Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨١] یعنی اللہ کو تو مختار کل ماننے کے لیے بیشمار دلائل موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے رات اور دن کو پیدا فرمایا اب اس ایک نشانی میں غور کرنے سے مزید بیشمار ایسی نشانیاں مل جاتی ہیں جو اللہ کے مختار کل، قادر مطلق اور مقتدر ہستی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ تنہا اسے ہی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے نیز اسے پکارنے اور خالص اسی کی عبادت کرنے کے لیے تو ایسے ٹھوس حقائق موجود ہیں لیکن جو لوگ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو پکارتے یا ان کی پرستش کرتے ہیں ان کے پاس ایسی کون سی دلیل موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ ان کا بھی اس کائنات میں کچھ حصہ یا اختیار و تصرف ہے لہذا ایسے سب لوگوں نے محض ظن وتخمین سے کام لے کر قیاسی فلسفے گھڑ رکھے ہیں جن کے نیچے کوئی ٹھوس یا علمی بنیاد موجود نہیں ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ ۔۔ : اپنی قدرت، احسان اور وحدانیت کی ایک اور دلیل بیان فرمائی۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١ تا ٧٣) ” مُبْصِراً “ کا لفظی معنی ہے دیکھنے والا، یہ باب لازم استعمال ہوتا ہے۔ یعنی دن روشن ہوتا ہے تو ہرچیز نظر آنے لگتی ہے، رات اندھیری ہوتی ہے تو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ - ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعون : یعنی ان میں صرف یہی حکمت نہیں جو ذکر فرمائی ہے، بلکہ رات اور دن کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ ” لایت “ بہت سی نشانیاں اور دلائل۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - وہ ( اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن بھی اس طور پر بنایا کہ ( بوجہ روشن ہونے کے) دیکھنے بھالنے کا ذریعہ ہے اس ( بنانے) میں دلائل ( توحید) میں ان لوگوں کے لئے جو ( تدبر کے ساتھ ان مضامین کو) سنتے ہیں ( مشرکین ان دلائل میں غور نہیں کرتے اور شرک کی باتیں کرتے ہیں چنانچہ) وہ کہتے ہیں ( نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ ( کیسی سخت بات کہی) وہ تو کسی کا محتاج نہیں ( اور سب اس کے محتاج ہیں) اسی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ( پس سب مملوک ہوئے اور وہ مالک ہوا پس ثابت ہوا کہ کمالات میں کوئی اس کا مشارک و مجانس نہیں، پس اگر اولاد کو اللہ کا مجانس یعنی ہم جنس کہا جائے تو مجانست باطل ہوچکی اور اگر غیر مجانس کہو تو ناجنس اولاد ہونا عیب ہے اور عیوب سے اللہ تعالیٰ پاک ہے، جیسا سُبْحٰنَهٗ میں اس طرف اشارہ بھی ہے، پس اولاد کا ہونا مطلقاً باطل ہوگیا ہم نے جو نفی اولاد کا دعوی کیا تھا اس پر تو ہم نے دلیل قائم کردی ہے، اب رہا تمہارا دعوی سو) تمہارے پاس ( بجز بیہودہ دعوی کے) اس ( دعوی) پر کوئی دلیل ( بھی) نہیں ( تو) کیا اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کو تم ( کسی دلیل سے) علم نہیں رکھتے آپ ( ان کا مفتری ہونا ثابت کرکے اس افتراء کی وعید سنانے کے لئے) کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں ( جیسے مشرکین) وہ ( کبھی) کامیاب نہ ہوں گے ( اور اگر کسی کو شبہ ہو کہ ہم تو ایسوں کو دنیا میں خوب کامیاب اور آرام و راحت میں پاتے ہیں، تو جواب یہ ہے کہ) یہ دنیا میں ( چند روزہ) تھوڑا سا عیش ہے ( جو بہت جلد ختم ہوجاتا ہے) پھر ( مر کر) ہمارے ہی پاس ان کو آنا ہے پھر ( آخرت میں) ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے سزائے سخت (کا مزا) چکھا دیں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ۝ ٦٧- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) اور تمہارا اللہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پیدا کیا تاکہ تم اس میں آرام کرسکو اور دن کو بھی اسی طرح پیدا کیا کہ وہ آنے جانے کے لیے روشنی کا ذریعہ ہے اس بنانے میں ایسے لوگوں کے لیے عبرت کی چیزیں ہیں جو نصائح قرآنی کو سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا)- رات کو پرسکون بنایا تاکہ رات کے وقت آرام کرو ‘ اور دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں اپنی معاشی ذمہ داریاں نبھاؤ اور دوسرے کام کاج نپٹاؤ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :65 یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ فلسفیانہ تجسّس ، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے ، دنیا میں ان سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے ، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے ۔ کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی ، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا ۔ اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی ، اپنی بساط بھر ، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں ۔ اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریقِ تجسّس پر ہے ۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے ۔ اب ذرا جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے ہیں: مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے ۔ اشراقیوں اور جو گیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں ، لیکن فی الواقع انہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے ۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں ، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال انہوں نے قائم کر لیا ہے اسی پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے ۔ اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام ”قیاس“ رکھ دیا ہے ۔ سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے ، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیاس و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے ۔ پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی محبوب راہ پر مڑنے ، اور مڑ جانے بعد مڑے رہنے پر مجبور کر دیا ۔ قرآن اس طریق تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاش حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کو معقول بات سُننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے ۔ اسی دُہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پا لینا تو ناممکن تھا ہی ، انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہو گیا ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق ان لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے ، بلاتعصب سنو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ ”علم“ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے ۔ پھر کائنات میں جو آثار ( باصطلاح قرآن ”نشانات“ ) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو ، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو ، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں ۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اور ان کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ ان لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی طریقہ فلسفہ اسلام کی بنیاد ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقش قدم پر چل پڑے ۔ قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اس طریق کی تلقین کی گئی ہے ، بلکہ خود آثار کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہو جائے ۔ چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، یعنی رات اور دن ۔ یہ انقلاب لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے ۔ اس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بے شمار مصلحتیں اسی گردش لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ اس میں صریح ربوبیت اور رحمت اور پروردگاری کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے ، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے ، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے ، اور یہ بھی کہ گردش لیل و نہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے ، آقا نہیں غلام ہے ۔ ان آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani