Blog
Books
Search Hadith

{وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ…} کی تفسیر

10 Hadiths Found

۔ (۸۶۲۰)۔ عَنْ أَ بِی سَعِیدٍ قَالَ بَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْسِمُ جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ ذِی الْخُوَیْصِرَۃِ التَّمِیمِیُّ فَقَالَ: ((اعْدِلْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟)) قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: دَعْنِی أَ ضْرِبْ عُنُقَہُ، قَالَ: ((دَعْہُ فَإِنَّ لَہُ أَ صْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ مَعَ صَلَاتِہِ وَصِیَامَہُ مَعَ صِیَامِہِ،یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ،یُنْظَرُ فِی قُذَذِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ فِی نَصْلِہِ، فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی رِصَافِہِ، فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی نَضِیِّہِ فَلَا یُوجَدُفِیہِ شَیْئٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ، آیَتُہُمْ رَجُلٌ إِحْدٰییَدَیْہِ أَ وْ قَالَ ثَدْیَیْہِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَ ۃِ أَ وْ قَالَ مِثْلُ الْبَضْعَۃِ تَدَرْدَرُ یَخْرُجُونَ عَلٰی حِینِ فُرْقَۃٍ مِنْ النَّاسِ۔)) قَالَ أَ بُو سَعِیدٍ أَ شْہَدُ سَمِعْتُ مِنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ شْہَدُ أَ نَّ عَلِیًّا قَتَلَہُمْ وَأَ نَا مَعَہُ جِیئَ بِالرَّجُلِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِی نَعَتَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ فَنَزَلَتْ فِیہِ: {وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ۔} (مسند احمد: ۱۱۵۵۸)

۔ سیدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک بار نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی خویصرہ تمیمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ذرا انصاف کرنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو جائے،اگر میں بھی عدل نہ کروں تو اور کون عدل کرے گا؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑادیتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، اس کے ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ایک شخص ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کو حقیر سمجھے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اس کے پروں میں دیکھا جائے تو معلوم کچھ نہیں ہوتا، پھر اس کے پھل میں دیکھا جائے تو معلوم کچھ نہیں ہوتا، پھر اس کی تانت اور اس کے بعد پیکان اور پر کے درمیان کے حصے کو دیکھتا ہے، تو کچھ معلوم نہیں ہوتا، حالانکہ وہ خون اور گوبر سے ہو کر گزرا ہوتا ہے، ان کی نشانییہ ہوگی کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ یا ایک چھاتی عورت کی ایک چھاتی کی طرح ہوگی،یا فرمایا کہ گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگی اور ہلتی ہوگی، لوگوں کے تفرقہ کے وقت نکلیں گے۔ ابوسعید نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی نے ان لوگوں کو قتل کیا، میں ان کے ساتھ تھا، اس وقت ان میں سے ایک شخص کو لایا گیا، وہ اسیصورت کے مطابق نکلا جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کی تھی، ان ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ۔} (توبہ: ۵۸) اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تجھ پر صدقات کے بارے میں طعن کرتے ہیں، پھر اگر انھیں ان میں سے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔

Haidth Number: 8620
سیدنا محرش کعبی خزاعی سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو جعرانہ سے رات کے وقت چلے، آپ نے مکہ مکرمہ جا کر عمرہ ادا کیا اور راتوں رات واپس جعرانہ پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جعرانہ میں اس طرح صبح کی، جیسے وہاں ہی رات بسر کی ہو، حتیٰ کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جعرانہ سے روانہ ہو کر سرف کے درمیان میں آئے تاآنکہ آپ مدینہ کے راستہ پر پہنچ گئے، محرش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اسی لیے بہت سے لوگوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عمرہ کی اطلاع نہیں ہو سکی، میں نے آپ کی پشت مبارک کو دیکھا، وہ یوں نظر آرہی تھی، جیسے چاندی کی پلیٹ ہو۔

Haidth Number: 10922

۔ (۱۱۸۴۲)۔ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، عَنْ رَجُلٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ: حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکَ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْکَ، قَالَ: نَعَمْ، لَمَّا بَلَغَنِی خُرُوجُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَرِہْتُ خُرُوجَہُ کَرَاہَۃً شَدِیدَۃً خَرَجْتُ حَتّٰی وَقَعْتُ نَاحِیَۃَ الرُّومِ، وَقَالَ یَعْنِی یَزِیدَ بِبَغْدَادَ: حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی قَیْصَرَ، قَالَ: فَکَرِہْتُ مَکَانِی ذٰلِکَ أَشَدَّ مِنْ کَرَاہِیَتِی لِخُرُوجِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَتَیْتُ ہٰذَا الرَّجُلَ، فَإِنْ کَانَ کَاذِبًا لَمْ یَضُرَّنِی، وَإِنْ کَانَ صَادِقًا عَلِمْتُ، قَالَ: فَقَدِمْتُ فَأَتَیْتُہُ فَلَمَّا قَدِمْتُ قَالَ النَّاسُ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ أَسْلِمْ تَسْلَمْ۔)) ثَلَاثًا قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی عَلٰی دِینٍ، قَالَ: ((أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِکَ مِنْکَ۔)) فَقُلْتُ: أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی؟ قَالَ: ((نَعَمْ، أَلَسْتَ مِنٰ الرَّکُوسِیَّۃِ، وَأَنْتَ تَأْکُلُ مِرْبَاعَ قَوْمِکَ؟)) قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: ((فَاِنَّ ھٰذَا لَایَحِلُّ لَکَ فِیْ دِینِکَ۔)) قَالَ: فَلَمْ یَعْدُ أَنْ قَالَہَا فَتَوَاضَعْتُ لَہَا، فَقَالَ: ((أَمَا إِنِّی أَعْلَمُ مَا الَّذِی یَمْنَعُکَ مِنَ الْإِسْلَامِ، تَقُولُ: إِنَّمَا اتَّبَعَہُ ضَعَفَۃُ النَّاسِ، وَمَنْ لَا قُوَّۃَ لَہُ، وَقَدْ رَمَتْہُمْ الْعَرَبُ، أَتَعْرِفُ الْحِیرَۃَ؟)) قُلْتُ: لَمْ أَرَہَا وَقَدْ سَمِعْتُ بِہَا، قَالَ: ((فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتّٰی تَخْرُجَ الظَّعِینَۃُ مِنَ الْحِیرَۃِ حَتّٰی تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِجِوَارِ أَحَدٍ، وَلَیَفْتَحَنَّ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَلَیُبْذَلَنَّ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ۔)) قَالَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ: فَہٰذِہِ الظَّعِینَۃُ تَخْرُجُ مِنَ الْحِیرَۃِ فَتَطُوفُ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِ جِوَارٍ، وَلَقَدْ کُنْتُ فِیمَنْ فَتَحَ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَکُونَنَّ الثَّالِثَۃُ لِأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ قَالَہَا۔ (مسند احمد: ۱۸۴۴۹)

ابو عبیدہ سے روایت ہے، وہ ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں، اس نے کہا: میں نے سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ذکر کیا کہ مجھ تک آپ کی طرف سے ایک بات پہنچی ہے، میں اسے آپ سے براہ راست سماع کرنا چاہتا ہوں، انہوںنے کہا: جی ٹھیک ہے، جب مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ظہور کی اطلاع ملی تو مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ظہور اچھا نہ لگا، مجھے اس سے شدید کراہت ہوئی، میں یہاں سے بھاگ نکلا اور روم کے علاقے میں جا پہنچا، حدیث کے راوییزید نے بغداد میںیوں بیان کیا:میں یہاں سے بھاگ کر قیصر روم کے ہاں چلا گیا، مگر مجھے پہلے سے بھی زیادہ پریشانی ہوئی، تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اسی آدمی کے ہاں چلا جائوں، اگر وہ جھوٹا ہوا تو مجھے اس کا ضرر نہیں ہو گا اوراگر وہ سچا ہوا تو مجھے علم ہو ہی جائے گا، چنانچہ میں واپس آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آیا تو لوگوں نے کہا: عدی بن حاتم، عدی بن حاتم، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے تین بار فرمایا: عدی بن حاتم! دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائو، سلامت رہو گے۔ عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں ایک دین پر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے دین کے متعلق تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے دین کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ کیا تم رکوسیہ گروہ میں سے نہیں ہو؟ (یہ عیسائیوں اور صابئین کا ایک درمیانی گروہ ہے) اور تم اپنی قوم سے مال کا چوتھا حصہ لے کر کھاتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حالانکہ یہ چیز تمہارے دین میں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں۔ سیدنا عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب یہ دونوں باتیں بیان فرمائیں تو میں نے انہیں تسلیم کر لیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے سے کون سی چیز تمہارے لیے مانع ہے؟ تم سمجھتے ہو کہ کم زور معاشرت والے افراد نے دین اسلام کی اتباع کی ہے اور ایسے لوگوں نے دین اسلام قبول کیا ہے، جنہیں دنیوی لحاظ سے قوت یا شان و شوکت حاصل نہیں اور عربوں نے ان مسلمانوں کو دھتکار دیا ہے، کیا تم حیرہ (کوفہ کے قریب ایک) شہر سے واقف ہو؟ میںنے عرض کیا: میں نے اس شہر کو دیکھا تو نہیں، البتہ اس کے بارے سنا ضرور ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ تعالیٰ اس دین کو اس حد تک ضرور غالب کرے گا کہ ایک اکیلی خاتون حیرہ شہر سے کسی کی پناہ اور حفاظت کے بغیر بے خوف و خطر سفر کرتی ہوئی آکر بیت اللہ کا طواف کرے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ضرور بالضرور مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوں گے۔ میں عدی نے حیران ہو کر پوچھا: کیا کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : ہاں ہاں کسریٰ بن ہرمز کے اور مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہو جائے گی کہ کوئی آدمی مال لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: (میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق ایسا پر امن دور دیکھا کہ) ایک اکیلی خاتون حیرہ سے کسی کی پناہ اور حفاظت کے بغیربے خوف و خطر سفر کرکے آکر بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے کسریٰ بن ہر مز کے خزانوں کو فتح کیا تھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی، کیونکہیہ بات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہی ہے۔

Haidth Number: 11842

۔ (۱۱۸۴۳)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: سَمِعْتُ سِمَاکَ بْنَ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ حُبَیْشٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: جَاء َتْ خَیْلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ: رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا بِعَقْرَبٍ فَأَخَذُوْا عَمَّتِی وَنَاسًا، قَالَ: فَلَمَّا أَتَوْا بِہِمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَصَفُّوْا لَہُ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، نَأَی الْوَافِدُ وَانْقَطَعَ الْوَلَدُ وَأَنَا عَجُوزٌ کَبِیرَۃٌ مَا بِی مِنْ خِدْمَۃٍ فَمُنَّ عَلَیَّ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ، قَالَ: ((مَنْ وَافِدُکِ؟)) قَالَتْ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: ((الَّذِی فَرَّ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ؟)) قَالَتْ: فَمَنَّ عَلَیَّ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ وَرَجُلٌ إِلٰی جَنْبِہِ نَرٰی أَنَّہُ عَلِیٌّ قَالَ: سَلِیہِ حِمْلَانًا، قَالَ: فَسَأَلَتْہُ فَأَمَرَ لَہَا، قَالَتْ: فَأَتَتْنِی فَقَالَتْ: لَقَدْ فَعَلْتَ فَعْلَۃً مَا کَانَ أَبُوکَ یَفْعَلُہَا، قَالَتْ: ائْتِہِ رَاغِبًا أَوْ رَاہِبًا، فَقَدْ أَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ وَأَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ فَإِذَا عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ وَصِبْیَانٌ أَوْ صَبِیٌّ فَذَکَرَ قُرْبَہُمْ مِنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَرَفْتُ أَنَّہُ لَیْسَ مُلْکُ کِسْرٰی وَلَا قَیْصَرَ، فَقَالَ لَہُ: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، فَہَلْ مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللَّہُ، مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ، فَہَلْ شَیْئٌ ہُوَ أَکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟)) قَالَ: فَأَسْلَمْتُ فَرَأَیْتُ وَجْہَہُ اسْتَبْشَرَ، وَقَالَ: ((إِنَّ الْمَغْضُوبَ عَلَیْہِمْ الْیَہُودُ، وَالضَّالِّینَ النَّصَارٰی۔)) ثُمَّ سَأَلُوْہُ، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَلَکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ أَنْ تَرْضَخُوْا مِنَ الْفَضْلِ۔)) ارْتَضَخَ امْرُؤٌ بِصَاعٍ بِبَعْضِ صَاعٍ بِقَبْضَۃٍ بِبَعْضِ قَبْضَۃٍ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأَکْثَرُ عِلْمِی أَنَّہُ قَالَ: ((بِتَمْرَۃٍ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، إِنَّ أَحَدَکُمْ لَاقِی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَقَائِلٌ: مَا أَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْکَ سَمِیعًا بَصِیرًا؟ أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ مَالًا وَوَلَدًا؟ فَمَاذَا قَدَّمْتَ؟ فَیَنْظُرُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ، فَلَا یَجِدُ شَیْئًا فَمَا یَتَّقِی النَّارَ إِلَّا بِوَجْہِہِ، فَاتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْہُ فَبِکَلِمَۃٍ لَیِّنَۃٍ، إِنِّی لَا أَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْفَاقَۃَ، لَیَنْصُرَنَّکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَیُعْطِیَنَّکُمْ، أَوْ لَیَفْتَحَنَّ لَکُمْ حَتّٰی تَسِیرَ الظَّعِینَۃُ بَیْنَ الْحِیرَۃِ ویَثْرِبَ أَوْ أَکْثَرَ مَا تَخَافُ السَّرَقَ عَلٰی ظَعِینَتِہَا۔)) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: ثَنَاہُ شُعْبَۃُ مَا لَا أُحْصِیہِ وَقَرَأْتُہُ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۰۰)

سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک گھڑ سوار دستہ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قاصد آئے اور انہوںنے میری پھوپھی اور (قبیلہ کے) کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا، میں اس وقت عقرب (ایک جگہ کا نام) میں تھا۔ وہ لوگ ان قیدیوں کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے گئے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے لائنوں میں کھڑے ہوئے تو میری پھوپھی نے کہا: میری پیروی کرنے والا بہت دور ہے، اولاد بھی پاس نہیںاور میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں میرا کوئی خدمت گزار بھی نہیں، آپ مجھ پر احسان فرمائیں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پیروی کرنے والا کون ہے؟ اس نے کہا: عدی بن حاتم۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی عدی جو اللہ اور اس کے رسول کے ڈر سے فرار ہو گیا ہے۔ اس نے کہا: پس آپ نے مجھ پر احسان فرمایا۔ میری پھوپھی نے بیان کیا کہ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، میری پھوپھی کا خیال ہے کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ اس نے اس سے (یعنی میری پھوپھی سے) سے کہا: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی سواری مانگ لو۔ اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے سواری مہیا کئے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ سیدنا عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری پھوپھی نے آکر مجھ سے کہا کہ تو نے ایسا کام کیا ہے کہ تیرا باپ تو (بزدلی والا) ایسا کوئی کام نہ کرتا تھا، تو رغبت کے ساتھ یا خوف کے ساتھ ہر حال میں ان کے پاس یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلا جاتا، فلاں آدمی ان کی خدمت میں گیا اور فلاں بھی ان کے ہاں حاضر ہوا، انہوںنے ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں آپ کی خدمت میں چلا آیا، اس وقت آپ کی خدمت میں ایک عورت اور اس کے ساتھ ایک دو بچے بھی تھے۔ صحابۂ کرام رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتہائی قریب آزادی سے بیٹھے تھے، میں نے جان لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیصر و کسریٰ جیسے بادشاہ نہیں ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: عدی! کیا تم محض اس لیے فرار ہوئے کہ کلمۂ توحید لا الہ الا اللہ نہ پڑھا جائے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ کیا کوئی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بھی ہے؟ عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پس میں دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہو گیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن کریم میں اَلْمَغْضُوبَ عَلَیْہِمْ (وہ لوگ جن پر اللہ کا غضب ہوا) سے مراد یہودی ہیں۔ اور اَلضَّالِّینَ (گمراہ) سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ اس کے بعد وہاں پر موجود فقراء نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ مانگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: لوگو! اللہ نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں، تم ان میں سے اللہ کی راہ میں ضرورت مندوں کو دو۔ تو کسی نے ایک صاع اور کسی نے اس سے کچھ کم، کسی نے ایک مٹھی اورکسی نے اس سے بھی کم یعنی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ کیا۔ حدیث کے راوی شعبہ نے کہا: میرے علم کے مطابق سماک نے یہ بھی کہا کہ کسی نے ایک کھجور اور کسی نے اس سے بھی کم مقدار میں صدقہ کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: تم میں سے ہر ایک جا کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر نے والا ہے، اللہ اپنے ملاقات کرنے والے بندوں سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے سننے والا اور دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تجھے مال و اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تو بتا تو کیا اعمال کرکے آیا ہے؟ وہ اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھے گا، وہ کوئی ایسی چیز نہیں پائے گا، جو اس کے کسی کام آسکے، وہ اپنے چہرے ہی کے ذریعے جہنم سے بچنے کی کوشش کرے گا، پس تم جہنم سے بچنے کا سامان کر لو، اگرچہ وہ کھجور کے ایک حصے کی شکل میں ہو۔ اگر تم کسی کو دینے کے لیے کھجور کا کچھ حصہ بھی نہ پائو تو نرم کلامی کے ساتھ ہی جہنم سے بچ جائو۔ مجھے تمہارے بارے میں فقر و فاقہ کا ڈر نہیں، اللہ تعالیٰ تمہاری مدد ضرور کرے گا اور ضرور تمہیں بہت کچھ دے گا اور وہ تمہیں ایسی فتح سے ہمکنار فرمائے گا کہ ایک خاتون حیرہ اوریثرب کے درمیان کا یا اس سے بھی زیادہ سفر بے خوف و خطر طے کر ے گی، زیادہ سے زیادہ اس کو اپنی سواری کے چوری ہو جانے کا خطرہ ہو گا۔

Haidth Number: 11843

۔ (۱۱۸۴۴)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: أَتَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فِی أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِی فَجَعَلَ یَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَیِّیئٍ فِی أَلْفَیْنِ وَیُعْرِضُ عَنِّی، قَالَ: فَاسْتَقْبَلْتُہُ فَأَعْرَضَ عَنِّی، ثُمَّ أَتَیْتُہُ مِنْ حِیَالِ وَجْہِہِ فَأَعْرَضَ عَنِّی، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: فَضَحِکَ حَتَّی اِسْتَلْقٰی لِقَفَاہُ ثُمَّ قَالَ: نَعَمْ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَعْرِفَکَ، آمَنْتَ إِذْ کَفَرُوْا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوْا وَوَفَیْتَ إِذ غَدَرُوْا، وإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَۃٍ بَیَّضَتْ وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوُجُوْہَ أَصْحَابِہِ صَدَقَۃُ عَدِیِّ جِئْتَ بِہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَخَذَ یَعْتَذِرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِہِمُ الْفَاقَۃُ وَہُمْ سَادَۃُ عَشَائِرِہِمْ لِمَا یَنُوْبُہُمْ مِنَ الْحُقُوْقِ۔ (مسند احمد: ۳۱۶)

سیدناعدی بن خاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ساتھ سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے بنو طی ٔ کے ہر ہر فرد کو دو دو ہزار دیئے اورمجھ سے اعراض کیا، پھر میں ان کے سامنے آیا، لیکن انھوں نے بے رخی اختیار کی، پھر میں بالکل ان کے چہرے کے سامنے آیا، تب بھی انہوں نے مجھ سے اعراض کیا، بالآخر میں نے کہا: اے امیر المومنین! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟یہ بات سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس قدر ہنسے کہ گدی کی بل لیٹ گئے اور پھر کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! میں تمہیں پہچانتا ہوں، تم اس وقت ایمان لائے تھے جب یہ لوگ کفر پر ڈٹے ہوئے تھے، تم اس وقت اسلام کی طرف متوجہ ہوئے تھے جب ان لوگوں نے پیٹھ کی ہوئی تھی اور تم نے اس وقت وفاداری دکھائی، جب یہ لوگ غداری کر رہے تھے اور میں جانتا ہوں کہ سب سے پہلا صدقہ، جس نے نبی کریم اور صحابہ کے چہرے روشن کر دیئے تھے، وہ تو عدی کا صدقہ تھا، جو تم رسول اللہ کے پاس لے کر آئے تھے، بعد ازاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عدی سے معذرت کی اور کہا: میں نے ان لوگوں کو اس لئے دیا ہے کہ یہ لوگ آج کل فاقوں سے دو چار ہیں، جبکہ یہ اپنے اپنے قبیلوں کے سردار بھی ہیں اور ان پر کافی ساری ذمہ داریاں ہیں۔

Haidth Number: 11844

۔ (۱۱۸۴۵)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَّمَنِی الْإِسْلَامَ وَنَعَتَ لِی الصَّلَاۃَ وَکَیْفَ أُصَلِّی کُلَّ صَلَاۃٍ لِوَقْتِہَا، ثُمَّ قَالَ لِی: ((کَیْفَ أَنْتَ یَا ابْنَ حَاتِمٍ إِذَا رَکِبْتَ مِنْ قُصُورِ الْیَمَنِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللّٰہَ حَتّٰی تَنْزِلَ قُصُورَ الْحِیرَۃِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَأَیْنَ مَقَانِبُ طَیِّئٍ وَرِجَالُہَا، قَالَ: ((یَکْفِیکَ اللّٰہُ طَیِّئًا وَمَنْ سِوَاہَا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّا قَوْمٌ نَتَصَیَّدُ بِہٰذِہِ الْکِلَابِ وَالْبُزَاۃِ فَمَا یَحِلُّ لَنَا مِنْہَا؟ قَالَ: ((یَحِلُّ لَکُمْ {مَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِینَ تُعَلِّمُونَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ} فَمَا عَلَّمْتَ مِنْ کَلْبٍ أَوْ بَازٍ ثُمَّ أَرْسَلْتَ وَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ مِمَّا أَمْسَکَ عَلَیْکَ۔)) قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ؟ قَالَ: ((وَإِنْ قَتَلَ وَلَمْ یَأْکُلْ مِنْہُ شَیْئًا فَإِنَّمَا أَمْسَکَہُ عَلَیْکَ۔)) قُلْتُ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ خَالَطَ کِلَابَنَا کِلَابٌ أُخْرٰی حِینَ نُرْسِلُہَا؟ قَالَ: ((لَا تَأْکُلْ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ کَلْبَکَ ہُوَ الَّذِی أَمْسَکَ عَلَیْکَ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّا قَوْمٌ نَرْمِی بِالْمِعْرَاضِ فَمَا یَحِلُّ لَنَا؟ قَالَ: ((لَا تَأْکُلْ مَا أَصَبْتَ بِالْمِعْرَاضِ إِلَّا مَا ذَکَّیْتَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۴۴۷)

سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ کتوں اور بازوں کے ذریعے شکارکرتے ہیں، ہمارے لیے ان کے شکار میں سے کیا حلال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شکاری کتے تم نے سدھائے ہیں، اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے، ان کے روکے ہوئے شکار کو کھا سکتے ہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا ہو اور جو کتایا باز تم نے چھوڑا ہے اور اللہ کا نام ذکر کیا ہے، تو وہ جو شکار روک کر رکھیں، وہ کھا لو۔ میںنے کہا: اگرچہ یہ شکار کو مار بھی دیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرچہ یہ مار بھی دیں،لیکن شکار سے خود نہ کھایا ہو تو انہوں نے شکار تمہارے لیے روکا ہے۔ میں نے کہا: اب یہ فرمائیں کہ چھوڑتے وقت اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے مل جل جاتے ہیں تو پھر کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک شکار نہ کھاؤ جب تک تمہیںیہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ شکار تمہارے کتے نے ہی کیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تیر کے درمیانی موٹے حصے سے شکار کرتے ہیں، اس میں سے ہمارے لیے کیا حلال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شکار تیر کے اس حصے سے مر جائے، اس کو نہ کھاؤ، الا یہ کہ خود ذبح کر لو۔

Haidth Number: 11845
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے،اس وقت آپ نے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک کندھے پر اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دوسرے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی اس کا بوسہ لیتے اور کبھی اُس کا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے چلتے ہمارے پاس آگئے، ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوان دونوں سے محبت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے ان دونوں سے محبت ہے،اسے مجھ سے محبت ہے اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

Haidth Number: 12406
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز ادا کررہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدہ میں جاتے تو سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز ادا کررہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدہ میں جاتے تو سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما

Haidth Number: 12407
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: حسن اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

Haidth Number: 12408
یعلی عامری سے روایت ہے کہ سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونو ںکو اپنے ساتھ لگا لیا اور فرمایا: بے شک اولاد بخل اور بزدلی کا باعث بنتی ہے اور فتح مکہ کے بعد رحمان کی طرف سے مشرکین کی آخری گرفت غزوۂ طائف میں وادیٔ وج کے مقام پر ہوئی تھی۔

Haidth Number: 12409