انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز كی ابتداء كرتے تو كہتے:سُبْحَانَكَ اللهم وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَترجمہ: اے اللہ پاك ہے تو اپنی تعریف كے ساتھ، تیرا نام بابركت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ كوئی معبود برحق نہیں
ابو مالك اشجعی اپنے والد( طارق بن اشیم) سے بیان كرتے ہیں كہتے ہیں كہ جب كوئی آدمی مسلمان ہوتا تو سب سے پہلی تعلیم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے وہ نماز كی ہوتی
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح كی نماز سے پلٹتے تو كہتے: كیا تم میں سے كسی شخص نے آج رات كوئی خواب دیكھا ہے؟ اور فرماتے : میرے بعد نبوت میں سے سچے خواب كے علاوہ كچھ نہیں بچا
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو ركعتوں میں بیٹھتے یا چوتھی ركعت میں بیٹھتے تو اپنا ہاتھ گھٹنے پر ركھتے، اور اپنی انگلی سے اشارہ كرتے
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو (قبلہ رخ)اتنی دیر بیٹھتے كہ آپ یہ كلمات كہہ لیتے: اے اللہ تو سلام ہے، اور تیری طرف سے ہی سلامتی ہے، تو بابركت ہے۔ اے عظمت و شان والے۔
ابو رافعرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مو ذن كی آواز سنتے تو اسی طرح كہتے جس طرح مو ذن كہتا۔ اور یہاں تک جب مؤذن جب مو ذن: حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح كہتا تو آپ لا حول ولا قوۃ الا باللہ كہتے
عاصم بن ضمرہ سے مروی ہے كہتے ہیں كہ ہم نے علیرضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے دن كے نوافل كے بارے میں سوال كیا تو انہوں نے كہا: تم اس كی طاقت نہیں ركھتے ۔ ہم نے كہا: آپ ہمیں بتایئے، جو ہماری طاقت میں ہوگا ہم اسے اختیار كر لیں گے۔ انہوں نے كہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر كی نماز پڑھ لیتے تو جب تك سورج مشرق كی طرف سے اتنا اونچا نہ ہو جاتا جتنا عصر كی نماز كے بعد مغرب كی طرف وہ جاتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہتےاس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے۔ اس كے بعد پھر ٹھہر رہتے حتی کہ سورج مشرق کی طرف سے اتنا بلند ہوجاتا جتنا کہ مغرب کی طرف بوقت ظہر ہوتا ہے (یعنی زوال سے کچھ دیر قبل) تو آپ كھڑے ہوجاتے اور چار ركعت نماز پڑھتے ،جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر سے پہلے چار ركعت پڑھتے اور دو ركعتیں ظہر كے بعد پڑھتے ، چار ركعت عصر سے پہلے پڑھتے، اور ہر دو ركعتوں میں مقرب فرشتوں، انبیاء اور ان كے مسلمان پیرو كاروں پر سلام كہہ كر فاصلہ كرتے (نماز كے آخرمیں سلام پھیرتے)۔
صہیبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے توسرگوشی کرتےفرمایا: كیا تم یہ بات سمجھے ہو؟ مجھے ایك نبی یاد آئے، جنہیں اپنی قوم میں سے كچھ لشكردیئے گئے اور كہا: ان لوگوں كے لئے كون كافی ہوگا یا كہا ان لوگوں سے كون قتال كرے گا؟ یا اسی سے ملتا جلتا جملہ كہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس كی طرف وحی كی كہ اپنی قوم كے لئے تین چیزوں میں سے ایك اختیار كرو، یہ كہ میں ان پر دشمن مسلط كردوں ،یا بھوك یا موت مسلط كر دوں، انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ كیا تو انہوں نے كہا كہ ہم معاملہ آپ کے سپردکرتے ہیں، آپ اللہ كے نبی ہیں۔ وہ نماز پڑھتے كھڑے ہوگئے ، اور جب وہ پریشان ہوتے تھے تو نماز پڑھتے تھے۔ اس نبی نے كہا: اے اللہ دشمن اور بھوك تو مسلط نہ كر، لیكن موت مسلط كر دے، اللہ تعالیٰ نے ان پر تین دن موت مسلط كر دی۔ ان میں سے ستر ہزار آدمی مر گئے۔میری سرگوشی جو تم دیكھ رہے ہو تو میں یہ كہتا ہوں: اے اللہ تیری مدد سے ہی ہم قتال كرتے ہیں اور تیری مدد كے ساتھ ہی ہم حملہ كرتے ہیں ، اور گناہ سے بچنے كی طاقت اور نیكی كرنے کی قوت تیری توفیق كے بغیر نہیں
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ركوع یا سجدے كی حالت میں ہوتے تو یہ کلمات كہتے : اے اللہ تو پاك ہے ، اپنی تعریف كے ساتھ، میں تجھ سے بخشش طلب كرتا ہوں، تیری طرف رجوع كرتا ہوں
یحییٰ بن یزید ہنائی سے مروی ہے ،انہوں نے كہا كہ میں نے انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے قصر نماز كے بارے میں سوال کیا، میں كوفہ جایا كرتا تھا اور واپس لوٹنے تك دو ركعت نماز پڑھا كرتا تھا۔ انس بن مالكرضی اللہ عنہ نے كہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ (شعبہ کو شک ہے) كے فاصلے تک (یا اس سے زیادہ) سفر كرتے تو نماز قصر كیا كرتے تھے، اور ایك روایت میں ہے( دو ركعتیں پڑھا كرتے تھے)
صہیبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے توسرگوشی کرتے جسے نہ میں سمجھ سکا، اور نہ آپ ہمیں بتلاتے۔ (ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اسےسمجھتے ہو؟ ہم نے كہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: مجھے ایك نبی یاد آگئے، جنہیں ان كی قوم كے كچھ لشكر دیئے گئے،( اورایك روایت میں ہے:انہیں اپنی امت پر فخر ہوا)تو انہوں نے كہا: ان سے كون مقابلہ کریگا؟ یا ان لوگوں كے سامنے كون ٹھہر سکے گا؟ یا اس كے علاوہ كوئی بات كہی۔( اور دوسری روایت میں ہے: ان لوگوں كے سامنے ٹھر سکے سگا، اس میں شك نہیں) ان كی طرف وحی كی گئی كہ اپنی قوم كے لئے تین میں سے ایك بات اختیار كر لیں، یا تو ہم ان پر ان كے علاوہ دشمن مسلط كر دیں یا بھوك یاپھر موت مسلط كردیں؟انہوں نے اس بارے میں اپنی قوم سے مشورہ كیا تو انہوں نے كہا: آپ اللہ كے نبی ہیں، سب معاملہ آپ كے ہاتھ میں ہے، آپ ہمارے لئے( جو چاہیں) اختیار كر لیں۔ وہ نبی نماز كے لئے كھڑے ہوئے، وہ لوگ جب پریشان ہوتے تو فوراً نماز كے لئے كھڑے ہو جاتے ۔ جتنا اللہ نے چاہا اس نبی نے نماز پڑھی، پھر كہا: اے میرے رب ان كے علاوہ دشمن یا بھوك تو نہیں ،لیكن موت مسلط كر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر موت مسلط كر دی( ایك دن میں) ستر ہزار لوگ مر گئے۔میں اپنی سر گوشی میں كہتا ہوں:اے اللہ تیری توفیق كے ساتھ میں حملہ كرتا ہوں اور تیری مدد كے ساتھ میں قتال كرتا ہوں
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ام القرآن( فاتحہ) كی قرأٔت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند كرتے اور كہتےآمین( اے اللہ قبول فرما)
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنڈیا كے پاس سے گزرتے تو گوشت کی بوٹی اٹھا کر اس میں سے کھا لیتےپھر نماز پڑھتے اور نہ وضو كرتے نہ پانی كو چھوتے، اور ایك روایت میں ہے نہ وضو كیا نہ كلی كی
معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوك میں جب سورج كے زوال سے پہلے كوچ كرتے تو ظہر كو مؤ خر كر كے عصر كے ساتھ جمع كر لیتے، اور دونوں نمازیں اكھٹی ادا كرتے۔ اور جب سورج كے زوال كے بعد كوچ كرتے تو عصر كو ظہر كے ساتھ جمع كر كے جلدی ادا كرتے، پھر سفر كرتے۔ اور جب مغرب سے پہلے كوچ كرتے تو مغرب كومؤخر كر كے عشاء كے ساتھ ادا كرتے اور جب مغرب کے بعد سفر شروع کرتے تو عشاء کو مقدم کرکے مغرب کے ساتھ پڑھتے ۔
عون بن ابی جحیفہ اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایك سفر میں تھے لوگ اس طرح سوئےكہ سورج طلوع ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مر چكے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری روحیں واپس لوٹا دیں تو جو شخص نماز سے سویا رہے، جب جاگ جائے تو نماز ادا كرے اور جو شخص نماز بھول جائے تو جب یاد آئے تو نماز ادا كر لے۔
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے زمانے میں مو ذن مغرب كی اذان دیا كرتا ،تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم كے چنیدہ صحابہ ستونوں كی طرف جلدی جانے کی کوشش كرتے، مغرب سے پہلے دو ركعتیں ادا كرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نكلتے تو صحابہ نماز پڑھ رہے ہوتے( كوئی اجنبی آتا تو دو رکعت پڑھنے والوں کی کثرت کی وجہ سے وہ سمجھتا كہ نماز ہو چكی ہے) (اذان اور اقامت كے درمیان تھوڑا وقفہ ہوتاتھا)۔
عبداللہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہتے ہیں كہ: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ركوع یا سجدے كی حالت میں ہوتے تو كہتے : اے اللہ تو پاك ہے، اپنی تعریف كے ساتھ میں تجھ سے بخشش طلب كرتا ہوں، اور تیری طرف رجوع كرتاہوں
ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ وہ عصر كے بعد دو ركعت پڑھا كرتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا: تو انہوں نے كہا: میں یہ دوركعت نہ پڑھتا لیكن میں نے مسروق كو دیكھا ہے كہ وہ یہ دو ركعت پڑھا كرتے تھے۔ وہ ثقہ ہیں لیكن میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال كیا تو انہوں نے كہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دو ركعت اور عصر كے بعد دو ركعت نہیں چھوڑا كرتے تھے۔
عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابی سے بیان كرتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حكم دیتے كہ ہم اپنے محلوں میں مسجدیں بنائیں، انہیں اچھی طرح بنائیں اور پاك صاف ركھیں
انس بن مالك اشعریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات كو پسند كرتے تھے كہ مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے قریب رہیں تاكہ وہ آپ كی حفاظت كر سكیں یا آپ سے سیکھ سکیں۔( )
عمران بن حصینرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں رات کا زیادہ تر حصہ بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرتے رہے اور صرف نماز کی عظمت کی وجہ سے اٹھے۔