33۔ 1 یعنی جس طرح مشرکین تمام تر اعتراف کے باوجود اپنے شرک پر قائم ہیں اور اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی کہ ایمان والے نہیں ہیں، کیونکہ یہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں تو ہدایت اور ایمان انہیں کس طرح نصیب ہوسکتا ہے ؟ یہ وہی بات ہے جسے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے (وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) 39 ۔ الزمر :71) لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہوگئی۔
[٤٨] یعنی ایسے لوگ جو حقائق کے مقابلہ پر محض ضد اور تعصب سے کام لے رہے ہوں ان کے متعلق اللہ کا یہی فیصلہ ہوا کرتا ہے کہ جو لوگ ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں وہ کبھی راہ راست پر نہیں آسکتے اور نہ ہی انہیں ایمان نصیب ہوتا ہے۔
كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ ۔۔ : یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کا رب ہونا ثابت ہوا، یا جس طرح یہ ثابت ہوا کہ حق کے بعد گمراہی کے سواکچھ نہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جو لوگ فسق اختیار کریں، یعنی جان بوجھ کر ضد اور سرکشی اختیار کریں وہ ایمان نہیں لایا کرتے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی چونکہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ لوگ سرکش اور نافرمان ہوں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں ایمان لکھا ہی نہیں۔ “ (موضح)
خلاصہ تفسیر - حل لغت - لَّا يَهِدِّيْٓ، یہ لفظ دراصل لا یھتدی تھا تعلیل کرکے لَّا يَهِدِّيْٓ بن گیا، معنی لا یھتدی کے ظاہر ہیں، یعنی وہ شخص جو ہدایت نہیں پاتا۔- ( آگے تسلی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کہ ان لوگوں کی باطل پرستی پر مغموم ہوا کرتے تھے ارشاد ہے کہ جس طرح یہ لوگ ایمان نہیں لاتے) اسی طرح آپ کے رب کی یہ ( ازلی) بات کہ یہ ایمان نہ لاویں گے تمام متمرد ( سرکش) لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے ( پھر آپ کیوں مغموم ہوں اور) آپ ( ان سے) یوں ( بھی) کہئے کہ کیا تمہارے ( تجویز کئے ہوئے) شرکاء میں ( عام اس سے کہ ذوی العقول ہوں جیسے شیاطین یا غیر ذوی العقول جیسے بت) کوئی ایسا ہے جو پہلی بار بھی ( مخلوق کو) پیدا کرے پھر ( قیامت میں) دوبارہ بھی پیدا کرے ( اگر وہ اس وجہ سے کہ اس میں توھین ہے شرکاء کی، جواب میں تامل کریں تو) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا سو ( اس کی تحقیق کے بعد بھی) پھر تم کہاں ( حق سے) پھرے جاتے ہو ( اور) آپ ( ان سے یوں بھی) کہئے کہ کیا تمہارے ( تجویز کئے ہوئے ذوی العقول) شرکاء میں ( جیسے شیاطین) کوئی ایسا ہے کہ امر حق کا راستہ بتلاتا ہو ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی امر حق کا راستہ ( بھی) بتلاتا ہے ( چناچہ اس نے عقل دی، انبیاء بھیجے بخلاف شیاطین کے کہ اولا وہ ان افعال پر قادر نہیں اور محض تعلیم جس کی قدرت ان کو دی گئی ہے وہ اس کو اضلال و اغواء میں صرف کرتے ہیں) تو پھر ( ان سے کہئے کہ یہ بتلاؤ کہ) آیا جو شخص امر حق کا رستہ بتلاتا ہو وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو بےبتلائے خود ہی راستہ نہ سوجھے ( اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سمجھانے پر بھی اس پر نہ چلے جیسے شیاطین، پھر جب یہ اتباع کے قابل نہ ہوں تو عبادت کے لائق تو کب ہوسکتے ہیں) تو ( اے مشرکین) تم کو کیا ہوگیا تم کیسی تجویزیں کرتے ہو ( کہ توحید کو چھوڑ کر شرک کو اختیار کرتے ہو) اور ( تماشہ یہ ہے کہ اپنی اس تجویز اور عقیدہ پر یہ لوگ کوئی دلیل نہیں رکھتے بلکہ) ان میں سے اکثر لوگ صرف بےاصل خیالات پر چل رہے ہیں ( اور) یقینا اللہ کو سب خبر ہے ( وقت پر سزا دے گا ) ۔
كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَي الَّذِيْنَ فَسَقُوْٓا اَنَّھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٣٣- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(٣٣) اسی طرح آپ کے رب کا عذاب ان کافروں کے لیے ہے کیوں کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے، علم ازلی میں ثابت ہوچکا ہے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :40 یعنی ایسی کھلی کھلی اور عام فہم دلیلوں سے بات سمجھائی جاتی ہے ، لیکن جنہوں نے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اپنی ضد کی بنا پر کسی طرح مان کر نہیں دیتے ۔
20: یعنی ان کی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے جو بات لکھی ہوئی تھی کہ یہ لوگ اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے اختیار کو صحیح استعمال نہیں کریں گے، اور ایمان نہیں لائیں گے وہ بات سامنے آ گئی۔