ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ :جو شخص (رات کے آخری حصے میں دشمن کے حملے سے) ڈرا اور رات کے ابتدائی حصے میں چل پڑا تو وہ منزل تك پہنچ جائے گا، خبردار اللہ كا سامان مہنگا ہے۔ خبردار اللہ كا سامان جنت ہے۔( )
ا بی بن كعبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (رات کے آخری حصے میں دشمن کے حملے سے) ڈرا اور رات کے ابتدائی حصے میں چل پڑا تو وہ منزل تك پہنچ جائے گا خبردار اللہ كا سامان مہنگا ہے۔ خبردار اللہ كا سامان جنت ہے۔کانپنے والی (یعنی قیامت) آپہنچی ہے اور اس کے پیچھے آنے والی (دسرا صور جس سے مُردے قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے) آرہی ہے۔ موت تمام تر سامان كے ساتھ آگئی۔
هُبَيْب اپنے چچا سے بیان كرتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك صحابی کو یہ بات پہنچی کہ فلاں صحابی یہ حدیث بیان کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دنیا میں اپنے مسلمان بھائی كی پردہ پوشی كی اللہ تعالیٰ قیامت كے دن اس كی پردہ پوشی كرے گا، وہ مصر میں ان كے پاس گئے اور اس حدیث كے متعلق پوچھا تو انہوں نے كہا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی كی دنیا میں پردہ پوشی كی اللہ تعالیٰ قیامت كے دن اس كی پردہ پوشی كرے گا انہوں نے کہا کہ: میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے۔( )
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: جس شخص كا مقصد آخرت كی بہتری ہو اللہ تعالیٰ اس كے دل میں غنا ركھ دیتا ہے، اس كےبكھرے ہوئے كام سمیٹ دیتا ہے ، اور دنیا ذلیل ہو كر اس كے پاس آتی ہے۔ اور جس شخص كا مقصد صرف دنیا كمانا ہو اللہ تعالیٰ اس كی آنكھوں كے درمیان محتاجی ركھ دیتا ہے، اس كے كام بكھیر دیتا ہے ، اور دنیا سے اسے اتنی ہی ملتی ہے جتنا اس كا مقدر ہے۔( )
زید بن ثابترضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: جس شخص كا مقصد دنیاحاصل کرنا ہو اللہ تعالیٰ اس كے كام بكھیر دیتا ہے ، اور اس كی آنكھوں كےدرمیان محتاجی ركھ دیتا ہے اور دنیا سے اسے اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس كا مقدر ہو۔ اور جس شخص كا مقصد آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس كے كام جمع كر دیتا ہے، اس كے دل میں غنا ركھ دیتاہے اور دنیا ذلیل ہو كر اس كے پاس آتی ہے۔( )
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے اللہ تعالیٰ نے جس عمل پر ثواب دینے كا وعدہ كیا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا كرے گا اورجس عمل پرسزا دینے كا وعدہ كیا ہے اس میں اللہ كو اختیار ہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): مجھ سے كون شخص یہ كلمات سیكھ كر ان پر عمل كرے گا،یا اس شخص كو سكھائے گا جو ان پر عمل كرے ؟ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے رسول میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پكڑا اور پانچ چیزیں گنوائیں ، فرمایا: محارم(حرام كاموں)سے بچوتم انتہائی عبادت گزار بن جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جو مقدركر دیا اس پر راضی ہو جاؤتم سب سے زیادہ غنی ہو جاؤ گے۔ اپنے پڑوسی سے نیكی كرو تم مومن بن جاؤ گے۔ جو اپنے لئے پسند كرتے ہو لوگوں كے لئے بھی وہی پسند كرو مسلمان بن جاؤ گے۔ زیادہ مت ہنسو كیوں كہ زیادہ ہنسنا دلوں كو مردہ كر دیتا ہے۔( )
رفاعہ بن عمران جہنی سے مرفوعا مروی ہے كہ: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) كی جان ہے، جو بندہ ایمان لاتاہے ، پھر سیدھا رہتا ہے ، اسے جنت میں چلایا جائے گا، اور مجھے امید ہے كہ تم اس وقت تك جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تك تم اور تمہاری نیك اولاد جنت میں جگہ نہ بنالیں اورمجھ سے میرے رب نے وعدہ كیا ہے كہ میری امت میں سے ستر ہزار بندے بغیر حساب كے جنت میں داخل کرےگا ۔
حنظلہ اسیدیرضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے تھے، سے مروی ہے كہتے ہیں كہ مجھے ابو بكررضی اللہ عنہ ملے اور كہنے لگے: حنظلہ كیسے ہو؟ میں نے كہا: حنظلہ منافق ہو گیا ہے۔ ابو بكرنے كہا: سبحان اللہ تم كیا كہہ رہے ہو؟ میں نے كہا: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم كی یاد دہانی كرواتے رہتے ہیں، جیسا كہ ہم انہیں آنكھوں سے دیكھ رہے ہوں، جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس سےچلے جاتےہیں تو ہم بیوی بچوں اوركام میں مصروف ہوجاتےہیں اوربہت كچھ بھول جاتے ہیں، ابو بكررضی اللہ عنہ نےکہا اللہ كی قسم ہماری بھی یہی صورتحال ہے۔ پھر میں اور ابو بكررضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے ۔ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حنظلہ منافق ہو گیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ كس طرح (یہ كیا معاملہ ہے؟) میں نے كہا: ہم آپ كے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت اور جہنم كی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا كہ ہم انہیں آنكھوں سے دیكھ رہے ہیں ، لیكن جب ہم آپ كے پاس سے اٹھ كر باہر جاتے ہیں تو بیوی بچوں اور كام كاج میں مصروف ہو جاتے ہیں اور بہت سی چیزیں بھول جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اسی حالت میں جس میں میرے پاس ہوتے ہو اور ذكرکی کیفیت میں رہوتو فرشتے تمہارے بستروں اور راستوں پر تم سے مصافحہ کریں۔ لیكن اے حنظلہ لمحہ بہ لمحہ كیفیت بدلتی رہتی ہے۔ تین مرتبہ یہی فرمایا۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك مردہ بكری كے پاس سے گزرے جسے اس كے مالكوں نےپھینك دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا اللہ كے نزدیك اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنی یہ بكری اپنے مالكوں كے پاس حقیر ہے۔( )
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ كرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ختم كردے اور ایسی قوم لے آئے جو گناہ كر كے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے۔( )
معاذ بن عبداللہ بن خبیب اپنے والد سے وہ ان كے چچا سے بیان كرتے ہیں كہ انہوں نے كہا: ہم ایك مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ كے سر پر پانی كا نشان تھا۔ ہم میں سے كسی نے كہا: آج ہم آپ كو تروتازہ دیكھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں ، الحمدللہ ، پھر لوگ دولت كے تذكرے میں مشغول ہو گئے ۔ آپ نے فرمایا: جو شخص متقی ہے اس كے لئے دولت میں كوئی حرج نہیں، اور متقی شخص كے لئے صحت دولت سے بہتر ہے اور طیب النفس ہونا بھی نعمتوں میں سے ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر كے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے كہا:ان عذاب شدہ لوگوں کی بستی، كے پاس سے روتے ہوئے گزرو، اگر تم رو نہیں سكتے تو ان كے پاس مت جاؤ، كہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آجائےجو ان پر آیا تھا(آپ سواری پر بیٹھے تھے، آپ نے اپنی چادر سے منہ ڈھانپ لیا)۔
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ كے پاس سے گزرے، ایك بچہ راستے كے درمیان بیٹھا تھا۔ جب اس كی ماں نے جانور دیكھے تو ڈر گئی كہ كہیں اسے روند نہ ڈالیں وہ بے ساختہ دوڑی، اور كہنے لگی، میرا بچہ، میرا بچہ اور اپنا بچہ اٹھا لیا۔ لوگوں نے كہا: اے اللہ كے نبی یہ عورت تو اپنے بچے كو آگ میں نہیں ڈال سكتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اللہ كی قسم اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندے كو آگ میں نہیں ڈالے گا۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ میں نے اس آیت كے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال كیا: وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ (المؤمنون: ٦٠) وہ لوگ جو دیتے ہیں اور ان كے دل ڈر رہے ہوتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: كیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور فضول خرچی كرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں صدیق كی بیٹی! یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ ركھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں ، صدقہ كرتے ہیں ، اور ڈرتے ہیں كہ شاید قبول نہ كیا جائے اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ (المؤمنون: ٦١) یہی لوگ نیك كاموں میں جلدی كرتے ہیں۔( )
ابو عنبہ خولانی سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس دین میں ایسی شخصیات کو پیدا کرتا رہے گا اپنی اطاعت میں استعمال كرے گا۔( )
حذیفہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: مومن كے لئے لائق نہیں كہ وہ اپنے آپ كو ذلیل كرے۔ صحابہ نے كہا: وہ اپنے آپ كو ذلیل كس طرح كرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسی آزمائش كے درپے ہو جاتا ہے جس كی طاقت نہیں ركھتا۔( )
ابو قتادہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو ! اللہ كے مال سے، اپنے آپ كو اللہ سے خرید لو، اگر تم میں سے كوئی بخیلی كرے، وہ لوگوں كو اپنا مال دینے سے، تو پہلے اپنے آپ سے شروع كرے، اللہ كے دیئے ہوئے مال میں سے خود پر صدقہ كرے، كھائے اور پہنے۔( )
ابو بردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك صحابی سے بیان كرتے ہیں اور ایك روایت میں ہے كہ میں كوفہ كی ایك مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك بوڑھے صحابی كے ساتھ بیٹھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث بیان كی كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو ! اللہ سے توبہ كرو ، اور اس سے معافی مانگو كیوں كہ میں اللہ تعالیٰ سے ہر دن ایك سو مرتبہ توبہ اور استغفار كرتا ہوں۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے كہا: اے عائشہ! چھوٹے گناہوں سے بچو كیوں كہ اللہ كی طرف سے انہیں تلاش كرنے(لکھنے) والامقرر ہوتا ہے
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار باہر كی طرف نكلے۔آپ كے صحابہ آپ كے آگے آگے چل رہے تھے۔ معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے نبی كیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں كہ میں آپ كی خوشی سے آپ كے پاس آؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیك ہے۔ معاذرضی اللہ عنہ آپ كے قریب ہوئے اور دونوں اكھٹے چلنے لگے۔ معاذرضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں اللہ سے دعا كرتا ہوں كہ اللہ تعالیٰ میری موت کا دن آپ کے یوم وفات سے پہلے کردے۔ اگر كوئی معاملہ (آپ کی رحلت کی طرف اشارہ ہے) ہو اور ان شاء اللہ ہم كوئی معاملہ نہیں دیكھیں گے۔ تو آپ كے بعد ہم كون سے عمل كریں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد بہترین عمل ہے، اور جو چیز لوگوں کے پاس ہے اس سے بھی زیادہ بہترین ہے۔ (معاذرضی اللہ عنہ نے پوچھا) روزہ اور صدقہ؟ آپ نے فرمایا: روزہ اور صدقہ بہترین عمل ہیں۔ معاذرضی اللہ عنہ نے نیك كام كا ذكر كیا جو ابن آدم كرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں كے پاس اس سے بھی بہترین عمل ہے۔ معاذرضی اللہ عنہ نے كہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان وہ کون سا عمل ہے جو لوگوں كے پاس بہترین صورت میں موجود ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ كی طرف اشارہ كیا فرمایا: بھلائی كے علاوہ ہر بات سے خاموشی۔ معاذرضی اللہ عنہ نے كہا: ہماری زبانیں جو الفاظ ادا كرتی ہیں كیا ان كی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذرضی اللہ عنہ كی ران پر ہاتھ مارا پھر فرمایا: اے معاذ تمہاری ماں تمہیں گم پائے! لوگوں كو جہنم میں منہ كے بل ان كی زبانوں كی كاٹ ہی توگرائے گی۔ جو شخص اللہ اور یوم آخر ت پر یقین ركھتا ہے وہ اچھی بات كہے یا بری بات كہنے سے خاموش رہے۔ اچھی بات كہو ،غنیمت حاصل كرو گے۔ بری بات سے خاموش رہو سلامت رہو گے۔( )
عباد بن تمیم اپنے چچا(عبداللہ بن زید بن عاصم )سے مرفوعا بیان كرتے ہیں : اے عرب كے لوگو ! اے عرب كے لوگو! (تین مرتبہ كہا) مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف ریا اور پوشیدہ شہوت( خواہش) كا ہے۔( )