اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، اور میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: خوشحال لوگوں کی طرح ناشکری کرنے سے بچو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! خوشحال لوگوں کی نا شکری کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:ممکن ہے تم میں سے کوئی عورت لمبی عمراپنے والدین کے درمیان غیرشادی شدہ رہے،پھر اللہ تعالیٰ اسے شوہر عطا کر دے، پھر اس سے اولاد عطا کرے، پھر کسی دن غصے میں آکر اس کی نا شکری کر بیٹھے اور کہے: میں نے تو کبھی تم سے بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: بیوہ، اپنے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے، اور کنواری سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جسے شہاب کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ تم ہشام ہو
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: شادی کرو کیوں کہ میں تمہاری وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخر کر سکوں گا اور عیسائیوں کی رہبانیت کی طرح نہ ہو جانا
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ ابھی وہ کم عمر تھیں(وہ کہتی ہیں کہ ابھی مجھ پر گوشت بھی نہ چڑھا تھا اور نہ میرا جسم بھاری ہوا تھا)آپ نے اپنے صحابہ سے کہا: آگے چلے جاؤ،(وہ آگے چلے گئے) پھر آپ نے فرمایا: آؤ، دوڑ کا مقابلہ کریں، میں نے آپ سے مقابلہ کیا تو تیزر فتاری کی وجہ سے میں آپ سے جیت گئی، پھر اس کے بعد ایک موقع آیا۔اور ایک روایت میں ہے: آپ خاموش رہے حتی کہ جب مجھ پر گوشت چڑھ گیا اور میں بھاری بدن والی ہوگئی اور مجھے وہ واقعہ بھول چکا تھا۔ ایک سفر میں میں آپ کے ساتھ چلی، آپ نے اپنے صحابہ سے کہا: آگے چلے جاؤ(وہ آگے چلے گئے) پھر فرمایا: آؤ، دوڑ کا مقابلہ کریں۔ مجھے پچھلا واقعہ بھول چکا تھا۔ اور مجھ پر گوشت بھی چڑھ چکا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کس طرح آپ سے مقابلہ کر سکتی ہوں، میرا یہ حال ہو چکا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں مقابلہ تو کرنا پڑے گا، میں نے آپ سے مقابلہ کیا، آپ مجھ سے سبقت لے گئے (اور ہنسنے لگے) فرمایا: یہ اس جیت کا بدلہ ہے۔
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت سے تین خوبیوں میں سے کسی ایک خوبی کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے: اس کے مال کی وجہ سے ، اس کی خوب صورتی کی وجہ سےاوراس کے دین کی وجہ سے۔ پس تم دین اور اخلاق والی عورت پسند کرو، تمہارا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو۔
ابو موسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: تین آدمی ایسے ہیں جو دعا کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں کی جاتی : وہ شخص جس کے پاس بد خلق بیوی تھی، لیکن اس نے اس عورت کو طلاق نہیں دی، وہ شخص جس کا کسی دوسرے شخص کے ذمے کچھ مال تھا لیکن اس نےگواہ نہیں بنایا اور وہ شخص جس نے اپنا مال کسی بے وقوف کو دیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(النساء:5) بے وقوفوں کو اپنا مال نہ دو۔
عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ :ثیبہ اپنے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے، اور کنواری سے اس کی اجازت اس کا والدلے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک بوڑھی عوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپ میرے پاس تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: جثامہ مزنیہ۔ آپ نے فرمایا: بلکہ تم حسانہ مزنیہ ہو۔ تم کیسے ہو؟ تمہارا کیا حال ہے؟ ہمارے بعد تمہارا کیا بنا؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! خیریت سے ہیں، میرے ماں باپ آپ پر قربان۔جب وہ چلی گئی تو میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ اس بوڑھی عورت پر اتنی توجہ دے رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے زمانے میں آیا کرتی تھی، اور اچھا برتاؤ ایمان سے ہے۔
عبدالوہاب بن بخت رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں، اور سچے نام ہمام، حارث، اور بدترین نام حرب(جنگ) اور مرہ(کڑواہٹ )ہیں۔
ابو اذینہ صدفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بہترین عورتیں وہ ہیں جو زیادہ محبت کرتی ہیں، زیادہ بچے جنتی ہیں اتفاق کرنے والی اور غم گساری کرنے والی ہوں۔جب وہ اللہ سے ڈریں ،اور تمہای بدترین عوتیں وہ ہیں جو زیب و زینت اختیار کرنے والی اور تکبر کرنے والی ہوں ،یہی عورتیں منافق ہیں۔ان میں سے جنت میں اتنی ہی عورتیں جائیں گی جتنی تعداد کووں میں سرخ چونچ اور سرخ پاؤں والے کوّوں کی ہے۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے کہ: تم میں بہترین شخص وہ ہےجو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہے، اور جب تمہارا ساتھی فوت ہوجائے تو اسے چھوڑ دو(اس کی برائیاں بیان نہ کرو)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سے بہتر ہوں اور جب تمہارا ساتھی مر جائے تو اسے چھوڑ دو(اس کی برائیاں بیان نہ کرو)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : مجھے معلوم بھی نہ ہوا اور زینب میرے حجرے میں بغیر اجازت داخل ہوگئیں، وہ بہت غصےمیں تھیں، پھر کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول!کیا آپ کے لئے کافی ہے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ آپ کے لئے پلٹے گی؟ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئیں تو میں نے (جواب دینے سے) گریز کیا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا بدلہ لو، میں نے ان کو ایسا جواب دیا حتی کہ میں نے دیکھا کہ زینب رضی اللہ عنہا کا منہ خشک ہو چکا ہے، وہ مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دمک رہا تھا۔
عبدالرحمن بن سالم بن عتبہ بن عویم بن ساعدہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے وہ ان کے دادا رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: کنواریوں کو ترجیح دو، کیوں کہ وہ منہ کی میٹھی، زیادہ بچے جننے والی اور کم پر راضی ہونے والی ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے خیال میں اگر آپ کسی وادی میں پڑاؤ ڈالیں اور اس میں ایک ایسا درخت ہو جس سے کھایا گیا ہو اور دوسرا ایسا درخت ہو جس سے کھایا نہ گیا ہو، آپ کس درخت سے اپنا اونٹ چرائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس درخت سے جس سے چرایانہ گیا ہو۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی اور کنواری عورت سے شادی نہیں کی۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک انصاری کے دو سانڈھ تھے ۔وہ جوان ہو گئے تو اس نے ان دونوں کو ایک باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا، پھر دعا کروانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ انصار کی ایک جماعت بھی بیٹھی ہوئی تھی، اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں ایک کام سےآیا ہوں۔ میرے دو بیل جوان ہو چکے ہیں میں نے ان دونوں کو ایک باغ میں بند کر کے دروازہ بندکر دیاہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان دونوں کو میرے لئے مطیع کر دے۔ آپ نے اپنے صحابہ سے کہا: آؤہمارے ساتھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس پہنچے تو فرمایا: دروازہ کھولو، اس نے دروازہ کھولا تو ایک بیل دروازے کے قریب ہی تھا،جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے لئے سجدے میں گر گیا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی چیز لاؤ جس سے میں اس کا سر باندھوں اور اسے تیرے قابو میں دے دوں۔ وہ انصاری ایک نکیل لایا۔ آپ نے اس کا سر باندھا اور اسے قابو کیا۔ پھر آپ دونوں باغ کے دوسرے کنارے دوسرے بیل تک گئے۔ جب اس بیل نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے لئے سجدے میں گر گیا۔ آپ نے اس آدمی سے کہا: میرے پاس کوئی چیز لاؤ جس سے میں اس کا سر باندھوں۔ آپ نے اس کا سر باندھا اور اسے قابو کیا۔ اور فرمایا: جاؤ !اب یہ دونوں تمہاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے یہ دیکھا تو کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! یہ دو بیل تو سمجھ بھی رکھتے اور آپ کو سجدہ کر رہے ہیں، کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کسی بھی شخص کو حکم نہیں دیتا کہ وہ کسی اور کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے
عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی ایسا شخص آتا جس کا نام آپ کو پسند نہ ہوتا تو آپ اسے تبدیل کر دیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتے تو پردے کےپاس بیٹھتے اور فرماتے: فلاں شخص فلاں کا ذکر کر رہا تھا اس بیٹی کا اوراس مردکا نام لیتے جو اس کا تذکرہ کر رہا تھا۔ اگر وہ خاموش رہتی تو اس کی شادی کر دیتےاور یا اگر نا پسند کرتی تو پردےپرہاتھ مار دیتی ،جب وہ پردے پر ہاتھ مار تی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی شادی نہ کرتے۔ یہ حدیث سیدہ عائشہ، سیدنا ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی برا نام سنتے تو اسے تبدیل کردیتے۔ آپ ایک بستی کے پاس سے گزرے جسے ”عفراء“ کہا جاتا تھا۔ تو آپ نے اس کا نام تبدیل کر کےخضرہ (سرسبز) رکھ دیا
ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زینب رضی اللہ عنہا کا نام برہ(نیک عورت)تھا،کہا گیا کہ وہ تو خود کا تزکیہ کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن علی رضی اللہ عنہا کے لئے اپنی زبان باہر نکالتے،بچہ زبان کی سرخی دیکھتا تو خوشی سے اس کی طرف لپکتا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدہ جو یریہ رضی اللہ عنہا کا نام برہ تھا، آپ نے ان کا نام تبدیل کر کے جویریہ رکھ دیا، آپ کو یہ بات نا پسند تھی کہ کوئی آپ سے کہے: کہ آپ برہ(نیک عورت)کے پاس سےآئے ہیں۔