Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بزدلی ایمان کے درمیان دیوار بن گئی ان زبردست روشن دلیلوں کے اور معجزوں کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بہت کم فرعونی ایمان لا سکے ۔ کیونکہ ان کے دل میں فرعون کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ۔ یہ خبیث رعب دبدبہ والا بھی تھا اور ترقی پر بھی تھا ۔ حق ظاہر ہو گیا تھا لیکن کسی کو اس کی مخالفت کی جرت نہ تھی ہر ایک کا خوف تھا کہ اگر آج میں ایمان لے آیا تو کل اس کی سخت سزاؤں سے مجبور ہو کر دین حق چھوڑنا پڑے گا ۔ پس بہت سے ایسے جانباز موحد جنہوں نے اس کی سلطنت اور سزا کی کوئی پرواہ نہ کی اور حق کے سامنے سر جھکا دیا ۔ ان میں خصوصیت سے قابل ذکر فرعون کی بیوی تھی اس کی آل کا ایک اور شخص تھا ایک جو فرعون کا خزانچی تھا ۔ اس کی بیوہ تھی وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے حضرت موسیٰ پر بنی اسرائیل کی تھوڑی سی تعداد کا ایمان لانا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ذریت سے مراد قلیل ہے یعنی بہت کم لوگ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اولاد بھی مراد ہے ۔ یعنی جب حضرت موسیٰ نبی بن کر آئے اس وقت جو لوگ ہیں ان کی موت کے بعد ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ ایمان لائے ۔ امام ابن جریر تو قول مجاہد کو پسند فرماتے ہیں کہ قومہ میں ضمیر کا مرجع حضرت موسیٰ ہیں کیونکہ یہی نام اس سے قریب ہے ۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ ذریت کے لفظ کا تقاضا جوان اور کم عمر لوگ ہیں اور بنو اسرائیل تو سب کے سب مومن تھے جیسا کہ مشہور ہے یہ تو حضرت موسیٰ کے آنے کی خوشیاں منا رہے تھے ان کی کتابوں میں موجود تھا کہ اس طرح نبی اللہ آئیں گے اور ان کے ہاتھوں انہیں فرعون کی غلامی کی ذلت سے نجات ملے گی ان کی کتابوں کی یہی بات تو فرعون کے ہوش و حواس گم کئے ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے حضرت موسیٰ کی دشمنی پر کمر کس لی تھی اور آپ کی نبوت کے ظاہر ہو نے سے پہلے اور آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے آجانے کے بعد ہم تو اس کے ہاتھوں بہت ہی تنگ کئے گئے ہیں ۔ آپ نے انہیں تسلی دی کہ جلدی نہ کرو ۔ اللہ تمہارے دشمن کا ناس کرے گا ، تمہیں ملک کا مالک بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو؟ پس یہ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت سے مراد قوم موسیٰ کی نئی نسل ہو ۔ اور یہ کہ بنو اسرائیل میں سے سوائے قارون کے اور کوئی دین کا چھوڑنے والا ایسا نہ تھا جس کے فتنے میں پڑ جانے کا خوف ہو ۔ قارون گو قوم موسیٰ میں سے تھا لیکن وہ باغی تھا فرعون کا دوست تھا ۔ اس کے حاشیہ نشینوں میں تھا ، اس سے گہرے تعلق رکھتا تھا ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملھم میں ضمیر فرعون کی طرف عائد ہے اور بطور اس کے تابعداری کرنے والوں کی زیادتی کے ضمیر جمع کی لائی گئی ہے ۔ یا یہ کہ فرعون سے پہلے لفظ ال جو مضاف تھا محذوف کر دیا گیا ہے ۔ اور مضاف الیہ اس کے قائم مقام رکھ دیا ہے ۔ ان کا قول بھی بہت دور کا ہے ۔ گو امام ابن جریر نے بعض نحویوں سے بھی ان دونوں اقوال کی حکایت کی ہے اور اس سے اگلی آیت جو آ رہی ہے وہ بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل سب مومن تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 قومہ کے " ہ " ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ضمیر سے پہلے انہی کا ذکر ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تو ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں انھیں مل گئے اور اس اعتبار سے سارے بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ (ذُ رِیَّۃُ مِنْ قَوْمِہٖ ) سے مراد، فرعون کی قوم سے تھوڑے سے لوگ ہیں، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ انھیں میں سے اس کی بیوی (حضرت آسیہ) بھی ہیں۔ 83۔ 2 قرآن کریم کی یہ صراحت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ فرعون کی قوم میں سے تھے، کیونکہ انہی کو فرعون اس کے درباریوں اور حکام سے تکلیف پہنچانے کا ڈر تھا۔ بنی اسرئیل، ویسے تو فرعون کی غلامی و محکومی کی ذلت ایک عرصے سے برداشت کر رہے تھے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، نہ انھیں اس وجہ سے مزید تکالیف کا اندیشہ تھا۔ 83۔ 3 اور ایمان لانے والے اس کے اسی ظلم و ستم کی عادت سے خوف زدہ تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٤] ذریت کے معنی نوجوان جرأ تمند نسل :۔ لفظ ذریت کا لغوی معنی اولاد ہے اور یہاں ذریت سے مراد بنی اسرائیل کی نوجوان نسل ہے ان نوجوانوں میں سے بھی چند آدمیوں نے ہمت کرکے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان کردیا ورنہ بڑے بوڑھے لوگ تو فرعون کی چیرہ دستیوں سے اس قدر خائف تھے کہ دل سے ایمان لانے کے باوجود اپنے ایمان کا اظہار کرنے میں اپنی موت سمجھتے تھے۔ طویل مدت کی غلامی، بڑھاپے کی کمزوری اور فرعون کے مظالم نے انھیں اتنا پست ہمت بنادیا تھا کہ وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بنی اسرائیل کے یہ چند نوجوان ہی اتنے دلیر ثابت ہوئے کہ انہوں نے پیش آنے والے مصائب و مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تہیہ کرلیا اور اپنے ایمان کا برملا اعلان کردیا۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو کچھ تقویت حاصل ہوگئی اور آپ نے ان نومسلموں کی تربیت شروع کردی اور سمجھایا کہ اب تمہیں نہایت ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ میرا ساتھ دینا ہوگا اور اگر تم اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے اور اسی پر بھروسہ کیا تو فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔- موسیٰ کے اس دور کے حالات اور آپ کے حالات کی مماثلت نوجوان صحابہ اور ان کی عمریں :۔ بالکل ایسی صورت حال مکہ میں بھی پیش آئی تھی۔ آپ پر جو لوگ ایمان لائے تھے ان میں اکثر نوجوان طبقہ ہی تھا۔ مثلاً سیدنا علی (رض) ، جعفر طیار (رض) ، زبیر بن عوام (رض) (رض) ، سیدنا طلحہ (رض) ، سعد بن ابی وقاص (رض) ، عبداللہ بن مسعود (رض) وغیرہم، یہ سب قبول اسلام کے وقت بیس سال سے کم عمر کے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) ، بلال بن رباح (رض) اور صہیب (رض) کی عمریں بیس سے تیس سال کے درمیان تھیں۔ لے دے کردو صحابہ کو ہی بڑا کہا جاسکتا ہے ایک سیدنا ابوبکر (رض) ، آپ سے دو سال چھوٹے یعنی ٣٨ سال کے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر (رض) آپ کے ہم عمر تھے۔ بالفاظ دیگر ان (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ١٠٠۔ ) 9 ۔ التوبہ :100) میں سے بوڑھا کوئی بھی نہ تھا۔ ابتدائی مراحل میں حق کا ساتھ دینے اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کے لیے نوجوان خون اور ان کی جرأت ہی کام آتی ہے۔ بوڑھوں کی مصلحت کوشیاں کام نہیں آتیں الاماشاء اللہ۔- [٩٥] یعنی ایسے لوگ جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور ان کے لیے کوئی قانونی یا اخلاقی حد ایسی نہیں ہوتی جہاں جاکر وہ رک جائیں۔ فرعون ایسا ہی سرکش، متکبر اور جابر و قاہر قسم کا انسان تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ ۔۔ : اتنے واضح معجزات دیکھنے اور جادوگروں کی شکست اور ان کے ایمان لانے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) پر اس کی قوم کے چند لڑکوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ یہاں ” اس کی قوم “ سے کس کی قوم مراد ہے ؟ ابن جریر طبری (رض) کی رائے یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی قوم بنی اسرائیل کے چند لڑکے لڑکیوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، وہ بھی فرعون اور اپنے یعنی بنی اسرائیل کے سرداروں کے خوف کے ہوتے ہوئے جو فرعون کے ایجنٹ تھے کہ وہ انھیں ایمان سے ہٹانے کے لیے آزمائشوں اور مصیبتوں میں ڈالیں گے۔ اس تفسیر کا نتیجہ تو یہی ہے کہ فرعون کی قوم میں سے جادوگروں کے سوا اور بنی اسرائیل میں سے چند لڑکوں کے سوا ایک شخص بھی ایمان نہ لایا۔ فرعون کی پوری قوم اور بنی اسرائیل کے تمام بڑی عمر کے لوگ ایمان سے محروم اور فرعون کے دین پر رہے۔ ابن جریر اور ان کے ہم خیال حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت ابتدائی دور کی ہے، بعد میں تو قارون کے سوا سب بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے۔ ” مَلَائِھِم “ (ان کے سرداروں) میں ” ھُمْ “ ضمیر جمع یا تو فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ مصری لوگ فرعون کے لیے بطور تعظیم جمع کی ضمیر استعمال کرتے تھے، یا اس سے مراد بنی اسرائیل کے سردار ہیں، یعنی بنی اسرائیل میں سے جو نوجوان ایمان لائے انھیں ایک طرف فرعون کا ڈر تھا اور دوسری طرف خود اپنے سرداروں کا۔ لیکن حافظ ابن کثیر (رض) نے آیت کے اس مطلب کی سخت تردید کی ہے، ان کی ترجیح میں ” ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ “ میں ” ہٖ “ ضمیر فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ بنی اسرائیل تو پہلے سے موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کے منتظر تھے اور ان کے تشریف لانے پر سب کے سب ایمان لے لائے اور اس کی تائید اگلی آیت بھی کر رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کے تمام بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے، البتہ فرعون کی قوم قبطیوں میں سے چند نوجوان ہی ایسے نکلے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور آیت کا ترجمہ یوں ہوگا : ” پھر موسیٰ پر اس (فرعون) کی قوم قبطیوں میں سے صرف چند نوجوان ہی ایمان لائے اور وہ فرعون اور اپنے سرداروں سے ڈرے کہ کہیں وہ فرعون انھیں آزمائش میں نہ ڈالے۔ “ یہ ترجمہ زیادہ واضح ہے اور علمائے تحقیق نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (ابن کثیر، روح المعانی) اگر غور کیا جائے تو بنی اسرائیل کا موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے بھی اپنی تمام خرابیوں کے باوجود مسلمان ہونا اور پیغمبروں کی اولاد ہونے پر فخر کرنا معلوم ہے، ورنہ اگر وہ فرعون کا دین قبول کرلیتے اور آزادی کا مطالبہ نہ کرتے تو فرعون کو ان کے لڑکوں کو قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک قبطی کو قتل کرنے کا واقعہ بھی اپنی قوم کے آدمی کی حمایت ہی کی وجہ سے پیش آیا۔ اس وقت بھی موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو اپنی جماعت اور قبطیوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور بنی اسرائیل بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق یہی سمجھتے تھے، تب ہی اس اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مدد کے لیے پکارا، حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت تک نبوت عطا نہیں ہوئی تھی۔ اب اگر خدانخواستہ اہل کشمیر ہندو ہوجائیں یا فلسطینی یہودی ہوجائیں تو ہندوؤں اور یہودیوں کو ان پر ظلم و جبر کی کیا ضرورت ہے، مگر عقیدے اور عمل کی بیشمار خرابیوں کے باوجود ان کا مسلمان ہونا اور اس پر استقامت کفار کو کسی صورت برداشت نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پس ( جب عصا کا معجزہ ظاہر ہوا تو) موسیٰ ( علیہ السلام) پر ( شروع شروع میں) ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ( ظاہر ہونے پر) ان کو تکلیف ( نہ) پہنچاوے اور واقع میں ( ڈرنا ان کا بےجا نہ تھا کیونکہ) فرعون اس ملک میں زور ( سلطنت) رکھتا تھا اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد ( انصاف) سے باہر ہوجاتا تھا ( ظلم کرنے لگتا تھا پھر جو شخص حکومت کے ساتھ ظلم کرتا ہو اس سے تو ڈر لگتا ہی ہے) اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے ( جب ان کو خائف دیکھا تو ان سے) فرمایا اے میری قوم اگر تم ( سچے دل سے) اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو ( سوچ بچار مت کرو بلکہ) اسی پر توکل کرو اگر تم ( اس کی) اطاعت کرنے والے ہو، انہوں نے ( جواب میں) عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا ( بعد اس کے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ) اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کا تختہ مشق نہ بنا اور ہم کو اپنی رحمت کے صدقے ان کافروں سے نجات دے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ۝ ٨٣- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ، فقوله : ( علوّا) ليس بمصدر تعالی. كما أنّ قوله ( نباتا) في قوله : أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً [ نوح 17] ، و ( تبتیلا) في قوله : وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [ المزمل 8] ، كذلك - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- لَعالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ [يونس 83] اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور ( کبر وکفر میں ) حد سے بڑہا ہوا تھا فَاسْتَكْبَرُوا وَكانُوا قَوْماً عالِينَ [ المؤمنون 46] ، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سر کش لوگ تھے ۔ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالِينَ [ ص 75] کیا تو غرور میں آگیا اور نچے درجے والوں میں تھا۔ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ [ القصص 83] جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارداہ نہیں رکھتے ۔ وَلَعَلا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ المؤمنون 91] اور ایک دوسرے پر غالب آجاتا ۔ اور مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 4 اور بڑی سر کشی کرو گے ۔ وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا [ النمل 14] اور بےانصابی اور غرور سے ( ان کا انکار کیا) کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے - سرف - السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً- [ النساء 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] ، أي :- المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة .- ( س ر ف ) السرف - کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس چیز کو لے کر آئے تھے، اس پر فرعون کی قوم میں تھوڑے آدمی جن کے آباء و اجداد قبطی اور ان کی مائیں بنی اسرائیل سے تھیں، موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے، وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرے رہے کہ کہیں ان کو قتل نہ کردے اور واقعی فرعون دین موسوی کا سخت مخالف اور مشرکوں کا دوست اور ساتھی تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَءِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ )- اس وقت مصر پر قبطی قوم حکمران تھی ‘ جسے قرآن نے ” آل فرعون “ کہا ہے اور اسرائیلی ان کے محکوم تھے۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم بنی اسرائیل کی آزادی کے علمبردار تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل میں سے بھی صرف چند نوجوان لڑکوں نے ہی آپ کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ دراصل غلام ہونے کی وجہ سے وہ لوگ فرعون اور اس کے سرداروں کے مظالم سے خوف زدہ تھے۔ عام طور پر ہر محکوم قوم کے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے کہ اس کے کچھ لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے حکمرانوں سے مل جاتے ہیں اور حکمران انہیں مراعات اور خطابات سے نواز کر ان کی وفاداریاں خرید لیتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل میں سے بھی کچھ لوگ فرعون کے ایجنٹ بن چکے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال قارون کی ہے۔ وہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا مگر فرعون کا درباری اور اس کا ایجنٹ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا تھا (اس کا تفصیلی ذکر سورة القصص میں ہے) ۔ بہر حال بنی اسرائیل کے عام لوگ ایسے مخبروں کے ڈر سے حضرت موسیٰ کے قریب ہونے سے گریز کرتے تھے۔ نوجوان چونکہ با ہمت اور پر جوش ہوتے ہیں ‘ اس لیے وہ اس طرح کی انقلابی آواز پر لبیک کہنے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں ‘ جبکہ اسی قوم کے ادھیڑ عمر لوگ کم ہمتی اور مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ پورا فلسفہ اس آیت میں موجود ہے۔ ان آیات کے نزول کے وقت اہل مکہ میں سے بھی محمد رسول اللہ کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھ رہے تھے وہ چند باہمت نوجوان ہی تھے ‘ نہ کہ مصلحت کوش بوڑھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :78 متن میں لفظ ذُرِّیَّۃٌ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں ۔ ہم نے اس کا ترجمہ ” نوجوان “ کیا ہے ۔ مگر دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پرخطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردار حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی ۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ ان کو خطرات سے پر نظر آرہا تھا ، بلکہ وہ الٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ علیہما السلام کے قریب نہ جاؤ ، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لاؤ گے ۔ یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سےبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند باہمت نوجوان ہی تھے ۔ وہ ابتدائی مسلمان جو ان آیات کے نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقت اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے ، ان میں مصلحت کش بوڑھا کوئی نہ تھا ۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے ۔ علی ابن ابی طالب ، جعفر طیّار ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، مُصعَب بن عُمَیر ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے لوگ قبول اسلام کے وقت ۲۰ سال سے کم عمر کے تھے ۔ عبد الرحمٰن بن عوف ، بلال ، صُہَیب رضی اللہ عنہم کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کے درمیان تھیں ۔ ابو عبیدہ بن الجراح ، زید بن حارثہ ، عثمان بن عفان اور عمر فاروق رضی اللہ عنہم ۳۰ سے ۳۵ سال کے درمیان عمر کے تھے ۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ۳۸ سال سے زیادہ نہ تھی ۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی ، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ مُطَّلبی ۔ اور غالبا پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے ، یعنی عَمّار بن یاسر رضی اللہ عنہ ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :79 متن میں فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ کے الفاظ ہیں ۔ اس سے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید بنی اسرائیل سب کے سب کافر تھے اور ابتداء میں ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے ۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے ، یعنی کسی کی بات ماننے اور اس کے کہے پر چلنا ۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوت اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا ۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرز عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا ، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصًا ان کے اکابر و اشراف ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے امتی تھے اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے ، لیکن ایک مدت دراز کے اخلاقی انحطاط نے اور اس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی ، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا علَم لے کر خود اٹھتے ، یا جو اٹھا تھا اس کا ساتھ دیتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرز عمل کیا تھا ، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے: ” جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو ان کو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے ۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے ، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھنونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے“ ۔ ( خروج ٦ : ۲۰ – ۲۱ ) تَلمُود میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے: ”ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آکر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے ۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا “ ۔ انہی باتوں کی طرف سورہ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ( آیت ۱۲ ) ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :80 متن میں لفظ مُسْرِفِیْنَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا ۔ مگر اس لفظی ترجمے سے اس کی اصل روح نمایاں نہیں ہوتی ۔ مسرفین سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لیے کسی برے سے برے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے ۔ کسی ظلم اور کسی بداخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے ۔ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں ۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس پر جا کر وہ رک جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: شروع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بنو اسرائیل کے کچھ نوجوان ایمان لائے تھے۔ اور وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ڈرتے، اور فرعون کے سرداروں کو ان نوجوانوں کا سردار اس لیے کہا گیا ہے کہ عملاً وہ ان کے حاکم تھے۔