58۔ 1 خوشی، اس کیفیت کا نام ہے جو کسی مطلوب چیز کے حصول پر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر اہل ایمان کو خوش ہونا چاہیے یعنی ان کے دلوں میں فرحت اور اطمینان کی کفییت ہونی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوشی کے اظہار کے لیے جلسے جلوسوں کا چراغاں کا اور اس قسم کے غلط کام اور اسراف بےجا کا اہتمام کرو۔ جیسا کہ آج کل اہل بدعت اس آیت سے " جشن عید میلاد " اور اس کی غلط رسوم کا جواز ثابت کرتے ہیں۔
[٧٢] قرآن مال دولت سے بہتر ہے :۔ لہذا آپ لوگوں کو بتلا دیجئے کہ یہ اللہ کا انتہائی فضل اور اس کی کمال مہربانی ہے جو اس نے تمہارے لیے اتنی خوبیوں والی کتاب نازل فرمائی ہے لہذا تمہیں ایسی کتاب کے نازل ہونے پر خوشیاں منانا چاہیے اور جس مال و دولت کے جمع کرنے کے لیے یہ لوگ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سے اس کتاب کا علم حاصل کرلینا ہزار درجہ بہتر ہے کیونکہ مال و دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہے اور ایک فنا ہونے والی چیز ہے جبکہ اللہ کی کتاب ایسی نعمتوں کا راستہ دکھلاتی ہے۔ جو لازوال ہیں اور انھیں کبھی فنا نہیں مثلاً اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور جنت کی ابدی نعمتیں وغیرہ۔
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ : اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے مراد قرآن مجید، دین حق، خاتم النبیین پیغمبر، جنت اور تمام اخروی نعمتیں ہیں۔ حرف باء ” بِفَضْلِ اللّٰهِ “ اور ” َبِرَحْمَتِهٖ “ دونوں پر آیا ہے، مطلب یہ کہ آخرت کی ہر ہر نعمت مستقل طور پر اپنی اپنی جگہ اس لائق ہے کہ اہل ایمان اس پر خوش ہوں۔ - فَبِذٰلِكَ : اس فاء سے محذوف شرط کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی چیز حقیقی خوشی کے قابل ہے اور اگر تمہیں خوش ہونا ہے تو پھر یہ چیز ہے جس پر خوش ہونا چاہیے۔ ” فَبِذٰلِكَ “ پہلے لانے سے حصر بھی پیدا ہوگیا کہ صرف یہی اصل خوشی کی چیز ہے، باقی تمام چیزیں فانی ہیں اور سراسر دھوکا۔- فَلْيَفْرَحُوْا : مفردات القرآن میں ہے کہ ” فَرْحٌ“ کا معنی ہے کسی جلدی مل جانے والی لذت سے سینے کا کھل جانا، خوش ہوجانا۔ یہ لفظ اکثر بدنی لذتوں سے حاصل ہونے والی خوشی پر بولا جاتا ہے، اس لیے فرمایا : (وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ ) [ الحدید : ٢٣ ] ” اور نہ اس پر پھول جاؤ جو اس نے تمہیں دیا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَفَرِحُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) [ الرعد : ٢٦ ] ” اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے۔ “ اور فرمایا : (حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً ) [ الأنعام : ٤٤ ] ” یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انھیں دی گئی تھیں ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا۔ “ اور فرمایا : (اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ ) [ القصص : ٧٦ ] ” جب اس (قارون) کو اس کی قوم نے کہا، مت پھول، بیشک اللہ پھولنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ “ ” فَرْحٌ“ کی اجازت صرف اللہ کے اس فرمان میں دی گئی ہے : (فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا) یعنی زیر تفسیر آیت میں [ مفردات القرآن للراغب ] معلوم ہوا فرح دل کی خوشی کا نام ہے، اب بعض لوگوں نے اس آیت سے میلاد کے جلوس کے لیے دلیل نکالی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا فضل ہیں، لہٰذا ان کے یوم ولادت پر خوشی منانی چاہیے، اس لیے یہ یوم عید ہے اور تیسری بلکہ سب سے بڑی عید ہے۔ ہمارے یہ بھائی اگر ایک دو باتیں مدنظر رکھیں تو کبھی آیت کے مفہوم میں اتنی تحریف کرکے بدعت کے لیے دلیل نہ گھڑیں۔ ایک تو یہ کہ ” فَرْحٌ“ کا معنی خوشی منانا تو کسی لغت میں نہیں، اس کا معنی تو خوش ہونا ہے، یہ دل کی خوشی کی کیفیت کا نام ہے نہ کہ جلوس نکال کر عید منانے کا۔ دوسرا یہ کہ یہ خوشی تو ہر وقت چوبیس گھنٹے، پورا سال اور ساری عمر مومن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے سینے کو ٹھنڈا رکھتی ہے، آپ کو یہ کس نے کہا کہ یہ سال میں صرف ایک دن کے لیے ہے، ایک شاعر نے اپنی خوشی کا اظہار کس خوبصورتی سے کیا ہے - نہ بہ نظم شاعر خوش غزل، نہ بہ نثر ناثر بےبدل - بغلامئ شہ عزوجل و بہ عاشقی نبی خوشم - ” میں نہ کسی بہترین غزل گو شاعر کے شعروں پر خوش ہوں اور نہ کسی بےمثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں تو صرف اللہ بادشاہ عزوجل کا غلام ہونے پر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھنے پر خوش ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ یہ خوشی ہمیشہ ہمارے نصیب میں رکھے۔ آمین - ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ : یعنی یہ دنیا کے سازو سامان سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں، کیونکہ وہ مال و دولت اور جاہ و شرف دنیا میں کبھی کام آتا ہے، کبھی نہیں۔ اگر کام آتا بھی ہے تو چند دن کے لیے، پھر وہ چیز جو چھن جانے والی ہے اس پر خوشی کیسی ؟ حسن، قوت، جوانی، مال و دولت، عز و جاہ کیا ہی دل لبھانے والی چیزیں ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ ان میں سے باقی رہنے والی ایک بھی نہیں، فرمایا : (مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ) [ النحل : ٩٦ ] ” جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ “ فانی کو باقی سے کیا نسبت ؟
دوسری آیت میں فرمایا (آیت) قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ، یعنی لوگوں کو چاہئے کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت ہی کو اصلی خوشی کی چیز سمجھیں اور صرف اسی چیز پر خوش ہوں، دنیا کے چند روزہ مال و متاع اور راحت و عزت درحقیقت خوش ہونے کی چیز ہی نہیں، کیونکہ اول تو وہ کتنی ہی زیادہ کسی کو حاصل ہو، ادھوری ہی ہوتی ہے مکمل نہیں ہوتی، دوسرے ہر وقت اس کے زوال کا خطرہ لاحق ہے، اس لئے آخر آیت میں فرمایا (آیت) ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ، یعنی اللہ کا فضل و رحمت ان تمام مال و دولت اور عزت و سلطنت سے بہتر ہے جن کو انسان اپنی زندگی بھر کا سرمایہ سمجھ کر جمع کرتا ہے۔- اس آیت میں دو چیزوں کو فرحت و مسرت کا سامان قرار دیا ہے ایک فضل دوسرے رحمت، ان دونوں سے مراد یہاں کیا ہے ؟ اس بارے میں ایک حدیث حضرت انس کی روایت سے یہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے فضل سے مراد قرآن ہے اور رحمت سے مراد یہ ہے کہ تم کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشی ( روح المعانی از ابن مردویہ ) ۔- یہی مضمون حضرت براء بن عازب اور ابو سعید خدری سے بھی منقول ہے اور بہت سے حضرات مفسیرین نے فرمایا کہ فضل سے مراد قرآن اور رحمت سے مراد اسلام ہے، اور مطلب اس کا بھی وہی ہے جو حدیث سابق سے معلوم ہوا کہ رحمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن سکھایا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشی، کیونکہ اسلام اسی حقیقت کا ایک عنوان ہے۔- اور حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ فضل سے مراد قرآن اور رحمت سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، قرآن کریم کی آیت وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے، اور حاصل اس کا بھی پہلی تفسیر سے کچھ مختلف نہیں، کیونکہ عمل بالقرآن یا اسلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی پیروی کے مختلف عنوانات ہیں۔- اس آیت میں مشہور قراءت کے مطابق فَلْيَفْرَحُوْا بصیغہ غائب آیا ہے، حالانکہ اس کے اصل مخاطب اس وقت کے موجودین، حاضرین تھے، جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ اس جگہ صیغہ خطاب کا استعمال کیا جاتا، جیسا کہ بعض قرأتوں میں آیا بھی ہے، مگر مشہور قراءت میں صیغہ غائب استعمال کرنے کی حکمت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اسلام کی رحمت عامہ صرف اس وقت کے حاضرین و موجودین کے لئے مخصوص نہیں تھی بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والی نسلوں کو بھی شامل ہے۔ ( روح المعانی ) ۔- فائدہ :- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرح و خوشی کا اس دنیا میں کوئی مقام ہی نہیں، ارشاد ہے (آیت) لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ یعنی خوشی میں مست نہ ہو، اللہ ایسے خوش ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ اور آیت مذکورہ میں بصیغہ امر خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، اس ظاہری تعارض کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جہاں خوش ہونے کو منع فرمایا ہے وہاں خوشی کا تعلق متاع دنیا سے ہے، اور جہاں خوش ہونے کا حکم دیا ہے وہاں خوشی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے۔ دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ ممانعت کی جگہ میں مطلق خوشی مراد نہیں بلکہ خوشی میں بد مست ہوجانا مراد ہے، اجازت کی جگہ میں مطلق خوشی مراد ہے۔
قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ٠ ۭ ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ٥٨- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
(٥٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی جماعت صحابہ سے فرمادیجیے کہ لوگو اللہ کے انعام سے جو کہ قرآن حکیم عطا کرکے کیا ہے، اور اس کی رحمت پر جس کی بذریعہ اسلام تمہیں توفیق دی گئی ہے، خوش ہونا چاہئے، اور قرآن کریم اوردین اسلام اس دنیاوی اموال سے بہت بہتر ہے جس کو یہ یہود اور مشرک جمع کررہے ہیں۔
آیت ٥٨ (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ ) - یہ قرآن اللہ کے فضل اور رحمت کا مظہر اور بنی نوع انسان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ یہ سب سے بڑی دولت ہے جو اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو عطا کی ہے۔- (فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط) - ” فرح “ کے معنی ہیں خوشی سے پھولے نہ سمانا ‘ یعنی خوشی کے جذبے میں حد سے بڑھ جانا ‘ اس لحاظ سے یہ جذبہ شریعت اسلامی میں قابل مذمت ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ قرآن میں زیادہ تر منفی مفہوم میں آیا ہے ۔۔- جیسے سورة القصص میں قارون کے ذکر میں یہ الفاظ آئے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ) لیکن یہاں پر تو اعلان عام ہو رہا ہے کہ اگر ” فرح “ کرنا ہی ہے تو دولت قرآن پر کرو اگر تمہیں اترانا ہی ہے تو نعمت قرآن پر اتراؤ اور اگر جشن ہی منانا ہے تو جشن قرآن مناؤ (فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ) - (ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ )- یہ مال و دولت دنیا ‘ یہ سامان آرائش و زیبائش ‘ یہ اشیائے آسائش ‘ یہ رنگا رنگ نعمتیں ‘ غرض اس دنیا میں انسان اپنے لیے جو کچھ بھی اکٹھا کرتا ہے ‘ اس سب کچھ سے کہیں بہتر قرآن کی دولت ہے۔ - ان دو آیات میں قرآن کی اہمیت و عظمت کے بیان میں جو تاکید اور جلال ہے اس کی قدر دانی کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان اس تصور کو حرز جان بنا لیں ‘ ان آیات کو زبانی یاد کریں ‘ الفاظ کی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کی کوشش کریں اور قرآن کی تعلیم و تفہیم کے ذریعے سے دل کو نرم اور گداز کرنے کا سامان کریں ‘ تاکہ اس کے اثرات دل کے اندر جذب ہو کر اپنا رنگ جمائیں (عچوں بجاں دررفت جاں دیگر شود) ۔ اور اس طرح قرآن کے ذریعے اپنی دنیائے دل و جان میں انقلاب برپا کریں ‘ تاکہ یہ ان کے لیے شفا ‘ ہدایت اور رحمت بن جائے۔ آمین