Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بغیر شرعی دلیل کے حلال و حرام کی مذمت مشرکوں نے بعض جانور مخصوص نام رکھ کر اپنے لیے حرام قرار دے رکھے تھے اس عمل کی تردید میں یہ آیتیں ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور چوپایوں میں یہ کچھ نہ کچھ حصہ تو اس کا کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ حضرت عوف بن مالک بن فضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ میلا کچیلا جسم بال بکھرے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ، تمہارے پاس کچھ مال بھی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا کہ کس قسم کا مال؟ میں نے کہا اونٹ ، غلام ، گھوڑے ، بکریاں وغیرہ غرض ہر قسم کا مال ہے ۔ آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تجھے سب کچھ دے رکھا ہے تو اس کا اثر بھی تیرے جسم پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ تیرے ہاں اونٹنیاں بچے بھی دیتی ہیں؟ میں نے کہا ہاں ۔ فرمایا وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں پھر تو اپنے ہاتھ میں چھری لے کر کسی کا کان کاٹ کے اس کا نام بحیرہ رکھ لیتا ہے ۔ کسی کی کھال کاٹ کر حرام نام رکھ لیتا ہے ۔ پھر اسے اپنے اوپر اور اپنے والوں پر حرام سمجھ لیتا ہے؟ میں نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سن اللہ نے تجھے جو دیا ہے وہ حلال ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا بازو تیرے بازو سے قوی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چھری تیری چھری سے بہت زیادہ تیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کے فعل کی پوری مذمت بیان فرمائی ہے جو اپنی طرف سے بغیر شرعی دلیل کے کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرا لیتے ہیں ۔ انہیں اللہ نے قیامت کے عذاب کے سے دھمکایا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کا کیا خیال ہے؟ یہ کس ہوا میں ہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ بےبس ہو کر قیامت کے دن ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر اپنا فضل وکرم ہی کرتا ہے ۔ وہ دنیا میں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ۔ اسی کا فضل ہے کہ اس نے دنیا میں بہت سی نفع کی چیزیں لوگوں کے لیے حلال کردی ہیں ۔ صرف انہیں چیزوں کو حرام فرمایا ہے ۔ جو بندوں کو نقصان پہنچانے والی اور ان کے حق میں مضر ہیں ۔ دنیوی طور پر یا اُخروی طور پر ۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کر کے اللہ کی نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اپنی جانوں کو خود تنگی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرک لوگ اسی طرح از خود احکام گھڑ لیا کرتے تھے اور انہیں شریعت سمجھ بیٹھتے تھے ۔ اہل کتاب نے بھی اپنے دین میں ایسی ہی بدعتیں ایجاد کر لی تھیں ۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے قیامت کے دن اولیا اللہ کی تین قسمیں کر کے انہیں جناب باری کے سامنے لایا جائے گا ۔ پہلے قسم والوں میں سے ایک سے سوال ہوگا کہ تم لوگوں نے یہ نیکیاں کیوں کیں؟ وہ جواب دیں گے کہ پروردگار تو نے جنت بنائی اس میں درخت لگائے ، ان درختوں میں پھل پیدا کئے ، وہاں نہریں جاری کیں ، حوریں پیدا کیں اور نعمتیں تیار کیں ، پس اسی جنت کے شوق میں ہم راتوں کو بیدار رہے اور دنوں کو بھوک پیاس اٹھائی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا تو تمہارے اعمال جنت کے حاصل کرنے کے لیے تھے ۔ میں تمہیں جنت میں جانے کی اجازت دیتا ہوں اور یہ میرا خاص فضل ہے کہ جہنم سے تمہیں نجات دیتا ہوں ۔ گو یہ بھی میرا فضل ہی ہے کہ میں تمہیں جنت میں پہنچاتا ہوں پس یہ اور اس کے سب ساتھی بہشت بریں میں داخل ہو جائیں گے ۔ پھر دوسری قسم کے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ نیکیاں کیسے کیں؟ وہ کہے گا پروردگار تو نے جہنم کو پیدا کیا ۔ اپنے دشمنوں اور نافرمانوں کے لیے وہاں طوق و زنجیر ، حرارت ، آگ ، گرم پانی اور گرم ہوا کا عذاب رکھا وہاں طرح طرح کے روح فرسا دکھ دینے والے عذاب تیار کئے ۔ پس میں راتوں کو جاگتا رہا ، دنوں کو بھوکا پیاسا رہا ، صرف اس جہنم سے ڈر کر تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ میں نے تجھے اس جہنم سے آزاد کیا اور تجھ پر میرا یہ خاص فضل ہے کہ تجھے اپنی جنت میں لے جاتا ہوں پس یہ اور اس کے ساتھی سب جنت میں چلے جائیں گے پھر تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تم نے نیکیاں کیوں کیں؟ وہ جواب دے گا کہ صرف تیری محبت میں اور تیرے شوق میں ۔ تیری عزت کی قسم میں راتوں کو عبادت میں جاگتا رہا اور دنوں کو روزے رکھ کر بھوک پیاس سہتا رہا ، یہ سب صرف تیرے شوق اور تیری محبت کے لیے تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے یہ اعمال صرف میری محبت اور میرے اشتیاق میں ہی کئے ۔ لے اب میرا دیدار کر لے ۔ اسوقت اللہ تعالیٰ جل جلالہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دیدار کرائے گا ، فرمائے گا دیکھ لے ، یہ ہوں میں ، پھر فرمائے گا یہ میرا خاص فضل ہے کہ میں تجھے جہنم سے بچاتا ہوں اور جنت میں پہنچاتا ہوں میرے فرشتے تیرے پاس پہنچتے رہیں گے اور میں خود بھی تجھ پر سلام کہا کروں گا ، پس وہ مع اپنے ساتھیوں کے جنت میں چلا جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 اس سے مراد وہی بعض جانوروں کا حرام کرنا جو مشرکین اپنے بتوں کے ناموں پر چھوڑ کر کیا کرتے ہیں تھے، جس کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] رزق وسیع تر مفہوم :۔ رزق سے عموماً کھانے پینے کی چیزیں ہی مراد لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آپ یہ دعا مانگتے تھے۔ اللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عِلْمًا نَافِعًا (یا اللہ مجھے نفع دینے والا علم عطا فرما) اسی طرح ایک مشہور دعا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَرِِنَا الْحَقَّ حَقًا وَارْ زُقْنَا اِتَّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابِہُ اس پہلی دعا میں رزق کا لفظ عطا کرنے یا عطیہ کے معنوں میں آیا ہے۔ اور دوسری دعا میں توفیق عطا کرنے کے معنوں میں اور اصل یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کی جسمانی یا روحانی تربیت میں کوئی ضرورت پوری کرتی ہو وہ رزق ہے چناچہ (وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ۝ ۙ ) 2 ۔ البقرة :3) میں بھی رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں جس سے صدقہ فرضی یا نفلی ادا کیا جائے بلکہ اگر اللہ نے علم عطا کیا ہے تو وہ بھی رزق ہے اور اسے بھی خرچ کیا جائے یعنی دوسروں کو سکھلایا جائے اور اگر صحت عطا کی ہے تو کمزوروں کی مدد کرکے صحت سے صدقہ ادا کیا جائے گا۔- [٧٤] حلال وحرام اطلاق صرف کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں اور یہ اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ کھانے پینے کی چیزوں اور جانوروں میں سے جو کچھ اللہ نے حرام کیا ہے اس کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آچکا ہے اور جو کچھ مشرکوں اور رسم و رواج کے پرستاروں نے از خود حرام بنا لیا تھا اس کا ذکر سورة مائدہ کی آیت نمبر ١٠٣ اور سورة انعام کی آیت نمبر ١٤٣ میں گذر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار تو صرف اللہ کو ہے ان لوگوں کو کس نے یہ اختیار دیا تھا کہ جس چیز کو یہ چاہیں حرام قرار دے لیں اور چاہیں تو حرام چیز کو حلال بنالیں۔ پھر یہ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ وہ اس پر مذہبی تقدس کا لبادہ بھی چڑھا دیتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں کہ یہ اللہ کا یا شریعت کا حکم ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ آیا وہ اس نسبت کو کسی الہامی کتاب سے پیش کرسکتے ہیں ؟ اور ایسا نہیں کرسکتے تو صاف واضح ہے کہ یہ اللہ پر افتراء ہے لہذا یہ دوہرے مجرم ہوئے۔- یہ معاملہ تو کھانے پینے کی چیزوں کا تھا جبکہ اللہ نے اور بھی بہت سی چیزیں حرام کی ہیں جن میں سے سرفہرست شرک ہے اور جو لوگ شرک کو حلال بنالیں اور اس پر مذہبی تقدس کا لبادہ چڑھا کر انھیں اللہ کی طرف منسوب کردیں نیز وہ لوگ جو اخلاقی و تمدنی حدود وقیود میں کسی چیز کو اپنی خواہش کے مطابق حلال اور حرام بنالیتے ہیں جیسا کہ مشرکین مکہ حرمت والے مہینوں کو حلال بنا لیا کرتے تھے وہ سب اس آیت کے ضمن میں آتے ہیں اور ایسی حرام سے حلال اور حلال سے حرام کردہ چیزیں بیشمار ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ ۔۔ : مشرکین اور یہود نے اپنے پاس سے کئی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کر رکھا تھا، ان سے سوال ہے کہ بتاؤ تم نے یہ حلال و حرام کس کے کہنے پر قرار دیے ہیں ؟ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے، مثلاً مشرکین کے متعلق دیکھیے سورة مائدہ (١٠٣) ، انعام (١١٨ تا ١٢١ اور ١٣٦ تا ١٤٠) اور یہود کے متعلق دیکھیے سورة آل عمران (٩٣) اور ان کے فوائد۔ - اَمْ عَلَي اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اپنی خواہشوں سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا افتراء علی اللہ، یعنی اللہ پر بہتان باندھنا ہے۔ (ابن کثیر) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان مقلد حضرات کے لیے سخت تنبیہ ہے جو فتویٰ صادر فرمانے کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز ہونے کے فتوے صادر کرتے ہیں، حالانکہ وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتے، ان کے علم کی رسائی صرف یہاں تک ہوتی ہے کہ امت کے کسی ایک شخص نے جو بات کہہ دی ہے اسے نقل کردیتے ہیں، گویا انھوں نے اس شخص کو شارع (اللہ اور اس کے رسول) کی حیثیت دے رکھی ہے، کتاب و سنت کے جس حکم پر اس نے عمل کیا اس پر یہ بھی عمل کریں گے اور جو چیز اسے نہیں پہنچی یا پہنچی مگر وہ اسے ٹھیک طرح سمجھ نہ سکا یا سمجھا مگر اپنے اجتہاد و ترجیح میں غلطی کر بیٹھا، وہ ان کی نظر میں منسوخ ہے اور اس کا حکم ختم ہے، حالانکہ جس کی یہ لوگ تقلید کر رہے ہیں وہ بھی شریعت اور اس کے احکام کا اسی طرح پابند تھا جس طرح خود یہ لوگ۔ اس نے اجتہاد سے کام لیا اور جس رائے پر پہنچا اسے بیان کردیا۔ اگر اس نے غلطی نہیں کی تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور اگر غلطی کی تو اکہرا اجر پائے گا۔ وہ شخص تو اپنی جگہ معذور ہے، مگر یہ حضرات کسی طرح بھی معذور قرار نہیں دیے جاسکتے جنھوں نے اس کی آراء کو ایک مستقل شریعت اور قابل عمل دلیل بنا لیا۔ اہل علم کے نزدیک کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہوئے اس کے اجتہاد پر عمل کرنا صحیح نہیں۔ (شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو حلال و حرام کے معاملہ میں اپنی ذاتی رائے کو دخل دیتے ہیں، اور قرآن و سنت کی سند کے بغیر جس چیز کو چاہا حلال قرار دے دیا جس کو چاہا حرام کہہ دیا، اس پر قیامت کی شدید وعید ذکر کی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز یا کسی فعل کے حلال یا حرام ہونے کا اصل مدار انسانی رائے پر نہیں بلکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حق ہے ان کے احکام کے بغیر کسی چیز کو نہ حلال کہنا جائز ہے نہ حرام۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا۝ ٠ ۭ قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ۝ ٥٩- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حلال و حرام خدا کی طرف سے ہوگا - قول باری ہے قل ارایتم ما انزل اللہ لکم من رزق فعجلتم منہ حراما ً وحلا لا قل اللہ اذن لکم امر علی اللہ تفترون ۔ اے نبی ؐ ان سے کہو تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا ۔ اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حلال اور کسی کو حرام ٹھہرا لیا۔ ان سے پوچھو ” اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی تھی یا تم اللہ پر افترا کررہے ہو “ اس آیت سے بعض دفعہ کند ذہن قسم کے ایسے لوگ قیاس کے ابطال پر استدلال کرتے ہیں جو اس کے جو از کے قائل نہیں ہیں اس لیے کہ انکے خیال میں قیاس کرنے والا اپنے قیاس کے ذریعے تحلیل و تحریم کرتا رہتا ہے لیکن ان کا یہ قول دراصل ان کی جہالت پر مبنی ہے اس لیے کہ قیاس بھی اس طرح اللہ کی عطا کردہ ایک دلیل ہے جس طرح عقل کی محبت اللہ کی عطا کردہ دلیل ہے یا جس طرح نصوص قرآنی اور سنن سب کے سب اللہ کے مہیا کردہ دلائل ہیں ۔ قیاس کرنے والا دراصل حکم پر دلالت کی صورت اور اس کے مقام کا تتبع کرتا ہے ۔ اس طرح تحلیل و تحریم کرنے والا اللہ ہوتا ہے جو اس پر دلالت قائم کردیتا ہے۔ اگر معترض اس بات کی مخالفت کرتا ہے کہ قیاس اللہ کی عطا کردہ دلیل ہے تو پھر ہمارے ساتھ اس کا مباحثہ اس کے اثبا ت کے بارے میں ہوگا ۔ جب اس کا اثبات ہوجائے گا تو اس کا اعتراض ساقط ہوجائے گا ۔ اگر اس کے اثبات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکے گی تو اس کے بطلان کے ایجاب پر اس کی صحت کی عدم دلالت کے ذریعے اکتفا کرلیا جائے گا ۔ اسکے نتیجے میں صرف وہی شخص قیاس کی صحت کا اعتقاد کرسکے گا جو اسے اللہ کی عطا کردہ دلیل سمجھے گا جب کہ اس کی صحت پر کئی طرح کے شواہد قائم ہوچکے ہیں ۔ زیر بحث آیت کا نہ تو قیاس کے اثبات کے ساتھ تعلق ہے اور نہ ہی نفی کے ساتھ ۔ ان حضرات نے قیاس کی نفی پر قول باری وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا اور رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس بات سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو سے بھی استدلال کیا ہے۔ یہ استدلال بھی سابقہ استدلال کے مشابہ ہے اس لیے کہ مشابہ کرنیوالے قیاس کے ذریعے وہی بات کہتے ہیں جو ہمیں اللہ کے رسول نے دی ہے اور اللہ نے اس پر کتاب و سنت اور اجماع امت کے دلائل کی حجت قائم کردی ہے ۔ اس بنا پر اس آیت کا بھی قیاس کی نفی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) آپ ان مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے لیے کھیتیاں اور جانور پیدا کیے تھے پھر تم نے اس کے کچھ حصہ سے فائدہ حاصل کرنا عورتوں پر حرام کردیا یعنی بحیرہ، سائبہ اور حام اور مردوں کے لیے حلال قرار دے لیا تو آپ ان سے پو چھیے کیا اس چیز کی تمہیں تمہارے پروردگار نے اجازت دی تھی یا محض اللہ تعالیٰ پر اپنی ہی طرف سے جھوٹ باندھتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قُلْ ا آ للّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَ )- سورۃ الانعام میں ان چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے جنہیں وہ لوگ ازخود حرام یا حلال قرار دے لیتے تھے۔ سورة المائدۃ میں بھی ان کی خود ساختہ شریعت کا ذکر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :60 اردو زبان میں رزق کا اطلاق صرف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیا میں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنا پر لوگوں نے کر ڈالی ہے ۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی نہیں علماء تک مبتلا ہیں ۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء اور بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے ، حتی کہ اولاد تک رزق ہے ۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رُزَیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریبا وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں ۔ مشہور دعا ہے ۔ مشہور دعا ہے اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے ۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ علمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رزق اور اس کی مدت عمر اور اس کا کام لکھ دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائےگا ۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کر لی ہیں ، سخت غلطی ہے ۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے ۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے ۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیز و حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کر لیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے ، اور اسی بنا پر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سازی کی جانے لگے ، تو عامی تو درکنار ، علمائے دین و مفتیان شرع متین اور مفسرین قرآن و شیوخ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الہٰی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کر لینا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :61 یعنی تمہیں کچھ احساس بھِ ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو ۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو ، پھر یہ حق آخر تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف ، استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کر لینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اسکے تصرف میں ہے ۔ اس بد معاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیر بحث نہیں ہے ۔ یہاں سوال اس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حدود مقرر کر لینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ ہوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :62 یعنی تمہاری یہ پوزیشن صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو مجاز کر دیا ہوتا کہ میرے مال میں تم جس طرح چاہو تصرف کرو اپنے عمل اور استعمال کے حدود ، قوانین ، ضوابط سب کچھ بنا لینے کے جملہ حقوق میں نے تمہیں سونپے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تمہارے پاس واقعی اس کو کوئی سند ہے کہ آقا نے تم کو یہ اختیارات دے دیے ہیں؟ یا تم بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمہیں سونپ چکا ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو براہ کرم وہ سند دکھاؤ ، ورنہ بصورت دیگر یہ کھلی بات ہے کہ تم بغاوت پر جھوٹ اور افترا پردازی کا مزید جرم کر رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: عرب کے مشرکین نے مختلف جانوروں کو بتوں کے ناموں پر کر کے انہیں خواہ مخواہ حرام قرار دے دیا تھا، جس کی تفصیل سورۃ انعام (139،138:5) میں گذری ہے۔ یہ ان کی اس بدعملی کی طرف اشارہ ہے۔