عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے بچے کے بارے میں اپنے شوہر سے جھگڑا کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: عورت جب تک شادی نہ کرلے بچے کی زیادہ حقدار ہے۔
سالم بن عبداﷲ (بن عمر) رحمۃ اﷲ علیہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عورت پردہ ہے، جب یہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے مزین کرکے دکھاتا ہے، اور جب یہ اپنے گھر میں ہو تو اﷲ کے بہت نزدیک ہوتی ہے۔
میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ معاویہ نے ام درداء رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا، ام درداء رضی اللہ عنہا نے شادی کرنے سے انکار کر دیا، اور کہنے لگیں کہ میں نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنے آخری شوہر کےلئے ہے اور میں ابو درداء رضی اللہ عنہ کا بدل نہیں چاہتی
ربیع بن سبرہ جہنی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کرنے سے منع فرمایا (فتح مکہ کے زمانے میں عورتوں سے متعہ کرنے سے)اور فرمایا: خبردار یہ آج کے اس دن سے قیامت کے دن تک حرام ہے ۔
ربیع بن سبرہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: متعہ تمہارے آج کے اس دن سے قیامت تک حرام ہےاور جو شخص کوئی چیز (تحفہ یا صدقہ وغیرہ)دے چکا ہو تووہ اسےواپس نہ لے
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ سے نہیں، اور شادی کرو، کیوں کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ اور جس شخص کے پاس وسعت ہو وہ نکاح کرلے، اور جس شخص کے پاس گنجائش نہ ہو وہ روزے رکھے، کیوں کہ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ثنیۃ الوداع میں پڑاؤ کیا۔ (وہاں) تو چراغ دیکھے، اور کچھ عورتوں کے رونے کی آواز سنی، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ وہ عورتیں ہیں جن سے ان کے شوہروں نے متعہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ختم ہے، یا فرمایا: نکاح، طلاق، عدت اور وراثت نے متع کو حرام کردیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس سال حج کرلو،پھراس کےبعد (گھرمیں) چٹائیوں پر بیٹھ رہناہے،آپ نےیہ بات اپنی بیویوں سےحجۃ الوداع کےموقع پرکہی۔ یہ حدیث سیدنا ابو واقد اللیثی، ابوہریرہ، زینب بنت حجش، سودہ بنت زمعہ، ام سلمہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
حجر بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے انہوں نے زمانۂ جاہلیت دیکھا تھا، کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فاطمہ رضی اللہ عنہاکے نکاح کا پیغام بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لئے ہے اگر تم اس سے اچھا سلوک کرو۔
سہل بن معاذ بن انس رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول ! میرا شوہر جہاد کے لئے چلا گیا ہے، جب وہ نماز پڑھتا تھا تو میں بھی نماز پڑھتی تھی، اور جو کام وہ کرتا میں کرتی تھی، جب تک وہ واپس آئے مجھے ایسا عمل بتایئے جو اس کے عمل کے برابر ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا تم اس بات کی طاقت رکھتی ہو کہ جب تک وہ لوٹ آئے قیام کرو، تو قیام کرتی رہو اور روزہ رکھو تو افطار نہ کرو، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتی رہو ؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ میں اتنی طاقت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تمہیں اتنی طاقت دے بھی دی جائے تو جب تک وہ لوٹ نہ آئے تم اس کے عمل کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچ سکتیں ۔
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں جو بیوی اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو حور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے: اسے تکلیف مت دو، اللہ تمہیں برباد کرے! یہ تو تمہارے پاس مہمان ہے، ممکن ہے کہ یہ جلد ہی تمہیں چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کی تھالی میں سے خود بھرے، کیوں کہ اس کا رزق تو اللہ کے ذمے ہے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔۔۔حدیث بیان کی اس میں ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے گرد آپ کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ سے خرچے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا:(الأحزاب: ٢٨) ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو۔۔۔اجر عظیم ہے“ آپ نے فرمایا: اے عائشہ! میں چاہتا ہوں کہ تمہارے سامنے ایک بات رکھوں لیکن جب تک اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لو اس میں جلدی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا بات ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر انہیں سنائی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کے بارے میں میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی؟ میں اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں۔ اور میں آپ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ آپ اپنی بیویوں میں سے کسی کو یہ بات نہ بتائیں جو میں نے آپ سے کہی۔آپ نے فرمایا: مجھ سے جس بیوی نے بھی پوچھا میں اسے بتادوں گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور تکلیف دینے والا بناکر نہیں بھیجابلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبلغ اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔
عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنی بیوی سے جھوٹ بولوں تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اللہ تعالیٰ جھوٹ کو پسند نہیں کرتا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کی اصلاح اور اسے خوش کرتے ہوئے ایسا کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر کوئی گناہ نہیں۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس عورت کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنے شوہر کی شکر گزاری نہیں کرتی ،حالانکہ وہ اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جابر کیا تمہاری بیوی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے ثیبہ سے نکاح کیا تھا یا کنواری سے؟ میں نے کہا: میں نے شادی شدہ (بیوہ)سے نکاح کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کسی کنواری سے شادی کیوں نہیں کی؟ جابر نے کہا: میرے والد فلاں فلاں دن آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے، اور اپنے پیچھے کنواری بیٹیاں چھوڑیں، مجھے مناسب نہ لگا کہ میں ان جیسی ہی ایک نا تجربہ کار لڑکی لے آؤں، اس لئے میں نے بیوہ سے شادی کی کہ کسی کی جُوئیں نکال دے اور کسی کی قمیص پھٹ جائے تو اسے سی دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا خیال بہت اچھا ہے۔
کےرخسارسے لگا لیا۔اس دن وہ کہہ رہےتھے:ابوقاسم خوش رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:کافی ہے؟ میں نے کہا:اےاللہ کےرسول!جلدی نہ کیجئے۔آپ میرے لئےکھڑے رہے۔پھر فرمایا:کافی ہے؟ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! جلدی نہ کیجئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھےان سےکوئی دل چسپی نہیں تھی، میں تو یہ چاہتی تھی کہ دوسری بیویوں تک یہ بات پہنچ جائےکہ آپ میرے لئے کیا مقام رکھتے ہیں اور آپ کے ہاں میری کیا قدر و منزلت ہے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا عورتوں سے لاتعلقی کا معاملہ پیش آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ: اے عثمان! مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا۔ کیا تم میرے طریقے سے بے رغبتی کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: میری سنت ہے کہ میں نماز بھی پڑھتاہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، اور کھانا بھی کھاتا ہوں، شادی بھی کرتا ہوں اور طلاق بھی دیتا ہوں۔ (یعنی ہم بستری بھی کرتا ہوں اور اور کبھی نہیں بھی کرتا) جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی اختیار کی وہ مجھ سے نہیں، عثمان! تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا تم پر حق ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں واللہ! بہت سے مسلمان اس پر جمع ہوچکے تھے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عثمان کو اس کی سوچ پر برقرار کھتے ہیں تو ہم خصی ہو جائیں گے۔ اور دنیا سے کٹ جائیں گے۔