اعجاز قرآن حکیم قرآن کریم کے اعجاز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہو نے کا بیان ہو رہا ہے کہ کوئی اس کا بدل اور مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس جیسا قرآن بلکہ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ یہ بے مثل قرآن بے مثل اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس کی فصاحت و بلاغت ، اس کی وجاہت و حلاوت ، اس کے معنوں کی بلندی ، اس کے مضامین کی عمدگی بالکل بے نظیر چیز ہے ۔ اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ قرآن اس اللہ کی طرف سے ہے جس کی ذات بے مثل صفتیں بے مثل ، جس کے اقوال بے مثل ، جس کے افعال بے مثل ، جس کا کلام اس چیز سے عالی اور بلند کہ مخلوق کا کلام اس کے مشابہ ہو سکے ۔ یہ کلام تو رب العالمین کا ہی کلام ہے ، نہ کوئی اور اسے بنا سکے ، نہ یہ کسی اور کا بنایا ہوا ۔ یہ تو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ، ان پر نگہبانی کرتا ہے ، ان کا اظہار کرتا ہے ، ان میں جو تحریف تبدیل تاویل ہوئی ہے اسے بے حجاب کرتا ہے ، حلال و حرام جائز و ناجائز غرض کل امور شرع کا شافی اور پورا بیان فرماتا ہے ۔ پس اس کے کلام اللہ ہو نے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں اگلی خبریں ہیں اس میں آنے والی پیش گوئیاں ہیں اور آنے والی خبریں ہیں ۔ سب جھگڑوں کے فیصلے ہیں سب احکام کے حکم ہیں ۔ اگر تمہیں اس کے کلام اللہ ہو نے میں شک ہے ۔ تو اسے گھڑا ہوا سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کہہ لیا ہے تو جاؤ تم سب مل کر ایک ہی سورۃ اس جیسی بنا لاؤ اور کل انسان اور جنوں سے مدد بھی لے لو ۔ یہ تیسرا مقام ہے جہاں کفار کو مقابلے پر بلا کر عاجز کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہوں تو اس کے مقابلے میں اسی جیسا کلام پیش کریں ۔ لیکن یہ ہے ناممکن یہ خبر بھی ساتھ ہی دے دی تھی کہ انسان و جنات سب جمع ہو جائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن اس قرآن جیسا بنا کر پیش نہیں کر سکتے ۔ اس پورے قرآن کے مقابلہ سے جب وہ عاجز و لاچار ثابت ہو چکے تو ان سے مطالبہ ہوا کہ اس جیسی صرف دس سورتیں ہی بنا کر لاؤ ۔ سورہ ہود کے شروع کی ( قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 13 ) 11-ھود:13 ) میں یہ فرمان ہے ۔ جب یہ بھی ان سے نہ ہو سکا تو اور آسانی کر دی گئی اور سورہ بقرہ میں جو مدنی ہے فرمایا کہ اچھا ایک ہی سورت اس جیسی بنا کر پیش کرو ۔ ۔ وہاں بھی ساتھ ہی فرمایا کہ نہ یہ تمہارے بس کی بات ہے نہ ساری مخلوق کے بس کی بات ۔ پس اس الہامی کتاب کو جھٹلا کر عذاب الٰہی مول نہ لو ۔ اس وقت کلام کی فصاحت و بلاغت پر پورا زور تھا ۔ عرب اپنے مقابلے میں سارے جہاں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے ۔ اپنی زبان پر بڑا گھمنڈ تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ قرآن اتارا کہ سب سے پہلے انہیں شاعروں اور زبان دانوں اور عالموں کی گردنیں اس کے سامنے خم ہوئیں جیسے سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے نے کہ مردوں کو بحکم الٰہی جِلا دینا ۔ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم رب شفا دے دینا ، دنیا کے سب سے پہلے معالجوں اور اطباء کو اللہ کی راہ پر لا کھڑا کر دیا ۔ کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ کام دوا کا نہیں اللہ کا ہے ۔ جادو گروں نے سانپ کو جو حضرت موسیٰ کی لکڑی تھی دیکھتے ہی آپ کی نبوت کا یقین کر لیا اور عاجز و درماندہ ہوگئے ۔ اسی طرح اس قرآن نے فصیح و بلیغ لوگوں کی زبانیں بند کردیں ۔ ان کے دلوں میں یقین آگیا کہ بیشک یہ کلام انسان کا کلام نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبیوں کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ ان کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے ۔ میرا ایسا معجزہ قرآن ہے پس مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت ان کے بہت ہی زیادہ ہوں گے ۔ یہ ( کافر ) لوگ بغیر سوچے سمجھے ، بغیر علم حاصل کئے اسے جھٹلانے لگے ۔ اب تک تو اس کے مصداق اور حقیقت تک بھی یہ نہیں پہنچے ۔ اپنی جہالت و سفاہت کی وجہ سے اس کی ہدایت اس کے علم سے محروم رہ گئے اور چلانا شروع کر دیا کہ ہم اسے نہیں مانتے ۔ ان سے پہلے کی امتوں نے بھی اللہ کے کلام کو اسی طرح جھٹلا دیا تھا جس بنا پر وہ ہلاک کر دیئے گئے ۔ تو آپ نے دیکھ لیا کہ ان کا کیسا برا انجام ہوا ۔ کسی طرح ان کے پرخچے اڑے؟ ہمارے رسولوں کو ستانے ان کے نہ ماننے کا کبھی انجام اچھا نہیں ہوا ۔ تمہیں ڈرنا چاہیے کہیں انہیں آفتوں کا نشانہ تم بھی نہ بنو ۔ تیری امید کے بھی بعض لوگ تو اس پر ایمان لائے تجھے رسول برحق مانا ہے ۔ تیری باتوں سے نفع اٹھا رہے ہیں ۔ اور بعض اور ضلالت کے مستحق اس کے سامنے ہیں ۔ وہ عادل ہے ظالم نہیں ۔ ہر ایک کو اس کا حصہ دیتا ہے ۔ وہ برکت اور بلندی والا پاک اور انتہائی حسن والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
37۔ 1 جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل فرمائیں تھیں۔ 37۔ 2 یعنی حلال و حرام اور جائز ناجائز کی تفصیل بیان کرنے والا۔ 37۔ 3 اس کی تعلیمات میں، اس کے بیان کردہ قصص و واقعات میں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں۔ 37۔ 4 یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ یہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے، جو ماضی اور مستقبل کو جاننے والا ہے۔
[٥٢] قرآن کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ قرآن صرف اس لحاظ سے ہی معجزہ نہیں کہ اس میں فصاحت و بلاغت بےمثل ہے روانی اور سلاست ہے زبان میں شیرینی ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی بےمثل ہے کہ اس میں پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو جامع اور ہمہ گیر ہدایات دی گئی ہیں وہ اللہ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتا اور اس لحاظ سے بھی بےمثل ہے کہ اس کی آیات میں جتنا بھی غور کیا جائے، نئے سے نئے مفہوم و معانی سامنے آتے چلے جاتے ہیں نیز اس لحاظ سے بھی کہ اس میں پیش کردہ دلائل انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں جن سے سب لوگ فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ اور یہ صفات صرف اللہ کے کلام میں ہی پائی جاسکتی ہیں جس طرح کوئی انسان اللہ کے بنائے ہوئے چاند سورج جیسا چاند سورج، اس کی بنائی ہوئی زمین جیسی زمین اور آسمان جیسا آسمان نہیں بنا سکتا۔ اسی طرح کوئی انسان اللہ کے کلام جیسا کلام بھی پیش نہیں کرسکتا۔- [٥٣] اس جملہ میں قرآن کی دو مزید صفات بیان فرمائیں ایک یہ کہ یہ پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق و توثیق کرتا ہے یعنی جو اصول دین (یعنی الکتاب یا کتاب کی اصل ہیں) ان الہامی کتابوں میں مذکور ہوئے وہی اس میں بھی مذکور ہیں یہ کوئی نئے اصول پیش نہیں کر رہا اور دوسری یہ کہ جو کچھ اصول دین سابقہ کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں ان کو مختلف پیرایوں میں اور دلائل وبراہین کے ساتھ ان کی تشریح و توضیح بھی کرتا ہے اور یہی اوصاف قرآن کے مُنَزِّلْ مِنَ اللّٰہِ ہونے کے ثبوت ہیں۔- برصغیر پاک و ہند میں موجود عیسائی مشنریوں کے مبلغین کی طرف سے یہ اعتراض بڑی شد ومد سے اٹھایا گیا ہے کہ اگر قرآن سابقہ الہامی کتابوں کی تعلیم ہی پیش کرتا ہے اور ان سابقہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے تو پھر قرآن کے نازل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ پھر عدم ضرورت قرآن پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں اور لوگوں میں تقسیم کی گئیں اس اعتراض کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انجیل بھی کوئی مستقل الہامی کتاب نہیں بلکہ تورات ہی کی توضیح و تشریح پیش کرتی ہے تو پھر آخر اس کی کیا ضرورت تھی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے مبعوث ہونے کا کیا فائدہ تھا اب اس سے آگے چلئے۔ تورات کے نزول سے پہلے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہونے سے پہلے سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء پر جو وحی نازل ہوتی رہی اس کے بھی کلیات دین وہی تھے جو تورات میں مذکور ہیں تو پھر آخر تورات کی بھی کیا ضرورت تھی ؟- اور اس اعتراض کا حقیقی جواب یہ ہے کہ سابقہ تمام الہامی کتب میں کسی کتاب کا بھی اصل متن محفوظ نہیں رہا جس زبان میں وہ نازل ہوئی تھیں ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انبیاء متعلقہ کے بعد ان کے علماء پر ڈالی تھی۔ خود ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے :- ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44) 5 ۔ المآئدہ :44)- ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اللہ کے فرمانبردار انبیاء اور یہود کے مشائخ اور علماء یہود کے درمیان اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے اس لیے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت ان کے ذمہ ڈالی گئی تھی کہ وہ اس کے نگہبان تھے - گویا تورات سے متعلق مشائخ اور علمائے یہود پر دو طرح کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی ایک تو اس کتاب اللہ کی حفاظت کریں دوسرے اس کے احکام پر عمل کرکے اور اسی کے مطابق فیصلے کرکے اس کی عملی حفاظت کا بھی اہتمام کریں اور یہود کے کتاب کی حفاظت کرنے کا یہ حال ہے کہ انہیں تورات لکھی لکھائی مل گئی جو دو دفعہ ضائع ہوئی پھر سینکڑوں سال بعد لکھی گئی اس میں تحریف بھی کی گئی اور علماء کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کیے گئے اور نوبت بایں جارسید کہ خود علمائے یہود کو یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا تھا کہ وہ کتاب کے الہامی اور الحاقی حصے کو الگ الگ کرکے پیش کرسکیں اور عملی حفاظت کا حال اس سے بھی برا تھا انہوں نے کئی حرام چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیا تھا وہ غیر یہود کے اموال کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے ہضم کر جانا درست اور جائز سمجھتے تھے۔ سود کو حلال بنا لیا تھا غلط فتوے دے کر پیسے بٹورتے تھے۔ شرفا کے لئے حدود اللہ کو ساقط کردیتے تھے اور تورات کی بہت سی آیات کو چھپا جاتے اور لوگوں تک نہیں پہنچاتے تھے۔ اندریں صورت حال ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک نئے جلیل القدر نبی کو مبعوث کرکے اور کتاب انجیل نازل کرکے لوگوں کو صحیح الہامی تعلیم سے روشناس کرائیں چناچہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہی فریضہ سر انجام دیا تھا۔- اب انجیل کا حال سنیے۔ انجیل سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں لکھی ہی نہیں گئی بعد میں سب کام روایت پر چلایا گیا اس کے ابتدائی راوی چار ہیں پھر انہوں نے خود قلم بند نہیں کی بلکہ بعد میں آنے والے شاگردوں نے کی جن میں نہ اسناد کا ذکر ہے اور نہ ہی روایت و درایت کا کوئی معیار ملحوظ رکھا گیا ہے پھر یہ جو کچھ بھی تھا وہ بھی اصل زبان میں محفوظ نہیں رہا بلکہ ان چار انجیلوں کے صرف تراجم ہی ملتے ہیں جن میں بیشمار اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان میں تحریف بھی ثابت شدہ امر ہے۔- اندریں حالات ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور جلیل القدر نبی بھیج کر حقیقی تعلیم سے لوگوں کو متنبہ کریں اور یہ ضرورت قرآن کو نازل کرکے اور رسول اللہ کو مبعوث کرنے سے پوری کی گئی۔ جو ان تمام امور و عقائد میں دو ٹوک فیصلہ دیتی ہے جن میں اہل کتاب میں اختلاف واقع ہوئے تھے اور وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے تھے۔- قرآن کے بعد کسی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں :۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اختلافات تو آج کل مسلمانوں میں بھی عام ہیں پھر کیا آج بھی کسی نئے نبی یا نئی الہامی کتاب کی ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے بعد کسی نئی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں رہی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے اور مسلم تو درکنار اغیار بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا آج بھی بعینہ اسی اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اللہ کی حفاظت کا حال یہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے معاندین قرآن کو صفحہ ہستی سے ناپید کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے کی کوشش کریں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہر دور میں اس قرآن کریم کے کروڑوں حافظ موجود رہے ہیں۔ پھر قلمی حفاظت کے لاتعداد ذرائع سے بھی ابتداء سے لے کر آج تک حفاظت ہوتی رہی ہے۔ اور تا قیامت ہوتی رہے گی۔- اور اس کی عملی حفاظت کا بھی انتظام اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے مسلمانوں میں اگرچہ بیشمار اختلاف اور فرقے ہیں تاہم یہ سب کے سب گمراہ نہیں بلکہ فرمان رسول کے مطابق ان میں تا قیامت ایک فرقہ ایسا موجود ہے اور موجود رہے گا جو حق پر قائم رہے گا اور یہ فرقہ وہ ہے جو صرف کتاب و سنت پر انحصار کرتا ہے۔ نہ اس میں کوئی کمی گوارا کرتا ہے اور نہ اضافہ۔ وہ اپنے دین میں کوئی بدعی عقیدہ یا عمل کو برداشت نہیں کرتا۔- پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن کے الفاظ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اسی طرح اس کے مطالب و معانی اور تشریح و تعبیر کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے ورنہ محض الفاظ کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قرآن کی تشریح و توضیح اور صحیح تفسیر ہمیں احادیث یا سنت رسول میں ملتی ہے اس سنت کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمائی یہ ایک الگ مضمون ہے جسے ہم نے اس کے مناسب مقامات پر درج کردیا ہے۔- ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن و سنت کی حفاظت اور ایک فرقہ حقہ کی موجودگی میں نہ کسی نئے نبی کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ کسی نئی الہامی کتاب کی۔
وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی توحید ثابت کرنے اور شرک کی تردید کرنے کے بعد قرآن مجید کی حقانیت کا بیان فرمایا کہ یہ ہرگز ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور اپنے پاس سے بنا لائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ایسے شخص پر نازل فرمایا جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا، تصنیف تو بہت دور کی بات ہے۔ تم بھی اہل زبان ہو، بڑے بڑے شاعر و ادیب اور فصاحت و بلاغت رکھنے والے مصنف ہو، اگر یقین نہ ہو کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور تمہیں اصرار ہو کہ یہ انسانی کلام ہے تو تم تمام جن و انس ایک دوسرے کی مدد کرکے اس جیسی کتاب تصنیف کرکے دکھا دو ۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٨٨) پھر یہ نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ نے دس سورتوں کا چیلنج کیا۔ دیکھیے سورة ہود (١٣) جب یہ بھی نہ کرسکے تو یہاں سورة یونس مکی میں اس کی مثل ایک سورت لانے کا چیلنج کیا، پھر مدینہ میں یہی چیلنج سورة بقرہ (٢٣) میں دوبارہ دوہرایا۔ قارئین یہ سب مقامات ملاحظہ فرما لیں، آج تک کوئی مشرک کافر سورة الکوثر کے برابر تین آیتوں کی سورت بھی نہیں لاسکا، جسے کسی اہل زبان یا صاحب عقل نے تسلیم کیا ہو۔ ” وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ “ اللہ تعالیٰ نے قرآن کا وصف بیان فرمایا کہ یہ پہلی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے تمام ضروری عقائد و اعمال کی تفصیل پر مشتمل کتاب ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور یہ قرآن افتراء کیا ہوا نہیں ہے کہ غیر اللہ سے صادر ہوا ہو بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے قبل ( نازل) ہوچکی ہیں اور احکام ضروریہ ( الہٰیہ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے ( اور) اس میں کوئی بات شک (و شبہ) کی نہیں ( اور وہ) رب العالمین کی طرف سے ( نازل ہوا) ہے کیا ( باوجود اس کے افتراء نہ ہونے کے) یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ( نعوذ باللہ) آپ نے اس کو افتراء کرلیا ہے، آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ ( اچھا) تو پھر تم ( بھی تو عربی ہو اور اعلی درجہ کے فصیح بلیغ بھی ہو) اس کی مثل ایک ہی سورت ( بنا) لاؤ اور ( اکیلے نہیں) جن جن غیر اللہ کو بلا سکو ان کو ( مدد کے لئے) بلا لو اگر تم سچے ہو ( کہ نعوذ باللہ میں نے تصنیف کرلیا ہے تو تم بھی تصنیف کر لاؤ مگر مشکل تو یہ ہے کہ اس قسم کے دلائل سے فائدہ اسی کو ہوتا ہے جو سمجھنا بھی چاہے سو انہوں نے تو کبھی سمجھنا ہی نہ چاہا) بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس ( کے صحیح غلط ہونے) کو اپنے احاطہ علم میں نہیں لائے ( اور اس کی حالت سمجھنے کا ارادہ نہیں کیا تو ایسوں سے کیا سمجھنے کی امید ہو سکتی ہے) اور ( ان کی اس بےفکری اور بےپرواہی کی وجہ یہ ہے کہ) ہنوز ان کو اس (قرآن کی تکذیب) کا خیر نتیجہ نہیں ملا ( یعنی عذاب نہیں آیا ورنہ سارا نشہ ہرن ہوجاتا اور آنکھیں کھل جاتیں اور حق و باطل متمیز ہوجاتا لیکن آخر کبھی تو وہ نتیجہ پیش آنے والا ہے ہی، گو اس وقت ایمان نافع نہ ہو، چنانچہ) جو ( کافر) لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح ( جیسے بےتحقیق یہ جھٹلا رہے ہیں) انہوں نے بھی ( حق کو) جھٹلایا تھا، سو دیکھ لیجئے ان ظالموں کا انجام کیسا ( برا) ہوا، ( اسی طرح ان کا ہوگا) اور (ہم جو ان کا انجام بد بتلا رہے ہیں سو سب مراد نہیں کیونکہ) ان میں سے بعضے ایسے ہیں جو اس ( قرآن) پر ایمان لے آویں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اس پر ایمان نہ لاویں گے اور آپ کا رب ( ان) مفسدوں کو خوب جانتا ہے ( جو ایمان نہ لاویں گے پس خاص ان کو وقت موعود پر سزا دے گا ) ۔
وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٣٧ ۣ- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - تصدیق - ، ويستعمل التَّصْدِيقُ في كلّ ما فيه تحقیق، يقال : صدقني فعله وکتابه .- قال تعالی: وَلَمَّا جاءَهُمْ كِتابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُمْ [ البقرة 89] ، نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ [ آل عمران 3] - التصدیق - کا لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس میں کسی چیز کی تحقیق پائی جائے محاورہ ہے ۔ صدقنی فعلہ وکتابہ اس نے اپنے عمل یا کتاب سے میری تصدیق کردی ۔ قرآن میں ہے : وَلَمَّا جاءَهُمْ كِتابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُمْ [ البقرة 89] اور جب خدا کے ہاں سے ان کے پاس کتاب آئی جوان کی ( آسمانی ) کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے - ۔ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ [ آل عمران 3] اس نے ( اے محمد ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ - «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] - بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ - تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
(٣٧) اور یہ قرآن کریم جس کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے تلاوت فرماتے ہیں افتراء کیا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ تو توریت، انجیل، زبور اور تمام آسمانی کتب کی توحید اور صفات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تصدیق کرنے والا ہے اور نیز قرآن حکیم حلال و حرام اور اوامراونواہی کی تفصیل بیان کرنے والا ہے، اس میں کوئی بات بھی شک وشبہ کی نہیں ہے اور وہ تمام جہانوں کے آقا ومالک کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔
آیت ٣٧ (وَمَا کَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) - یہ قرآن کسی انسان کے ہاتھوں تصنیف کی جانے والی کتاب نہیں ہے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :45 جو کچھ پہلے آچکا تپا اس کی تصدیق ہے“ ، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن ان سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کر رہا ہے ۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے ۔ ” الکتاب کی تفصیل ہے“ ، یعنی ان اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لبّ لباب ( الکتاب ) ہیں ، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ ، تلقین و تفہیم کے ساتھ ، تشریح و توضیح کے ساتھ ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
21: اس فقرے میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قرآن کریم کا ماخذ کوئی انسانی دماغ نہیں، بلکہ وہ لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے تشریعی اور تکوینی احکام ازل سے لکھے ہوئے ہیں۔ ان احکام میں سے جن کی انسانوں کو ضرورت ہے، یہ قرآن ان کی تفصیل بیان فرما تا ہے۔