زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معاذرضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اہل کتاب اپنے علماء اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں ،آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے، بیوی اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کر سکتی حتی کہ اگر شوہر اس سے ملاپ کا مطالبہ کرے اور وہ اونٹ کے پالان پر ہو اور وہ اس کی خواہش پوری بھی کر دے تب بھی ۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ: آدمی جس عورت کا ذمہ دارنہیں، اس کی طلاق کا حق نہیں رکھتا۔جس غلام کا مالک نہیں ،اس کی آزادی کا حق نہیں رکھتا اور جس سامان کا مالک نہیں، اسے بیچنے کا حق نہیں رکھتا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے کہ: ولدالزنا(زنا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے)پر اس کے والدین کے گناہ میں سے کچھ نہیں، وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی (فاطر۱۸) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رئاب بن حذیفہ نے ایک عورت سے شادی کی، اس کے تین بچے ہوئے، ان کی ماں فوت ہوگئی، اس کے بچے اپنی ماں کے سامان اوراس کے آزاد کردہ غلام کی ملکیت کے وارث بنے۔ عمرو بن عاص اس عورت کے بیٹوں کے عصبہ(باپ کی جانب سے رشتے دار)میں سے تھے۔ وہ انہیں لے کر شام کی طرف لے گئےجہاں وہ بھی فوت ہو گئے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا واپس آئے تو اس عورت کا آزاد کردہ غلام بھی مر چکا تھا۔ اس نے کچھ مال چھوڑا تھا۔ اس عورت کے بھائی اس کا فیصلہ لے کر عمر بن خطابرضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باپ یا بیٹے نے جو جمع کیا ہے وہ اس کے عصبہ کے لئے ہے جو کوئی بھی ہو۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! ہم آدمیوں کی مجلس میں آپ کے پاس نہیں آسکتیں، ہم آپ سے کسی ایک دن کا وعدہ لینے آئی ہیں جس میں ہم آپ کے پاس آ سکیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں کے گھر میں تمہارا وعدہ رہا۔ آپ اس دن وعدے کے مطابق ان کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جو باتیں کہیں ان میں یہ بھی تھا کہ : جس کسی عورت کے تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ ان پر صبر کرے تو جنت میں داخل ہوگی۔ ان میں سے ایک عورت نے کہا: دو بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو بھی فوت ہو جائیں تب بھی۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا فرما رہے تھے: جو بنی آدم بھی پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے ،شیطان کے چھونے کی وجہ سے بچہ چیخ مار کر روتا ہے، سوائے مریم اور اس کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کے، پھر ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی: (آل عمران: ٣٦) پھر میں اس (مریم) اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوئیں جب تک وہ اس کے پاس رہیں،اس نے ان سے اچھا سلوک کیا، تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کر دیں گی۔
حبیبہ یا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا: جس بھی مسلمان کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہو گئے ،تو قیامت کے دن ان تینوں کو لایا جائے گا اور جنت کے دروازے پر کھڑا کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ، وہ کہیں گے کیا ہم داخل ہو جائیں ؟ ابھی تک ہمارے والدین تو داخل ہی نہیں ہوئے؟ ان سے کہا جائے گا ۔مجھے نہیں معلوم کہ دوسری مرتبہ۔ تم اور تمہارے والدین جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (المدثر: ٤٨) سفارش کرنے والوں کی سفارش انہیں نفع نہ دے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کو ان کی اولاد کی سفارش نفع دے گی۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو خطبہ دیا اور فرمایا:تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہوگئے، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرلے گا۔ایک باوقار عمر رسیدہ عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول!کیا جس عورت کے دوبچے فوت ہوجائیں وہ بھی جنت میں جائے گی؟،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو(فوت شدہ) بچوں کی ماں بھی جنت میں جائے گی
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حفص بن مغیرہرضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر سے کہا: اسے کچھ فائدہ (مال، سامان) دو، اس نے کہا: میرے پاس تو اسے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: فائدہ لازمی دینا ہے۔ اور فرمایا: اسے فائدہ دو اگرچہ کھجور کا نصف صاع ہی کیوں نہ ہو۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں ۔اس نے مجھ سے کھانا مانگا، میرے پاس صرف ایک کھجور تھی ،میں نے وہ کھجور اسے دے دی۔ اس نے وہ کھجور لی اور دونوں بیٹیوں میں میں تقسیم کر دی، خود اس سے کچھ نہ کھایا، پھر کھڑی ہوئی اور اپنی بیٹیوں کو لے کر چلی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں نے آپ کو وہ بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ان بییواں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لئے آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔
مزینہ کے ایک شخص سے مروی ہے کہ اس سے اس کی والدہ نے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر لوگوں کی طرح کیوں نہیں مانگتے؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مانگنے کے لئےگیا۔ میں نے آپ کو کھڑے ہو کر خطاب کرتے دیکھا ، آپ فرمارہے تھے : جو شخص عفت چاہے گا ، اللہ تعالیٰ اسے پاکدامن رکھے گا اور جو شخص لوگوں سے بے پرواہ ہو جائے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی کردے گا، جس شخص نے لوگوں سے سوال کیا حالانکہ اس کے پاس پانچ وسق کے برابر خوراک تھی، تو گویا اس نے چمٹ کر سوال کیا میں نے اپنے آپ سے کہا: میرے پاس تو ایک اونٹنی ہے جو پانچ وسق سے بہتر ہے، اور میرے غلام کی بھی ایک اونٹنی ہے جو پانچ وسق سے بہتر ہے۔ پھر میں واپس لوٹ آیا اور آپ سے کوئی چیز نہیں مانگی۔
ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ اندر گئے، پھر غسل کر کے باہر آئے، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی معاملہ ہو گیاتھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میرے پاس سے فلاں عورت گزری تو میرے دل میں اپنی بیویوں کی خواہش پیدا ہوگئی ۔ میں اپنی ایک بیوی کے پاس گیا اور اس سے ملاپ کیا۔ تم بھی اسی طرح کیا کرو ، کیوں کہ تمہارا بہترین کام حلال کام ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی خادم کو اس کے مالکوں کے خلاف بھڑکایا وہ ہم میں سے نہیں ۔اور جس شخص نے شوہر سے اس کی بیوی کو بہکایا وہ ہم میں سے نہیں
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس شخص نے اپنے یتیم یا غیر کےیتیم کی دیکھ بھال کی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے مستغنی کردیا، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔
انسرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں یا تین بیٹیوں کی یا دو یا تین بہنوں کی ان کے فوت ہونےتک پرورش کی(اور ایک حدیث میں ہےکہ وہ بڑی ہوجائیں ،اور دوسری روایت میں ہے :بالغ ہو جائیں )یا وہ خود مر جائے تو میں اور وہ اس طرح ہوں گے۔ آپ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دو بچیوں کی پرورش بالغ ہونے تک کی وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح آئیں گے۔ اور اپنی انگلیوں کو ملا لیا۔
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہےکہ جس شخص کی دو بہنیں یا بیٹیاں ہوں ،جب تک وہ اس کے پاس رہیں وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے، تو وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے اور اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، وہ ان پر صبر کرے انہیں کھلائے پلائے، اور اپنی حیثیت جتناپہنائے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے آگ سے رکاوٹ کا باعث بنیں گی
جابر بن عبداللہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں جنہیں وہ رہائش/ ٹھکانا دے ، کفالت کرے ،اور ان پر رحم کرے، اس کے لئے لازمی طور پر جنت واجب ہوگئی، لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا:اے اللہ کے رسول! اور دو بیٹیاں ہوں تو، آپ نے فرمایا: اور دو بیٹیاں ہوں تب بھی۔
انسرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں وہ اللہ سے ڈرتا رہا اور ان کی دیکھ بھال کی، وہ جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا اور اپنی شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں جنہیں وہ ٹھکانا دے، ان پر رحم کرےاوران کی کفالت کرے،اس کے لئے لازمی طور پر جنت واجب ہوگئی، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! اگر دو ہوں تب؟ آپ نے فرمایا: اگر دو ہوں تب بھی۔ بعض صحابہ کا خیال ہے کہ اگر وہ ایک بھی کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دہتے۔
ابو امامہ عمرو بن عبسہ سلمیرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ: ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو اور اس میں نہ کوئی کمی ہو اور نہ وہم ہو۔انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے۔۱۔ زمانہ اسلام میں جس شخص کے تین بچے ہوئے اور وہ بالغ ہونے سے پہلے مر گئے تو اللہ عزوجل اپنی رحمت سے ان پر صبر کرنے کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔۲۔ جو شخص اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوا تو قیامت کے دن اس کے لئے نور کا باعث ہوگا۔ ۳۔ جس شخص نے اللہ کے راستے میں دشمن کی طرف تیر پھینکا وہ درست نشانے پر لگا یا خطا ہو گیا، تو اس کے لئے ایک گردن (غلام/ باندی) آزاد کرنے کے برابر ثواب ہوگا۔۴۔ جس شخص نے کوئی مومن گردن(غلام/ باندی) آزاد کی، اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کا ہر عضو آگ سے آزاد کرے گا۔۵۔ جس شخص نے دو بہترین چیزیں اللہ کے راستے میں خرچ کیں تو جنت کے آٹھ دروازے ہیں، جس دروازے سے وہ چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل نہ فرما دے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:ایک دوسرےپرلعنت کرنےوالے(لعان کرنےوالےمیاں بیوی)جب جداہو جائیں توکبھی بھی جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ حدیث سیدنا ابن عمر، سھل بن سعد، عبداللہ بن مسعود اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔