عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے: اللہ كے كچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بندوں كو فائدہ دینے كے لئے نعمتوں سے نوازتا ہے۔ جو وہ خرچ كرتے ہیں ان كے لئے برقرار ركھتا ہے ،جب وہ روك لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے چھین لیتا ہے اور دوسروں كو عطا كر دیتاہے۔( )
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ كے كچھ بندے ایسے ہیں جو لوگوں کو نشانوں سے پہچانتے ہیں۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بدگوئی اور فحش گوئی كو نا پسند كرتا ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تك امین کو خائن نہ سمجھا جائے اور خائن کو امین نہ سمجھا جانے لگے،اورفحش گوئی،بدگوئی، قطع رحمی اور برے پڑوسیوں كی اكثریت نہ ہو جائے۔ مومن كی مثال سونے كے ٹكڑے كی طر ح ہےكہ اس كے مالك نے اس میں پھونك ماری نہ تو یہ تبدیل ہو ااورنہ كم ہوا۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی جان ہے! مومن كی مثال كھجور كے درخت كی طرح ہے جو صاف خوراك حاصل كرتا ہے اور پاكیزہ پھل دیتا ہے۔ اگر زمین پر گر بھی جائے تو خراب نہیں ہوتا نہ ہی ٹوٹتا ہے۔( )
ا بی بن كعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن ِ آدم كی خوراك كو دنیا كے لئے مثال بنا دیا گیا ہے۔ اس لئے وہ دیكھے كہ ابن آدم سے كیاخارج ہو رہا ہے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی مصالحے دار اور چٹ پٹا ہو، وہ جان لے گا كہ كس طرف جارہا ہے۔( )
فاطمہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت كے بدترین لوگ وہ ہیں جنہیں نعمتیں دی گئیں ، وہ لوگ جو رنگا رنگ كپڑے اور قسم قسم کے كھانے طلب كرتے ہیں اور باچھیں كھول كر گفتگو كرتے ہیں۔
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ خیر كی كنجیاں اور شر كے تالے ہیں اور كچھ لوگ شر كی كنجیاں اور خیر كے تالےہوتے ہیں۔ ان لوگوں كے لئے خوشخبری ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خیر كی كنجیاں بنا دیا اور ہلاكت ہے ان لوگوں كے لئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے شر كی كنجیاں بنا دیا۔( )
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ خندق كھو درہے تھے اور كہہ رہے تھے:ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی بیعت جہاد پر كی ہے، جب تك ہم باقی ہیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے اللہ بھلائی تو آخرت كی بھلائی ہے، انصار اور مہاجرین كو معاف كر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس جَو كی روٹی لائی گئی جس پر بو دار چربی لگی ہوئی تھی۔ صحابہ نے اس میں سے كھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: بھلائی تو صرف آخرت كی بھلائی ہے۔( )
ابو ذررضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :(ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا) آپ نے یہ آیت ختم كی پھر فرمایا: میں ایسا منظر دیكھ رہا ہوں جو تم نہیں دیكھ رہے اور ایسی باتیں سن رہا ہوں جو تم نہیں سن ر ہے، آسمان چرچرا رہا ہے ، اور اس كا حق ہے كہ وہ چراچرائے ، آسمان میں چار انگلیوں كی جگہ بھی نہیں جہاں فرشتے اللہ كوسجدہ كرتے ہوئے اپنی پیشانی ركھے ہوئے نہ ہوں۔ اللہ كی قسم ! اگر تمہیں معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم بہت تھوڑا ہنستے اور بہت زیادہ روتے، اور بستروں پر تم بیویوں سے لذت حاصل نہیں كرتے تم گڑگڑاتے ہوئے گھاٹیوں کی طرف نکل جاتے۔( )
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك آدمی ان كے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے نصیحت كیجئے، انہوں نے كہا: تم نے مجھ سے وہی سوال كیاہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے كیا تھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ كے تقویٰ كی نصیحت كرتا ہوں، كیوں كہ یہ ہر معاملے كی ابتداءہے، اور تم پر جہاد كرنا فرض ہے کیونکہ یہ اسلام كی رہبانیت ہے، اور اللہ كے ذكر اور قرآن كی تلاوت كو لازم كر لو كیوں کہ یہ آسمان میں تمہارے لئے باعث رحمت اور زمین میں تمہارے لئے ذکر خیر کا باعث ہے۔
براء بن عازبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اچانك آپ نے ایك مجمع دیكھا، تو آپ نے فرمایا: یہ لوگ كس لئے جمع ہوئے ہیں ؟ آپ كو بتایا گیا كہ یہ لوگ ایك كھودی جانے والی قبر كے پاس جمع ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبراہٹ میں اپنے صحابہ كے آگے آگے تیز تیز چلتے ہوئے قبر تك پہنچے اور گھٹنوں كے بل بیٹھ گئے ، میں آپ كے سامنے آگیا تاكہ میں دیكھوں كہ آپ كیا كرتےہیں۔ آپ رونے لگے، حتی كہ آپ كے آنسوؤں سے مٹی تر ہو گئی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے بھائیو! اس دن كے لئے تیاری كرو۔( )
) سہل بن سعدرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچو،جس کی مثال اس طرح ہے کہ كچھ لوگوں نے ایك وادی میں پڑاؤ ڈالااورچھوٹی چھوٹی لكڑیاں اكھٹی كیں اور روٹیاں پكالیں۔ اسی طرح جب گناہ كرنے والا چھوٹے چھوٹے گناہ كرتا ہے تو وہ گناہ اسے ہلاك كر دیتے ہیں۔( )
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پسند كرتا ہے؟ لوگوں نے كہا: اے اللہ كے رسول ہم میں سے كوئی بھی اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث كا مال پسند نہیں كرتا۔ آپ نے فرمایا: جان لو كہ تم میں سے كوئی بھی شخص ایسا نہیں جسے اپنے مال سے اپنے وارث کا مال زیادہ پسند نہ ہو۔ تمہارا مال وہ ہے جو تم نے آگے بھیج دیا، اور تمہارے وارث كا مال وہ ہے جوتم نے تركہ چھوڑا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین عادتیں ہلاك كرنے والی ہیں اورتین عادتیں نجات دلانے والی ہیں! انتہائی بخل، خواہش پرستی، اور خود پسندی تین عادتیں ہلاک کرنے والی یہ ہیں۔ اور تین عادتین نجات دلانے والی یہ ہیں: ظاہر اور پوشیدہ میں اللہ كی خشیت، محتاجی اور غنی میں میانہ روی، غصے اور خوشی میں انصاف کرنا۔
خولہ بنت قیس بن قہد انصاریہ سے مروی ہے كہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك دن ہمارے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ كے سامنے ہانڈی پیش كی،اس میں روٹی یا کھچڑی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ كھانے كے لئےہانڈی میں ڈالاتو آپ كی انگلیاں جل گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كہا: اُف( تکلیف كے وقت كلمہ) ۔پھر فرمایا: ابن آدم كو ٹھنڈك پہنچے تو اُف كہتا ہے اور اگراسےتپش پہنچے توبھی اُف كہتا ہے
ابو عبید حضر می سے مروی ہے كہ ابو مالك اشعریرضی اللہ عنہ كی وفات كا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے كہا: اے اشعریوں كی جماعت تم میں موجودلوگ، غیر موجود لوگوں تك یہ بات پہنچا دیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرما رہے تھے: دنیا كی مٹھا س آخرت كی كڑواہٹ ہے اور دنیا كی كڑواہٹ آخرت كی مٹھاس ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك صحابی نے كہا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم، میری طرف رخ كرو، میں تمہاری طرف چل كر آؤں گا، میری طرف چل كر آؤ میں تیری طرف دوڑ كر آؤں گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك صحابی نے كہا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم، میری طرف رخ كرو، میں تمہاری طرف چل كر آؤں گا، میری طرف چل كر آؤ میں تیری طرف دوڑ كر آؤں گا۔
جندبرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاكہ: ایك آدمی نے كہا: اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ فلاں كو معاف نہیں كرے گا۔ اللہ عزوجل نےفرمایا: یہ كون ہوتا ہے جو جو مجھ پر قسم اٹھاتا ہے كہ میں فلاں كو نہیں بخشوں گا؟ میں نے فلاں كو بخش دیا اور تیرے عمل ضائع كر دئے۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل نے مجھ سے كہا: اگر آپ مجھےاس وقت دیكھتے جب میں سمندركی كالی مٹی لے كر فرعون كے منہ میں اس ڈر سے بھر رہا تھا كہ كہیں اسے اللہ كی رحمت آغوش میں نہ لے لے۔
ابو امامہ بن سہل بن حنیف اپنے والد سے مرفوعا بیان كرتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كمزور مسلمانوں كے پاس آتے ،انہیں دیكھتے، ان كے مریضوں كی عیادت كرتے اور ان كے جنازوں میں شریك ہوتے۔( )
ثوبانرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت كے ایسے لوگوں كو جانتا ہوں جو قیامت كے دن تہامہ كےپہاڑوں كے برابر نیكیاں لے كر آئیں گے، جو چمك رہی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں ریت كے بكھرے ہوئے ذرات كی طرح كر دے گا۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے رسول ہمیں ان كے بارے میں بتایئے، اور ان كی وضاحت كیجئے؟ كہیں ہم لاعلمی میں ان جیسے نہ ہو جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے بھائی ہیں ، اور تم جیسے ہیں رات كو وہ بھی وہی عبادت كرتے ہیں جو تم كرتے ہو لیكن یہ ایسے لوگ ہیں كہ جب علیحدہ ہوتے ہیں تو اللہ كی حرمات كا ارتكاب كرتے ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ تم اپنے سے پہلے لوگوں (یہودونصاریٰ) كی بالشت برابر بالشت ، ہاتھ برابر ہاتھ اوربازو برابر بازو پیروی كرو گے(یعنی مکمل پیروی کرو گے)۔ حتی كہ اگر ان میں سے كوئی شخص سانڈے (گوہ) كے بل میں گھسے گا تو تم بھی اس میں گھسو گے اور اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ بدکاری کی ہوگی تو تم بھی کرو گے۔
علقمہ بن وائل كندی اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ: ایك عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے زمانے میں نماز كے ارادے سے نكلی ، توراستے میں ایك آدمی اسے ملا اور اس نے اپنا کپڑا اس پر ڈالا اور اپنی حاجت پوری کی۔ وہ چیخنے لگی تو وہ چلا گیا۔ ایك آدمی اس كے پاس سے گزرا تو اس نے كہا: اس شخص نے میرے ساتھ بد کاری كی ہے۔ پھر وہ مہاجرین كی ایك جماعت كے پاس سے گزری تو كہنے لگی: اس آدمی نے میرے ساتھ بد حركت كی ہے۔ لوگ اس كے پیچھے دوڑے اور اس آدمی كو پكڑ لیا۔ جس كے بارے میں عورت كا گمان تھا كہ اس نے عورت سے زنا كیا ہے۔ وہ عورت كے پاس آئے تو عورت كہنے لگی: ہاں یہی وہ مرد ہے ۔ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس لائے، جب آپ نے اس شخص کو رجم كرنے كا حكم دیا تو اس عورت كا جس سے اس نے زنا كیا تھا تو اس عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والا آدمی کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے ساتھ زیادتی مجھ سے ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے فرمایا کہ: تم جاؤ، اللہ نے تمہیں بخش دیا (بدکاری کے جرم میں پکڑے جانے والے) آدمی سے بھی آپ نے اچھی بات کہی۔ اور (بدکاری) کرنے والے آدمی کے بارے میں حکم دیا کہ: اس کو رجم کردو اور فرمایا کہ: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ بھی ایسی توبہ کرتے تو قبول کی جاتی۔( )
سراقہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ: میں جعرانہ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا مجھےسمجھ نہیں آیا كہ میں آپ سے كیا پوچھوں ؟ میں نے كہا:اےاللہ كے رسول میں اپنا حوض بھر كر اپنی سواری كا انتظار كرتا ہوں تاکہ حوض پر آكر پانی پئے، كوئی دوسرا جانور آكر پانی پی لیتا ہے ، كیا اس میں كوئی اجر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے ہرتر جگہ (ذی روح جو اس میں سے پانی پئے)میں اجر ہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ اگر تم خطائیں كرتے رہو حتی كہ تمہاری خطائیں آسمان تك پہنچ جائیں پھر تم توبہ كرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا
جابررضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: اگر ابن آدم اپنے رزق سے اس طرح بھاگے جس طرح موت سے بھاگتا ہے تب بھی اس كارزق اس تك پالے گا جیسے اسے موت پالیتی ہے۔( )