ساری مخلوق صرف اس کی ملکیت ہے جو لوگ اللہ کی اولاد مانتے تھے ، ان کے عقیدے کا بطلان بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اس سے پاک ہے ، وہ سب سے بےنیاز ہے ، سب اس کے محتاج ہیں ، زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کی ملکیت ہے ، اس کی غلام ہے ، پھر ان میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو جائے تمہارے اس جھوٹ اور بہتان کی خود تمہارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ۔ تم تو اللہ پر بھی اپنی جہالت سے باتیں بنانے لگے ۔ تمہارے اس کلمے سے تو ممکن ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں کہ تم اللہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہو؟ بھلا اس کی اولاد کیسے ہوگی؟ اسے تو یہ لائق نہیں زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی غلامی میں حاضر ہو نے والی ہے ۔ سب اس کی شمار میں ہیں ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے ۔ ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے پیش ہو نے والا ہے ۔ یہ افترا پرداز گروہ ہر کامیابی سے محروم ہے ۔ دنیا میں انہیں کچھ مل جائے تو وہ عذاب کا پیش خیمہ اور سزاؤں کی زیادت کا باعث ہے ۔ آخر ایک وقت آئے گا جب عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے ۔ سب کا لوٹنا اور سب کا اصلی ٹھکانا تو ہمارے ہاں ہے ۔ یہ کہتے تھے اللہ کا بیٹا ہے ان کے اس کفر کا ہم اس وقت ان کو بدلہ چکھائیں گے جو نہایت سخت اور بہت بدترین ہوگا ۔
68۔ 1 اور جو کسی کا محتاج نہ ہو، اسے اولاد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اولاد تو سہارے کے لئے ہوتی ہے اور جب وہ سہارے کا محتاج نہیں تو پھر اسے اولاد کی کیا ضرورت ؟ 68۔ 2 جب آسمان اور زمین کی ہر چیز اسی کی ہے تو ہر چیز اسی کی مملوک اور غلام ہوئی۔ پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اولاد کی ضرورت تو اسے ہوتی ہے، جسے کچھ مدد اور سہارے کی ضرورت ہو، علاوہ ازیں اولاد کی ضرورت وہ شخص بھی محسوس کرتا ہے جو اپنے بعد مملوکات کا وارث دیکھنا یا پسند کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو تو فنا ہی نہیں اس لئے اللہ کے لئے اولاد قرار دینا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تَكَاد السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90 ۙ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91ۚ ) 19 ۔ مریم :90) اس بات سے کہ وہ کہتے ہیں رحمٰن کی اولاد ہے، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔
[٨٢] کیا اللہ کو بیٹے کی ضرورت ہے ؟ اولاد بنانے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ وہ اولاد صلبی ہو اس سے لازم آتا ہے کہ اس کی بیوی بھی ہو اور وہ اس کا محتاج بھی ہو اور جو محتاج ہو وہ معبود حقیقی نہیں ہوسکتا۔ معبود حقیقی کی شان ہی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا بھی محتاج نہیں ہوتا اور ہر چیز سے بےنیاز ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو متبنّٰی بنالے اور دنیا میں متبنیٰ عموماً وہ لوگ بناتے ہیں جو بےاولاد ہوں اور متبنّٰی بنانے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ متبنّٰی اس کا وارث بن سکے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی احتیاج نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ گویا اس لحاظ سے بھی وہ بےنیاز ہے لہذا جو لوگ ایسی باتیں بناتے ہیں سب بےبنیاد ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے تمام عیوب سے پاک ہے۔- [٨٣] بیٹا نہ ہونے کی عقلی دلیل :۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہ ہونے پر دوسری دلیل ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ اس کائنات میں جو چیز بھی موجود ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اولاد اپنے والد کی ملکیت نہیں ہوتی لہذا اللہ کی اولاد ہونا محال ہوا لہذا جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں بلادلیل کہتے ہیں اور ایسی بات اللہ کے ذمہ لگاتے ہیں جن کی انھیں سزا مل کر رہے گی دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں کرلیں بالآخر انھیں ہمارے پاس ہی آنا ہے ہم انھیں ان کے اس شرکیہ عقیدہ کی پوری پوری سزا دیں گے۔
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا : یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدے اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، ان کے اس عقیدے کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن وتخمین پر تھی، اس لیے یہاں ” اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ‘ کے تحت اس کی بھی تردید فرما دی۔ - سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ : یہ ان کے شرک کو رد کرنے اور صرف اکیلے اللہ کے غنی ہونے کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اسے بیٹے یا بیٹی کی ضرورت ہو، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، آسمان و زمین کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے، جبکہ بیٹا ملکیت نہیں بلکہ جانشین ہوتا ہے، پھر اولاد کا حاصل کرنا شہوت و لذت کو چاہتا ہے جو دونوں چیزیں بیوی کا محتاج بناتی ہیں، جبکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں، وہ اکیلی ذات ہی تو غنی اور ہر ایک سے بےپروا ہے۔ ” ھو الغنی “ میں ” ھو “ کے بعد ” الغنی “ پر الف لام کا معنی ہی یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی غنی، کوئی بےپروا ہے ہی نہیں، سب محتاج ہیں۔ اولاد وہی حاصل کرتا ہے جو فانی ہو، تاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہوجائے، اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے، شہوت و لذت اور فقر و احتیاج سے پاک اور بالا ہے، لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١١١) ، کہف (٤، ٥) اور مریم (٨٨ تا ٩٠) ۔- اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا : ان کے عقیدے کو دلیل سے رد کرنے کے بعد مزید رد اور انکار کے لیے فرمایا کہ ان کے پاس اس کی قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہو توجہ کے قابل نہیں ہوتی۔ (شوکانی) - اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : یہ نہایت مبالغہ کے ساتھ ان کے گمان کی تردید ہے، یعنی تم وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں، کیا تم سب سے عظیم اور ہر چیز کی مالک ہستی اللہ تعالیٰ پر وہ بات کہتے ہو جس کی نہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی علم۔ محض جہل کی بنیاد پر بہتان باندھ رہے ہو۔ آلوسی نے فرمایا : ” اس آیت میں دلیل ہے کہ ہر وہ بات جس کی دلیل نہ ہو علم نہیں بلکہ جہل ہے، جب کہ عقیدے کے لیے قطعی یقینی علم ضروری ہے اور یہ کہ تقلید کا ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔ “ قرآن مجید نے کئی جگہ اہل باطل سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے، فرمایا : (قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ١١١ ] ” کہہ دے لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٢٤) ، نمل (٦٤) اور قصص (٧٥) ۔
قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ٠ ۭ ھُوَالْغَنِيُّ ٠ ۭ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ٠ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍؚبِہٰذَا ٠ ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ٦٨- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٦٨) اہل مکہ کہتے ہیں کہ فرشتے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں میں، سبحان اللہ اس کی ذات بابرکات تو ولد اور شریک سے ماورا اور پاک ہے اور وہ دلدو شریک کسی کا محتاج نہیں تمام مخلوقات اور عجائبات قدرت اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں تمہارے پاس تمہارے اس دعوے پر جو کہ تم اللہ تعالیٰ پر افتراء پر دازی کرتے ہو کوئی دلیل اور حجت نہیں بلکہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہو۔
آیت ٦٨ (قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحَنٰہٗط ہُوَ الْغَنِیُّ )- اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اسے اولاد کی حاجت ہو۔ یہاں ” غنی “ کا لفظ اس لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اولاد کی تمنا آدمی اس لیے کرتا ہے کہ اس کا سہارا بنے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے دنیا میں اس کا نام باقی رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسی حاجتوں سے پاک ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ‘ وہ ہر حاجت سے غنی اور بےنیاز ہے ‘ اسے اولاد سمیت کسی چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں ہے۔ - (اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ )- تمہارے پاس کوئی علمی سند یا عقلی دلیل اس بات کے حق میں نہیں ہے جو تم اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہو۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :66 اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں ، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں ۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہل مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خدا کا بیٹا ٹھیرا لیا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :67 سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہار حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں ، یعنی یہ کہ ” اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزہ ہے“ ۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے ۔ لوگوں کے اس قول پر اظہار حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے ، اس کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :68 یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے ۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں ۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں: ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی ۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی کوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے ۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں ۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اس نقصان کی ، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے ، برائے نام ہی سہی ، کچھ تو تلافی کر دے ۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے ۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، بہرحال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب ، بہت سی کمزوریوں ، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے ۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو ۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ ان حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں ، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے ۔ صفات کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے ، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے ۔
29: یعنی اولاد کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ یا تو وہ زندگی کے کاموں میں باپ کی مدد کرے، یا کم از کم اسے نفسیاتی طور پر صاحب اولاد ہونے کی خواہش ہو، اللہ تعالیٰ ان دونوں باتوں سے بے نیاز ہے، اس لیے اسے کسی اولاد کی ضرورت نہیں ہے۔