اَلشَّرْعُ: سیدھا راستہ جو واضح ہو، یہ اصل میں شَرَعْتُ لَہٗ طَرِیْقًا: (واضح راستہ مقرر کرنا) کا مصدر ہے اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ واضح راستہ کو شَرْعٌ وَشِریْعَۃٌ کہا جاتا ہے پھر استعارہ کے طور پر الٰہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا) (۵:۴۸) ایک دستور اور طریق۔ اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ ایک وہ راستہ جس پر اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر کررکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جس کا تعلق مصالح عباد اور شہروں کی آبادی سے ہے چنانچہ آیت: (وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا) (۴۳:۳۲) اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔ میں اسی طرف اشارہ ہے دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے مقرر فرماکر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں نسخ ہوتا رہا ہے اور جس پر کہ آیت: (ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا) (۴۵:۱۸) پھر ہم نے تمہیں دین کے کھلے راستہ پر (قائم) کردیا تو اسی (راستے) پر چلے چلو۔ دلالت کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ شِرْعَۃً وہ راستہ ہے جسے قرآن مجید نے بیان کردیا ہے۔ اور مِنْھَاج وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے اور آیت کریمہ: (شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ) (۴۲:۱۳) اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسح نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفت الٰہی اور وہ امور جن کا بیان آیت: (وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ) (۴:۱۳۶) اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے۔ میں پایا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ شَرِیْعَۃُ الْمَائِ سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ پانی کے گھاٹ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے سیرابی اور طہارت حاصل ہوجاتی ہے۔ سیرابی سے مراد معرفت الٰہی کا حصول ہے جیساکہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیر نہ ہوا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت: (اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا) (۳۳:۳۳) اے پیغمبر کے اہل بیت! خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے، میں پایا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا) (۷:۱۶۳) (یعنی) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں۔ میں شُرَّعًا، شَارعٌ کی جمع ہے۔ اور شَارِعَۃُ الطَّرِیْقِ کی جمع شَوَارعٌ آتی ہے جس کے معنیٰ کھلی سڑک کے ہیں۔ اَشْرَعْتُ الرُّمْحَ قِبَلَہٗ: میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا۔ بعض نے شَرَعْتُہٗ فَھُوَ مَشْرُوْعٌ کہا ہے اور شَرَعْتُ السَّفِیْنَۃَ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں۔ ھُمْ فِیْ ھٰذا شِرْعٌ: یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شَرْعُکَ مِنْ رَجُلٍ زَیدٌ بمعنیٰ حَسْبُکَ ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرو یا اس کے ساتھ مل کر اپنا کام شروع کرو۔ اَلشِّرَعُ: بربط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
شَرَعَ | سورة الشورى(42) | 13 |
شَرَعُوْا | سورة الشورى(42) | 21 |
شَرِيْعَةٍ | سورة الجاثية(45) | 18 |
شُرَّعًا | سورة الأعراف(7) | 163 |
شِرْعَةً | سورة المائدة(5) | 48 |