عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: ہم ایک ہی مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کلمات:اے میرے رب مجھے بخش دے میری توبہ قبول کر یقیناً تو توبہ قبول کرنے والا معاف کرنے والاہے ،سو مرتبہ گنتے
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے موقوفا اور مرفوعا مروی ہے کہ: ہر چیز کی ایک کوہان (چوٹی، بلندی) ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورة البقرة ہے۔ شیطان جب سورة البقرة سنتا ہے تو اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورة البقرة پڑھی جاتی ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے کچھ فرشتے زمین میں گھومتے پھرتے ہیں ۔لوگوں کا حساب لکھنے والوں کے علاوہ(اور اہل ذکر کو تلاش کرتےہیں) جب وہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں :آؤ اپنے مطلوب کی طرف ،وہ ان کے پاس آتے ہیں اور انہیں آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں (پھر اختتام ؟؟؟ پر واپس جاتے ہیں تو) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟وہ فرشتے کہتے ہیں :ہم نے انہیں تیری تحمید، تمجید اور ذکر کرتے ہوئے چھوڑا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں: نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اگر وہ مجھے دیکھ لیں) تو ان کی کیفیت کس طرح ہوگی؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ آپ کو دیکھ لیں تو اور بھی زیادہ تحمید، تمجید اور ذکر کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ کون سی چیز مانگ رہے تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو؟ فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو اس کی اور زیادہ حرص کریں، اور اسے اور زیادہ شدت سے طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ وہ کہتے ہیں: آگ سے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے آگ (جہنم) کو دیکھا ہے ؟فرشتے کہتے ہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ آگ کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی؟فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ آگ دیکھ لیں تو اس سے بھی زیادہ بچنے کی کوشش کریں اور اس سے بھی زیادہ خوف کھائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا۔ فرشتے کہتے ہیں: ان میں فلاں گناہ گار بھی بیٹھا ہوا تھا ،جو ویسے ہی وہاں موجود تھا، اور اپنے کسی کام سے آیا تھا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے جلال میں سے جو تم ذکر کرتے ہو ، تسبیح، تحمید اور تہلیل بھی ہے۔ عرش کے گرد گھومتی رہتی ہیں شہد کی مکھی کی طرح بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ اور اپنے کہنے والے کا تذکرہ کرتی ہیں۔ کیا تم میں سے کسی کو پسند نہیں کہ جس کا ہمیشہ کا تذکرہ کیا جائے؟
ابو قیس مولیٰ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ عمرو بن عاصرضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو قرآن کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا۔ تو انہوں نے کہا: یہ آیت تمہیں کس نے پڑھائی؟ اس شخص نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے مختلف انداز میں پڑھائی ہے۔ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ کے رسول! فلاں فلاں آیت ،پھر وہ آیت پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ دوسرے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیت پڑھی اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول کیا یہ آیت اس طرح نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قرآن سات حروف (انداز) پر نازل ہوا، جو انداز اپناؤ اچھا ہے(اور ایک روایت میں ہے:درست ہے)اور اس بارے میں جھگڑا مت کرو، کیوں کہ اس میں جھگڑنا کفر ہے
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک درخت کے نیچے ہوں۔ لگ رہا تھا کہ درخت سورة ص پڑھ رہا ہے۔ جب وہ سجدے پر پہنچا اور سجدہ کیا تو اپنے سجدے میں کہا: اے اللہ میرے لئے اس کے بدلے اجر لکھ دے، اس کے ذریعے میری خطائیں دور فرما، اور میرے لئے اس کے بدلے شکر قبول کر، اور مجھ سے اس طرح قبول کر جس طرح اپنے بندے داؤد سے اس کا سجدہ قبول کیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں خبر دی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوسعید! کیا تم نے بھی سجدہ کیا تھا؟ میں نے کہا کہ: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو سجدہ کرنے کا درخت سے زیادہ حق دار تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة ص پڑھی، جب سجدہ پر پہنچے تو سجدے میں وہی کلمات کہے جو درخت نے اپنے سجدے میں کہے تھے۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جن کی مثل(کبھی)نہیں دیکھی گئی۔ قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾ ، آخر سورت تک۔ اور ، قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ آخر سورت تک
عبداللہ بن ابی طلحہ سے مروی ہے وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن آئے ،آپ کے چہرے سے شادمانی جھلک رہی تھی۔صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کا رب عزوجل فرماتا ہے: تمہاری امت میں سے کوئی شخص جو تم پر ایک مرتبہ درودبھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہوں، اور تمہاری امت کا جو شخص تم پر ایک مرتبہ سلام بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں
ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اشعری دوستوں کی آواز پہچانتا ہوں جب وہ رات کو قرآن پڑھتے ہوئے آتے ہیں اور رات کو قرآن پڑھنے کی وجہ سے ان کی آوازوں کی منازل (گھر، پڑاؤ کی جگہ)پہچان لیتا ہوں اگرچہ میں نے دن میں ان کے پڑاؤ نہیں دیکھتے ہوتے۔ اگرچہ میں نے ان کی منازل نہیں دیکھی، میرے ان ہی اشعری احباب میں ایک مرد دانا بھی ہے کہ جب کہیں اس کی سواروں سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے یا فرمایا کہ: دشمن سے، تو ان سے کہتا ہے کہ: میرے دوستوں نے کہا ہے کہ تم تھوڑی دیر کے لئے ان کا انتظار کرلو۔ ہیں کہ تم انہیں مہلت دو
سلیمان بن صرد سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ ایک غصے میں آگیا اور اس کا چہرہ سرخ ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا تو فرمایا: میں ایک کلمہ جانتا ہوں جسے یہ کہہ لے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے: أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔ایک شخص جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تھی اٹھ کر اس آدمی کی طرف گیا،اور کہا: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی کیا فرمایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ مجھے ایسا کلمہ معلوم ہے جسے اگر یہ کہہ لے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے۔ وہ کلمہ : أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ہے۔ اس آدمی نے اس سے کہا: کیا تم مجھے پاگل سمجھتے ہو
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے نصیحت کیجئے۔ ابو سعید نے کہا: تم نے مجھ سے ایسا سوال کیا ہے جو میں نے تم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ یہ ہر عمل کی انتہا ہے اور تمہیں جہاد کی نصیحت کرتا ہوں کیوں کہ یہ اسلام کی رہبانیت ہے ۔اور اللہ کے ذکر اور تلاوت کو لازم کر لو کیوں کہ یہ آسمان میں تمہاری روح اور زمین میں تمہارا ذکر ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو سفر پر جا رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کے تقویٰ اور ہر چڑھائی پر اللہ اکبر کہنے کی نصیحت کرتا ہوں
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مال والے اجر لے گئے، جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم روزہ رکھتے ہیں وہ بھی روزہ رکھتے ہیں جب کہ وہ اپنا زائد مال صدقہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسا کچھ نہیں بنایا جو تم صدقہ کر سکو؟ ہر تسبیح کے بدلے صدقہ ہے، ہر تکبیر کے بدلے صدقہ ہے، ہر تحمید کے بدلے صدقہ ہے، ہر تہلیل کے بدلے صدقہ ہے ،امر بالمعروف صدقہ ہے ،نہی عن المنکر صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے خواہش پوری کرنا صدقہ ہے۔ صحابہ نے کہا: کیا ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو اس کے لئے اس میں بھی اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ حرام کاری کرتا تو کیا اس پر گناہ نہ ہوتا؟ اسی طرح جب وہ حلال طریقے سے خواہش پوری کرتا ہے تو اس کے لئے اس میں اجر ہے
مصعب بن سعد سے مروی ہے کہتے ہیں کہ مجھے اباجان نے بیان کیا انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ہر روز ایک ہزار نیکیاں کمائے؟ ایک شخص نے پوچھا: ہم میں سے کوئی شخص ایک ہزار نیکیاں کس طرح کما سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہے تو اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کی ایک ہزار خطائیں معاف کی جاتی ہیں
ابو سلام سلمی مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ اور اپنے ہاتھ سے پانچ باتوں کا اشارہ کیا۔ میزان میں یہ کتنی بھاری ہیں۔ سبحان اللہ والحمدللہ، ولا الہ الا اللہ ،واللہ اکبر اور مسلمان کی فوت شدہ نیک اولاد جس کی وفات پر وہ اجر کی امید رکھتا ہے۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے، ابو جہل اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک دن پہلے ہی ایک اونٹنی نحر کی گئی تھی۔ ابو جہل نے کہا: تم میں سے کون ہے جو بنی فلاں کی اوجھڑی لا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کاندھوں پر رکھ دے جب وہ سجدے میں جائے؟ بد بخت ترین شخص کھڑا ہوا اور اوجھڑی پکڑ لایا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اوجھڑی آپ کے کاندھوں کے درمیان رکھ دی اور ہنسنے لگے۔ ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ میں کھڑا دیکھ رہا تھا اگر میرے پاس قوت ہوتی تو میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے ہٹا دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں پڑے رہے، اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے ۔حتی کہ ایک شخص نے جا کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع دی۔ وہ ابھی بچی تھیں۔ وہ آئیں اور اوجھڑی کو ہٹایا ۔پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں برا بھلا کہنے لگیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کر لی تو بلند آواز سے ان کے خلاف بددعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو تین مرتبہ دعا کرتے اور جب سوال کرتے تو تین مرتبہ سوال کرتے ۔آپ نے فرمایا،اے اللہ قریش کو پکڑ لے(تین مرتبہ فرمایا:)جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو ان کی ہنسی غائب ہو گئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا خوف طاری ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ ابو جہل بن ہشام ،عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ ،ولید بن عقبہ،امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے۔ ساتویں کا نام بھی لیا جو مجھے یاد نہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! میں نے ان لوگوں کو جن کے نام آپ نے لئے تھے بدر کے میدان میں اوندھے منہ پڑے دیکھا۔ پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے اور ہمیں سلام کہا۔ ہم نے آپ کو جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی کتاب سیکھو، اسے پختہ کرو اور اسے خوش الحانی سے پڑھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! یہ قرآن نو جوان اونٹ سے بھی زیادہ تیزی سے نکلتا ہے(بھول جاتا ہے)
عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نصف رات کو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔ ایک پکارنے والا پکارتا ہے: کیا کوئی سوال کرنے والا ہے اسے عطا کیا جائے گا؟ کیا کوئی پریشان حال ہے اس کی پریشانی دور کی جائے گی؟ مسلمان جو بھی دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے سوائے زانیہ کے جو اپنی شرمگاہ کی کمائی کھاتی ہے ۔یا ٹیکس وصول کرنے والے کے
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول جو ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہے تلاوت فرمایا: (ابراہیم:۳۶) اے میرے رب انہوں نے بہت زیادہ لوگوں کو گمراہ کیا، تو جس شخص نے میری پیروی کی وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور عیسی علیہ السلام نے کہا: اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا: اے اللہ! میری امت میری امت، اور رونے لگے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:(المائدۃ:۱۱۸) اے جبریل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاؤ، حالانکہ تمہارا رب علم رکھنے والا ہے اور ان سے پوچھو کس وجہ سے رو رہے ہیں؟ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سب حال بیان کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ علم رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبریل !محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاؤ اور کہو کہ: ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کر دیں گے ناخوش نہیں کریں گے ۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ہیں جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتا: اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والا، مظلوم کی دعا اور عادل حکمران کی دعا۔
ابو التیاح سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبدالرحمن بن خنبشرضی اللہ عنہ سے سوال کیا: جب شیاطین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لئے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا: شیاطین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وادیوں اور پہاڑوں سے آپ کی طرف اترنے لگے۔ ان میں ایک شیطان ایسا تھا جس کے پاس آگ کا ایک شعلہ تھا۔ جس سے وہ آپ کو جلانا چاہتا تھا۔ اس پر رعب طاری ہو گیا۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے خیال میں آپ نے کہا: وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد! کہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کہوں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: کہو : میں اللہ تعالیٰ کے ان مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں جن سے کوئی نیکو کار اور فاجر تجاوز نہیں کر سکتا ،ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی اور زمین میں پھیلائی ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے نازل ہوتی اور جو آسمان کی طرف چڑھتی ہے۔ اور ہر اس برائی سے جو زمین میں پیدا ہوتی ہے اور جو زمین سے نکلتی ہے۔ اور رات اور دن کے فتنوں سے اور ہر رات کو آنے والےسے سوائے اس کے جو خیر کی خبر لائے ،اے رحمان! تب شیاطین کی آگ بجھ گئی اور اللہ عزوجل نے انہیں شکست دے دی۔
علقمہ بن قیس سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں ایسا آدمی تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اچھی آواز سے (تلاوت) قرآن سے نوازا تھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ میری طرف پیغام بھیجتے تو میں تلاوت کرتا، جب میں اپنی قراء ت سے فارغ ہوتا تو کہتے: ہمیں مزید سناؤ ،کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: اچھی آواز قرآن کی زینت ہے
ابو وائل سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا: تم مجھے صرف زید بن ثابترضی اللہ عنہ کی قرأت پر کیسے مجبور کرتے ہو جبکہ میں نے ستر سے زائد سورتیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے پڑھی ہیں؟ (یعنی براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں) اور زیدرضی اللہ عنہ تو بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتےتھے ان کے دوحصوں میں تقسیم تھے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا ملعون ہے، اس میں موجود ہر چیز ملعون ہے، سوائے اللہ کے ذکر اور اللہ کا ذکر کرنے والے یا عالم ،یا متعلم کے