Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی بھٹکے ہوئے مسافرین راہ کو راستہ بتانے والا اور دلوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ان کے شرکاء میں کوئی ایسا نہیں جو یہ کام کرسکے۔ 35۔ 2 یعنی پیروی کے لائق کون ہے ؟ وہ شخص جو دیکھتا سنتا اور لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے ؟ یا وہ جو اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے خود راستے پر چل بھی نہیں سکتا، جب تک دوسرے لوگ اسے راستے پر نہ ڈال دیں یا ہاتھ پکڑ کرلے نہ جائیں ؟ 35۔ 3 یعنی تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ تم کس طرح اللہ کو اور اس کی مخلوق کو برابر ٹھہرائے جا رہے ہو ؟ اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو بھی شریک عبادت بنا رہے ہو ؟ جب کہ ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی ایک اللہ کو معبود مانا جائے اور عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے لئے خاص مانی جائیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] ہدایت انسان کی اہم ضرورت ہے اور وہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے :۔ ہدایت حق سے مراد زندگی گزارنے کا وہ صحیح راستہ ہے جس سے انسان کو ہر شعبہ حیات مثلاً تہذیب، اخلاق، تمدن و معاشرت، حکومت و سیاست، معرفت و روحانیت، معیشت و کسب حلال وغیرہ کے متعلق ایسے اصول بتلا دیئے جائیں جن میں فرد اور معاشرہ میں سے ہر ایک کے حقوق کی پوری پوری نگہداشت ملحوظ رکھی گئی ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی ہدایت، بےجان اور بےسمجھ معبود تو کجا سمجھ دار معبود بھی نہیں دے سکتے۔ ایسی جامع ہدایات کے لیے جس قدر وسیع علم و حکمت کی ضرورت ہے وہ اللہ کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں اور اگر کوئی انسان یا سربراہ مملکت یا کوئی ادارہ ایسی ہدایات دینا بھی چاہے تو اس پر اس کی اپنی قوم اور اپنے ماحول کے تاثرات و تعصبات کی چھاپ ضرور موجود ہوگی بس اللہ ہی کی ایک ایسی ذات ہے جس کی نظروں میں سب مخلوق اور سارے انسان یکساں ہیں لہذا وہی ایسی ہدایات اور احکام دینے کا حقدار ہے۔- رہے معبودان باطل اور اللہ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہی ہوتے ہیں تو ان کے متعلق مشرکین کو بھی یہ اعتراف ہے کہ وہ ایسی ہدایت نہیں دے سکتے۔ اور کسی کو ہدایت دینا تو درکنار ان معبودوں میں سے ذوی العقول بھی خود ہدایت کے محتاج ہیں پھر کیا ایسے اللہ کی اتباع کرنا چاہیے جو فی الواقع ہدایت حق دینے کا حق دار ہے یا ان کی جو خود بھی اپنے لیے ہدایت کی راہ نہیں پاسکتے ؟- مندرجہ بالا سوالات سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کی ضروریات دو طرح کی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معبود ایسا ہونا چاہیے جو اس کا ملجا و ماویٰ ہو، دعاؤں کو سننے والا، انہیں قبول کرنے والا، حاجات کو پورا کرنے والا، مشکلات سے نجات دینے والا ہو اور اس پر پوری طرح بھروسہ کیا جاسکے اوپر کے سوالات نے یہ فیصلہ کردیا کہ اللہ کے سوا ایسی کوئی ذات نہیں ہے۔ انسان کی دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا رہنما ہونا چاہیے جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے تاکہ انسانیت تجربوں اور ناکامیوں سے ہی دو چار نہ ہوتی رہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ایسی ذات بھی اللہ کے سوا دوسری کوئی نہیں ہوسکتی لہذا اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہ اس قابل ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور نہ اس قابل ہے کہ اس کی اتباع کی جائے ان حقائق کی وضاحت کے بعد صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی رہ جاتی ہے جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ ۔۔ : ” يَّهْدِيْٓ“ ہدایت دیتا ہے۔ ” لَّا يَهِدِّيْٓ“ اصل میں ” لاَ یَھْتَدِیْ “ تھا، تاء کو دال سے بدل کر دال میں ادغام کردیا، جس کا معنی ہے ہدایت نہیں پاتا، یعنی آپ ان سے پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرکے ان کی حق کی طرف راہنمائی کا انتظام بھی فرمایا، رسول بھیجے، کتابیں اتاریں، شریعت مقرر فرمائی، کائنات کا نہایت دقیق و مستحکم نظام مقرر کیا کہ اس کے مقرر کردہ راستے سے کوئی چیز ایک ذرہ ادھر ادھر نہیں ہوتی۔ انسان کو پیدا ہوتے ہی پستان چوسنا سکھایا، فرمایا : (ۙوَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ) [ البلد : ١٦ ] ” اور ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیے۔ “ بطخ کو تیرنا، پرندوں کو اڑنا، درندوں کو شکار کرنا، چرندوں کو چرنا، بلبل کو پھول کی طرف رغبت، پروانے کو جلنا، ماں کو محبت کی طرف، موذی اشیاء کو دشمنی کی طرف راہ نمائی کون کر رہا ہے ؟ اسی طرح زمین، آسمان، سورج، چاند، سیاروں، کہکشاؤں، سمندروں اور بادلوں کا راستہ کہاں سے متعین ہو رہا ہے ؟ غرض ہر چیز محض اللہ کی ہدایت کے مطابق چل رہی ہے، کسی داتا یا دستگیر کا اس میں کوئی دخل ہے تو پیش کرو۔ بتاؤ تمہارا وہ شریک کون سا ہے جس نے حق کی طرف ہدایت کا کام کیا ہو، یا کائنات کے راہ راست پر چلنے کے نظام میں اس کا کوئی دخل ہو۔ اب خود ہی بتاؤ کہ وہ ذات پاک جو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے، شرعی طور پر بھی اور کونی طور پر بھی، اس کا اتباع کیا جانا چاہیے، یا وہ شرکاء جو اللہ تعالیٰ کی ” کونی “ ہدایت کے بغیر خود اپنا راستہ معلوم نہیں کرسکتے، جنھیں کھانا، پینا، چلنا، دیکھنا سب کچھ اللہ تعالیٰ نے سکھایا، وہ خود کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ رازی نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر اپنی توحید کے اثبات کے لیے خلق کے ساتھ ہدایت کو بھی ذکر فرمایا ہے، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قول : (ۙالَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٧٨ ] ” وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ “ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا قول : (قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى) [ طٰہٰ : ٥٠ ]” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔ “ اور ہمارے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی کا حکم دیا، چناچہ فرمایا : (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۝ ۙالَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى ۝۽وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى ) [ الأعلٰی : ١ تا ٣ ]” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔ وہ جس نے پیدا کیا، پھر درست بنایا۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر راستہ دکھایا۔ “ - فَمَا لَكُمْ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ : یہ دو جملے ہیں ڈانٹنے کے لیے اور حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے، دو طرح سے سوال کیا، ایک یہ کہ تمہیں کیا ہوگیا ؟ دوسرا یہ کہ تم کیسے فیصلہ کرتے ہو ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ۝ ٠ ۭ قُلِ اللہُ يَہْدِيْ لِلْحَقِّ۝ ٠ ۭ اَفَمَنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَہِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّہْدٰى۝ ٠ ۚ فَمَا لَكُمْ۝ ٠ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۝ ٣٥- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥) یا یہ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیے تو یہ کہاں کی جھوٹ باتیں ملاتے ہیں۔- اور آپ ان سے یوں بھی فرمائیے کہ کیا تمہارے معبودوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو امر حق اور ہدایت کا راستہ بتائے اگر وہ اس کا کچھ جواب دے سکیں تو خیر ورنہ ان سے فرما دیجیے کہ اللہ ہی امر حق اور ہدایت کا بھی راستہ بتلاتا ہے۔- تو پھر جو شخص امر حق اور ہدایت کا راستہ بتلاتا ہو تو وہ زیادہ اتباع اور اطاعت کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو امر حق اور ہدایت کا بغیر بتلائے ہوئے اور اس پر چلائے بغیرراستہ نہ سوجھے، تمہیں کیا ہوا کہ اپنے لیے بدترین تجویزیں کرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَفَمَنْ یَّہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لاَّ یَہِدِّیْٓ الآَّ اَنْ یُّہْدٰی) - تمام مخلوق کو ہدایت دینے والا اللہ ہے۔ چناچہ ہدایت و راہنمائی کے لیے سب اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ خود نبی مکرم بھی اللہ ہی سے یہ دعا مانگتے تھے : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) تو بھلا وہ جو ہدایت دیتا ہے اس کی بات مانی جانی چاہیے یا ان کی جو خود ہدایت کے محتاج ہوں ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :43 یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے ۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات ، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے ۔ بلکہ اس کی ایک ضرورت ( اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت ) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ ، اس سروسامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اس کے تصرف میں ہے ، ان بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف ، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے ، اور مجموعی طور پر اس نظام کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہرحال اس کو کام کرنا ہے ، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں ۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ” حق “ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ” ہدایت حق “ ہے ۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور ان سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے ” ہدایت حق “حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں: ایک وہ دیویاں ، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے ۔ سو ان کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں ۔ رہی ہدایت حق ، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی ، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے ان کی طرف رجوع کیا ، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، قانون ، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں ۔ دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے ۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ ” رہنمائے حق “ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی کا علم بھی ان تمام حقائق پر حاوی ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی ان کمزوریوں سے ، ان تعصبات سے ، ان شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے ، ان اغراض و خواہشات سے ، ان رجحانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے ، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، تو آخر یہ لوگ” ہدایت حق “ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو ، تمہارے ان مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں ۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو ، کوئی ملجا و ماویٰ ہو ، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اس عالم اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے ۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانین حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے ۔ سو اس آخری سوال نے اس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے ۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی ( ) اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani