ھَیْتَ اور ھَلُمَّ کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں اور آیت: (وَ قَالَتۡ ہَیۡتَ لَکَ) (۱۲۔۲۳) کہنے لگی یوسف علیہ السلام چلے آؤ۔میں ایک قرأت ھِیْٔتُ لَکَ بھی ہے جس کے معنی تَھَیَّاتُ لَکَ کے ہیں یعنی میں تیرے لئے تیار ہوں اور ھَیَّتَ بِہ وَتَھَیَّتَ کے معنی ھَیْتَ لَکَ کہنے کے ہیں۔ ھَاتِ: (اسم فعل) لاؤ۔تثنیہ اور جمع کے لئے ھَاتِیَا وَھَاتُوْا آتا ہے۔قرآن پاک میں ہے (قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ ) (۲۔۱۱۱) (اے پیغمبر علیہ السالم) ان سے تم کہدو کہ دلیل پیش کرو۔فراء کا کہنا ہے کہ کلام عرب میں ھَاتِیْتُ مستعمل نہیں ہے یہ صرف اہل حیرہ کی نعت ہے اور اس سے لَاھَاتِ (فعل نہی) استعمال نہیں ہوتا۔خلیل نے کہا ہے کہ اَلْمُھَاتَاہُ وَالْھِتَائُ (مفاعلہ) ھات صیغہ امر ہے۔ھَیْھَاتُ یہ کلمہ کسی چیز کے بعیداز قیاس ہونے کو بتانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتِ اور ھَیْھَاتًا تین لغت ہیں اور اسی سے قرآن پاک میں ہے۔ (ہَیۡہَاتَ ہَیۡہَاتَ لِمَا تُوۡعَدُوۡنَ ) (۲۳۔۳۶) جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے بہت بعید اور بہت بعید ہے۔زجاج نے ھَیْھَاتَ کے معنی اَلْبُعْد کیئے ہیں دوسرے اہل لغت نے کہا ہے کہ زجاج کو (لِمَا) کے نام کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس کی اصل بَعُدَ الْاَمْرُ وَالْوَعْدُ لِمَا تُوْعَدُوْنَ ہے اور اس میں ایک لغت ھَیْھَا بھی ہے۔اَلْفَسْویٰ نے کہا ہے کہ ھَیْھَاتِ کسرہ تا کے ساتھ ھَیْھَاتَ (بفتحہ تاء) کی جمع ہے۔