Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کریم کے منصب عظیم کا تذکرہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کریم پر قرآن عظیم نازل فرمانے کے احسان کو اللہ رب العزت بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ کا وعظ تمہارے پاس آچکا جو تمہیں بدیوں سے روک رہا ہے ، جو دلوں کے شک شکوک دور کرنے والا ہے ، جس سے ہدایت حاصل ہوتی ہے ، جس سے اللہ کی رحمت ملتی ہے ۔ جو اس سچائی کی تصدیق کریں اسے مانیں ، اس پر یقین رکھیں ، اس پر ایمان لائیں وہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ۔ یہ ہمارا نازل کردہ قرآن مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ، ظالم تو اپنے نقصان میں ہی بڑھتے رہتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے کہ کہہ دے کہ یہ تو ایمانداروں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے ۔ اللہ کے فضل و رحمت یعنی اس قرآن کے ساتھ خوش ہونا چاہیے ۔ دنیائے فانی کے دھن دولت پر ریجھ جانے اور اس پر شادماں و فرحاں ہوجانے سے تو اس دولت کو حاصل کرنے اور اس ابدی خوشی اور دائمی مسرت کو پالینے سے بہت خوش ہونا چاہیے ۔ ابن ابی حاتم اور طبرانی میں ہے کہ جب عراق فتح ہو گیا اور وہاں سے خراج دربار فاروق میں پہنچا تو آپ نے اونٹوں کی گنتی کرنا چاہی لیکن وہ بیشمار تھے ۔ حضرت عمر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ تو آپ نے مولیٰ عمرو نے کہا یہ بھی تو اللہ کا فضل و رحمت ہی ہے ۔ آپ نے فرمایا تم نے غلط کہا یہ تمھارے ہمارے حاصل کردہ ہیں جس فضل و رحمت کا بیان اس آیت میں ہے وہ یہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ 57۔ 2 یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔ 75۔ 3 یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے ویسے تو یہ قرآن سارے جہان والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی کے لئے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں سورة بنی اسرائیل آیت 82 اور سورة الم سجدہ آیت 44 میں بھی بیان کیا گیا ہے (نیز ھدی للمتقین کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] قرآن کی چار صفات اور ان کی ترتیب۔ موعظت شفا ہدایت اور رحمت :۔ اس آیت میں قرآن کریم کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صفت موعظت ہے موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو انسان کی توجہ کو دنیا کے انہماک سے ہٹا کر اللہ کی یاد اور روز آخرت کی طرف مبذول کرے اور اس سے دلوں میں رقت اور دنیا سے بےرغبتی اور آخرت سے لگاؤ پیدا ہو۔ دوسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن دلوں کی بیماریوں مثلاً شرک اور کفر کا عقیدہ، حسد، بغض، خود غرضی، بخل، لالچ وغیرہ کے لیے شفا کا کام دیتا ہے جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل کرتا ہے یہ روگ از خود اس کے دل سے دور ہوجاتے ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ قرآن انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی پوری طرح رہنمائی کرتا ہے وہ ہر فرد کے الگ الگ حقوق متعین کرتا ہے اور ایسے قوانین بتلاتا ہے جس سے فرد، معاشرہ اور حکومت میں سے کسی کے حقوق مجروح بھی نہ ہوں اور کسی دوسرے پر زیادتی بھی نہ ہو۔ اور اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل پیرا ہوتا ہے یا جو معاشرہ یا حکومت اس کی اتباع کرتی ہے اس پر اس دنیا میں بھی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- ١۔ قرآن کے ذریعے سربلندی اور ذلت :۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن کریم) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سربلندی عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں کو ذلیل کرے گا (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن، باب من یقوم بالقرآن ویعلمہ)- ٢۔ سیدنا زید بن ارقمص کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ کی کتاب میں ہدایت ہے اور روشنی ہے جس نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا وہ ہدایت پر قائم ہوگیا اور جس نے اس سے غفلت برتی وہ گمراہ ہوگیا اور زید بن ارقم ہی کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : یہ کتاب اللہ کی رسی ہے جو اس پر عمل پیرا ہوا وہ ہدایت پر ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہوگا۔ (مسلم، کتاب الفضائل۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ ۔۔ : یہاں سے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے قرآن مجید کی برکات اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔ چناچہ بنیادی خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے تمہارے پاس آئی ہے، اب دنیا کی کسی اور کتاب کو یہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پھر اس کی چار صفات بیان فرمائیں، پہلی یہ کہ یہ ” مَوْعِظَۃٌ“ ہے، تنوین تعظیم کی وجہ سے ” عظیم نصیحت “ ترجمہ کیا ہے۔ خلیل نے فرمایا کہ اس کا معنی نیکی کی نصیحت ہے جس سے دل نرم ہوجائے۔ (مفردات) راغب نے خود اس کا معنی کیا ہے کہ کسی کام سے منع کرنا، جس کے ساتھ ڈرانا بھی شامل ہو، گویا یہ کتاب موعظت نرمی و سختی ہر طرح سے سمجھا کر انسان کی اصلاح کرتی ہے۔ دوسری صفت ہے ” وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ “ یعنی یہ کتاب دلوں میں جو کفر و نفاق، حسد و ریا اور برے اخلاق کی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان کے لیے سراسر تندرستی کا باعث ہے۔ بعض لوگوں نے ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہے کہ قرآن مجید جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، جیسا کہ ابوسعید خدری (رض) کے سورة فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے سانپ کا ڈسا ہوا تندرست ہوگیا اور انھوں نے اس پر تیس بکریاں لیں۔ [ بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ علی أحیاء العرب ۔۔ : ٢٢٧٦ ] اور خارجہ بن صلت (رض) کے چچا نے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاگل آدمی کو سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا اور ان لوگوں نے انھیں ایک سو بکریاں دیں۔ [ أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقی : ٣٨٩٦ و صححہ الألبانی ] اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ سورة فاتحہ اور دوسری آیات پڑھ کر دم کرنے سے اللہ تعالیٰ چاہے تو شفا ہوتی ہے اور صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ کافروں پر دم کریں تو انھیں بھی ہوتی ہے، مگر ان آیات کا یہ مطلب نہیں بلکہ ان سے مراد روحانی بیماریاں کفر و شرک، نفاق اور حسد و بغض وغیرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا) [ بنی إسرائیل : ٨٢ ] ” اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔ “ اور فرمایا : ” اور رہے وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس (سورت) نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔ “ [ التوبۃ : ١٢٥ ] اور فرمایا : ” کہہ دے یہ (قرآن) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ “ [ حٰمٓ السجدۃ : ٤٤ ] یعنی کفار کو اس سے سینے کی بیماریوں سے شفا نہیں ہوتی۔ تیسری صفت ” ھُدیً “ نرمی اور مہربانی کے ساتھ راستہ بتانا۔ (مفردات) چوتھی صفت ” رَحْمَۃٌ“ ہے، اس کا معنی ہر شخص سمجھتا ہے۔ یہاں چاروں صفات ” مَوْعِظَۃٌ، شِفاءْ ، ھُدیً ، رَحٌمَۃً “ مبالغہ کے لیے مصدر کے لفظ کے ساتھ آئی ہیں، مراد ان سے اسم فاعل کا مفہوم ہے، جیسے کہتے ہیں ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ زید انصاف ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا عادل ہے کہ گویا سراسر عدل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو سراپا حسن ہے، مراد بہت حسن والا ہوتا ہے، یعنی یہ کتاب اس قدر نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت والی ہے، گویا یہ اہل ایمان کے لیے سراسر نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی جو ( برے کاموں سے روکنے کے لئے) نصیحت ہے اور ( اگر اس پر عمل کرکے برے کاموں سے بچیں تو) دلوں میں جو ( برے کاموں سے) روگ ( ہوجاتے) ہیں ان کے لئے شفاء ہے اور ( نیک کاموں کے کرنے کے لئے) رہنمائی کرنے والی ہے اور ( اگر اس پر عمل کرکے نیک کاموں کو اختیار کریں تو) رحمت ( اور ذریعہ ثواب) ہے ( اور یہ سب برکات) ایمان والوں کے لئے ( ہیں کیونکہ عمل وہی کرتے ہیں پس قرآن کے یہ برکات سنا کر) آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ ( جب قرآن ایسی چیز ہے، تو لوگوں کو خدا کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے ( اور اس کو دولت عظیمہ سمجھ کرلینا چاہئے) وہ اس ( دنیا) سے بدرجہا بہتر ہے جس کو جمع کر رہے ہیں ( کیونکہ دنیا کا نفع قلیل اور فانی ہے اور قرآن کا نفع کثیر اور باقی) آپ ( ان سے) کہئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ( انتفاع کے) لئے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے ( اپنی گھڑت سے) اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا ( حالانکہ اس کی تحریم کی کوئی دلیل نہیں تو) آپ ( ان سے) پوچھئے کہ کیا تم کو خدا نے حکم دیا ہے یا ( محض) اللہ پر ( اپنی طرف سے) افتراء ہی کرتے ہو اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ افتراء باندھتے ہیں ان کا قیامت کی نسبت کیا گمان ہے ( جو بالکل ڈرتے نہیں کیا یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہیں آوے گی یا آوے گی مگر ہم سے باز پرس نہ ہوگی) واقعی لوگوں پر لیکن اکثر آدمی بےقدر ہیں ( ورنہ توبہ کرلیتے) اور آپ ( خواہ) کسی حال میں ہوں اور ( منجلہ ان احوال کے) آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور ( اس طرح اور لوگ بھی جتنے ہوں) تم جو کام بھی کرتے ہو ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو اور آپ کے رب (کے علم) سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی ( مقدار مذکور) سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز اس سے) بڑی مگر یہ سب ( بوجہ احاطہ علم الہٰی کے) کتاب مبین ( یعنی لوح محفوظ) میں ( مرقوم) ہے۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں کفار و مشرکین کی بدحالی اور آخرت میں ان پر طرح طرح کے عذابوں کا بیان تھا۔- مذکورہ آیات سے پہلی دو آیتوں میں ان کو اس بدحالی اور گمراہی سے نکلنے کا طریقہ اور عذاب آخرت سے نجات کا ذریعہ بتلایا گیا ہے اور وہ اللہ کی کتاب قرآن اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔- اور انسان اور انسانیت کے لئے یہ دونوں ایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ آسمان و زمین کی ساری نعمتوں سے اعلی و افضل ہیں، احکام قرآن اور سنت رسول کی پیروی انسان کو صحیح معنی میں انسان بناتی ہے اور جب انسان صحیح معنی میں انسان کامل بن جائے تو سارا جہان درست ہوجائے اور یہ دنیا بھی جنت بن جائے۔- پہلی آیت میں قرآن کریم کی چار خصوصیات کا ذکر ہے :- اول مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، موعظہ اور وعظ کے اصلی معنی ایسی چیزوں کا بیان کرنا ہے جن کو سن کر انسان کا دل نرم ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے، دنیا کی غفلت کا پردہ چاک ہو آخرت کی فکر آجائے، قرآن کریم اول سے آخر تک اسی موعظہ حسنہ کا نہایت بلیغ مبلغ ہے، اس میں ہر جگہ وعدہ کے ساتھ وعید، ثواب کے ساتھ عذاب، دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی کے ساتھ ناکامی اور گمراہی وغیرہ کا ایسا ملا جلا تذکرہ ہے جس کو سن کر پتھر بھی پانی ہوجائے پھر اس پر قرآن کریم کا اعجاز بیان جو دلوں کی کایا پلٹنے میں بےنظیر ہے۔- موعظہ کے ساتھ مِّنْ رَّبِّكُمْ کی قید نے قرآنی وعظ کی حیثیت کو اور بھی زیادہ بلند کردیا کہ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وعظ کسی اپنے جیسے عاجز انسان کی طرف سے نہیں جس کے ہاتھ میں کسی کا نفع و نقصان یا عذاب وثواب کچھ نہیں، بلکہ رب کریم کی طرف سے ہے جس کے قول میں غلطی کا امکان نہیں، اور جس کے وعدے اور عید میں کسی عجز و کمزوری یا عذر کا کوئی خطرہ نہیں۔- قرآن کریم کی دوسری صفت شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ، ارشاد فرمائی، شفاء کے معنے بیماری دور ہونے کے ہیں، اور صدور، صدر کی جمع ہے جس کے معنی سینہ کے ہیں، مراد اس سے قلب ہے۔- معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوا کہ وہ خاص دلوں کی بیماری کے لئے شفاء ہے، جسمانی بیماریوں کا علاج نہیں ( روح المعانی) - مگر دوسرے حضرات نے فرمایا کہ درحقیقت قرآن ہر بیماری کی شفاء ہے خواہ قلبی و روحانی ہو یا بدنی اور جسمانی، مگر روحانی بیماریوں کی تباہی انسان کے لئے جسمانی بیماریوں سے زیادہ شدید ہے اور اس کا علاج بھی ہر شخص کے بس کا نہیں، اس لئے اس جگہ ذکر صرف قلبی اور روحانی بیماریوں کا کیا گیا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جسمانی بیماریوں کے لئے شفاء نہیں ہے۔- روایات حدیث اور علمائے امت کے بشیمار تجربات اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کریم جیسے قلبی امراض کے لئے اکسیر اعظم ہے اسی طرح وہ جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔- حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے سینے میں تکلیف ہے، آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ، یعنی قرآن شفاء ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں ( روح المعانی از ابن مردویہ ) ۔- اسی طرح حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیان کیا کہ میرے حلق میں تکلیف ہے، آپ نے اس کو بھی یہی فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو۔- علماء امت نے کچھ روایات و آثار سے اور کچھ اپنے تجربوں سے آیات قرآنی کے خواص و فوائد مستقل کتابوں میں جمع بھی کردیئے ہیں، امام غزالی کی کتاب خواص قرآنی اس کے بیان میں مشہور و معروف ہے جس کی تلخیص حضرت حیکم الامت مولانا تھانوی نے اعمال قرآنی کے نام سے فرمائی ہے، اور مشاہدات و تجربات اتنے ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کی مختلف آیتیں مختلف امراض جسمانی کے لئے بھی شفاء کلی ثابت ہوتی ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ نزول قرآن کا اصلی مقصد قلب و روح کی بیماریوں کو ہی دور کرنا ہے اور ضمنی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔- اس سے ان لوگوں کی بےوقوفی اور کجروی بھی ظاہر ہوگئی جو قرآن کریم کو صرف جسمانی بیماریوں کے علاج یا دنیوی حاجات ہی کے لئے پڑھتے پڑھاتے ہیں، نہ روحانی امراض کی اصلاح کی طرف دھیان دیتے ہیں نہ قرآن کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا ہے :- ترا حاصل ز یٰسٓ اش جزین نیست کہ از ہم خواندنش آسان بمیری - یعنی تم نے قرآن کی سورة یٰس سے صرف اتنا ہی فائدہ حاصل کیا کہ اس کے پڑھنے سے موت آسان ہوجائے، حالانکہ اس سورت کے معانی اور حقائق و معارف میں غور کرتے تو اس سے کہیں زیادہ فوائد و برکات حاصل کرسکتے تھے۔- بعض اہل تحقیق مفسرین نے فرمایا کہ قرآن کی پہلی صفت یعنی موعظہ کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال کے ساتھ ہے جن کو شریعت کہا جاتا ہے، قرآن کریم ان اعمال کی اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے، اور شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ کا تعلق انسان کے اعمال باطنہ کے ساتھ ہے، جس کو طریقت اور تصوف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔- اور آیت میں تیسری صفت قرآن کریم کی هُدًى اور چو تھی رَحْمَةٌ بیان کی گئی ہے ھُدًی کے معنی ہدایت یعنی رہنمائی کے ہیں، قرآن کریم انسان کو طریق حق و یقین کی طرف دعوت دیتا ہے، اور انسان کو بتلاتا ہے کہ آفاق عالم اور خود ان کے نفوس میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنی عظیم نشانیاں رکھی ہیں ان میں غور و فکر کرو تاکہ تم ان سب چیزوں کے خالق اور مالک کو پہچانو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝ ٠ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٥٧- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- شفا - والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] .- ( ش ف و ) شفا - الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ - وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو ان برے کاموں سے روکنے کے لیے نصیحت ہے جن پر تم قائم ہو اور دلوں میں جو ان کاموں سے بیماری پیدا ہوگئی ہے، ان کے لیے شفا ہے اور گمراہیوں سے نیک کاموں کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے اور عذاب کے لیے باعث رحمت ہے اور یہ سب برکات ایمان والوں کے لیے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) - اس آیت کے الفاظ کی ترتیب (موعظہ ‘ شفا ‘ ہدایت اور رحمت) بہت پر حکمت ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ٧٤ میں انسان کے دل کی سختی کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ ) ۔ دراصل دل کی سختی ہی وہ بنیادی مرض ہے جس کے باعث اعلیٰ سے اعلیٰ کلام بھی کسی انسان پر بےاثر ہو کر رہ جاتا ہے : ع ” مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر “۔ چناچہ قبول ہدایت کے لیے سب سے پہلے دلوں کی سختی کو دور کرنا ضروری ہے۔ جیسے بارش سے فائدہ اٹھانے کے لیے زمین کو نرم کرنا پڑتا ہے ‘ سخت زمین بارش سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتی ‘ بارش کا پانی اوپر ہی اوپر سے بہہ جاتا ہے ‘ اس کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر انسان کا معدہ ہی خراب ہو تو کوئی دوسری دوائی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ لہٰذا انسان کی کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے پہلے اس کے معدے کو درست کرنا ضروری ہے۔ - دلوں کی سختی کو دور کرنے کے لیے مؤثر ترین نسخہ وعظ و نصیحت (موعظہ) ہے۔ جب وعظ اور نصیحت سے دلوں میں گداز پیدا ہوگا تو پھر قرآن ان پر دوائی کی مانند اثر کر کے تکبر ‘ حسد ‘ بغض ‘ حب دنیا وغیرہ تمام امراض کو دور کر دے گا۔ حبّ دنیا میں دولت ‘ اولاد ‘ بیوی ‘ شہرت وغیرہ کی تمام محبتیں شامل ہیں۔ ملاحظہ ہو سورة آل عمران کی آیت ١٤ : (زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط) ۔ آیت زیر مطالعہ میں الفاظ کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک انسان کے حق میں قرآن سب سے پہلے وعظ اور نصیحت ہے ‘ پھر تمام امراض قلب کے لیے شفا اور پھر ہدایت۔ کیونکہ جب دل سے بیماری نکل جائے گی ‘ دل شفایاب ہوگا تب ہی انسان قرآن کی ہدایت اور راہنمائی کو عملاً اختیار کرے گا ‘ اور جب انسان یہ سارے مراحل طے کر کے قرآن کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے گا تو پھر اس کو انعام خاص سے نوازا جائے گا اور وہ ہے اللہ کی خصوصی رحمت۔ کیونکہ یہ قرآن ربِّ رحمان کی رحمانیت کا مظہر اتم ہے : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ) ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani