مہاجر بن قنفذ سے مروی ہے كہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے آپ پیشاب كر رہے تھے۔ انہوں نے آپ كو سلام كہا:آپ نے وضوكرنے تك اسے جواب نہیں دیا، پھر اس كے سامنے عذر پیش كرتے ہوئے كہا: مجھے پاكیزگی كے علاوہ اللہ كا ذكر كرنا پسند نہیں۔
) ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایك لشكر بھیجا، جنہوں نے بہت بڑی تعداد میں مال غنیمت حاصل كیا اور جلدی واپس آگئے ، ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ایسے لوگ نہیں دیكھے جو اس لشكر سے زیادہ غنیمت حاصل کر نےوالے اور جلدی واپس آنے والے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس لشكر سے بھی زیادہ جلدی اور بڑی غنیمت حاصل كرنے والےكے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ شخص جس نے اپنے گھر میں وضو ءكیا اور اچھی طرح وضو كیا، پھر مسجد كی طرف گیا اور مسجدمیں صبح كی نماز پڑھی، پھر اس كے بعد چاشت كی نماز پڑھی ، تو وہ بہت جلد اور بہت بڑی غنیمت سمیٹ کر پلٹا
) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كان سر كا حصہ ہیں۔( ) یہ حدیث سیدنا ابو امامہ، ابوھریرہ، ابن عمرو، ابن عباس، عائشہ صدیقہ، ابو موسیٰ، انس، سمرۃ بن جندب، اور عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
ابو حازم كہتے ہیں كہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كے پیچھےکھڑا ہوا تھا وہ نماز كے لئے وضو كر رہے تھے ۔ انہوں نے اپنا ہاتھ لمبا كیا حتی كہ وہ بغل تك لے آئے، میں نے ان سے كہا: ابو ہریرہ یہ كیسا وضو ہے؟ انہوں نے كہا: اے بنی فروخ ! تم یہاں ہو؟ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں یہ وضونہ كرتا، میں نے اپنےخلیل( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سنا آپ فرما رہے تھے: جہاں تك مومن کے وضوکا پانی پہنچتا ہے وہاں تك مومن كی سجاوٹ(زیور)پہنچے گی۔
عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ ابو جبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس اپنی بیٹی كو لائے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی كی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جبیررضی اللہ عنہ كو وضو كرنے كا حكم دیا، اور فرمایا: ابو جبیر وضو كرو، ابو جبیر نے منہ سے ابتداء كی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جبیر سے كہا: اپنے منہ سے ابتداء نہ كرو، كیوں كہ كافر منہ سے شروع كرتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو كا پانی منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ دھو كر صاف كئے، پھر كلی كی، اور تین مرتبہ ناك میں پانی چڑھایا، اور تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور (تین مرتبہ) اپنا دایاں ہاتھ كہنی تك دھویا، اور بایاں ہاتھ تین مرتبہ دھویا، اپنے سر كا مسح كیا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ میں نے كپڑے میں لگے حیض كے خون كے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال كیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اسے لکڑی سےكھرچ دو(جس سے اثر زائل ہوسکے)، اور اسے پانی اور بیری سے دھوڈالو۔(
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز كے كسی معاملے میں سوال كیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ہاتھوں اور پاؤں كی انگلیو ں كا خلال كرو، یعنی اچھی طرح وضو ءكرو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے جو بات كہی اس میں یہ بھی تھا كہ: جب تم ركوع كرو تو اپنی ہتھیلیوں كو اپنے گھٹنوں پر ركھو حتی كہ تمہیں اطمینان ہو جائے، اور جب تم سجدہ كرو تو اپنی پیشانی اچھی طرح زمین پر ركھو حتی كہ تمہیں زمین کاحجم محسوس ہو۔
عبدالرحمن بن ابی بكرہ اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر كے لئے تین دن اور تین راتیں اور مقیم كے لئے ایك دن اور ایك رات رخصت دی كہ جب وہ باوضو ءہو كر موزے پہنے تو وہ موزوں پر مسح كر سكتاہے
ثوبانرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدھے ہو جاؤ، قریب ہو جاؤ، عمل كرو،اختیار دواور جان لو كہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے،اور صرف مومن ہی وضوء پر ہمیشگی کرتا ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز تین حصوں میں تقسیم ہے، وضو ایك حصہ ہے ،ركوع ایك حصہ ہے، اور سجدہ ایك حصہ ہے۔ جس شخص نے کماحقہ انہیں ادا كیا اس كی نماز قبول كر لی گئی اور اس كے باقی عمل بھی قبول كر لئے گئے اور جس شخص كی نماز رد كر دی گئی اس كے باقی عمل بھی رد كر دیئے گئے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نئے، ڈھانپے ہوئے مٹکے سے وضوء کرنا زیادہ پسند ہے یا وضوء کی جگہ سے (یعنی حوض وغیرہ)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضوء کی جگہ سے (یعنی حوض وغیرہ)،اللہ كا دین آسان ہے،یكسو اور نرم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کوئیں وغیرہ کی طرف) پانی لانے کے لئے بھیجتے اور تو آپ مسلمانوں كے ہاتھوں كی بركت كی امید ركھتے ہوئے اسے پی لیتے ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نئے، ڈھانپے ہوئے مٹکے سے وضوء کرنا زیادہ پسند ہے یا وضوء کی جگہ سے (یعنی حوض وغیرہ)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضوء کی جگہ سے (یعنی حوض وغیرہ)،اللہ كا دین آسان ہے،یكسو اور نرم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کوئیں وغیرہ کی طرف) پانی لانے کے لئے بھیجتے اور تو آپ مسلمانوں كے ہاتھوں كی بركت كی امید ركھتے ہوئے اسے پی لیتے
محمود بن طحلاء سے مروی ہے كہتے ہیں كہ میں نے ابو سلمہ سے كہا: تمہارا رضاعی یا سوتیلا والا سلیم اس چیز سے وضو نہیں كرتا جسے آگ نے چھوا ہو۔ ابو سلمہ نےسلیم كے سینے پر ہاتھ مارا اور كہا: میں ام سلمہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی گواہی پیش كرتا ہوں كہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی گواہی دیتی ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز سے وضو كیا كرتے تھے جسے آگ نے چھوا ہو
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایك ایك مرتبہ، دو دو مرتبہ اور تین تین مرتبہ(اعضاء دھو كر)وضوكرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام طریقوں سے وضو ءكرتے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بیت الخلاء) سے باہر نکلتے تو اپنے ہاتھ پر پانی ڈالتے اور مٹی سے پاکیزگی حاصل کرتے۔ میں كہتا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یقینا پانی آپ كے قریب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: مجھے نہیں معلوم كہ میں اس تك پہنچ پاؤں گا یا نہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغمس كی طرف قضائے حاجت كیلئے جاتے تھے۔ نافع نے كہا(مغمس) مكہ سے دو یا تین میل كے فاصلے پر ہے
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم انگلیوں کو وضوکے پانی سے اچھی طرح دھولو وگرنہ آگ ان پر غلبہ پالے گی ۔
عبدالرحمن بن ا بی لیلی سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے كسی صحابی سے مرفوعا بیان كرتے ہیں كہ: اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو اپنی امت پر مسواك فرض كر دیتا جس طرح ان پر وضو فرض كیا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، میمونہ رضی اللہ عنہا سے بیان كرتے ہیں ،كہتی ہیں كہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوگئے، میں نے ایك ٹب سے غسل كیا۔ میں نے كچھ پانی بچا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اس پانی سے غسل کریں، میں نے كہا: میں نے اس سے غسل كیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پر كوئی جنابت نہیں۔