ تلواریں تان کر ان کی طرف لڑنے کو نکلیں تاآنکہ اللہ ہمارے اور انکے درمیان فیصلہ کردے، یہ سن کر سیدنا سہل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے، انہوں نے کہا: لوگو! اپنی رائے یا بات پر نظر ثانی کرو، میںنے دیکھا کہ صلح حدیبیہ کے دن جو صلح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مشرکین کے مابین ہوئی، اس روز اگر ہم لڑنا چاہتے تو لڑ سکتے تھے، صلح کی بات ہوئی تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں؟ اور کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھائیں؟ اورہم یوں واپس کیوں لوٹ جائیں، جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے مابین فیصلہ نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غصہ کے عالم میں واپس لوٹ آئے، ان سے صبر نہ ہو وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور کہا: اے ابو بکر! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا وہ لوگ کفر پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنمی نہیں؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی بالکل، تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر ہم اپنے دین کے بارے میں اتنی کمزوری کیوں دکھائیں؟اور ہم یوں ہی واپس کیوںچلے جائیں؟ جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے مابین فیصلہ نہیں کیا؟ تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا، سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجا کہ جا کر انہیں سنا آؤ؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس صلح کا انجام فتح ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔

Haidth Number: 12352