انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے لئے دعا کیجئے۔ ان کی مراد انس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ اس کا مال اور اولاد زیادہ کر، اور جواسے عطا کرے اس میں برکت دے۔
ابو وائل سے مروی ہے کہتے ہیں کہ علیرضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! میں اپنی مکاتبت ادا کرنے سے قاصر ہوں، آپ میری مدد کیجئے۔ علیرضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں وہ کلمات نہ سکھاؤں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے تھے؟ اگر تم پر ایک بڑے پہاڑ کے برابر بھی دینار(قرض) ہوں تو اللہ تعالیٰ تمہاری طرف سے ادا کردے گا۔ میں نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو، اے اللہ مجھے حرام سے بچاتے ہوئے حلال سے کافی ہو جا، اور مجھے اپنے فضل سے دوسروں سے بے پرواہ کر دے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے موقع پر تین سو پندرہ کا لشکر لے کر نکلے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! یہ پیدل ہیں ،انہیں سواری عطا کر، اے اللہ! یہ چیتھڑےپہنے ہوئے ہیں ،انہیں لباس عطا کر، اے اللہ یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کردے۔ اللہ تعالیٰ نے بدر کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح دی ،جب وہ واپس پلٹے تو ہر شخص کے پاس ایک یا دو اونٹ تھے ،وہ کپڑے پہنے ہوئے اور سیر تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی: اے اللہ! میں تجھ سے ہر قسم کے خیر کا سوال کرتا ہوں ۔جلدی آنے والا اور دیر سے آنے والا ،جو مجھے معلوم ہے اور جو مجھے نہیں معلوم اور میں تجھ سے ہر قسم کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ،جلدی آنے والے اور دیر سے آنے والے سے، جو مجھے معلوم ہے اور جو مجھے نہیں معلوم۔ اے اللہ! میں تجھ سے اس خیر کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے تیرے بندے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگا اور میں اس شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس شر سے تیرے بندے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ۔اے اللہ! میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے عمل یا قول کا سوال کرتا ہوں اور میں آگ اور اس کے قریب کر دینے والے عمل یا قول سے تیری پناہ میں آتا ہوں،اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے لئے جو بھی فیصلہ کرے خیر کا فیصلہ کرے
مرہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہمان آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس کھانا لانے کے لئے کسی کو بھیجا تو ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز نہ ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ، فَإِنَّهُ لا يَمْلِكُهَا إِلا أَنْتَ، ”اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور رحمت کا سوال کرتا ہوں کیوں کہ تو ہی اس کا مالک ہے“ ۔ آپ کو ایک بھنی ہوئی بکری تحفے میں دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ اللہ کے فضل سے ہے اور ہم اس کی رحمت کے منتظر ہیں“
مصعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ پانچ باتوں کا حکم دیتے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو پڑھنے کا حکم دیتے تھے: ” اے اللہ میں بخل سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔اور بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں ،اور ادھیڑ/ رذیل عمر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ،اور دنیا کے فتنے اورعذابِ قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں“
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں یہ الفاظ تھے: اے اللہ میں برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس بیوی سے پناہ چاہتا ہوں جو بڑھاپے سے پہلے مجھے بوڑھا کر دے اور اس اولاد سے جو میری مالک بن جائے اس مال سے جو میرے لئے عذاب بن جائے ۔اور اس دھوکے باز دوست سے جس کی آنکھ مجھے دیکھے اور اس کا دل میری نگرانی کرے ،اگر کوئی نیکی دیکھے تو چھپالے اور اگر کوئی برائی دیکھے تو اسے پھیلا دے
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں تم سے وہی بات کہوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اے اللہ میں عاجزی ،سستی، بزدلی، بخیلی ،بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اس کا تزکیہ فرما تو ہی بہترین تزکیہ کرنے والا ہے۔ تو ہی اس کا نگران اور مالک ہے۔ اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع نہ دے، اور ایسے دل سے جوڈرتا نہ ہو ۔اور ایسے نفس سے جس کی خواہشات پوری نہ ہوں۔ اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ! جبرائیل علیہ السلام کے رب، میکائیل علیہ السلام کے رب، اسرافیل علیہ السلام کے رب، میں آگ کی تپش اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ سے دعا مانگتے تو کہتے :اے اللہ میری سماعت اور بصارت سے مجھے نفع دے، اور ان دونوں کو میرا وارث بنا دے۔ جو مجھ پر ظلم کرے اس کے خلاف میری مدد فرما اور اس سے میرا بدلہ لے۔( ) یہ حدیث بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہے جس میں ...... عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ جو شخص تجھ پر ایمان لایا اور اس نے گواہی دی کہ میں تیرا رسول ہوں، تو اسے اپنی ملاقات محبوب کر دے۔ اس پر اپنا فیصلہ آسان فرما، اور دنیا سےاسے تھوڑا دے، اور جو شخص تجھ پر ایمان نہ لائے اور گواہی نہ دے کہ میں تیرا رسول ہوں تو اسے اپنی ملاقات محبوب نہ کر ،اس پر اپنا فیصلہ آسان نہ کر اور دنیا سےاسے زیادہ حصہ دے۔
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ جسے تو آسان بنا دے اس کے علاوہ کوئی آسانی نہیں اور جب تو چاہتا ہے سختی کو آسان کر دیتاہے
معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر پرارشادفرمایا:”اے اللہ جو تو عطا کر دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک لے کوئی عطا کرنے والا نہیں ، اور کسی شان والےکواس کی شان تجھ سے نہیں بچا سکتی“۔ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے یہ کلمات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منبر پر سنے تھے
اسود بن سریع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک شاعر تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں نے اپنے رب کی مدح بیان کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً تمہارا رب مدح پسند کرتا ہے اور اس سے زیادہ بات نہیں کہی۔
ابو مالک اشعریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم صبح کریں اور جب شام کریں اور جب اپنے بستروں پر لیٹیں تو کہیں:” اے اللہ آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، غیب اور حاضر کے جاننے والے، تو ہر چیز کا رب ہے، اور فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ اس لئے ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ شیطان مردود اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ خود پر کسی برائی کا ارتکاب کریں یا کسی مسلمان کو برائی میں مبتلا کریں“
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دم کرتے ہوئے فرماتے :” اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کر دے ،تیرے ہاتھ میں شفاء ہے، تیرے سوا کوئی تکلیف دور نہیں کر سکتا“۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب کلام یہ ہے کہ بندہ کہے: اے اللہ تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سےنا پسندیدہ بات یہ لگتی ہے ۔کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے کہے: اللہ سے ڈر جا ، تو وہ کہے: خود کو دیکھ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تما رے سامنےقرآن پڑھوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کےسامنےقرآن پڑھا: لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡاۙ﴿۱﴾ اور اس میں پڑھا :یقیناً اللہ کے یہاں دین حنیف ملت اسلام ہے، نہ کہ یہود،نصرانیت اور مجوسیت۔جوشخص کوئی خیر کا عمل کرے گا اس کی نا قدری نہیں کی جائے گی، اور ان سے فرمایا :اگر ابن آدم کے لئے مال کی ایک وادی ہو تو یہ دوسری وادی تلاش کرے گا، اور اسے دوسری وادی بھی مل جائے تو وہ تیسری وادی کی تلاش کر ے گا۔۔۔ الخ(کہتے ہیں پھر باقی سورت جو بچی تھی اسے پڑھ کر ختم کیا)
. علی بن ربیعہ سے مروی ہے کہ وہ علیرضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھے، جب انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں ڈالا تو کہا:بسم اللہ، جب پشت پر بیٹھ گئےتوکہا:الحمدللہ،(تین مرتبہ)واللہ اکبر(تین مرتبہ) (الزخرف:۱۳)”پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کیا ،جب کہ ہم اسے مسخر نہیں کر سکتے تھے“۔ پھر کہا: ”تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں،یقیناً میں نے خود پر ظلم کیا، مجھے بخش دے کیوں کہ گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا“ پھر ایک طرف تھوڑا سا جھک کر ہنسنے لگے۔ میں نے کہا: امیر المومنین! آپ کس وجہ سے ہنسے؟ کہنے لگے: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا جس طرح میں نے کیا تو میں نے بھی آپ سے اسی طرح سوال کیا جس طرح تم نے سوال کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ یہ کلمات کہتا ہے: ”تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ۔یقیناً میں نے خود پر ظلم کیا، میرے گناہوں کو معاف کر دے، کیوں کہ گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی معاف نہیں کر سکتا“۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :میرے بندے کو معلوم ہوگیا کہ اس کا ایک رب ہے جو معاف بھی کر سکتا ہے اور سزا بھی دے سکتا ہے
عامر بن واثلہ سے مروی ہے کہ نافع بن عبدالحارث (عسفان میں) عمررضی اللہ عنہ سے ملے۔ عمررضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ کا نگران بنایا تھا۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے اہل وادی پر کس کو نگران بنایا ہے؟ نافع نے کہا: ابن ابزی کو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن ابزی کون ہے؟نافع نے کہا: ہمارا ایک مولی (آزاد کردہ غلام )ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ایک مولیٰ(آزاد کردہ غلام)کو نگران بنایا ہے؟ نافع کہنے لگے: وہ اللہ کی کتاب کا قاری ہے ،اور فرائض کا علم رکھنے والا ہے۔عمررضی اللہ عنہ نے کہا: یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ کچھ قوموں کو بلند کر دیتا ہےاورکچھ قوموں کو اس کتاب کے ذریعہ ذلیل کر دیتا ہے
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً ایمان تمہارے اندر اس طرح بوسیدہ ہو جاتا ہے جس طرح کپڑا بوسیدہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید کرتا رہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ: جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک مرتبہ میرے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دو مرتبہ میرے ساتھ قرآن کا دور کیا ہے، اور میرے خیال میں میری موت کا وقت آگیا ہے، اور تم (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھے ملوگی، (اللہ سے ڈرتی رہنااور صبر کرنا ،کیوں کہ میں) تمہارے لئے اچھا پیش رو(میزبان) بنوں گا
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بہترین بندے وہ لوگ ہیں جو اللہ عزوجل کے ذکر کے لئے سورج، چاند ،ستاروں اور سایوں کا خیال کرتے ہیں،یعنی ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے ہیں
قیس بن سکن اسدی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے کسی بیماری(ایک قسم کی وبائی بیماری جس میں سرخ دانوں کے ساتھ بخار آجاتا ہے) کی وجہ سے دھاگہ باندھا ہوا تھا۔ انہوں نے سختی سے اسے کاٹ دیا۔ پھر کہنے لگے: عبداللہ کی آل شرک سے بری ہے۔اور کہنے لگے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو باتیں مجھے یاد ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ :(شرکیہ )دم،تعویز اور دھاگہ شرک ہیں۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کی اجازت دیجئے، لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے: چپ ہو جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے قریب کر دو۔ وہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اور بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنی ماں کے لئے اسے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے اسے پسند نہیں کرتے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے لئے اسے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں واللہ! اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے اسے پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا تم اپنی بہن کے لئے اسے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا اپنی پھوپھی کے لئے اس کام کو پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ کیا تم اپنی خالہ کے لئے اس کام کو پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: اے اللہ اس کے گناہ بخش دے، اس کا دل پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔ اس کی بعد وہ نوجوان کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قرآن سات حروف (انداز) پر نازل ہو اہے۔ (ان لہجوں پر) پڑھو کوئی حرج نہیں۔ لیکن رحمت کے ذکر کو عذاب پر ختم نہ کرو اور عذاب کے ذکر کو رحمت پر ختم نہ کرو
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹہنی پکڑ کر جھاڑی ،لیکن وہ نہیں جھڑی،آپ نے پھر جھاڑی لیکن وہ نہیں جھڑی آپ نے پھر جھاڑی تو وہ جھڑ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر۔ خطاؤں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح یہ درخت اپنے پتے جھاڑتا ہے