Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 لیکن بات یہ ہے کہ لوگ محض اٹکل پچو باتوں پر چلنے والے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ دلائل کے مقابلے میں اوہام و خیالات اور ظن و گمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ قرآن میں ظن، یقین اور گمان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے، یہاں دوسرا معنی مراد ہے۔ 36۔ 2 یعنی اس ہٹ دھرمی کی وہ سزا دے گا، کہ دلائل نہ رکھنے کے باوجود، یہ محض غلط وہم اور دیوانہ پن کے پیچھے لگے رہے اور عقل فہم سے ذرا کام نہ لیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] انسان کے وضع کردہ قوانین حیات کی بنیاد ظن پر ہوتی ہے :۔ یعنی جن لوگوں نے مشرکانہ عقائد اور مذاہب کی داغ بیل ڈالی یا جن لوگوں نے انسانوں کے لیے قوانین حیات وضع کیے ان میں سے کسی بھی چیز کی بنیاد علم پر نہیں بلکہ محض ظن و اوہام پر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نتائج غلط نکلتے رہتے ہیں اور انسان کو آئے دن ان میں ترامیم اور تبدیلیوں کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اور جو لوگ ایسے مذہبی یا دنیوی رہنماؤں کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی گمان و قیاس ہی سے کرتے ہیں، کہ جب بڑے بڑے لوگ یہ بات کہتے ہیں یا ہمارے آباؤ و اجداد ایسا کہتے یا کرتے چلے آئے ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کی پیروی کر رہی ہے تو یہ باتیں ضرور ٹھیک ہی ہوں گی ان کے پاس بھی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں ہوتی پھر بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں ؟ یاد رہے کہ یہاں حق سے مراد ایسے یقینی دلائل ہیں جو کتاب و سنت میں موجود ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَتَّبِعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۔۔ : ظن کا لفظ اگرچہ بعض اوقات یقین پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ ) [ البقرۃ : ٤٦ ] ” وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں۔ “ بعض اوقات غالب گمان کے معنی میں بھی آتا ہے، جو صحیح گمان ہو، اگرچہ اس میں خطا کا بھی نہایت کمزور سا احتمال ہو۔ جہاں یہ معانی مراد ہوں وہاں اس کا قرینہ اور دلیل بھی موجود ہوتی ہے۔ اس معنی میں ظن پر دنیا کے تمام معاملات چل رہے ہیں، جب تک کسی دلیل سے اس کا غلط ہونا ثابت نہ ہو اس پر عمل واجب ہوتا ہے۔ خط، ٹیلی فون، پیغام کے ذریعے سے پہنچنے والی تمام خبریں ظنی ہوتی ہیں، کیونکہ ان میں غلطی یا جعل سازی کا کمزور سا احتمال موجود ہوتا ہے، مگر سب لوگ ان پر عمل کرتے، ان کے ذریعے کاروبار کرتے ہیں اور شرعی احکام پر بھی عمل کرتے ہیں، خطا کے احتمال کی پروا نہیں کرتے۔ خبر واحد یا حدیث کو بعض لوگ جو ظنی کہتے ہیں وہ اسی معنی میں ہے، اگرچہ فی نفسہ یہ بات درست نہیں کہ احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظنی ہیں، بلکہ صحیح احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطعی اور یقینی ہیں، خصوصاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تمام احادیث اور دوسری کتب کی سنداً صحیح احادیث سب یقینی اور قطعی ہیں اور ان پر عمل واجب ہے۔ البتہ عام طور پر ظن کا جو معنی مراد لیا جاتا ہے وہ ہے ایسا وہم و گمان اور خیال جس کی کوئی بنیاد نہ ہو۔ قرآن و حدیث میں یہ لفظ اکثر اسی مذموم معنی کے لیے استعمال ہوا ہے اور ایسے استعمال کے موقع پر اس کی مذمت کا قرینہ بھی موجود ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ) [ بخاری، النکاح، باب لا یخطب علی خطبۃ أخیہ۔۔ : ٥١٤٣ ] ”(ظن) گمان سے بچو، کیونکہ ظن (گمان) سب سے جھوٹی بات ہے۔ “ اس ظن سے وہ بےبنیاد بات مراد ہے جو محض کسی کی تقلید یا وہم و خیال پر مبنی ہو اور اس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل موجود نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ مشرکین کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ محض ظن، یعنی بےبنیاد وہم و خیال کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، جس کی نہ کوئی حقیقت ہے نہ دلیل، جیسا کہ لات، عزیٰ اور منات کے پجاریوں کے متعلق فرمایا : (اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ) [ النجم : ٢٣ ] ” یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں۔ “ اور فرشتوں کا نام عورتوں والا رکھنے والے مشرکوں کے متعلق فرمایا، جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے : (وَمَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔا ) [ النجم : ٢٨ ] ” حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں اور بیشک گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔ “ یہاں بھی ظن کا یہی معنی ہے، کیونکہ یہ حق کے مقابلے میں آیا ہے اور صاف واضح ہے کہ اللہ کا شریک بنانے والے علم سے بالکل کورے اور کسی بھی عقلی یا نقلی دلیل سے بالکل خالی ہاتھ ہیں اور ایسے وہم و گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتے۔ اسی مفہوم کی تائید کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٦٦) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی جو لوگ پکارتے ہیں حقیقت میں کوئی ایسا شریک ہے ہی نہیں جسے وہ پکارتے ہوں، بلکہ محض اپنے دماغ کے بنائے ہوئے خیالی خاکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ - 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے اکثر محض گمان کی پیروی کرتے ہیں، جب کہ حقیقت میں تمام مشرکین محض گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، تو مفسرین نے اسے دو طرح سے حل کیا ہے، ایک تو یہ کہ اکثر سے مراد وہ سب کے سب ہیں اور ایسا کلام عرب میں اکثر ہوتا ہے کہ اکثر بول کر سب مراد لیے جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کے اکثر کا تو یہی حال ہے کہ وہ نہ کچھ جانتے ہیں نہ عقل رکھتے ہیں، مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی کے واحد معبود ہونے کو جانتے ہیں، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے اور شرک پر اڑے ہوئے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٢] ” پس اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ، جب کہ تم جانتے ہو (کہ اس کا کوئی شریک نہیں) ۔ “- اِلَّا ظَنَّا : ظن کو نکرہ رکھا ہے کہ ان کے اکثر ایک نہ ایک گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، کسی کا کسی کے متعلق کچھ گمان ہے، کسی کا کسی دوسرے کے متعلق اور ہی گمان ہے۔ اپنے شرکاء کی تعیین اور ان کے اختیارات کے تعین پر بھی ان کا اتفاق نہیں، ہر ایک کا اپنا ایک الگ ہی گمان ہے۔ - عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈرانا ہے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ یقیناً اسے خوب جانتا ہے، وہ خود ہی ان سے نمٹ لے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَتَّبِـــعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۝ ٠ ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ۝ ٣٦- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) بلکہ ان میں سے بہت لوگ اپنے معبودوں کی صرف بےبنیاد خیالات پر پرستش کررہے ہیں، یقیناً ان کی محض اپنے خیالات کے مطابق پرستش عذاب الہی سے نجات دلانے میں ذرا بھی کارگر نہیں۔ یہ جو کچھ شرک اور بتوں وغیرہ کی پوجا کررہے ہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ کو اس سب کی خبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :44 یعنی جنہوں نے مذاہب بنائے ، جنہوں نے فلسفے تصنیف کیے ، اور جنہوں نے قوانین حیات تجویز کیے انہوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان و قیاس کی بنا پر کیا ۔ اور جنہوں نے ان مذہبی اور دنیوی رہنماؤں کی پیروی کی انہوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بنا پر ان کا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ جب یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani