Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلدَّعَۃَ کے معنی آرام اور فراخی عیش کے ہیں اور (وَدَعْتُ کَذَا أَدَعُہ وَدْعًا (ب) کے معنی ہیں:تَرَکْتُہٗ وَادِعَا یعنی پرسکون طریقہ سے کسی چیز کو چھوڑدینا بعض کا قول ہے کہ اس کا فعل ماضی اور اسم فاعل استعمال نہیں ہوتا صرف یَدَعُ اور دَعْ یعنی فعل مضارع اور امر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ (1) اور آیت (مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ) (۹۳۔۳) میں ایک قرأت تخفیف دال کے ساتھ بھی منقول ہے۔ (2) شاعر نے کہا ہے (3) (لَیْتَ شِعْرِیْ عَنْ خَلِیْلِی مَاالَّذِیْ غَالَہ فِیْ الْحُبِّ حتی وَدَعَہ) کاش!مجھے میرے دوست کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ اسے محبت سے کس چیز نے روک دیا کہ وہ اسے چھوڑ بیٹھا ہے۔اَلتَّودُّوُ کے معنی تن آسان ہونے کے ہیں اور (فُلَانٌ مُتَّدِعٌ وَمُتَوَدعٌ وَفِیْ دَعَۃٍ) کے معنی ہیں کہ فلاں آسودہ حال اور عیش و آرام میں ہے۔اصل میں یہ معنی ودع بمعنی تَرَکَ سے ماخوذ ہیں۔یعنی اس نے مشقت اور تکلیف کے سبب طلب معاش کے لئے جدوجہد کرنا چھوڑدیا ہے۔ اَلتَّوْدِیْعُ:یہ بھی دَعَۃٌ (سکون) سے مشتق ہے اور تو دیع کے اصل معنی مسافر کو الوداع کہنے کے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ اسے سفر کی تکالیف سے محفوظ رکھے اور اسے آرام کی حالت میں پہنچادے پھر یہ لفظ مسافر کو رخصت کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔جیسا کہ لفظ تسلیم، اصل میں اس کے معنی سلامتی کی دعا کے ہیں کہا جاتا ہے وَدَّعْتُ فُلَانًا (میں نے فلاں کو چھوڑدیا) چنانچہ آیت:۔ (مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ) (۹۳۔۳) (اے محمدؐ!) تمہارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا۔میں وَدَّعْتُ فُلَانًا (میں نے فلاں کو چھوڑدیا) کی طرح صرف چھوڑدینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور کنایہ کے طور پر میت کو مُوْدَعٌ کہا جاتا ہے اور اسی سے اِسْتَوْدَعْتُکَ غَیْرَ مُوْدَعٌ کا محاورہ ہے جس کے معنی درازی عمر کی دعا کے ہیں اور اسی سے شاعر کا قول ہے۔ (4) (۴۴۳) (وَدَّعْتُ نَفْسِیْ سَاعَۃَ التَّوْدِیْعِ) کہ الوداع کے وقت میری جان ہوا ہوگئی۔

Words
Words Surah_No Verse_No
وَدَعْ سورة الأحزاب(33) 48
وَدَّعَكَ سورة الضحى(93) 3
وَمُسْـتَوْدَعَهَا سورة هود(11) 6
وَّمُسْـتَوْدَعٌ سورة الأنعام(6) 98