اَلْمِصْرُ: ہر محدود شہر کو (جس کے گرد فصیل ہو) مصر کہتے ہیں۔ اور مَصَّرْتُ مِصْرًا کے معنی شہر آباد کرنے کے ہیں دراصل مِصْرٌ دو چیزوں کے مابین حد کو کہتے ہیں۔ چنانچہ ہجر شہر میں مکانات کے بیع ناموں کی شروط میں یہ الفاظ خاص طور پر لکھے جاتے تھے۔ٗاِشْتَرٰی فُلَانُ الدَّارَ بِمُصُوْرھَا: فلاں نے یہ مکان اس کی حدود (اربعہ) کے ساتھ خرید کیا۔ اور کسی شاعر نے کہا ہے (1) (البسیط) (۴۰۹) وَجَاعِلُ الشَّمْسِ مِصْرًا لاخَفَائَ بِہ بَیْنَ النَّھَارِ وَبَیْنَ اللَّیلِ قَدْفَصَلَا (بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے سورج کو رات اور دن کے درمیان حد فاصل بنا رکھا ہے۔اور آیت کریمہ:۔ (ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ) (۱۲۔۹۹) مصر میں داخل ہوجائو۔ میں مصر سے مشہور شہر مصر مراد ہے۔ اور تخفیف کے طور پر اسے منصرف کردیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے کوئی ایک شہر مراد ہے۔ (2) اَلْمَاصِرُ: دو پانیوں کے درمیان حد فاصل۔ مَصَرْتُ النَّاقَۃَ کے معنی اونٹنی کو انگلیوں کے اطراف سے دوہنا کے ہیں۔ اسی سے محاورہ ہے لَھُمْ غَلَّۃٌ یَمْتَصِرُوْنَھَا۔ ان کے پاس کچھ غلہ ہے جسے وہ تھوڑا تھوڑا کرکے استعمال کرتے ہیں۔ ثوب مُمَصَّرٌ: ( گیرو سے رنگا ہوا کپڑا) گہرا رنگا ہوا کپڑا۔ نَاقَۃٌ مَصُوْرٌ کم اور بمشکل دودھ دینے والی اونٹنی۔ حسن نے کہا ہے کہ لَا بَاْسَ بِکَسْبِ التَّیَّاسِ مَالَمْ یَمْصُرْوَلَمْ یَبْسُرْ: کہ سانڈ والے کی کمائی میں کچھ مضائقہ نہیں بشرطیکہ وہ انگلیوں سے نہ نچوڑے۔ اور نہ ہی مادہ کی خواہش کے بغیرنرسانڈ اس سے جفتی کھائے۔ اَلْمَصِیْرُ: آنت ۔ ج مُصْوَانٌ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ صَار سے مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم ظرف ہے۔ اور آنت کو مَصِیْرٌ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ طعام کی قرار گاہ بنتی ہے۔