اَلْعَتَبُ: ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لیے سازگار نہ ہو۔ نیز دروازہ کی چوکھٹ اور سیڑھی کو بھی عَتَبَۃٌ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی بیوی سے جو فرمایا تھا۔ (قُوِْیْ لِزَوْجِکِ غَیِّرْ عَتْبَۃَ بَابِک) اپنے خاوند سے کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کرلے تو یہاں عَتْبَۃٌ کے معنی بطور کنایہ عورت کے ہیں اور استعارہ کے طور پر عَتَبٌ وَمَعْتَبَۃٌ کے معنی اس ناراضگی یا سختی کے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں دوسرے کے متعلق پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی اصل میں اَلْعَتَبُ ہی سے ہے اسی کے مطابق خَشُنْتُ بِصَدْرِ فُلَانٍ وَوَجَدْتُ فِیْ صَدْرِہٖ غِلْظَۃً کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اسی سے کہا گیا ہے۔ حُمِلَ فُلَانٌ عَلٰی عَتَبَۃٍ صَعْبَۃٍ فلاں کو ناگوار حالت پر مجبور کیا گیا۔ جیساکہ شاعر ہے کہا ہے۔(1) (خفیف) (۳۰۰) وَحَمَلْنَاھُمْ عَلٰی صَعْبَۃٍ زَوْزَاء یَعْلُوْنَھَا بِغَیْر وَطَائِ ہم نے انہیں نہایت ٹیڑھی حالت پر سوار کیا چنانچہ وہ بغیر نمدہ کے اس پر سوار ہیں۔ اَعْتَبْتُ فُلَانًا (۱) ناراضگی ظاہر کرنا (۲) ناراضگی پر ابھارنا (۳) میں نے اس کی ناراضگی دور کردی یعنی راضی کرلیا جیساکہ اَشْکَیْتُہٗ کے معنی ہیں: میں نے اس کی شکایت دور کردی (یعنی سلب ماخذ کے معنی پائے جاتے ہیں) قرآن میں ہے: (فَمَا ہُمۡ مِّنَ الۡمُعۡتَبِیۡنَ ) (۴۱:۲۴) ان سے عتاب دور نہیں کیا جائے گا۔ اَلْاِسْتِعْتَابُ: (رضامندی چاہنا) کسی سے یہ خواہش کرنا کہ وہ اپنے عتاب کو دور کردے تاکہ راضی ہوجائے کہا جاتا ہے: اِسْتَعْتَبَ فُلَانٌ کسی سے عتاب کو دور کرنے کی خواہش کی۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ ) (۱۶:۸۴) اور نہ ان کی معذرت قبول کرکے ان سے عتاب کو دور کیا جائے گا۔ لَکَ الْحُتْبٰی: تیرے لیے رضامندی ہے۔ بَیْنَھُمْ اُعْتُوْبَۃٌ: وہ باہم کشیدہ ہیں۔ عَتَبَ عَتْبًا: آدمی کا ایک پاؤں پر کود کر چلنا جیسے اوپر چڑھنے والا سیڑھیوں پر قدم رکھتا چلا جاتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْمُعْتَـبِيْنَ | سورة حم السجدہ(41) | 24 |
يُسْتَعْتَبُوْنَ | سورة النحل(16) | 84 |
يُسْتَعْتَبُوْنَ | سورة الروم(30) | 57 |
يُسْتَعْتَبُوْنَ | سورة الجاثية(45) | 35 |
يَّسْـتَعْتِبُوْا | سورة حم السجدہ(41) | 24 |