معاویہ بن قرۃ رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے اور اسے اپنے سامنے بٹھا لیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں بہت زیادہ ،پھر وہ بچہ مر گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: شاید تم اس پر غمگین ہو؟ انہوں نے کہا: ہا ں اے اللہ کے رسول!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پسند نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل کر ے تو تم اسے جنت کے دروازے پر دیکھو اور وہ تمہارے لئے دروازہ کھولے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاملہ اسی طرح ہوگا۔ ان شاءاللہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں جنت میں جانے والے مردوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ نبی جنت میں ہے، صدیق جنت میں ہے،شہید جنت میں ہے، بچہ جنت میں ہے،اورجوشخص شہرکےکسی کونےمیں اپنےبھائی سےملاقات صرف اللہ کی رضاکےلئےکرتاہےوہ جنت میں ہے۔کیا میں تمہیں جنت میں جانے والی عورتوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ہر محبت کرنے والی زیادہ بچے جننے والی، جب تم غصےہو جاؤیا اس سےناراضگی کااظہار کرو(یا اس کا شوہر اس سے غصے ہو جائے)تو وہ کہے:یہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک آپ راضی نہیں ہوں گے میں سرمہ نہیں ڈالوں گی
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکررضی اللہ عنہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنے لگے۔ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز سنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاونچی آوازمیں بات کر رہی تھیں۔آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر داخل ہوئے اور کہا:اے ام رومان کی بیٹی!کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کر رہی ہو؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان آگئے۔ جب ابو بکررضی اللہ عنہ باہر نکل گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں راضی کرنےکےلئےکہنے لگے:کیا تم نے دیکھا نہیں کہ میں اس آدمی اور تمہارے درمیان آگیا تھا۔پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس آئےاورآپ سےاجازت طلب کرنے لگے۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہنسا رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، ابو بکررضی اللہ عنہ اندر آئے تو ابو بکررضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:اے اللہ کے رسول! اپنی صلح میں مجھے بھی شریک کرلیجئے جس طرح آپ نے مجھےاپنے جھگڑےمیں شریک کیا تھا۔
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اسے پکڑ کر اس کا بوسہ لیا اور اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی آئی اور اسے پکڑ کر اپنےپہلو میں بٹھا لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ان کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا۔ (یعنی بیٹے اور بیٹی کے درمیان بوسہ لینے میں۔)
زبیررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار !ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارے جیسے لونڈی کو مارا جاتا ہے؟ خبردار! تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہے
عامر سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے سنا وہ منبر پر خطاب کر رہے تھے کہ: میرے والد نے مجھ پر صدقہ کیا، عمرہ بنت رواحہ نے کہا: مںی اس وقت تک یہ بات نہیں مانوں گی جب تک تم اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہیں بنا لیتے۔ بشیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں نے اپنے بیٹے پر صدقہ کیاہے، عمرہ کہتی ہیں کہ : میں تو اس وقت راضی ہوں گی جب آپ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناؤ گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس بیٹے کے علاوہ تمہارے بیٹے ہیں؟ بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے ہر ایک کو اس جتنا دیا ہے؟ بشیررضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ظلم ہے، اس پر مجھے گواہ مت بناؤ، اللہ سے ڈر جاؤ اپنی اولادکے درمیان عدل کرو، جس طرح تمہیں یہ بات پسند ہے کہ وہ سب تم سے اچھا سلوک کریں۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی عورت بہتر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورت کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دکھے تو اس خوش کردے۔ جب اسے کوئی حکم دے تو فرمانبرداری کرے، خاوند کو جو با ت نا پسند ہے اپنے نفس اور اپنے مال کے بارے میں اس کی مخالفت نہ کرے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو میں نے کوئی بات کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم دنیا و آخرت میں میری بیوی رہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تم دنیا و آخر ت میں میری بیوی ہو۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اپنے والد کی شکایت کر رہا تھاکہ اس نے میرا مال لے لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ تم اور تمہارا مال تمہارے والد کی کمائی ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابلیس اپنا تخت پانی پر لگاتا ہے۔اور ایک روایت میں ہے :سمندر پر لگاتا ہے۔پھر اپنے لشکر پھیلا دیتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ فتنہ گر، سب سےزیادہ اس کےقریب ہوتا ہے۔ایک آتا ہے اور کہتا ہے:میں نے فلاں فلاں کام کیا۔ابلیس کہتا ہے تم نے کچھ نہیں کیا۔پھر ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے میں نے بیوی اور شوہر کے درمیان جدائی کروا کر چھوڑی، ابلیس اسےخودسےقریب کرتاہےاورکہتاہے:تم سب سےاچھےہو۔اعمش نے کہا کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ خود سے اسے چمٹا لیتاہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ: اللہ کے نزدیک سب سے عظیم جرم والا وہ شخص ہے جس نے کسی عورت سے شادی کی،پھر جب اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو اسے طلاق دے کر اس کا مہر ہتھیا لیا، اور دوسرا وہ شخص جس نے کسی شخص سے مزدوری کروائی اور اس کی مزدوری ہتھیا لی، اور وہ شخص جس نے کسی چوپائے کو فضول میں قتل کر دیا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن حرام کام کا ارتکاب کرے۔
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا:اللہ تعالیٰ تمہیں عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے،کیوں کہ یہ تمہاری مائیں ،بیٹیاں اور خالائیں ہیں۔اہل کتاب میں سے کوئی آدمی جب کسی عورت سے اس کی چھوٹی عمر میں اور غربت میں شادی کرتا تو دونوں ایک دوسرے سے بے رغبتی نہ کرتے(حتی کہ دونوں بوڑھے ہو کر مر جاتے)۔
ابو سعید یا جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبا خطبہ ارشادفرمایا اور اس میں دنیا اور آخرت کے معاملات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کا کی ہلاکت کا پہلا سبب یہ بنا کہ کسی غریب کی بیوی اپنے شوہرسےایسے کپڑوں یا زیورات کا مطالبہ کرتی جو امیر کی بیوی کرتی اور آپ نے بنی اسرائیل کی ایک عورت کا تذکرہ کیا جو پستہ قد تھی، اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں بنوائیں اور ایک انگوٹھی جس میں ڈھکن لگا ہوا تھا ،اسے مشک کی خوشبوسے بھردیااوردو لمبی یا موٹی عورتوں کے درمیان چلنے لگی۔لوگوں نے ایک آدمی بھیجاجو ان کا پیچھا کرے،اس نے لمبی عورتوں کو تو پہچان لیالیکن لکڑی کی ٹانگوں والی عورت کو نہیں پہچانا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری اولاد، تمہارے لئے اللہ کی طرف سے عطیہ ہے۔(الشورى:۴۹) ترجمہ:”جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے“۔ تو جب تمہیں ضرورت ہو تویہ اولاد اور ان کا مال تمہارے لئے ہے ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ اپنی بیویوں سے ایلاء( پاس نہ جانے کی قسم) کیا۔ جب انتیس(۲۹) دن گزر گئے تو صبح کے وقت آئے یا شام کے وقت ،آپ سے کہا گیا کہ: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک ماہ تک بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس (۲۹)دن کا بھی ہوتا ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ نے چاہا اور میں زندہ رہا تومیں برکت، نافع اور افلح نام رکھنے سے منع کردوں گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے افلح کہا یا نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے لیکن اس سے منع نہیں فرمایا۔
نعمان بن بشیررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک تحفہ دیا اور چاہا کہ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو اسی طرح دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر یہ لازم ہے کہ تم اپنی اولاد میں انصاف کرو، جس طرح ان کی ذمہ داری ہے کہ تم سےاچھا سلوک کریں۔
علی بن حسین رضی اللہ عنہ ،مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب وہ یزید بن معاویہ کے پاس سےحسین بن علی رضی اللہ عنہ کے قتل کے موقع پر مدینہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ علی بن حسین سے ملے اور کہا: کیا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے؟ حکم کیجئے ،انہوں نے کہا: نہیں ، مسور رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دیں گے؟ کیوں کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ لوگ اس پر قبضہ کر لیں گے۔ اللہ کی قسم ! اگر آپ نے یہ تلوار مجھے دے دی تو جس وقت تک مجھے قتل نہیں کر دیتے اس وقت تک کوئی بھی شخص اس تلوار تک نہیں پہنچ سکے گا۔ علی بن ابی طالبرضی اللہ عنہ نے فاطمہ کی موجودگی میں ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس مسئلے میں منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کرتے سنا۔میں ان ایام میں بالغ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور مجھے خوف ہے کہ اس کے دین کے بارے میں اسے آزمائش میں مبتلا نہ کر دیا جائے ۔ پھر بنی عبدشمس میں سے اپنے داماد کا ذکر کیا، اور ان کے بارے میں تعریفی کلمات کہے، فرمایا: اس نے جو بات کی اسے سچا کردکھایا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تو وفا بھی کیا۔ میں کسی حلال چیز کو حرام نہیں کر سکتا اور نہ کسی حرام چیز کو حلال کر سکا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے رسول کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔اور ایک روایت میں ہے :کسی ایک آدمی کے پا س کبھی بھی(جمع نہیں ہوسکتیں)۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہےایک طریقے پرہر گزسیدھی نہیں ہوگی۔ اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اسی ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے اور اسے توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔
ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام مبشر بنت براء بن معرور کو نکاح کا پیغام بھیجا تو کہنے لگیں کہ میں نے اپنے شوہر سے مشروط کیا تھا کہ اس کے بعد شادی نہیں کروں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شرط درست نہیں
مسروق اور عمرو بن عتبہ سے مروی ہے کہ ان دونوں نے سبیعہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی طرف خط لکھ کر اس کے معاملے کےبارے میں پوچھا؟ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو جواباً لکھا کہ: اس کے ہاں اس کے شوہر کی وفات کےپچیس(۲۵)دن بعد بچہ پیدا ہوا ، وہ بہتررشتے کی تلاش میں تیار ہوئی۔ ابو سنابل بن بعکک اس کے پاس سے گذرا تو کہا: تم نے جلدی کی ،آخری مدت چار ماہ دس دن تک عدت گزارو، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس وجہ سے ؟ میں نے انہیں(وہ بات)بتائی تو آپ نے فرمایا: اگر تمہیں کوئی نیک آدمی ملے تو اس سے شادی کر لینا ۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نےایک انصاری خاتون سے شادی کا ارادہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟ ،کیوں کہ انصار کی آنکھوں میں تھوڑا سا نقص ہوتا ہے، یعنی چھوٹی ہوتی ہیں۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے دیکھ لو ، کیوں کہ ممکن ہے اس طرح تمہارے مابین دائمی محبت پیدا ہو جائے
حصین بن محصن رحمۃ اللہ علیہ اپنی پھوپھی (کہا جاتا ہے کہ ان کا نام اسماء تھا)سے بیان کرتےہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی کام سے آئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت پوری کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس سے کس طرح کا برتاؤ کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: میں اس کے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ سوائے جب میں عاجز آجاؤں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو، خیال رکھنا کہ تم اس سے (اپنے شوہرسے)کس طرح کا سلوک کرتی ہو کیوں کہ وہ تمہاری جنت اور جہنم ہے۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئی اور کہا: میں آل خالد کی اولاد ہوں، میرے شوہر نے مجھے طلاق بھجوائی ہے، میں نے اس کے گھر والوں سے خرچے اور رہائش کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول اس نے اسے تیسری طلاق بھجوائی ہے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرچہ اور رہائش کا حق عورت کے لئے اس وقت ہوتا ہے جب شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہو
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نجران آیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہنے لگے: تم اس طرح آیت پڑھتے ہو:(مريم:٢٨) اے ہارون علیہ السلام کی بہن۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام تو عیسی ٰ علیہ السلام سے اتنی مدت پہلے گزر چکے تھے۔جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: وہ لوگ اپنے سے پہلے انبیاء اور صالحین کے نام رکھا کرتے تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا گیا تو آپ نے مجھ سے ابتداء کرتے ہوئے فرمایا: میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں ،تم پر لازم ہے کہ جب تک اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لوتم جلدی مت کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں آپ کو معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدہ ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ ...(الأحزاب28-29) میں نے کہا: میں کس مسئلے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟میں تواللہ،اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔