32۔ 1 یعنی رب اور اللہ (معبود) تو یہی ہے جس کے بارے میں تمہیں خود اعتراف ہے کہ ہر چیز کا خالق ومالک اور مدبر وہی ہے، پھر اس معبود کو چھوڑ کر جو تم دوسرے معبود بنائے پھرتے ہو، وہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں تمہاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی ؟ تم کہاں پھرے جاتے ہو ؟
[٤٦] یعنی توحید فی الربوبیت کے متعلق تم لوگوں کا جو عقیدہ ہے وہ عین حقیقت ہے اور درست اور سچ ہے اب اس حقیقت کے علاوہ جو کچھ بھی ہوگا وہ باطل ہی ہوسکتا ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ توحید فی الربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت بھی صرف اسی کی کی جائے اور یہی بات حق اور درست ہے اور اگر تم اللہ کے علاوہ دوسروں کی بھی عبادت کرو گے یا انہیں پکارو گے تو پھر یہ سراسر گمراہی ہی ہوگی۔- [٤٧] اس سوال میں مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گمراہ کرنے والا دوسرا شخص یا گروہ موجود ہے جس کا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں کو درست انداز فکر سے ہٹا کر غلط رخ پر ڈال دے لہذا یہ سوال کیا گیا ہے کہ تم خود اندھے بن کر غلط قسم کے رہنماؤں کے پیچھے کیوں چل پڑتے ہو خود اپنی عقل سے کیوں کام نہیں لیتے ؟ گویا گمراہ کرنے والے شخص یا اشخاص کو پردہ میں رکھا گیا ہے تاکہ ان میں اشتعال نہ پیدا ہو اور ہر ایک کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا موقع میسر آئے۔
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ثابت شدہ، سچا، یعنی تمہارے رزق، موت و حیات، تمہارے جسم کا مالک و خالق اور پوری کائنات کی تدبیر کرنے والا جب تم بھی اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہو تو جان لو کہ پھر تمہارا سچا، ثابت شدہ اور حق رب تو یہی اللہ ہے۔ اب خواہ کوئی بھی چیز ہو وہ یا تو حق ہوگی یا باطل، دونوں نہیں ہوسکتیں کہ حق بھی ہو باطل بھی، تو جب اللہ کا رب اور مالک ہونا حق ہے اور صرف اسی کا صاحب اختیار ہونا حق ہے تو پھر کسی اور کا صاحب اختیار ہونا یا اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کی قوت رکھنے والا ہونا باطل نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس کے باوجود تمہارا دل کیسے مانتا ہے کہ حق کو چھوڑ کر گمراہی اور توحید کو چھوڑ کر شرک کی راہ اختیار کرتے ہو۔ سوچو راہ حق سے کیسے ہٹائے جا رہے ہو ؟- فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ حق ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے، یہ بات کہ جو جہاں لگا ہوا ہے لگا رہنے دو ، سب ٹھیک ہیں، یا مسلمانوں میں خیر القرون کے بعد بننے والے چاروں سنی فرقے، حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی سب حق ہیں، اس آیت کے خلاف ہے۔ ان تمام مذاہب کی ہر بات ایک ہی وقت میں حق کیسے ہوسکتی ہے ؟ ان کے اختلافی مسائل میں حق مسئلہ اگر ہوا تو صرف ایک ہوگا، دوسرے خطا ہوں گے۔ مجتہد کو اگرچہ خطا کے باوجود اس کی نیک نیتی اور محنت کا ایک اجر مل جائے گا مگر اس کی خطا کو حق ہرگز نہیں کہہ سکتے، مثلاً ایک فرقے کی یہ بات کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور دوسرے کی یہ بات کہ صرف انگور یا کھجور کی بنائی ہوئی شراب حرام ہے، باقی نشہ آور چیزیں سب حلال ہیں، دونوں حق کیسے ہوسکتی ہیں ؟ ایک کی یہ بات کہ اجرت پر لا کر کسی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد ہے اور دوسرے کی یہ بات کہ اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرنے پر حد نہیں، دونوں کیسے درست ہوسکتی ہیں ؟ ایک مسلک کا یہ کہنا کہ ماں بہن سے نکاح کی حرمت کے علم کے باوجود نکاح کرکے زنا کرلے تو حد نہیں اور دوسرے کا یہ کہنا کہ یہ حرکت تو ارتداد ہے جس کی حد قتل ہے، دونوں باتیں کیسے درست ہوسکتی ہیں ؟ پھر بہت سے ائمہ کا کہنا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور اعمال ایمان کا جز ہیں اور ہمارے اور انبیاء و ملائکہ و صحابہ کے ایمان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض حضرات کا یہ کہنا کہ ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے، اعمال خواہ نماز روزہ ہی ہوں، ایمان کا جز نہیں اور چونکہ تصدیق اور اقرار ہم نے بھی کیا ہے، جبریل (علیہ السلام) اور ابوبکر (رض) نے بھی کیا ہے، سو ایمان میں ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ کسی کا کم ہو یا کسی کا زیادہ، سب کا برابر ہے۔ آپ خود ہی بتائیں اتنے تضاد کے باوجود دونوں حق کس طرح ہوگئے ؟ خلاصہ یہ کہ ہر دو متضاد چیزوں میں اگر ایک حق ہے تو یقیناً دوسری ضلال اور گمراہی ہوگی۔
آخری آیت میں فرمایا (آیت) فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ، یعنی یہی ہے وہ ذات جس کی صفات کمال کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ کا معبود برحق ہونا ثابت ہوگیا تو پھر اس حق کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف رخ پھیرنا کس قدر نامعقول بات ہے۔- اس آیت کے مسائل و فوائد میں سے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آیت میں (آیت) مَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق اور ضلال کے درمیان کوئی واسطہ نہیں جو حق نہیں ہوگا وہ ضلال و گمراہی میں داخل ہوگا، ایسا کوئی کام نہیں ہوسکتا جو نہ حق ہو نہ گمراہی اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ دو متضاد چیزیں حق ہوں، تمام اصول عقائد میں یہ قاعدہ جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے، البتہ جزئی مسائل اور جزئیات فقہیہ میں علماء کا اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک اجتہادی مسائل میں دونوں جانبوں کو حق کہا جائے گا اور جمہور اس پر متفق ہیں کہ اجہتادی مسائل میں جانب خلاف کو ضلال و گمراہی نہیں کہہ سکتے۔
فَذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ٠ ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ٠ ۚۖ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ ٣٢- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- ضَلل - وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان .- جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے - أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- انی اسم ظرف ہے۔- (1) جب ظرف زمان ہو تو بمعنی متی۔ جب ۔ جس وقت۔- (2) اگر ظرف مکان ہو تو بمعنی این۔ جہاں۔ کہاں۔ ہوتا ہے۔- (3) اگر استفہامیہ ہو تو بمعنی کیف۔ کیسے۔ کیونکر۔ ہوتا ہے۔
(٣٢) جو یہ تمام امور سرانجام دیتا ہے وہی تمہارا رب حقیقی ہے اور اسی کی عبادت حق اور ضروری ہے۔- پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد اور کس کی عبادت کی گنجائش رہ گئی، ماسوا شیطان کی پوجا کی پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان جھوٹے معبودوں کو کہاں لاتے ہو۔
آیت ٣٢ (فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّج فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ الاَّ الضَّلٰلُج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ )- یہی حق ہے جس کو تم اپنی فطرت کی نظر سے پہچان چکے ہو۔ اب اسی کو مضبوطی سے تھام لو اور پھر سے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچ جاؤ۔ یعنی تمہاری فطرت کے اندر حق کی پہچان موجود ہے۔ اس کی گواہی خود تمہاری اپنی زبانیں دے رہی ہیں۔ تم اللہ کو اپنا اور اس کائنات کا خالق ومالک مانتے ہو ‘ زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو۔ تو یہاں تک پہنچ کر پھر کیوں گمراہی میں اوندھے منہ گرجاتے ہو۔ تمہاری عقل کہاں الٹ جاتی ہے ؟
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :38 یعنی اگر یہ سارے کام اللہ کے ہیں ، جیسا کہ تم خود مانتے ہو ، تب تو تمہارا حقیقی پروردگار ، مالک ، آقا ، اور تمہاری بندگی و عبادت کا حق دار اللہ ہی ہوا ۔ دوسرے جن کا ان کاموں میں کوئی حصہ نہیں آخر ربوبیت میں کہاں سے شریک ہو گئے؟ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :39 خیال رہے کہ خطاب عام لوگوں سے ہے اور ان سے سوال یہ نہیں کیا جا رہا کہ ” تم کدھر پھرے جاتے ہو “بلکہ یہ ہے کہ ” تم کدھر پھرائے جا رہے ہو“ ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ پر پھیر رہا ہے ۔ اسی بنا پر لوگوں سے اپیل یہ کی جا رہی ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو ، اپنی گرہ کی عقل سے کام لے کر سوچتے کیوں نہیں کہ جب حقیقت یہ ہے ، تو آخر یہ تم کو کدھر چلایا جا رہا ہے ۔ یہ طرز سوال جگہ جگہ ایسے مواقع پر قرآن میں اختیار کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ گمراہ کرنے والوں کا نام لینے کے بجائے ان کو صیغہ مجہول کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے معتقدین ٹھنڈے دل سے اپنے معاملے پر غور کر سکیں ، اور کسی کو یہ کہہ کر انہیں اشتعال دلانے اور ان کا دماغی توازن بگاڑ دینے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشواؤں پر چوٹیں کی جا رہی ہیں ۔ اس میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے غافل نہ رہنا چاہیے ۔
19: قرآن کریم نے مجہول کا جو صیغہ استعمال فرمایا ہے آیت نمبر 32 اور 34 کے ترجمے میں اس کا مفہوم ’’ کوئی‘‘ کا لفظ بڑھا کر ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور بظاہر قرآن کریم نے مجہول کا صیغہ یہ اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہے کہ درحقیقت ان کی نفسانی خواہشات ہیں جو انہیں الٹی سمت لے جا رہی ہیں۔