اَلْعَیْ ثُ وَالْعِثِیُّ: (سخت فساد پیدا کرنا) بھی جَذَبَ اور جَبَذَ کی طرح تقریباً ہم معنی ہی ہیں۔ لیکن عَبْثٌ کا لفظ زیادہ تر فساد حسی کے لیے بولا جاتا ہے اور اَلْعِثِیُّ کا حکمی یعنی ذہنی اور فکری فساد کے لیے آتا ہے کہا جاتا ہے عَثِیَ یَعْثٰی عِثِیًّا۔ چنانچہ اسی سے قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ ) (۲:۶۰) اور ملک میں فساد اور انتشار پیدا نہ کرو۔ اور عَثَا یَعْثُوْا عُثُوًّا: (باب نَصَرَ سے) بھی آتا ہے اور اَلْاَعْثٰی: سیاہی مائل اور سست۔ نیز احمق آدمی کو بھی اَعْثٰی کہا جاتا ہے۔